باڈی لینگویج ۔۔۔ موثر اظہار کا مستند فن

ایک مسکراہٹ، ایک جنبش، ایک اشارہ

فوٹو : فائل

آج ''باڈی لینگویج'' دنیا بھر میں اظہار رائے کا ایک مستند طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

تیسری دنیا کے ملکوں خصوصاً پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بھی یہ انداز رواج پا رہا ہے۔ ماناکہ ''الفاظ'' اظہار کا بہترین ذریعہ ہیں مگر موجودہ دور نے بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ اقدارو روایات' برس ہا برس کے طے شدہ فارمولے' بڑے بوڑھوں کے فرمودات' ضرب الامثال' مقولے حتی کہ عالمگیر حقائق بھی۔



آج کوئی بات سو فیصد طے شدہ نہیں ہے، کل کی تھیوری آج اور آج کا تجربہ کل غلط ثابت ہو سکتاہے۔ تعلیم اور سائنس کی ترقی نے دنیا کی ہیئت ہی تبدیل کر کے رکھ دی ہے اب لوگ نئے خیالات تصورات اور جدید فلسفے پر عمل پیرا ہیں جیسا کہ آج کل یورپ اور تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں زبانی اظہار کی نسبت جسمانی اظہار کو زیادہ موثر مانا جا رہاہے۔ خاص طور پر اعلیٰ طبقوں میں تو ''باڈی لینگویج'' ایک باقاعدہ فن کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ڈھیروں ڈھیر الفاظ میں سے خوب صورت اور مناسب الفاظ کاچنائو بھلا کون کرے، کیا زیادہ اچھا نہیں ہے کہ یہی کام محض ایک مسکراہٹ سے، پر جوش طریقے سے ہاتھ ملا کر یا گلے مل کر انجام دیا جائے، سو اب رفتہ رفتہ یہی طریقہ رواج پا رہا ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہو تا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

اور سچ بھی یہی ہے کہ ہر ہاتھ ملانے والا لازم نہیں کہ دوست بھی ہو۔ اکثر ہاتھ ملانے بلکہ اٹھ کر گلے تک ملنے والے کسی غرض یا کسی مفاد کی خاطر محض اوپری دل سے فریضہ انجام دے رہے ہوتے ہیں اور یہ رویہ اپر کلاس خصوصا کاروباری طبقے میں بے حد عام ہے۔ اس ضمن میں ایک معروف مفکر کا کہنا ہے کہ ''ہاتھ ملانے میں ہمیشہ ایک راز مخفی ہوتا ہے اور اس راز سے وہی لوگ بخوبی واقف ہوتے ہیں جو جسمانی زبان کو سمجھنے کا ہنر جانتے ہیں''۔



آج کی کاروباری دنیا میں اکثریت موقع شناس اور مفاد پرست ہے، بیش تر کامیاب افراد ہاتھ ملانے کو اعتماد' خلوص اور روشن خیالی کی علامت تصور کرتے ہیں اسی لیے اس عمل میں (خواہ دل مانے نہ مانے) ہر گز تامل نہیں کرتے حتی کہ اگر کوئی حریف بھی سامنے آ کھڑا ہو تو ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں۔

تعلقات عامہ کی ایک ماہر خاتون پیٹی ووڈ جو کہ برطانیہ کے بڑے بڑے کاروباری افراد کو بول چال کے طریقے سکھانے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے کی خدمات پر مامور ہیں کہتی ہیں کہ ''آپ کے تعلقات میں مضبوطی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ آپ کی ہتھیلی مقابل کی ہتھیلی سے مکمل طور پر مس نہ ہو''۔ ووڈ کہتی ہیں کہ ''کسی بھی شخص کو آپ سے پہلی ملاقات میںآپ کے بارے میں کوئی تاثر قائم کرنے میں محض نوے سیکنڈ لگتے ہیں اور اگر یہ نوے سیکنڈ وہ ہوں کہ جب آپ اس سے گرم جوشی سے ہاتھ ملا رہے ہوں تو یہ عمل آپ کے فائدے میں ہو گا۔



خصوصاً اگر آپ اس شخص سے کاروباری معاملات کاآغازکرنے جا رہے ہیں تویوں سمجھیں کہ یہ آپ کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے''۔ پیٹی ووڈ کا یہ بھی خیال ہے کہ ہزار ہا الفاظ کے استعمال سے کہیں زیادہ گہرے اثرات پرجوش طریقے سے ہاتھ ملا کر یا گلے لگ کر مرتب کیے جا سکتے ہیں۔ ویسے بھی یہ نسبتاً کم وقت لینے والا آسان طریقہ کار ہے۔ ایک اچھے کاروباری شخص کی پہچان یہی ہے کہ وہ اپنی پہلی ملاقات کا تاثر اتنا گہرا چھوڑے کہ مقابل اس سے دوبارہ ملنے پر مجبور ہو جائے۔ ہر کاروباری معاملے کے آغاز میں خواہ انجام کچھ بھی ہونے والا ہو ابتدائی نوے سیکنڈ بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ،کبھی کبھار تو یہی نوے سیکنڈ لکھ پتی اور کروڑ پتی بنا دیتے ہیں۔




اسی طرح ٹیکساس یونیورسٹی میں کمیونیکشن کی ایک پروفیسر ایلس فوسٹر بھی ''باڈی لینگویج'' کو دور حاضر کا ایک کامیاب نسخہ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ''آپ سر توڑ کوشش کے باوجود چند سیکنڈ میں ایسے جامع مدلل اور خوب صورت الفاظ جمع نہیں کر سکتے کہ جن کے بولنے سے آپ کو حسب منشا نتیجہ حاصل ہو سکے جبکہ چند سیکنڈ کا پرجوش مصافحہ آپ کو توقعات سے بڑھ کر نتائج دے سکتا ہے، وجہ یہ ہے کہ ہر شخص خواہ وہ کسی عہدے پر کیوں نہ ہو اپنے مقابل سے بھرپور توجہ اور خلوص چاہتا ہے جو آگے بڑھ کر ہاتھ ملا لینے سے یقینی طور پر ظاہر ہوتا ہے۔''



جب ہم گفتگو کے لیے الفاظ کا سہارا لیتے ہیں تو سننے والے ہمارے تاثرات آواز کے اتار چڑھائو، ہاتھوں کی حرکات، الفاظ کے چنائو غرضیکہ مکمل شخصیت کاجائزہ لے کر ہمارے بارے میں کوئی نہ کوئی رائے ضرور قائم کرتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی صورت میں ہم نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسے تاثرات کا اظہار کر جاتے ہیں جو ہمارے کاروباری مفاد میں نہیں ہوتے' اگرچہ باڈی لینگویج بھی خوش گوار اور ناگوار تاثرات کے اظہار میں کچھ کم کمال نہیں رکھتی لیکن اس زبان کی ایک خوبی یہ ضرور ہے کہ اس میں چہرے پر ماسک چڑھانے، لبادہ اوڑھ لینے یا وقت و حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرنے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں یعنی اگر ہم چاہیں کہ سامنے والے کو یہ محسوس نہ ہو کہ اگرچہ ہمیں اس کی آمد یا گفتگو بھلی نہیں لگ رہی تو بھی ہم صرف خاموش رہ کر جاتے وقت اسی جوش سے ہاتھ ملا لیں جیسے آتے وقت ملایا تھا تو یہ ایک زبردست کاروباری حربہ ہو گا۔

دراصل جسمانی اظہار ایک باقاعدہ فن ہے جس سے ابھی کم لوگ روشناس ہیں۔ اگر یہ طریقہ بھی عام ہو گیا تو اسے بھی زبانی اظہار کی طرح اہمیت حاصل نہیں رہے گی ۔ جو لوگ باڈی لینگویج کے فن سے آشنا ہیں وہ مقابل کی خفیف سی مسکراہٹ سے اس کے اندر کاحال پڑھ لیتے ہیں لیکن اس فن میں طاق افراد دوسرے کو بہ آسانی دھوکا بھی دے جاتے ہیں۔ ایک شخص کے زبان سے کہنے سے کہ ''میں بے حد قابل اعتماد ہوں'' اور ایک شخص کے تاثرات سے اس کے قابل اعتماد ہونے کا اندازہ لگانے میں بے حد فرق ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ الفاظ کی نسبت چہرہ زیادہ قابل اعتماد ہے بشرطیکہ آپ کو ''باڈی لینگویج'' سمجھنے میں مہارت حاصل ہو وگرنہ کسی بڑے دھوکے کا احتمال بھی ہوسکتا ہے۔

''باڈی لینگویج'' ایک بے حد قدیم فن ہے ۔اگرچہ اس حوالے سے باقاعدہ تحقیقات بیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوئیں کہ جب ''حرکات وسکنات کاایک تعارف ''کے عنوان سے رے برڈوسٹل کی ایک کتاب مارکیٹ میں آئی۔ اس کے بعد اس موضوع پر وقتا فوقتا کئی کتابیں منظر عام پر آتی اور مقبول ہوتی رہیں، خصوصاً نینی آر مسٹر ونگ کی ''انسانی چہرے کے تاثرات کو کیسے پہچانا اور دوسرے تک پہنچایا جا سکتا ہے'' نامی کتاب نے تو کافی شہرت حاصل کی۔

اس کتاب میں جسمانی اعضاء کی زبان کو تفصیل سے بیان کیاگیا تھا ۔ اس کتاب میں فطرت اور انسانی عادات کا بھی بڑا گہرا مطالعہ پیش کیا گیا ہے، مثال کے طور پر لوگ کس طرح دوسروں پر حاوی ہو جاتے ہیں، بعض لوگ پر خلوص نہ ہوتے ہوئے بھی کیسے خلوص کو ظاہر کرتے ہیں، بلاوجہ ہاتھ کو ضرورت سے زیادہ دبانے کا کیا مقصد ہے؟ آنکھ کے اشارے اور جسم کی مختلف حرکات کیا کہتی ہیں؟ ان سب کی وضاحت اس کتاب میں موجود ہے۔

باڈی لینگویج کے حوالے سے ایک معروف لکھاری فاسٹر نے اپنی کتاب میں غیر مبہم باڈی لینگویج کی بھی وضاحت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ''مجھے جسمانی اظہار کے عمل میں سب سے زیادہ خرابی مبہم طرز اظہار میں نظر آتی ہے۔ یہ طریقہ اکثر گومگو کی کیفیت میں لے جاتا ہے۔ اس سے شبہات اور بدگمانیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ میں ذاتی طور پر جسمانی اعضاء کی مبہم گفتگو کے سخت خلاف ہوں۔ آج جب کہ الفاظ سے زیادہ حرکات نوٹ کی جاتی ہیں جیسے جب آپ نوکری کے لیے انٹرویو دے رہے ہوتے ہیں تو بورڈ کے اکثر ارکان آپ کی گفتگو سے زیادہ آپ کی حرکات پر نظر رکھتے ہیں تو ایسے میں اظہار کا مبہم انداز اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ جو کہنا جو کرنا چاہتے ہیں کھل کر کہیں تاکہ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں کسی قسم کے شکوک جنم نہ لے سکیں۔

باڈی لینگویج کے ماہرین نے نوجوان اور کم عمر افراد کے لیے اس زبان یعنی باڈی لینگوئج کے ذریعے کامیابی کے حصول کے کئی طریقے بھی وضع کیے ہیں مثلاً ووڈ کہتی ہیں ''اگر آپ کہیں انٹرویو دینے جائیں تو ابتدائی دس سیکنڈ جب آپ چل کر جاتے ہیں اور بورڈ کے سامنے بیٹھتے ہیں ، بے حد اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس دوران آپ کا اعتماد بحال رہنا چاہئے، قدم وہیں پڑنے چاہئیں جہاں آپ کو رکھنے ہیں اور پھر نشست پر اطمینان سے جا کر بیٹھ جانا بہت ضروری ہوتا ہے۔

یہیں سے آپ کے اچھے مستقبل کی بنیاد پڑنے والی ہے۔ اسی طرح چہرے پر ہمہ وقت ایک دوستانہ دھیمی سی مسکراہٹ اعتماد کی بحالی کی ضامن ہے۔ ووڈ کہتی ہیں کہ ہمیشہ آمد اور رخصت کے وقت پر جوش انداز سے ہاتھ ملائیں، یہ کسی بھی کامیاب ملاقات کی ضمانت ہے۔اسی طرح ایک ماہر کا خیال ہے کہ ہمارے یہاں عموما کاندھے پر ہاتھ رکھنا پدرانہ طرز عمل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ ضروری نہیں، یہ عمل خود اعتمادی کا ثبوت ہے۔ جیسے کچھ لوگ آنکھ نہ ملا کر بات کرنے والے کے بارے میں تصور کرتے ہیں کہ شاید وہ احترام کے سبب ایسا کر رہا ہے مگر میرے نزدیک وہ شخص مشکوک ہے۔

بھلاکسی مقابل کے حد درجہ احترام کی کیا ضرورت ہے؟ ہاں اگر سامنے کوئی بزرگ یا خاتون ہو تو بات سمجھ میں آتی ہے۔فاسٹر اور ووڈ دونوں مشکوک یا مبہم اندازاظہار کے بارے میں ایک جیسی رائے رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص مسلسل مبہم باڈی لینگویج اختیار کئے رکھے تو اس میں کوئی قباحت نہیں کہ اس سے (نرمی سے سہی) یہ معلوم کر لیا جائے کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے ، خاص طور پر اگر کوئی مرد کسی خاتون سے یہ رویہ اختیار کرے تو ہو سکتا ہے کہ وہ غیر ارادی طور پر ایساکر رہا ہو اور اگر ارادتاً ایسا ہو تو سختی سے باز پرس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ ہر عورت کا بنیادی حق ہے۔

آج ''باڈی لینگویج'' دنیا بھر میں اظہار رائے کا ایک مستند طریقہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ تیسری دنیا کے ملکوں خصوصا پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش وغیرہ میں بھی یہ انداز رواج پا رہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے ایسے کئی پروگرام نشر ہوتے ہیں جن کے میزبان مدعا بیان کرنے کے لیے الفاظ سے کہیں زیادہ ہاتھوں اور چہرے کے تاثرات کا استعمال کرتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے تک یہ طریقہ اظہار مستعمل نہیں تھا جب کہ آج کامیاب میزبان کی پہچان تصور کیا جاتا ہے۔

اس طور سے وہ خود کو زیادہ بااعتماد ظہار کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں اور پھر جہاں ذرا زبان لڑکھڑائی ہاتھوں کی آزادانہ حرکت لفظوں کو سنبھالا دینے کے لیے موجود ہوتی ہے۔اس فن میں باقاعدہ مہارت کے لیے مختلف کتابوں اور انٹرنیٹ سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خود کو منوانے اور کامیابیوں کا زینہ طے کرنے میں یہ فن کافی مدد گار ثابت ہو رہا ہے البتہ ''مسکراہٹ'' اور گرم جوشی اس کے بنیادی ستون ہیں۔ اگر ان کے صحیح استعمال سے آشنائی ہو جائے تو باقی چھوٹی منزلیں بھی خود بہ خود طے ہو جاتی ہیں۔

ہمارا آپ کو مشورہ ہے کہ آج ہی سے لوگوں کے چہرے پڑھنے اور پھر اپنے اندازوں کی درستی جانچنے کی کوشش کیا کریں اور خود بھی کبھی کبھی الفاظ کے بغیر گفتگو کر کے دیکھیں کہ مقابل آپ کی بات کی حقیقت جان پاتا ہے یا نہیں۔ خود کو رفتہ رفتہ عادی بنائیں ، ایک وقت آئے گا کہ آپ نہ صرف فن میں طاق ہو جائیں گے بلکہ اس فن کے سبب کامیابی کا سفر بھی طے کریں گے کیونکہ بعض اوقات آپ کا ایک انداز یا اشارہ وہ کام کر دیتا ہے کہ جو ہزاروں الفاظ مل کر بھی نہیں کر سکتے ۔
Load Next Story