کراچی میں ٹریفک کی بد نظمی

موٹرسائیکل والوں کے کمالات دیکھیں جوسوئی جتنی جگہ سے بھی اپنی موٹر سائیکل کیسے نکالتے ہیں۔

PESHAWAR:
کراچی جو کبھی اتنا صاف ستھرا کھلا کھلا اور چوڑا شہرہوتا تھا کہ وہاں کے مکین اور باہر سے آنے والے پیدل چلنے کو ترجیح دیتے تھے،خاص طورپر بولٹن مارکیٹ سے صدر اور ایمپریس مارکیٹ، اپنے علاقوں میں بس پر چڑھنا اس وقت ہوتاتھا جب کوئی لمبا سفر ہو، منی بسیں اورکوچز نہیں ہوتی تھیں، بس میں سفر کے دوران اخلاق یہ ہوتا تھا کہ اگر کوئی بزرگ کھڑا ہے تو اسے ایک دم بیٹھا ہوا جوان اپنی سیٹ دے دیتاتھا، عورتوں کے حصے میں بھول کر بھی مرد نہیں بیٹھتے تھے۔

اگر شہر کے کسی حصے میں گاڑیوں یا بسوں کا تھوڑا سا رش ہوجاتا تھا تو ہر گاڑی والا یہ چاہتاتھا کہ دوسرے کو جانے کا موقع فراہم کرے، جب راستے میں چلتے ہوئے کوئی پیدل روڈ کراس کرتا تھا توگاڑی والا رک کر پیدل جانے والے کو جانے دیتاتھا مگر جیسے ہی اس شہر کی آبادی بڑھتی گئی، لوگ پاکستان کے ہر حصے سے اس طرف آنے لگے ۔

1971کے بعد جو پیسہ آیا جس میں پاکستانی لوگ سعودی عرب اور مڈل ایسٹ کے ممالک کمانے گئے اور وہاں سے کمائی ہوئی رقم سے نہ صرف گھر خریدے بلکہ گاڑیاں بھی خریدلیں، کراچی شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی سے کچھ کاروباری لوگوں نے مزدائیں اور منی بسیں دھڑادھڑ خریدنا شروع کردیں، کیونکہ آبادی اس تیزی سے آگے بڑھتی گئی کہ جہاں پر ویرانے تھے وہ آباد ہوگئے، جو پرانے راستے تھے جس میں صدر اور بولٹن مارکیٹ شامل ہیں اس مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔

اس وقت عالم یہ ہے ٹریفک کا کہ اگر کبھی بارش ہو جائے، کوئی ہڑتال کا اعلان ہو یا کوئی اور گڑ بڑ نظر آئے تو سڑکوں پر چیونٹیوں کی طرح لوگ اور گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں، اس دوران لوٹ مار کرنیوالے خاص طور پر موٹر سائیکلوں پر سوار ہوتے ہیں، اپنا کمال دکھاتے ہیں، مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اس دوران حکومت کا کوئی انتظام نظر نہیں آتا، ٹریفک والے کہتے ہیں کہ ان کے پاس نفری کم ہے مگر جب وی آئی پی آتا ہے تو اس کے لیے پتہ نہیں کہاں سے ہر قسم کی پولیس نظر آتی ہے۔

میں جب صبح گھر سے دفتر آنے کے لیے نکلتاہوں تو سب سے پہلے یہ نظر آتاہے کہ دفتر جانے والے اور اسکول، کالج اور یونیورسٹی جانے والے اشخاص اس طرح سے گاڑیاں چلاتے ہیں جیسے بادشاہ گزرتا ہے، انھیں یہ بھی ہوش نہیں ہوتا کہ کوئی عورت اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے سڑک کراس کررہی ہے، جیسے ہی گاڑی والے پیدل جانے والے کو دیکھتے ہیں اپنی گاڑی کی رفتار مزید تیزکردیتے ہیں، اس میں موٹر سائیکل والے تو گولی کی طرح زوں کرکے آپ کے بغل سے نکل جاتے ہیں، ان کے پاس نہ تو انڈیکیٹر، نہ سائیڈ شیشہ ہوتاہے اور جہاں چاہیں بغیر دیکھے چلے جاتے ہیں اور تو اور جب سگنل بند ہے پھر بھی تیزی کے ساتھ سگنل کی خلاف ورزی کرتے نکل جاتے ہیں اور جب کسی گاڑی سے ٹکرائو ہوتاہے تو پھر منہ ایسا بنالیتے ہیں جیسے اس جیسا کوئی غریب اور مسکین نہیں ہوگا، اس توں توں، میں میں کی وجہ سے باقی ٹریفک جام ہوجاتا ہے۔


کئی مرتبہ یہ بھی ہوا ہے کہ بجائے پیچھے کی طرف سے اوور ٹیک کرنے کے وہ آپ کے آگے آکر اوورٹیک کرتے ہیں اور جب اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو بڑے قہقہے لگاتے ہیں، جہاں پر روڈ سے گزرنے کے لیے کٹ ہے وہاں پر تو عجیب عالم ہے، گاڑی والے جس میں بڑھے پڑھے لکھے اور ویل ڈریس لوگ بھی شامل ہیں، الٹے جاتے ہیں جس سے کئی مرتبہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے، ایک نہیں متعدد مرتبہ جب میں نے ان سے کہاکہ بھائی آپ سیدھے راستے سے آئیں تو وہ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے اور مجھے کہنے لگے کہ جائیں اپنا کام کریں اب تم ہمیں گاڑی چلانا سکھائوگے، تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں، جب بھی دفتر یا بزنس سے لوٹتے ہوئے لوگ سڑکوں پر ریڑھیوں پر رکھے ہوئے پھل فروٹ خریدتے ہیں اور بیچ روڈ پر گاڑی کھڑی ہے خود اس میں بیٹھے ہوئے ہیں، پیچھے سے لمبی گاڑیوں کی قطار ہارن بجارہے ہیں مگر یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے، ہاں اس وقت ضرور ہٹ جاتے ہیں جب کوئی غنڈہ ٹائپ آدمی آکر ان کو گریبان سے کھینچ کر تھپڑ لگاتا ہے۔ راستوں میں اسکول بنائے ہوئے ہیں، اسپتال بنے ہوئے ہیں، ان کے باہر کام کرنیوالوں کی گاڑیاں بے ترتیب ہیں، جب رش بڑھ جاتا ہے تو جس کا جی چاہتاہے اپنی گاڑی اس طرف چلانا شروع کردیتاہے جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ،شہر کے بڑے اہم علاقوں میں مین شاہراہوں پر شاپنگ سینٹر بنے ہوئے ہیں۔ جہاں پر ڈبل پارکنگ ہے اس کے برابر ٹیکسی، رکشہ ہے، اب آپ کیسے گزریں گے خاص طورپر طارق روڈ پر جائیں جہاں پر آپ کے لیے گزرنا کسی طورممکن نہیں،اس ایریا میں بڑے سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کی بیگمات آتی ہیں اور ان کی گاڑیوں کی حفاظت کے لیے ٹریفک والے اور پولیس والے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوتے ہیں اور آپ کی گاڑی کو جلدی نکالنے کے لیے آگے پیچھے بھاگتے ہیں، کہیں افسران کی گاڑی کو نکلنے میں دیر نہ ہو۔

میں جب بھی خاص طورپر شاہراہ فیصل سے گزرتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ اس کراچی میں کوئی پڑھا لکھا سوک، سوجھ بوجھ رکھنے والا کوئی بندہ ہی نہیں، آپ جارہے ہیں اپنی گاڑی میں آپ کے آگے بڑی گاڑیوں کی قطار لگی ہوئی ہے مگر آپ کے پیچھے گاڑی میں آنیوالا آپ کو مسلسل ہارن دے رہا ہے، لائٹ ماررہا ہے کہ اسے جگا دو اگر آپ کی یا پھر آگے والی گاڑی کے بیچ اگر ایک فٹ کی جگہ خالی ہے تو پیچھے سے آنے والا کوشش کرتا ہے کہ وہ اپنی گاڑی آپ کی گاڑی کے آگے لگا لے۔ اس شاہراہ پر اگر آپ نے دیکھنا ہے تو موٹرسائیکل والوں کے کمالات دیکھیں جوسوئی جتنی جگہ سے بھی اپنی موٹر سائیکل کیسے نکالتے ہیں۔ میں ان کے کئی حادثے دیکھ چکا ہوں مگر اس کے باوجود بھی یہ لوگ باز نہیں آتے۔

ٹریفک کو مزید خراب کرنے کے لیے کراچی جیسے میٹرو پولیٹن شہر میں چنگ چی آگئی ہے جس نے ہر علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ چھوٹی سی موٹرسائیکل پر اتنا بڑا وزن اور پھر چلانے والے بچے بھی ہیں۔ یہ سواری جہاں جی کرتا ہے وہاں سے نکل جاتی ہے اور پھر اونچی آواز میں گانے چلاتے ہوئے گزرتی ہے، گلستان جوہر میں تو آدم سینٹر کے قریب پورا راستہ ان لوگوں نے گھیراہواہے جہاں سے پیدل اور گاڑی میں گزرنا نہ صرف مشکل بلکہ خطرناک ہوگیاہے، منی بسیں اور مزدا والے تو اس شہر کے مالک ہیں، وہ جہاں چاہیں جب چاہیں کھڑے ہوجاتے ہیں، راستے میں چلتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے بڑی ریس لگاتے ہیں، کنڈیکٹر سر گاڑی سے باہر نکال سیٹیاں بجاتاہوا باقی گاڑیوں کو پیچھے ہٹاتا ہوا جاتاہے، انھیں پتہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کچھ روپے ٹریفک والے کو دیں گے یا پھر چالان بھرلیں گے۔

کوئی قید کی سزا تو نہیں ہوگی۔ صبح سویرے یا پھر سورج غروب ہونے سے پہلے ڈمپرز، ٹرک واٹر ٹینکرز کا راج ہوتاہے، جہاں پر بسوں کا اڈہ ہے اور وہاں سے لوگوں نے مختلف شہروں کی طرف جانا ہے وہاں پر ان لوگوں کی بادشاہت ہے جس میں خاص طورپر الآصف اور ایمپریس مارکیٹ سر فہرست ہیں، ان علاقوں میں ہر قسم کی اشیاء بیچنے والوں نے تجاوزات کیے ہوئے ہیں اور یہ علاقے رش والے ٹائم پر نوگو ایریا بنے ہوئے ہیں، بسوں، مزدائوں اور منی بسوں میں جیب کترے اور لوٹنے والوں نے ڈیرا جمایا ہوا ہے اور چلتی ہوئی گاڑی میں اپنا کام دکھاکر آرام سے نکل جاتے ہیں۔ ٹریفک والوں کا بھی موڈ ہے اگر وہ اچھے موڈ میں ہیں یا پھر ان کا ٹارگٹ پورا ہوگیاہے تو پھر وہ کچھ بھی نہیں کہتے ہیں، جب موڈ خراب ہوتاہے تو پھر وہ تھوڑی بہت حرکت میں نظر آتے ہیں۔

میں صرف اتنا کہوںگا کہ قانون کی بالادستی کے لیے حکومت اپنا فرض پورا کرے اور عوام خلاف ورزیاں نہ کرے اور قانون کا احترام کرنے سے سب مسائل حل ہوجائیں گے اور رشوت خوری، خود بخود بند ہوجائے گی اور معاشرے میں مثبت اور صحت مند تبدیلی آئے گی جس سے معاشرہ پر امن اور خوشحال بن جائے گا، لوگوں کو پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دینا چاہیے، خاص طورپر ان اداروں کے لوگوں کو جو صبح یا شام کو شاہراہوں سے گزرتے ہوئے اپنا منہ اخبار پر رکھ لیتے ہیں اور ڈرائیور خلاف ورزی کرتاہے جس سے کوئی اچھا تاثر نہیں ملتا بلکہ لوگ ایسے لوگوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
Load Next Story