یہ صادق و امین امیدوار

انتخابی امیدوار اور ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن سے تو جھوٹ بولتے ہی آئے ہیں جو تحریری جھوٹ ہیں۔

عوام کے منتخب نمائندے ہر سال اپنے اثاثوں کی تفصیل الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں، جس کی مجبوری یہ ہے کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو الیکشن کمیشن عارضی طور پر ان کی اسمبلی رکنیت معطل کردیتا ہے اور اثاثوں کی تفصیل مقررہ وقت پر بہت کم ارکان جمع کراتے ہیں اور جب ان کی اسمبلی رکنیت معطل ہوجاتی ہے تو اثاثوں کی تفصیلات جمع کرا کر بحال کرا لی جاتی ہے۔

الیکشن کمیشن کا کام صرف اثاثوں کی تفصیلات کے حصول اور انھیں اپنے ریکارڈ کا حصہ بنانے تک محدود ہے ۔ اثاثوں میں کمی یا اضافہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر سال الیکشن کمیشن جمع کرائے گئے اثاثوں کی تفصیل اپنی ویب سائٹ پر ضرور ڈالتا ہے جو میڈیا پر آجاتی ہیں اور عوام کو پتا چل جاتا ہے کہ چارٹرڈ جہاز میں عمرہ کرنے والے عمران خان کے پاس تو اپنی گاڑی بھی نہیں ہے اور سوا چار سال وزیر اعظم رہ کر چھ سال سے کرپشن کے مقدمات بھگتنے والے یوسف رضا گیلانی اتنے غریب تھے کہ کروڑوں روپے کے محلات میں رہتے ہوئے بھی اپنی گاڑی نہیں خرید سکتے تھے۔

موجودہ امیدواروں کے جمع کرائے گئے اثاثوں کے ذریعے عوام کو یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ کراچی کا مہنگا اور پوش علاقہ بھی شہر کے غریب علاقوں کے برابر آگیا ہے جہاں کے وسیع ترین بلاول ہاؤس کی مالیت صرف تیس لاکھ روپے تک گر گئی ہے۔ زندگی میں پہلی بار الیکشن لڑنے کی مجبوری نہ ہوتی تو قوم کو نواز خاندان کی پاکستان میں موجود ملکیت کا پتا نہ چلتا کیونکہ وہ پہلے ہی بتا چکاہے کہ اس کی پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں ہے۔

پاکستان میں مظفرگڑھ کا صرف ایک امیدوار ہی منفرد ہے کہ جس کا باپ پاکستان کا صدر رہا نہ وزیر اعظم مگر اس کے اثاثے تین کھرب سے زائد ہیں جو اس نے چھپائے نہیں ظاہر کیے ہیں ۔

ملک کے بہت سے مشہور دولت مند سیاستدانوں نے اس بار انتخابات میں اس لیے حصہ نہیں لیا کہ انھیں اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانا پڑتیں، اس لیے ہر الیکشن میں کامیاب ہوکر اقتدار میں رہنے والے خیبر پختون خواہ کے ایک خاندان نے الیکشن لڑنے سے گریز کیا کیونکہ الیکشن لڑنے پر انھیں الیکشن کمیشن میں اپنے اپنے ان گنت اثاثوں کی تفصیلات جمع کرانا پڑتیں اور پہلی بار حلف نامہ دینا پڑتا جو سپریم کورٹ میں جمع ہوتا اور غلط بیانی بلکہ بیٹے سے لی جانے والی تنخواہ چھپانے پر نواز شریف کی طرح نااہل ہوجانے کا بھی خطرہ تھا اس لیے ایسے سونے سے پرہیز ہی بہتر سمجھا گیا جس کے پہننے سے کان ٹوٹنے کا ڈر ہوتا۔


ملک میں ایسے اسمگلروں، منشیات فروشوں اور غیر قانونی کام کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں جو مشہور ہیں نہ سیاست دان اور وہ کبھی بھی نام کے ساتھ سامنے آتے ہیں نہ خود الیکشن لڑتے ہیں مگر اپنے پیسوں سے سیاسی خواہش مندوں کو الیکشن جتوا کر اقتدار کے ایوانوں میں ضرور بھیج رہے ہیں ۔ ایسے لوگوں میں غیر قانونی کام کرنے والے ہی نہیں بلکہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ کنٹریکٹر بھی ہیں جو ملی بھگت سے بڑے بڑے ٹھیکے لیتے ہیں۔

عملی طور پر سڑکیں بنوانے کی بجائے فائلوں میں کروڑوں روپے مالیت کی سڑکیں بناتے ہیں جن کا کہیں وجود ہو نہ ہو انھیں جعلی بلوں کی ادائیگی ضرور ہوجاتی ہے کیونکہ ان کے منتخب کرائے گئے، ارکان اسمبلی ان کے تحفظ اور سفارشوں کے لیے اقتدار میں موجود ہوں تو انھیں کون پوچھ سکتا ہے ۔

عمران خان نے تو بلاول ہاؤس کراچی سے کہیں چھوٹا اپنا گھر بنی گالہ میں ایک کروڑکا ظاہر کیا ہے جب کہ بلاول زرداری نے بلاول ہاؤس کی مالیت 30 لاکھ لکھ کر سب کو حیران کیا ہے جو اربوں کی ملکیت ہے۔ بنی گالا ہی کروڑوں روپے کا ہے مگر وزارت عظمیٰ کے حصول کے خواہش مند صادق و امین ہونے کے دعویداروں کو پوچھ گچھ اور احتساب کے خوف نے بھی غلط بیانیوں سے نہیں روکا۔

کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں 80 گز کا پلاٹ بھی ایک کروڑ میں نہیں ملتا تو جیالوں کا سیاسی کعبہ بلاول ہاؤس صرف 30 لاکھ کا کیسے ظاہر کیا گیا ہے؟

انتخابی امیدوار اور ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن سے تو جھوٹ بولتے ہی آئے ہیں جو تحریری جھوٹ ہیں اور سپریم کورٹ میں تو تحریری حلف نامے جمع ہوئے ہیں ، جن کی اگر تحقیقات کرالی گئی اور کم رقم کی ظاہر کی گئی جائیدادوں کی مارکیٹ ویلیو منگوالی تو صادق و امین قرار دیے گئے سیاستدان قوم کو کیا جواب دیں گے۔ بلاول نے تو اپنی لکھی تقریر کی طرح دوسروں کی لکھی مالیت بتا دی مگر کوئی بھی تسلیم نہیں کر رہا تو ان کی سیاسی تقریروں پر کون یقین کرے گا؟
Load Next Story