عالمی یوم صحافت
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا ورکرز کے تحفظ کا مسئلہ بدترین صورتحال کا شکار ہے۔
KARACHI:
دنیا بھر میں آج صحافی برادری، عالمی یوم صحافت منا رہی ہے اور پاکستان میں بھی ہمارے صحافی خوف و دہشت کے ماحول میں بلا کسی ڈر، لالچ اور دبائو کے اپنی پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے کا عہد کریں گے۔ تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو بیسویں صدی کے دوران پاکستان میں صحافت کے پیشہ کو پریس کنٹرول کرنے کے سیاہ قوانین، اخبارات کی بندش، خبریں سنسر کرانے یا پریس ایڈوائس اور ڈکلیئریشن حاصل کرنے کا پیچیدہ اور طویل طریق کار جیسے مسائل میں خاصی کمی واقع ہوچکی ہے لیکن بدقسمتی سے ویج ایوارڈ پر میڈیا مالکان کی جانب سے عملدرآمد سے انکار، صحافیوں کی جبری برطرفیاں، تنخواہوں کی وقت پر عدم ادائیگی، سوشل سیکیورٹی اور بڑھاپے کی پنشن اسکیم کی سہولت حاصل نہ ہونے، فساد زدہ علاقوں میں رپورٹنگ کے لیے جانے والے صحافیوں کو حفاظتی جیکٹ نہ فراہم کرنے اور کسی قسم کا انشورنس کور نہ دینے، ہلاکت کی صورت میں پسماندگان کی کفالت نہ کرنے، زخمی ہونے کی صورت میں علاج و معالجہ پر توجہ نہ دینے اور ان کی پیشہ ورانہ تربیت کا بندوبست نہ کرنے جیسے مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
دوسری جانب اکیسویں صدی کے اوائل میں نائن الیون کے واقعے کے بعد دنیا بھر میں دہشگردی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ صحافت کے پیشے کے لیے سب سے بڑا اور اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ عالمی صحافتی تنظیم کمیونٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل اور ان کی گرفتاریوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور صرف گزشتہ دس برس میں صحافتی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے 70 رپورٹرز کو ہلاک اور 230 کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں 19 سے زائد صحافیوں کے قتل کے مقدمات کا ابھی تک فیصلہ نہیں کیا جاسکا ہے اور بیشتر صحافیوں کے قاتل گرفتار نہیں کیے جاسکے ہیں۔ سی جے پی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سزا کے خوف کے بغیر صحافیوں کے قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان کا شمار صحافت کے لیے خطرناک ترین قرار دیے جانے والے ممالک صومالیہ، شام اور برازیل کے ساتھ کیا جاتا ہے، جہاں صحافیوں کو بلا کسی خوف کے قتل کرنے والے دہشتگرد آزادانہ طور پر گھوم رہے ہیں اور سزا کے خوف سے عاری ہونے کے علاوہ مورچہ بند بھی ہیں۔
انٹر نیشنل پریس انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 2012 میں 132 صحافی اپنی ذمے داریاں انجام دینے کے دوران ہلاک ہوئے جب کہ 2011 میں 107 اور 2010 میں 110 صحافی قتل ہوئے تھے، اس طرح گزشتہ تین برس کے دوارن 350 سے زائد صحافی قتل کیے جاچکے ہیں ۔
رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرزکی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا پر پابندی اور دبائو کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور وہ صحافتی آزادی کے لحاظ سے دنیا کا 20 واں بدترین ملک بن چکا ہے۔ ورلڈ فریڈم انڈیکس 2013 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نئے انڈیکس میں 8 درجے تنز لی کے بعد 159 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں میڈیا ورکرز کے تحفظ کا مسئلہ بدترین صورتحال کا شکار ہے اور اس حوالے سے کوئی واضح حکومتی پالیسی نظر نہیں آتی ہے۔ ایک طرف تو یہ تکلیف دہ صورتحال ہے تو دوسری جانب جرائم پیشہ افراد سے لے کر دہشتگرد تنظیموں اور خفیہ ایجنسیوں سے لے کر پولیس کی زیادتیوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز اور کالعدم تنظیموں کے دبائو اور خطرات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ عدلیہ بھی کالعدم تنظیموں کے بیانات کی اشاعت پر پابندی تو لگا دیتی ہے لیکن ان کالعدم تنظیموں کی جانب سے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیوں کا سامنا صحافیوں ہی کو پڑتا ہے۔
پاکستان میں 2012-13 کے دوران دہشتگردی، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کی بنا پر ہلاک کیے جانے والے صحافیوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اب تک 24 صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں انجام دینے کی بنا پر قتل یا ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ دو صحافی ڈکیتی کی واردات اور خاندانی رنجش کی بنا پر قتل کردیے گئے۔ پاکستان میں بلوچستان کا صوبہ اس وقت صحافیوں کی سب سے بڑی مقتل گاہ بنا ہوا ہے جہاں گزشتہ تین سال کے دوران 25 اور گزشتہ ایک سال کے دوران 8 صحافی دہشتگردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔
بلوچستان کے بعد سندھ صحافیوں کے لیے دوسرا خطرناک صوبہ رہا اور یہاں بھی قتل ہونے والے صحافیوں کی تعداد 8 رہی جو اغوا کے بعد تشدد، ٹارگٹ کلنگ، اخبارات کے دفاترز پر حملوں اور سیاسی جلسے میں فائرنگ کی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ خیبر پختونخواہ میں دو صحافی قتل ہوئے جب کہ پنجاب میں ایک صحافی نامعلوم افراد فائرنگ کے ذریعے ہلاک کرکے فرار ہوگئے تھے۔
صحافیوں کو دہشتگردی کے علاوہ صحافیوں کی جبری برطرفیوں، کئی کئی ماہ تک تنخواہیں ادا نہ کرنے، خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے دھمکیاں ملنے اور چھاپے، ان کے عزیز و اقارب پر حملے، کسی گروپ کی جانب سے ان کے خلاف خبریں شائع کرنے پر اخبارات کے دفاترز پر حملے اور تشدد کرنا، جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور ان سے گٹھ جوڑ کرنے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف خبریں دینے والے رپورٹرز پر پولیس کی جانب سے جھوٹے مقدمات قائم کرنے اور سماج دشمن عناصر کی جانب سے صحافیوں کو اغوا کرنے، تشدد کرنے اور لوٹ مار کرنے کے واقعات بھی روزمرہ کے معمولات ہیں جن کی بنا پرصحافیوں اور ان کی تنظیموں کو احتجاجی مظاہروں پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ 2012-13 کے دوران اس قسم کے 90 واقعات پیش آئے تھے جن کی بنا پر صحافی بھی احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔
پاکستان میں آج بھی پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی انتہائی قلیل تنخواہ میں کام کرنے پر مجبور ہیں، اس کے مقابلے میں الیکٹرانک میڈیا کے مشہور ٹی وی اینکرز ریٹنگ کی ریس کی بنا پر لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ اور مراعات حاصل کررہے ہیں جب کہ نو واردان صحافت تو کسی فیکٹری میں کام کرنے والے ان پڑھ ملازم سے بھی کم تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ کچھ لوگوں کو تو صحافی بننے کے لیے بغیر تنخواہ کے کام کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ ایسے بھی بے شمار میڈیا مالکان ہیں جو اپنے اخبار میں کام کرنے کے لیے آنے والوں کو اخبار کا کارڈ بناکر دینے کے بعد تنخواہ دینے کی ذمے داری سے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ عہدہ برآ ہوجاتے ہیں اور یہ اس نووارد صحافی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ صحافتی اقدار کی پابندی کرے یا اپنی معاشی ضروریات کا خیال کرے۔
ملک میں کارپورٹ کلچر کے فروغ کے بعد مینجمنٹ، اکائونٹس، کمپیوٹر، ایچ آر، مارکیٹنگ اور دیگر شعبوں کے ماہرین لاکھوں روپے ماہانہ کی پرکشش تنخواہیں حاصل کررہے ہیں جب کہ صحافت کے پروفیشنلز چند ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھی بمشکل حاصل کرپاتے ہیں۔کارپوریٹ کلچر کی آمد کے بعد ہمارے ہاں ایڈیٹر کے مقابلے میں مارکیٹنگ کا سربراہ اب زیادہ طا قتور سمجھا جا تا ہے جو بزنس دینے کی بنا پر اخبار کی پالیسی ڈکٹیٹ کرتا ہے اور اس کو جو تنخواہ اور مراعات حاصل ہوتی ہیں اس کو دیکھ کر اخبار میں کام کرنے والے صحافی ٹھنڈی آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آج کے پاکستان میں غریب صحافی کے لیے کم تنخواہ اور خطرات بے حد زیادہ ہیں، زندہ رہے تو یہ جبری مشقت جاری ہے اور شہید ہوگئے تو پسماندگان کا اﷲ ہی نگہبان ہے۔