کھلاڑی اور خفیہ سیاست
سیاست میں ان کا حال وہی ہوا جو ہر شعبے میں ایک اناڑی اور ناتجربہ کار کے ساتھ ہوتا ہے۔
ملک اور قوم کی بذریعہ حکومتی اختیار واقتدار خدمت سیاست کہلاتی ہے۔ اسی لیے لوگ اقتدار میں آنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ حکومت کے وسائل کے ذریعے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو فیض پہنچا کر نیک نامیِ، عزت و شہرت حاصل کر سکیں۔ دنیا میں ہر کام پہلے سیکھا جاتا ہے اور پھر اس پیشے میں عوام کی خدمت کی جاتی ہے۔
مثلاً ڈاکٹر، وکیل، پروفیسر، انجینئر، میکینک، راج مستری، ڈرائیور اور عالم دین سب پہلے اپنے شعبے میں علم حاصل کرتے ہیں، ٹریننگ سے گذرتے ہیں اس کے بعد برسوں کسی سینئر (اُستاد) کی رہنمائی میں اس شعبے کے اسرارورموز سیکھتے ہیں تب جا کر اہم مقاصد حاصل کرتے ہیں اور اپنے شعبے میں سربراہ کے مقام پر پہنچتے ہیں۔ سیاست کے میدان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کئی سال تک کانگریس اور مسلم لیگ میں ایک عام کارکن کی حیثیت سے رہ کر سیاست سیکھتے رہے، تب جا کر مسلم لیگ کے صدر بنے۔ اسی طرح لیاقت علی خان خواجہ ناظم الدین، سردار عبدالرب نشتر، چوہدری خلیق الزمان، محمد خان جونیجو اور میاں نوازشریف بھی اپنے اپنے ادوار میں مسلم لیگ کے قائد اور صدر بننے سے پہلے کافی عرصے تک سیاسی کارکن کی حیثیت سے تربیت حاصل کرتے رہے۔ یہ محترم شخصیات سیاسی زندگی کے گراں قدر تجربات حاصل کرنے کے بعد مسلم لیگ کے صدر بنے اور پھر حکومت کے تاج و تخت کے حقدار بنے۔
ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کے چئیرمین بننے سے پہلے کئی سال تک مسلم لیگ میں رہ کر سیاسی تربیت حاصل کرتے رہے۔ حکومت اور ملک کے سربراہ بننے کے بعد ان محترم شخصیات نے نے ملک و قوم کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں وہ آج تک ان خدمات کی بدولت لوگوں کے دلوں پر راج کررہے ہیں۔ پوری قوم ان کے کارناموں پر فخر کرتی ہے ان میں سے کسی نے بھی آج تک ایسی کوئی غلطی نہیں کی جس کی ان کو بعد میں معافی مانگنی پڑی ہو۔
تحریک انصاف ایک ایسی پارٹی ہے جس کے قائد کرکٹ کے کھلاڑی تھے انھوں نے کرکٹ سے ریٹائرڈ ہو کر بغیر سیاسی تجربہ حاصل کیے پارٹی بنائی اور خود ہی اس کے چئیرمین بن گئے۔ اسی لیے گزشتہ پندرہ سال سے مرزا یار کی طرح اکیلے ہی بے کارواں پھرتے رہے، سیاست میں ان کا حال وہی ہوا جو ہر شعبے میں ایک اناڑی اور ناتجربہ کار کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی ناکامی ہی ناکامی اور شکست پر شکست۔ 1997 میں ہمارے ملک میں جنرل الیکشن ہوئے انھوں نے تقریبا 150 اُمیدوار قومی اسمبلی کے الیکشن میں اُتارے جو سب کے سب ناکام ہوئے خود اس پارٹی کے سربراہ سے ایک نہ دو بلکہ آٹھ اور پورے آٹھ حلقوں سے الیکشن لڑا اور ہر جگہ بری طرح شکست کھائی۔
حد تو یہ ہے کہ یہ پارٹی ملک بھر کے کاسٹ شدہ ووٹوں میں سے صرف 1.64% پر ووٹ حاصل کر پائی۔ 2002 میں پرویز مشرف کی مہربانی سے صرف ایک سیٹ ملی۔ اب پھر یہ پارٹی بہت سے حلقوں سے الیکشن لڑ رہی ہے۔ بڑا غلغلہ ہے۔ اﷲ خیر کرے۔ پرویز مشرف نے آئینی اور قانو نی طور پر عوام کی محبوب اور منتخب کردہ سول حکومت کا 12 اکتوبر 1999 کو تختہ اُلٹا تو عمران خان نے اسے ویلکم کیا پھر 2002 میں پرویز مشرف کا نام نہاد صدارتی ریفرنڈم ہوا تو عمران خان جگہ جگہ اس ریفرنڈم کی حمایت میں تقریریں کیا کرتے تھے۔ جب پرویز مشرف کا زوال آیا اور وہ حکومت سے باہر ہوگئے تو یہی عمران خان اس ریفرنڈم میں ساتھ دینے پر قوم سے معافیاں مانگتے ہوئے پائے گئے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی قیادت کی صحیح حکمرانی اور خدمت انسانی کا صحیح وژن نہ ہونے کی وجہ سے شروع سے ہی ناکام تھی، لیکن عوام اپنے اوپر جبر کر کے برداشت کرتے رہے۔ آخر تنگ آکر ملک کے مقتدر طبقات اس حکومت کو چلتا کرنا چاہ رہے تھے اور اس سلسلے میں مسلم لیگ اور اس کے قائد کا تعاون چاہ رہے تھے جہاں سے بار بار کورا جواب پایا گیا۔
اس پر انھوں نے مسلم لیگ کی مقبولیت کو ختم کرنے کے منصوبے بنائے اور تحریک انصاف کا کندھا تلاش کیا۔ اس پارٹی کے اکتوبر 2011 کے لاہور کے جلسے میں سونامی طوفان کے غبارے میں خوب گیس بھردی جس سے جلسہ بڑا نظر آنے لگا۔ اس کے بعد اسی پارٹی کا جلسہ راولپنڈی میں ہوا جس کے بارے میں اخبارات چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اس جلسے کے اخراجات کو ایک دولتمند ترین شخص نے اسپانسر کیا۔
پیپلز پارٹی کے ناقص طرز حکومت سے تنگ آکر قاضی حسین احمد (مرحوم) نے سوچا کہ اس پارٹی سے نجات کے لیے ن لیگ، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور دیگر پارٹیوں کا ایک مضبوط اتحاد بنا کر الیکشن میں اُتارا جائے تاکہ اس پارٹی سے جان چھوٹ جائے اس سلسلے میں انھوں نے جناب عمران خان سے رابطہ کیا تحریک انصاف کے قائد نے ایک غیر سیاسی جواب دیا کہ میری پارٹی پیپلز پارٹی کے خلاف کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوگی۔ یہ دوبارہ آتی ہے تو آجائے میرے لیے عوام کی حمایت سے محروم پیپلز پارٹی اور عوام کی پسندیدہ پارٹی مسلم لیگ دونوں برابر ہیں۔ قاضی حسین احمد ایسا جواب سن کر سکتے میں آ گئے۔
اس کے بعد ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اسی طرح کی تجویز لے کر خان صاحب سے ملے، قاضی صاحب مرحوم کی طرح بہت سمجھایا ان کو بھی ویسا ہی غیر مصالحانہ جواب ملا۔ آخر وہ بھی دل شکستہ ہو کر ناکام واپس آگئے۔
ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان صرف عوام کے ڈر سے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف ہلکی ہلکی تنقید کرتے رہے ہیں۔ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے مخالف اور ن لیگ کے حامی ووٹروں کو تقسیم کیاجائے تاکہ پیپلزپارٹی دوبارہ برسراقتدار آجائے اور ن لیگ الیکشن جیت نہ سکے۔ لیکن ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا، اس لیے کہ مسلم لیگ کونے کونے میں مقبول ہوچکی ہے اور اس کی جیت کے امکانات واضح نظر آ رہے ہیں۔
اب الیکشن مہم شروع ہوچکی ہے، مسلم لیگ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اور دوسری پارٹیاں کارنر میٹنگز، جلسے کررہی ہیں اور جلوس نکال رہی ہیں لیکن گزشتہ حکمراں اتحاد میں شامل دو پارٹیاں پیپلز پارٹی اور ق لیگ منظر سے غائب ہیں اور مطمئن ہیں کہ جناب عمران خان کی تحریک انصاف ان کی اصلی مخالف پارٹی مسلم لیگ کے ووٹ کاٹ کر کامیابی ان کی جھولی میں ڈالے گی اس لیے وہ تحریک انصاف کی ہر طرح سے بالواسطہ اور بلا واسطہ حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ اب سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا وقت بھی گذر گیا ہے البتہ ایک سادہ سا حل موجود ہے وہ یہ کہ یہ سب جانتے ہیں کہ جماعت اسلامی اگرچہ ایک چھوٹی پارٹی ہے لیکن ملک بھر میں ہر حلقے میں محدود حد تک اس کا ٹھوس ووٹ بینک موجود ہے۔
کہیں پانچ ہزار ہے اور کہیں سے دس ہزار ہے اور بعض حلقوں میں اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر جماعت اسلامی اپنے تمام اُمیدواروں کو کراچی اور اندرون سندھ کے علاوہ جہاں پہلے ہی جماعت اسلامی اور مسلم لیگ سمیت دس پارٹیوں کا الائنس بن چکا ہے الیکشن سے دستبردار کرالے اور مسلم لیگ کا کھل کر ہر طرح سے ساتھ دے تو فتح ان کی یقینی ہو گی۔
فارمولہ اس طرح بنایا جائے کہ اگر کہیں مسلم لیگ کا اُمیدوار دس ہزار ووٹوں کی برتری سے الیکشن جیتے تو اسے جماعت اسلامی کی وجہ سے سمجھا جائے اور اگر دس ہزار سے زائد تو اسے مسلم لیگ کی وجہ سے سمجھا جائے۔ جنرل الیکشن کے بعد دس ہزار ووٹوں تک جیتنے والے مسلم لیگی مستعفی ہوجائیں اور یہ سیٹ ضمنی انتخابا ت کے ذریعے جماعت اسلامی کو دی جائے اس طرح ایک تو کوئی ووٹ ضایع نہیں ہوگا دوسرے ان کی فتح بھی یقینی ہوجائے گی۔ پھر دونوں پارٹیاں مل کر ایک مستحکم اور مضبوط حکومت بنائیں اور ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں۔