بُک شیلف
تقویم ہجری وعیسوی
تقویم ہجری وعیسوی
مرتب: ابوالنصرمحمدخالدی
نظرثانی: پروفیسر محموداحمدخاں
اشاعت پنجم:2013ء،قیمت:150 روپے،صفحات:75
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان، ڈی۔159، بلاک 7، گلشن اقبال، کراچی
بیسویں صدی سے قبل لکھی جانی والی کتابوں کے مصنف عام طور پر انگریزی تاریخ کے بجائے اسلامی تاریخ لکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔
عربی فارسی لٹریچر اور تاریخ لکھنے والوں کا بھی یہی معمول تھا۔ اُردو فارسی میں لکھے گئے تذکروں میں شعرا کی ولادت و وفات اسلامی ماہ و سال کے ساتھ درج ملتی ہے۔ علاوہ ازیں قدیم مخطوطوں اور قلمی نسخوں کے آخر میں بھی کاتبین اُس دور کے رواج کے مطابق اسلامی تاریخ درج کرتے تھے۔ فی زمانہ چوں کہ انگریزی تاریخ لکھنے لکھانے کا چلن ہے اور لوگ عام طور سے ہجری تاریخ لکھنے کے عادی نہیں رہے، اس لیے عہدِ قدیم کی کتابوں کا زمانہ عیسوی تاریخ کے مطابق متعین کرنے میں انھیں تھوڑی دقّت اُٹھانا پڑتی ہے۔ پیشِ نظر کتاب دراصل ایک ہجری و عیسوی سنین کا کیلنڈر ہے، جس میں پندرہ سو سال کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس کیلنڈر کے ذریعے ایک ہجری سے لے کر پندرہ سو ہجری کے دوران آنے والی عیسوی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے۔ جاننے کا طریقۂ کار نہایت آسان ہے جسے ابتدائی سطور میں سمجھادیا گیا ہے۔ عام طور پر جو تقویم یا جنتریاں دستیاب ہیں، اول تو اُن میں بہت زیادہ صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا، دوسرے یہ کہ وہ بہت سے بہت صد سالہ ہوتی ہیں جو ضرورت کے لیے ناکافی رہتی ہیں۔
انجمن کی شائع کردہ یہ تقویم محققین کے لیے کارآمد تو ہے ہی، عام افراد، تاجروں، محاسبوں، مورخوں، وکلا و حکام وغیرہ کے لیے بھی سہولت کا باعث ہوگی کہ اس کی مدد سے وہ گذشتہ اور آئندہ کے صحیح ہجری یا عیسوی دن، تاریخ اور مہینہ معلوم کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ اس تقویم کی پہلی اشاعت 1939ء میں انجمن ترقی اُردو سے ہوئی تھی۔ اب اس کتاب کا پانچواں ایڈیشن شائع ہوا ہے۔
کتاب بڑے سائز میں سفید کاغذ پر نفاست کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔
سخن ورانِ پاکستان
مرتب: محمد علی سوز
ناشر: دوآبہ پبلی کیشنز،صفحات: 352
کراچی کے معروف نوجوان شاعر محمد علی سوزؔ کا پہلا شعری انتخاب ''سخن ورانِ شہر '' کی اشاعت کے بعد ان کا دوسرا شعری انتخاب ''سخن ورانِ پاکستان'' کے نام سے سامنے آیا ہے، جس میں تیس (30) شعراء کا تعارف اور کلام مع تصویر کے شائع کیا گیا ہے اور ہر شاعر کو 11صفحات دیے گئے ہیں اس میں ہر شاعر کا 10 کلام اور 1صفحہ تعارف موجود ہے۔
اس میں کراچی کے علاوہ پنجاب کے شعراء کا کلام بھی شاملِ اشاعت ہے۔ کتاب کے پُشت پر تمام شاعر کی کلر تصویر دی گئی ہے۔ صفحات کی تعداد 352 ہے۔ جسے دو آبہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو معروف علمی، ادبی و سماجی شخصیت سیّد اظفر رضوی کے نام منسوب کیا گیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ معروف ماہرِ تعلیم اور چیئرمین انٹر میڈیٹ بورڈ پروفیسر انوار احمد زئی نے لکھا ہے۔
اس کے علاوہ محمد نوید شیخ اور محمدسعود نواز نے بھی اظہارِخیال کیا ہے۔ کتاب میں محمد نعیم ؔ انصاری، زاہدؔ علی سیّد، وحیدؔ جامی، انیس الحق انیسؔ ، زیب النساء زیبیؔ، عبید اﷲ ساگر ؔ، ذاکر حسین عادلؔ، تزئین راز ؔزیدی، نداؔ علی، آئرین فرحتؔ، دلشاد ؔ تبسم، خواجہ فاروق احمد ذاکرؔ، سحرؔ حسن، شاعر علی شاعرؔ، آزاد ؔ مبارک، ریحانؔ رامش، اسلم سحابؔ ہاشمی، ضیاء ؔ شاہد، محمد طہور خان پارسؔ، مخدوم علی ممتازؔ، فیض عالم بابرؔ، شمع ؔسیّد، شکورؔ احسن، شاہ اختر غزالی ؔکاکوی، صباؔرشید، مہوشؔ انصاری، عامرؔ ثانی، عمارؔ اقبال، ڈاکٹر رضیہؔ عزیز اور مرتب محمد علی سوزؔ کا کلام و تعارف شامل ہے۔
2012 کی بہترین شاعری کا انتخاب
مرتبہ : محمد عاصم بٹ
صفحات : 286 صفحات ،قیمت : تین سو روپے
ناشر : تخلیقات ، لاہور
شاعری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں یوں لگتا ہے کہ نئے شاعروں کا مستقبل روشن ہے۔وطن عزیز میں ہر سال شعرا کی ایک بڑی کھیپ تیار ہورہی ہے۔غزل ہو یا نظم ، آزاد ہو یا نثری نظم ، بہت اچھی شاعری دیکھنے میں آرہی ہے۔قارئین کو نئے شعراء سے متعارف کرانے کے لیے ان کی شاعری کا انتخاب شائع کرنا ایک اچھی روایت ہے۔
اگر یہ انتخاب کرنے والا خود بھی ایک ادیب ہو تو کیا ہی بات ہے۔ایسے ہی ایک ادیب عاصم بٹ بھی ہیں جو کئی نادر ونایاب کتب کے تراجم کرنے کے علاوہ خود اوریجنل فکشن بھی تخلیق کرچکے ہیں جن میں ان کا ناول ''دائرہ '' اور ''دستک(کہانیاں)'' خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔اب حال ہی میں ان کی مرتب کردہ ایک کتاب سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے نوجوان و تجربہ کار شعرا کا خوبصورت کلام چن کر شائع کیا ہے جس کو انہوں نے '' 2012 کی بہترین شاعری کا انتخاب ''کا عنوان دیا ہے۔
اس میں انہوں نے احمد حسین مجاہد ، احمد شہید ، ادریس آزاد ، ادریس بابر ، آصف ثاقب ، احسان اکبر اور احمد علی کیف سمیت چند باصلاحیت شعراء کا کلام پیش کیا ہے۔وطن عزیز میں شاعری پڑھنے کا شوق کثرت سے پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن اس میں قابل ذکر شعرا کا انتخاب پیش کرنا بذات خود ایک تحقیق طلب کام ہے جسے محمد عاصم بٹ نے خوبصورتی سے نبھایا ہے۔شعر وشاعری کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ ایک اچھا تحفہ ہے۔
حیات حضرت ذوالقرنینؑ اور یاجوج ماجوج
مصنف: نوید احمد ربانی
قیمت:780روپے،صفحات:511
ناشر:بک کارنر شو روم ، بک سٹریٹ جہلم
حضرت ذوالقرنین ؑ کا قصہ قرآن میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جہاں حضرت ذوالقرنینؑ کا ذکر آئے گا وہیں یاجوج ماجوج کے بارے میں بھی تجسس پیدا ہوتا ہے کیونکہ یاجوج ماجوج کو حضرت ذوالقرنینؑ نے دو پہاڑوں کے درمیان آہنی دیوار بنا کر مقید کر دیا تھا ، اور یہی وہ قوم ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہو گی اور دنیا میں تباہی مچا دے گی ۔
مصنف نے حضرت ذوالقرنینؑ کے حسب نسب ، دور اور کارناموں کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس کے ساتھ یاجوج ماجوج کے بارے میں بھی بہت تحقیق کی ہے ۔اس سلسلے میں چند باتوں کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے،مسلکی تعصب سے بالاتر رہ کر تما م مکاتب فکر کے علماء سے استفادہ کیا گیا ہے،اگر کسی عالم اور دانشور سے اختلاف کیا گیا ہے تو بہت احتیاط برتی گئی ہے، مصنف نے اپنے موقف کو صحیح اور حسن حدیث کے ساتھ پیش کیا ہے،کسی کتاب سے حوالے سے اگر کوئی بات نقل کی ہے تو اس کا حوالہ رقم کرنے کی پوری پابندی کی گئی ہے ۔
خاص طور احادیث مبارکہ کی قدرے تفصیل کے ساتھ تخریج کی گئی ہے،تاریخی روایات کے بارے میں مکمل یقین کے ساتھ رائے قائم کرنے کی بجائے انھیں صرف پیش کر دیا گیا ہے، کتاب کے آخر میں حوالہ جات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔ مصنف کے ساتھ تحقیق و تخریج میں عبداللہ صدیق حیدر نے معاونت کی ہے ، دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو بک کارنر نے شائع کیا ہے۔
بستی بستی پربت پربت
مصنف: عمران الحق چوہان
ناشر: بک ہوم، لاہور،قیمت:600 روپے، صفحات:336
سفر نامہ کا شمار کسی زمانے میں اردو ادب کی مقبول ترین صنف میں ہوتا تھا۔ عصر حاضر میں چند ایک لکھنے والے ایسے ضرور ہیں جن کے سفرنامے شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب وادی کالاش، چترال، وادی لس پور، وادی غذر، وادی یٰسین، ترشنگ، دیوسائی، ارموچھومک، خپلو کے سفرنامہ پر مشتمل ہے۔ سفرنامہ نگار نے دلچسپ پیرائے میں اپنی سیاحت کا احوال بیان کیا ہے۔ سفر کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات، مقامی علاقوں کا تعارف اور رسوم و رواج کا تذکرہ اس سفرنامے میں جابجا ملتا ہے۔
اس سفرنامے کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ قدرت نے وطن عزیز کو کیسے کیسے خوبصورت علاقوں سے نوازا ہے، جس کی پوری دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ مختلف علاقوں کے لوگوں کے رہن سہن میں بھی نمایاں فرق ہے۔ اس اعتبار سے ہم تہذیبی و ثقافتی رنگارنگی کی وجہ ایک Rich کلچر کے حامل ہیں، قارئین اس سفرنامہ کو دلچسپ پائیں گے۔
کتابی صورت میں آنے سے پہلے یہ سفرنامہ اقساط میں ایک قومی جریدے کی زینت بن چکا ہے۔ عمران الحق چوہان سفرنامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ قانون دان، شاعر، مترجم، کالم نگار اور معلم بھی ہیں اور ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
لداخ،محققوں اور سیاحوں کی نظر میں
مصنف: عبدالغنی شیخ
قیمت: 250روپے
صفحات: 230
ناشر: مکتبہ جمال ، لاہور
لداخ کو کسی زمانے میں انتہائی اہم گزر گاہ کا درجہ حاصل تھا، اسی راستے سے مسافر ، حملہ آور، علماء اورمحققین تبت ، چین اور وسط ایشیا آتے جاتے رہے ہیں۔اس وادی کا اہم شہر لیہہ صدیوں سے وسط ایشیا کا اہم تجارتی مرکز رہا ہے، گرمیوں میں یہاں کے بازار میں سنٹرل ایشیا کے علاوہ تبت ، شمالی ہند، سائبیریا اور افغانستان تک کے تاجر جمع ہوتے تھے اور مختلف اشیا کا تبادلہ اور خرید و فروخت کرتے تھے۔
یہی نہیں اس علاقے کی خوبصورتی اور پراسراریت سیاحوں اور محققین کو یہاں کھینچ لانے کا خاص سبب ہے۔ اسی وجہ سے وہ راستے کی مشکلات اور مصائب کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ مصنف نے لداخ کی تہذیب و تمدن کے علاوہ وہاں سیاحت اور تحقیق کے لئے آنے والے 200سے زائد افراد کے تاثرات اختصار سے قلمبندکئے ہیں، اسی طرح لداخ نہ آنے والے متعدد محققوں کے بیان بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ اس ضمن میں تقریباً175 سے زائد کتابوں اور ماخذوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ مصنف کی کاوش قابل تعریف ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو مکتبہ جمال نے شائع کیا ہے۔
اقبال اور حدیث
مصنف: ڈاکٹر محمد عبدالمقیت شاکر علیمی
اشاعت:2۰13ء،قیمت:650،روپے،صفحات:920،ناشر: مکتبۂ علیمی، کراچی
علامہ اقبال کی ذات وہ سنگم ہے، جہاں قدیم و جدید دونوں طرف کے دھارے آکر ملتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری سے ہر طبقے کو متاثر ہی نہیں کیا ، بل کہ اسلامی فکر و فلسفہ سمجھنے کی جستجو قلوب میں پیدا کی اور ملت کے اذہان کی تطہیر اور تعمیر کی۔ وہ ایک سچے پکے مسلمان تھے۔ وہ قرآن میں غور و فکر کرنے والے اور احادیث رسول سے بے پناہ شغف رکھتے تھے۔
وہ سرورِ کائنات ﷺ کے زبردست شیدائی تھے۔ انھیں دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اکثر قرآن اور حدیث کے پیشِ نگاہ ہوتے ہی بے خود ہوجاتے تھے۔ یہی چیز اُن کی شاعری میں بھی در آئی ہے۔ اُن کے کلام میں جابجا بکھرے ہوئے مضامین اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ اقبال کے فکر و فلسفہ اور اُن کے تخیل نے رہبرِ انسانیت جناب ِ رسول اﷲ ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے روشنی حاصل کی ہے۔
اس اعتبار سے اُن کی شاعری قرآن و حدیث کی ترجمان کہی جاسکتی ہے۔ یوں تو ماہرینِ اقبالیات، اقبال کے قرآنی مضامین پر مشتمل اشعار کی نشان دہی کرتے آرہے ہیں اور اس حوالے سے نام ور محقق اور استاذ الاساتذہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی معرکہ آرا ''اقبال اور قرآن'' خاص مقام رکھتی ہے، پیش نظر کتاب ''اقبال اور حدیث'' میں اسی کام کو حدیث کے تناظر میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے شاگردِ رشید ڈاکٹر شاکر عبدالمقیت علیمی نے موضوع بنایا ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
''اُن (علامہ اقبال) کی تحریروں میں احادیثِ نبوی ﷺ سے متعلق ان اشاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی فکر اور فلسفے کا مآخذ قرآن و حدیث ہی ہے۔ ہم بڑے تیقن کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری میں احادیث کے مضامین بھرے پڑے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے شعوری کوششیں کی ہیں، اور حتی الامکان احتیاط بھی برتی ہے۔''
چناںچہ اس سلسلے کی پہلی جلد انھوں نے مرتب کرکے شائع کی ہے جس میں اقبال کے چار اُردو مجموعہ ہائے کلام کا انتخاب کیا ہے۔ یہ کام ایسا ہی شخص سر انجام دے سکتا تھا جو اقبال کی فکری جہتوں سے آگاہ اور احادیث پر گہری نظر رکھتا ہو۔ ڈاکٹر علیمی صاحب ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو دینیات کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں اور جہاں دن رات قرآن و حدیث کا چرچا رہتا ہے۔
اُن کے والد اور چچا عالمِ دین تھے۔ خاص طور پر اُن کے عمِ محترم مولانا عبدالرشید نعمانی جس پائے کے محدث تھے اور جیسی لغاتِ قرآن، حدیث، اصولِ حدیث اور علم الرجال پر دسترس رکھتے تھے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ آج کا کوئی عالمِ دین نعمانی صاحب کی تصانیف سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اس لیے علیمی صاحب کو اُردو ادب میں پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود اس موضوع سے جو مناسبت ہوسکتی تھی ، وہ ظاہر ہے۔ انھوں نے ''بانگِ درا'' سے کل 425 اشعار، ''بالِ جبریل'' سے 438 اشعار، ''ضربِ کلیم'' سے 338 اشعار، ''ارمغانِ حجاز'' سے کل 60 اشعار انتخاب کرکے درج کیے ہیں۔
جس سے اُن کی بات کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں جہاں انھوں نے اشعار نقل کیے ہیں، وہیں نپے تلے لفظوں میں بنیادی خیال کو واضح کردیا ہے۔ بعدازاں اس موضوع کی مناسبت سے ممکنہ احادیث مع عربی متن و حوالہ جات درج کردی ہیں۔ یہ احادیث اور اشعار ایک دوسرے کی تفہیم کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اگر شعر کو حدیث قولی کے مصداق پایا ہے، تو اسے درج کردیا ہے، یا اگر کسی واقعے کا اپنے نتیجے کے اعتبار سے اقبال کے شعر سے تطابق ہورہا ہے تو بھی اسے درج کردیا ہے۔ اشعار کا متعدد احادیث کے مضامین سے ماخوذ ، مستنبط یا مستفاد اس کثرت سے ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اقبال کے یہاں اسلامی فکر و نظر کے حوالے سے 'ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا' والا معاملہ نہیں ہے، بل کہ یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ شاعر تمام عمر قرآن اور حدیث کے حصار میں رہا ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے اگر شعوری طور پر احادیث کے مضامین اپنے کلام میں لیے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر محض احادیث کے عام طور پر مشہور مجموعے صحیح بخاری و صحیح مسلم یا بہت سے بہت صحاح ستّہ کی کتابیں نہیں رہی ہوں گی، بلکہ احادیث کی دیگر کتابیں مثلاً سننِ امام بیہقی، کنزالعمال، طبرانی کی المعجم الکبیر، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد وغیرہ سے بھی انھوں نے فائدہ اٹھایا ہوگا۔ باوجود اس کے کہ حدیثِ نبوی کے متعلق علامہ اقبال کا ایک محتاط نقطۂ نظر تھا، عقائد کے باب میں وہ محض قرآن ہی کو اساس قرار دیتے تھے اور صرف مستند اور صحیح احادیث کو روا رکھتے تھے۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اُن کے کلام میں بعض ایسے مضامین اور نامعتبر روایتیں بھی در آئی ہیں جو مشہور تو حدیث کے طور پر ہیں، لیکن بحیثیت حدیث ان کی کوئی اصل نہیں۔ ڈاکٹر علیمی نے ایسی روایات کو مستند حضراتِ محدثین کی کتابوں کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ان میں سے بعض موضوع احادیث ہیں اور بعض صوفیائے کرام و بزرگانِ دین کے اقوال ہیں۔ بلاشبہہ اپنے استاد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے علیمی صاحب نے بھی ایک نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔
''غلیچا اُنن والی ۔۔۔۔'' (ناول)
ناول نگار: زاہد حسن
پبلشر:پنجابی مرکز،7اے، سٹریٹ 6کوچا محمدی، سلطانپورا لاہور
صفحات:320،قیمت:300 روپے
غلیچا اُنن والی'' زاہد حسن کا نیا ناول ہے۔ یہ ناول پنجابی زبان میں لکھا گیا ہے۔ پنجابی زبان میں نثری سرمایہ کم ہے۔ ناول تو اور بھی کم لکھا گیا ہے۔ پنجابی زبان میں لکھے جانے والے ناولوں کی تعداد شاید سو سے زیادہ نہیں ہے۔ زاہد حسن کا یہ دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے ان کا ناول ''عشق لتاڑے آدمی'' چھپ چکا ہے۔
''غلیچا اُنن والی'' میں زاہد حسن نے بڑا جنگل کاٹا ہے۔ اپنی یادوں کا جنگل'' اس کٹائو میں ان کا حافظہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ ناول کی اگر نظری تعبیر کی جائے تو یہ ایک غالیچا ہی تو ہوتا ہے۔ دھیان سے بنا گیا قالین۔ نک سک سے درست، نہ ایک دھاگا کم نہ ایک دھاگا زیادہ، رنگ رنگ میں تناسب، ایک مکان جس میں بجری، اینٹ، پتھر، توازن سے استعمال کیے گئے ہوں۔ ایک اعتبار سے رنگ سازی کا عمل جس میں لمحہ لمحہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ رنگ کو پھیکا اور گوڑھا ہونے سے کیسے بچانا ہے۔
''غلیچا اُنن والی، اپنی پہلی نظر میں تو قالین بافی سے متعلق ایک دستاویز ہے۔ مگر دستاویز کا لفظ شاید اس کے لیے درست نہیں کہ یہ ناول ایک یادنامہ ہے۔ اپنی جڑوں کی تلاش کا سفر۔ مراجعت کی روداد، اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی کی نشانی، اپنے دیس اور اس دیس میں ریت، رسم، رواج، کھیل، تہوار کی یادیں۔
ہر آدمی جو اس دنیا میں آتا ہے اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کائنات پر اپنی آمد کا نقش ثبت کرجائے۔ کہیں نہ کہیں اپنے آنے کے دستخط چھوڑ جائے۔ وہ لوگ، وہ جگہیں، وہ مناظر جو ایک عمر اس کے ساتھ ہے انہیں کہیں نہ کہیں اپنی یادوں میں محفوظ رکھے۔ مگر ایسا ہوتا ہے کہ یہ نقش یادوں میں محفوظ رہتے ہیں، کاغذ پر منتقل نہیں ہوپاتے۔ ہر آدمی کر بھی نہیں سکتا۔ مشکل کام ہے۔ صبر مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے، حوصلہ طلب کرتا ہے۔ ''غلیچا اُنن والی'' کے تخلیق کار نے اپنا سیکھا محفوظ کرلیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار مرزا خاں صفحے صفحے پر اپنی بیتی کے اونے پونے جانے کی گواہی دیتا نظر آرہا ہے۔
''غلیچا اُنن والی'' ایک بیانیہ ناول ہے۔ واقعات سے بھرا ہوا بیانیہ، کہانی در کہانی چلتا ہوا۔ ایک زنبیل جس میں بھانت بھانت کا راز بھرا ہوا ہے۔ علاقے علاقے کی خبر۔ ایسا لگتا ہے جیسے ناول نگار اپنے قاری سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا۔ وہ قاری کو اپنا دوست سمجھ کر سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔
وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ اس کی جھوک کیسی تھی جھوک میں لوگ کس طرح زندگی گزارتے تھے۔ سکھاں اور اس کی بیٹیاں رانو، بینو، نینو کس طرح اپنے ہنر سے اپنا پیٹ کاٹتی تھیں۔ پیٹ جسے لوگ دوزخ کہتے ہیں۔ مگر جھوکوں میں بسنے والوں کے لیے محاورہ نہیں۔ اصلی دوزخ ہوتا ہے۔ مرزا خاں کا بچپن جو جنت جیسا تھا معصوم خواہشوں سے بھرا ہوا۔ جن خواہشات پر اس کی ماں اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوتی ہے۔
مرتب: ابوالنصرمحمدخالدی
نظرثانی: پروفیسر محموداحمدخاں
اشاعت پنجم:2013ء،قیمت:150 روپے،صفحات:75
ناشر: انجمن ترقی اردو پاکستان، ڈی۔159، بلاک 7، گلشن اقبال، کراچی
بیسویں صدی سے قبل لکھی جانی والی کتابوں کے مصنف عام طور پر انگریزی تاریخ کے بجائے اسلامی تاریخ لکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔
عربی فارسی لٹریچر اور تاریخ لکھنے والوں کا بھی یہی معمول تھا۔ اُردو فارسی میں لکھے گئے تذکروں میں شعرا کی ولادت و وفات اسلامی ماہ و سال کے ساتھ درج ملتی ہے۔ علاوہ ازیں قدیم مخطوطوں اور قلمی نسخوں کے آخر میں بھی کاتبین اُس دور کے رواج کے مطابق اسلامی تاریخ درج کرتے تھے۔ فی زمانہ چوں کہ انگریزی تاریخ لکھنے لکھانے کا چلن ہے اور لوگ عام طور سے ہجری تاریخ لکھنے کے عادی نہیں رہے، اس لیے عہدِ قدیم کی کتابوں کا زمانہ عیسوی تاریخ کے مطابق متعین کرنے میں انھیں تھوڑی دقّت اُٹھانا پڑتی ہے۔ پیشِ نظر کتاب دراصل ایک ہجری و عیسوی سنین کا کیلنڈر ہے، جس میں پندرہ سو سال کا احاطہ کیا گیا ہے۔
اس کیلنڈر کے ذریعے ایک ہجری سے لے کر پندرہ سو ہجری کے دوران آنے والی عیسوی تاریخ معلوم کی جاسکتی ہے۔ جاننے کا طریقۂ کار نہایت آسان ہے جسے ابتدائی سطور میں سمجھادیا گیا ہے۔ عام طور پر جو تقویم یا جنتریاں دستیاب ہیں، اول تو اُن میں بہت زیادہ صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا، دوسرے یہ کہ وہ بہت سے بہت صد سالہ ہوتی ہیں جو ضرورت کے لیے ناکافی رہتی ہیں۔
انجمن کی شائع کردہ یہ تقویم محققین کے لیے کارآمد تو ہے ہی، عام افراد، تاجروں، محاسبوں، مورخوں، وکلا و حکام وغیرہ کے لیے بھی سہولت کا باعث ہوگی کہ اس کی مدد سے وہ گذشتہ اور آئندہ کے صحیح ہجری یا عیسوی دن، تاریخ اور مہینہ معلوم کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ اس تقویم کی پہلی اشاعت 1939ء میں انجمن ترقی اُردو سے ہوئی تھی۔ اب اس کتاب کا پانچواں ایڈیشن شائع ہوا ہے۔
کتاب بڑے سائز میں سفید کاغذ پر نفاست کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔
سخن ورانِ پاکستان
مرتب: محمد علی سوز
ناشر: دوآبہ پبلی کیشنز،صفحات: 352
کراچی کے معروف نوجوان شاعر محمد علی سوزؔ کا پہلا شعری انتخاب ''سخن ورانِ شہر '' کی اشاعت کے بعد ان کا دوسرا شعری انتخاب ''سخن ورانِ پاکستان'' کے نام سے سامنے آیا ہے، جس میں تیس (30) شعراء کا تعارف اور کلام مع تصویر کے شائع کیا گیا ہے اور ہر شاعر کو 11صفحات دیے گئے ہیں اس میں ہر شاعر کا 10 کلام اور 1صفحہ تعارف موجود ہے۔
اس میں کراچی کے علاوہ پنجاب کے شعراء کا کلام بھی شاملِ اشاعت ہے۔ کتاب کے پُشت پر تمام شاعر کی کلر تصویر دی گئی ہے۔ صفحات کی تعداد 352 ہے۔ جسے دو آبہ پبلی کیشنز نے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کو معروف علمی، ادبی و سماجی شخصیت سیّد اظفر رضوی کے نام منسوب کیا گیا ہے۔ کتاب کا پیش لفظ معروف ماہرِ تعلیم اور چیئرمین انٹر میڈیٹ بورڈ پروفیسر انوار احمد زئی نے لکھا ہے۔
اس کے علاوہ محمد نوید شیخ اور محمدسعود نواز نے بھی اظہارِخیال کیا ہے۔ کتاب میں محمد نعیم ؔ انصاری، زاہدؔ علی سیّد، وحیدؔ جامی، انیس الحق انیسؔ ، زیب النساء زیبیؔ، عبید اﷲ ساگر ؔ، ذاکر حسین عادلؔ، تزئین راز ؔزیدی، نداؔ علی، آئرین فرحتؔ، دلشاد ؔ تبسم، خواجہ فاروق احمد ذاکرؔ، سحرؔ حسن، شاعر علی شاعرؔ، آزاد ؔ مبارک، ریحانؔ رامش، اسلم سحابؔ ہاشمی، ضیاء ؔ شاہد، محمد طہور خان پارسؔ، مخدوم علی ممتازؔ، فیض عالم بابرؔ، شمع ؔسیّد، شکورؔ احسن، شاہ اختر غزالی ؔکاکوی، صباؔرشید، مہوشؔ انصاری، عامرؔ ثانی، عمارؔ اقبال، ڈاکٹر رضیہؔ عزیز اور مرتب محمد علی سوزؔ کا کلام و تعارف شامل ہے۔
2012 کی بہترین شاعری کا انتخاب
مرتبہ : محمد عاصم بٹ
صفحات : 286 صفحات ،قیمت : تین سو روپے
ناشر : تخلیقات ، لاہور
شاعری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس میں یوں لگتا ہے کہ نئے شاعروں کا مستقبل روشن ہے۔وطن عزیز میں ہر سال شعرا کی ایک بڑی کھیپ تیار ہورہی ہے۔غزل ہو یا نظم ، آزاد ہو یا نثری نظم ، بہت اچھی شاعری دیکھنے میں آرہی ہے۔قارئین کو نئے شعراء سے متعارف کرانے کے لیے ان کی شاعری کا انتخاب شائع کرنا ایک اچھی روایت ہے۔
اگر یہ انتخاب کرنے والا خود بھی ایک ادیب ہو تو کیا ہی بات ہے۔ایسے ہی ایک ادیب عاصم بٹ بھی ہیں جو کئی نادر ونایاب کتب کے تراجم کرنے کے علاوہ خود اوریجنل فکشن بھی تخلیق کرچکے ہیں جن میں ان کا ناول ''دائرہ '' اور ''دستک(کہانیاں)'' خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔اب حال ہی میں ان کی مرتب کردہ ایک کتاب سامنے آئی ہے جس میں انہوں نے نوجوان و تجربہ کار شعرا کا خوبصورت کلام چن کر شائع کیا ہے جس کو انہوں نے '' 2012 کی بہترین شاعری کا انتخاب ''کا عنوان دیا ہے۔
اس میں انہوں نے احمد حسین مجاہد ، احمد شہید ، ادریس آزاد ، ادریس بابر ، آصف ثاقب ، احسان اکبر اور احمد علی کیف سمیت چند باصلاحیت شعراء کا کلام پیش کیا ہے۔وطن عزیز میں شاعری پڑھنے کا شوق کثرت سے پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شاعروں کی تعداد بھی دن بدن بڑھ رہی ہے لیکن اس میں قابل ذکر شعرا کا انتخاب پیش کرنا بذات خود ایک تحقیق طلب کام ہے جسے محمد عاصم بٹ نے خوبصورتی سے نبھایا ہے۔شعر وشاعری کا ذوق رکھنے والوں کے لیے یہ ایک اچھا تحفہ ہے۔
حیات حضرت ذوالقرنینؑ اور یاجوج ماجوج
مصنف: نوید احمد ربانی
قیمت:780روپے،صفحات:511
ناشر:بک کارنر شو روم ، بک سٹریٹ جہلم
حضرت ذوالقرنین ؑ کا قصہ قرآن میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، جہاں حضرت ذوالقرنینؑ کا ذکر آئے گا وہیں یاجوج ماجوج کے بارے میں بھی تجسس پیدا ہوتا ہے کیونکہ یاجوج ماجوج کو حضرت ذوالقرنینؑ نے دو پہاڑوں کے درمیان آہنی دیوار بنا کر مقید کر دیا تھا ، اور یہی وہ قوم ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ قیامت کے قریب ظاہر ہو گی اور دنیا میں تباہی مچا دے گی ۔
مصنف نے حضرت ذوالقرنینؑ کے حسب نسب ، دور اور کارناموں کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس کے ساتھ یاجوج ماجوج کے بارے میں بھی بہت تحقیق کی ہے ۔اس سلسلے میں چند باتوں کو خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے،مسلکی تعصب سے بالاتر رہ کر تما م مکاتب فکر کے علماء سے استفادہ کیا گیا ہے،اگر کسی عالم اور دانشور سے اختلاف کیا گیا ہے تو بہت احتیاط برتی گئی ہے، مصنف نے اپنے موقف کو صحیح اور حسن حدیث کے ساتھ پیش کیا ہے،کسی کتاب سے حوالے سے اگر کوئی بات نقل کی ہے تو اس کا حوالہ رقم کرنے کی پوری پابندی کی گئی ہے ۔
خاص طور احادیث مبارکہ کی قدرے تفصیل کے ساتھ تخریج کی گئی ہے،تاریخی روایات کے بارے میں مکمل یقین کے ساتھ رائے قائم کرنے کی بجائے انھیں صرف پیش کر دیا گیا ہے، کتاب کے آخر میں حوالہ جات بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں ۔ مصنف کے ساتھ تحقیق و تخریج میں عبداللہ صدیق حیدر نے معاونت کی ہے ، دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو بک کارنر نے شائع کیا ہے۔
بستی بستی پربت پربت
مصنف: عمران الحق چوہان
ناشر: بک ہوم، لاہور،قیمت:600 روپے، صفحات:336
سفر نامہ کا شمار کسی زمانے میں اردو ادب کی مقبول ترین صنف میں ہوتا تھا۔ عصر حاضر میں چند ایک لکھنے والے ایسے ضرور ہیں جن کے سفرنامے شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب وادی کالاش، چترال، وادی لس پور، وادی غذر، وادی یٰسین، ترشنگ، دیوسائی، ارموچھومک، خپلو کے سفرنامہ پر مشتمل ہے۔ سفرنامہ نگار نے دلچسپ پیرائے میں اپنی سیاحت کا احوال بیان کیا ہے۔ سفر کے دوران پیش آنے والے دلچسپ واقعات، مقامی علاقوں کا تعارف اور رسوم و رواج کا تذکرہ اس سفرنامے میں جابجا ملتا ہے۔
اس سفرنامے کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ قدرت نے وطن عزیز کو کیسے کیسے خوبصورت علاقوں سے نوازا ہے، جس کی پوری دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ مختلف علاقوں کے لوگوں کے رہن سہن میں بھی نمایاں فرق ہے۔ اس اعتبار سے ہم تہذیبی و ثقافتی رنگارنگی کی وجہ ایک Rich کلچر کے حامل ہیں، قارئین اس سفرنامہ کو دلچسپ پائیں گے۔
کتابی صورت میں آنے سے پہلے یہ سفرنامہ اقساط میں ایک قومی جریدے کی زینت بن چکا ہے۔ عمران الحق چوہان سفرنامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ قانون دان، شاعر، مترجم، کالم نگار اور معلم بھی ہیں اور ان کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
لداخ،محققوں اور سیاحوں کی نظر میں
مصنف: عبدالغنی شیخ
قیمت: 250روپے
صفحات: 230
ناشر: مکتبہ جمال ، لاہور
لداخ کو کسی زمانے میں انتہائی اہم گزر گاہ کا درجہ حاصل تھا، اسی راستے سے مسافر ، حملہ آور، علماء اورمحققین تبت ، چین اور وسط ایشیا آتے جاتے رہے ہیں۔اس وادی کا اہم شہر لیہہ صدیوں سے وسط ایشیا کا اہم تجارتی مرکز رہا ہے، گرمیوں میں یہاں کے بازار میں سنٹرل ایشیا کے علاوہ تبت ، شمالی ہند، سائبیریا اور افغانستان تک کے تاجر جمع ہوتے تھے اور مختلف اشیا کا تبادلہ اور خرید و فروخت کرتے تھے۔
یہی نہیں اس علاقے کی خوبصورتی اور پراسراریت سیاحوں اور محققین کو یہاں کھینچ لانے کا خاص سبب ہے۔ اسی وجہ سے وہ راستے کی مشکلات اور مصائب کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ مصنف نے لداخ کی تہذیب و تمدن کے علاوہ وہاں سیاحت اور تحقیق کے لئے آنے والے 200سے زائد افراد کے تاثرات اختصار سے قلمبندکئے ہیں، اسی طرح لداخ نہ آنے والے متعدد محققوں کے بیان بھی شامل کئے گئے ہیں ۔ اس ضمن میں تقریباً175 سے زائد کتابوں اور ماخذوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ مصنف کی کاوش قابل تعریف ہے۔ دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ مجلد کتاب کو مکتبہ جمال نے شائع کیا ہے۔
اقبال اور حدیث
مصنف: ڈاکٹر محمد عبدالمقیت شاکر علیمی
اشاعت:2۰13ء،قیمت:650،روپے،صفحات:920،ناشر: مکتبۂ علیمی، کراچی
علامہ اقبال کی ذات وہ سنگم ہے، جہاں قدیم و جدید دونوں طرف کے دھارے آکر ملتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی شاعری سے ہر طبقے کو متاثر ہی نہیں کیا ، بل کہ اسلامی فکر و فلسفہ سمجھنے کی جستجو قلوب میں پیدا کی اور ملت کے اذہان کی تطہیر اور تعمیر کی۔ وہ ایک سچے پکے مسلمان تھے۔ وہ قرآن میں غور و فکر کرنے والے اور احادیث رسول سے بے پناہ شغف رکھتے تھے۔
وہ سرورِ کائنات ﷺ کے زبردست شیدائی تھے۔ انھیں دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ اکثر قرآن اور حدیث کے پیشِ نگاہ ہوتے ہی بے خود ہوجاتے تھے۔ یہی چیز اُن کی شاعری میں بھی در آئی ہے۔ اُن کے کلام میں جابجا بکھرے ہوئے مضامین اس بات کا پتا دیتے ہیں کہ اقبال کے فکر و فلسفہ اور اُن کے تخیل نے رہبرِ انسانیت جناب ِ رسول اﷲ ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے روشنی حاصل کی ہے۔
اس اعتبار سے اُن کی شاعری قرآن و حدیث کی ترجمان کہی جاسکتی ہے۔ یوں تو ماہرینِ اقبالیات، اقبال کے قرآنی مضامین پر مشتمل اشعار کی نشان دہی کرتے آرہے ہیں اور اس حوالے سے نام ور محقق اور استاذ الاساتذہ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کی معرکہ آرا ''اقبال اور قرآن'' خاص مقام رکھتی ہے، پیش نظر کتاب ''اقبال اور حدیث'' میں اسی کام کو حدیث کے تناظر میں ڈاکٹر غلام مصطفی خان کے شاگردِ رشید ڈاکٹر شاکر عبدالمقیت علیمی نے موضوع بنایا ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتے ہیں:
''اُن (علامہ اقبال) کی تحریروں میں احادیثِ نبوی ﷺ سے متعلق ان اشاروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی فکر اور فلسفے کا مآخذ قرآن و حدیث ہی ہے۔ ہم بڑے تیقن کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری میں احادیث کے مضامین بھرے پڑے ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے شعوری کوششیں کی ہیں، اور حتی الامکان احتیاط بھی برتی ہے۔''
چناںچہ اس سلسلے کی پہلی جلد انھوں نے مرتب کرکے شائع کی ہے جس میں اقبال کے چار اُردو مجموعہ ہائے کلام کا انتخاب کیا ہے۔ یہ کام ایسا ہی شخص سر انجام دے سکتا تھا جو اقبال کی فکری جہتوں سے آگاہ اور احادیث پر گہری نظر رکھتا ہو۔ ڈاکٹر علیمی صاحب ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں جو دینیات کے حوالے سے کسی تعارف کا محتاج نہیں اور جہاں دن رات قرآن و حدیث کا چرچا رہتا ہے۔
اُن کے والد اور چچا عالمِ دین تھے۔ خاص طور پر اُن کے عمِ محترم مولانا عبدالرشید نعمانی جس پائے کے محدث تھے اور جیسی لغاتِ قرآن، حدیث، اصولِ حدیث اور علم الرجال پر دسترس رکھتے تھے، اس سے انکار ممکن نہیں۔ آج کا کوئی عالمِ دین نعمانی صاحب کی تصانیف سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ اس لیے علیمی صاحب کو اُردو ادب میں پی ایچ ڈی ہونے کے باوجود اس موضوع سے جو مناسبت ہوسکتی تھی ، وہ ظاہر ہے۔ انھوں نے ''بانگِ درا'' سے کل 425 اشعار، ''بالِ جبریل'' سے 438 اشعار، ''ضربِ کلیم'' سے 338 اشعار، ''ارمغانِ حجاز'' سے کل 60 اشعار انتخاب کرکے درج کیے ہیں۔
جس سے اُن کی بات کی تائید ہوتی ہے۔ جہاں جہاں انھوں نے اشعار نقل کیے ہیں، وہیں نپے تلے لفظوں میں بنیادی خیال کو واضح کردیا ہے۔ بعدازاں اس موضوع کی مناسبت سے ممکنہ احادیث مع عربی متن و حوالہ جات درج کردی ہیں۔ یہ احادیث اور اشعار ایک دوسرے کی تفہیم کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اگر شعر کو حدیث قولی کے مصداق پایا ہے، تو اسے درج کردیا ہے، یا اگر کسی واقعے کا اپنے نتیجے کے اعتبار سے اقبال کے شعر سے تطابق ہورہا ہے تو بھی اسے درج کردیا ہے۔ اشعار کا متعدد احادیث کے مضامین سے ماخوذ ، مستنبط یا مستفاد اس کثرت سے ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اقبال کے یہاں اسلامی فکر و نظر کے حوالے سے 'ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا' والا معاملہ نہیں ہے، بل کہ یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ شاعر تمام عمر قرآن اور حدیث کے حصار میں رہا ہے۔
یہاں یہ عرض کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے اگر شعوری طور پر احادیث کے مضامین اپنے کلام میں لیے ہیں تو اُن کے پیشِ نظر محض احادیث کے عام طور پر مشہور مجموعے صحیح بخاری و صحیح مسلم یا بہت سے بہت صحاح ستّہ کی کتابیں نہیں رہی ہوں گی، بلکہ احادیث کی دیگر کتابیں مثلاً سننِ امام بیہقی، کنزالعمال، طبرانی کی المعجم الکبیر، مصنف ابن ابی شیبہ، مسند احمد وغیرہ سے بھی انھوں نے فائدہ اٹھایا ہوگا۔ باوجود اس کے کہ حدیثِ نبوی کے متعلق علامہ اقبال کا ایک محتاط نقطۂ نظر تھا، عقائد کے باب میں وہ محض قرآن ہی کو اساس قرار دیتے تھے اور صرف مستند اور صحیح احادیث کو روا رکھتے تھے۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اُن کے کلام میں بعض ایسے مضامین اور نامعتبر روایتیں بھی در آئی ہیں جو مشہور تو حدیث کے طور پر ہیں، لیکن بحیثیت حدیث ان کی کوئی اصل نہیں۔ ڈاکٹر علیمی نے ایسی روایات کو مستند حضراتِ محدثین کی کتابوں کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ ان میں سے بعض موضوع احادیث ہیں اور بعض صوفیائے کرام و بزرگانِ دین کے اقوال ہیں۔ بلاشبہہ اپنے استاد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے علیمی صاحب نے بھی ایک نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔
''غلیچا اُنن والی ۔۔۔۔'' (ناول)
ناول نگار: زاہد حسن
پبلشر:پنجابی مرکز،7اے، سٹریٹ 6کوچا محمدی، سلطانپورا لاہور
صفحات:320،قیمت:300 روپے
غلیچا اُنن والی'' زاہد حسن کا نیا ناول ہے۔ یہ ناول پنجابی زبان میں لکھا گیا ہے۔ پنجابی زبان میں نثری سرمایہ کم ہے۔ ناول تو اور بھی کم لکھا گیا ہے۔ پنجابی زبان میں لکھے جانے والے ناولوں کی تعداد شاید سو سے زیادہ نہیں ہے۔ زاہد حسن کا یہ دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے ان کا ناول ''عشق لتاڑے آدمی'' چھپ چکا ہے۔
''غلیچا اُنن والی'' میں زاہد حسن نے بڑا جنگل کاٹا ہے۔ اپنی یادوں کا جنگل'' اس کٹائو میں ان کا حافظہ ان کے ساتھ رہا ہے۔ ناول کی اگر نظری تعبیر کی جائے تو یہ ایک غالیچا ہی تو ہوتا ہے۔ دھیان سے بنا گیا قالین۔ نک سک سے درست، نہ ایک دھاگا کم نہ ایک دھاگا زیادہ، رنگ رنگ میں تناسب، ایک مکان جس میں بجری، اینٹ، پتھر، توازن سے استعمال کیے گئے ہوں۔ ایک اعتبار سے رنگ سازی کا عمل جس میں لمحہ لمحہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ رنگ کو پھیکا اور گوڑھا ہونے سے کیسے بچانا ہے۔
''غلیچا اُنن والی، اپنی پہلی نظر میں تو قالین بافی سے متعلق ایک دستاویز ہے۔ مگر دستاویز کا لفظ شاید اس کے لیے درست نہیں کہ یہ ناول ایک یادنامہ ہے۔ اپنی جڑوں کی تلاش کا سفر۔ مراجعت کی روداد، اپنے بچپن، لڑکپن، جوانی کی نشانی، اپنے دیس اور اس دیس میں ریت، رسم، رواج، کھیل، تہوار کی یادیں۔
ہر آدمی جو اس دنیا میں آتا ہے اس کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ کائنات پر اپنی آمد کا نقش ثبت کرجائے۔ کہیں نہ کہیں اپنے آنے کے دستخط چھوڑ جائے۔ وہ لوگ، وہ جگہیں، وہ مناظر جو ایک عمر اس کے ساتھ ہے انہیں کہیں نہ کہیں اپنی یادوں میں محفوظ رکھے۔ مگر ایسا ہوتا ہے کہ یہ نقش یادوں میں محفوظ رہتے ہیں، کاغذ پر منتقل نہیں ہوپاتے۔ ہر آدمی کر بھی نہیں سکتا۔ مشکل کام ہے۔ صبر مانگتا ہے، توجہ مانگتا ہے، حوصلہ طلب کرتا ہے۔ ''غلیچا اُنن والی'' کے تخلیق کار نے اپنا سیکھا محفوظ کرلیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار مرزا خاں صفحے صفحے پر اپنی بیتی کے اونے پونے جانے کی گواہی دیتا نظر آرہا ہے۔
''غلیچا اُنن والی'' ایک بیانیہ ناول ہے۔ واقعات سے بھرا ہوا بیانیہ، کہانی در کہانی چلتا ہوا۔ ایک زنبیل جس میں بھانت بھانت کا راز بھرا ہوا ہے۔ علاقے علاقے کی خبر۔ ایسا لگتا ہے جیسے ناول نگار اپنے قاری سے کچھ چھپانا نہیں چاہتا۔ وہ قاری کو اپنا دوست سمجھ کر سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔
وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ اس کی جھوک کیسی تھی جھوک میں لوگ کس طرح زندگی گزارتے تھے۔ سکھاں اور اس کی بیٹیاں رانو، بینو، نینو کس طرح اپنے ہنر سے اپنا پیٹ کاٹتی تھیں۔ پیٹ جسے لوگ دوزخ کہتے ہیں۔ مگر جھوکوں میں بسنے والوں کے لیے محاورہ نہیں۔ اصلی دوزخ ہوتا ہے۔ مرزا خاں کا بچپن جو جنت جیسا تھا معصوم خواہشوں سے بھرا ہوا۔ جن خواہشات پر اس کی ماں اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تیار ہوتی ہے۔