کمزور الیکشن کمیشن کے ساتھ شفاف انتخابات کیسے
الیکشن کمیشن خود ہی کسی سختی کے موڈ میں نہیں ہے۔
پاکستان میں کمزور جمہوریت کی ایک بڑی وجہ کمزور الیکشن کمیشن ہے۔ آج بھی جب ملک میں انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ امیدوار میدان میں آگئے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے جلسے جلوس شروع کر دیے ہیں۔ ایسے میں مجھے الیکشن کمیشن ایک کمزور لاچار اور یتیم سا ادارہ لگتا ہے۔ اس سارے عمل میں مجھے الیکشن کمیشن ایک خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں لگ رہا ۔
سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کیوں کمزور ہے؟ کیوں انتخابات میں الیکشن کمیشن کی رٹ نہیں مانی جاتی؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ لیکن ان تمام وجوہات کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کی نا اہلی بھی ایک بڑی وجہ ہے۔ الیکشن کمیشن خود ہی کسی سختی کے موڈ میں نہیں ہے۔ بس مکھی پر مکھی ماری جا رہی ہے۔ معمول کا کام کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں کون اس کی بات مانے گا۔ سب مذاق ہی اڑائیں گے جو اڑایا جا رہا ہے۔
اب دیکھ لیں نئے الیکشن قواعد کے تحت ساری سیاسی جماعتیں پانچ فیصد ٹکٹیں خواتین کو دینے کے پابند تھیں۔ لیکن الیکشن کمیشن اس ایک ضابطے پر بھی
عملد رآمد کرانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے کسی نہ کسی شکل میں اس ضابطے اور قاعدے کا مذاق اڑایا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھتا تھا کہ یہ ضابطہ غلط ہے تو اسے الیکشن سے پہلے ختم کرنے کے لیے قدم اٹھانا چاہیے تھا۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیا گیا تواس پر مکمل عملدرآمد کیوں نہیں کرایا گیا۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پر عملدرآمد کرا کر کونسا انقلاب آجانا تھا۔ وہی بڑے گھرانوں کی خواتین نے آگے آنا تھا۔ انھی کو ٹکٹ ملنے تھے۔ کسی جماعت نے کبھی اپنی کسی کارکن خاتون کو جنرل سیٹ پر ٹکٹ دیا ہے۔ یہی کہہ دیا جاتا ہے کہ ان کی حلقہ میں کوئی پوزیشن نہیں ہے۔ یہ سیٹ جیت نہیں سکتیں۔
بڑے بڑے سیاسی گھرانے بھی نہایت مجبوری میں اپنی خواتین کو آگے لاتے ہیں۔ جن کی بیگمات اور بیٹیاں انتخابات میں جنر ل سیٹیوں پر حصہ لے رہی ہیں۔ وہ اسی صورت میں ہے جب گھر کے مرد کسی نہ کسی وجہ سے انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔ حالیہ انتخابات میں توکارکن خواتین پر مخصوص سیٹیوں کے دروازے بھی بند ہو گئے ہیں۔ وہاں بھی بڑے گھرانوں کی خواتین کا ہی قبضہ ہو گیا ہے۔ یہ قبضہ پہلے بھی تھا لیکن اس بار اس کی شرح پہلے سے بھی بڑھ گئی ہے۔
لیکن پھر بھی قانون ہے۔ یہ قانون سیاسی جماعتوں نے خود ہی بنایا تھا۔ اور اب سیاسی جماعتوں خود ہی اس کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ جب سب مل کر خلاف ورزی کر رہی ہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔ کیا صرف اس ایک خلاف ورزی کو وجہ بنا کر کسی بھی سیاسی جماعت کے سارے امیدواران کو نااہل کیا جا سکتا ہے۔
آپ کہیں گے کہ اگر الیکشن کمیشن ایسا کر بھی دے تو اس فیصلے کو کون قبول کرے گا۔ سب کہیں گے اب جب الیکشن کا بگل بج چکا ہے اس چھوٹی سی خلاف ورزی کو وجہ بنا کر کسی سیاسی جماعت کو باہر کرنا درست نہیں ہے۔ اس کو بھی کسی اسکرپٹ کا نام دے دیا جائے گا اور کہا جائے گاکہ الیکشن کمیشن اسکرپٹ کے تحت ملک میں جمہوریت کو کمزور کر رہا ہے۔
اسی طرح ملک میں انتخابی مہم کے دوران پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی ہے۔ دفاتر کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ بینر زاورپوسٹر زکی بھرمار ہو گئی ہے۔ کارنر میٹینگز اور انتخابی دفاتر کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان سب کاموں میں انتخابی قوانین کی کھلم کھلا دھجیاں اڑائی جا رہی ہے۔ زبان زد عام ہے کہ جو جتنا پیسہ لگائے گا اس کے جیتنے کے اتنے ہی امکانات ہے۔ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ انتخابات اب پیسے کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن الیکشن کمیشن خاموش ہے۔ کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں، ایک کھلی آزادی۔
الیکشن کمیشن کی نہ صرف انتخابات پر گرفت کمزور ہے بلکہ انتخابی ضابطہ خلاق کے عملدرآمد میں بھی اس کا کوئی کردار نظر نہیں آتاہے۔پتہ نہیں کیوں الیکشن کمیشن کی امیدواران اور سیاسی جماعتوں کے خلاف کوئی بھی مضبوط ایکشن لیتے ہوئے ٹانگیں کیوں کانپتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور الیکشن کمیشن نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ الیکشن کمیشن کی توجہ الیکشن قواعد پر پابندی پربھی آجائے۔ تاکہ جمہوری نظام میں قانون کی حکمرانی کو ممکن بنایا جا سکے۔
آج الیکشن کمیشن ایک خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا اس سارے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسرے اداروں نے ملک میں شفاف انتخابات کی ذمے داری اٹھا لی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں شفاف اور غیر جانبدرانہ انتخابات کی ذمے د اری بھی عدلیہ اور فوج پر آگئی ہے۔ لیکن ہمیں سوچنا ہو گا کہ یہ عدلیہ اور فوج کا کام نہیں ہے۔ یہ کام کرنے سے ان دونوں اداروں کو کوئی نیک نامی نہیں ملی گی۔ بلکہ ان اداروں کو سیاسی دلدل میں دھکیلنا درست نہیں ہے۔ پہلے ہی ایک آدھ واقعہ کو سیاسی جماعتوں نے غلط رنگ دیا ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہو گی کہ نہ تو کسی نگران حکومت کے قیام سے ملک میں شفاف اور جمہوری انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ نہ ہی فوج کی نگرانی میں شفاف و غیر جانبدارنہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ نہ ہی عدلیہ کی انتخابی معاملات کی نگرانی سے کوئی شفاف انتخابات ممکن ہیں۔ یہ کام الیکشن کمیشن کا ہے اور الیکشن کمیشن کو ہی کرنا ہو گا۔ جب تک الیکشن کمیشن یہ بات نہیں سمجھے گا کہ اسے اپنا کام خود کرنا ہوگا۔ ہر حلقہ میں الیکشن قوانین کی پابندی کرانے کا وہ خود ذمے دار ہے۔ تب تک ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت ملک میں نگران حکومتیں قائم ہیں۔لیکن ایسا نہیں ہے دراصل اس وقت ملک میں الیکشن کمیشن کی حکومت ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ الیکشن کمیشن کو خود یہ یقین نہیں کہ ملک میں اس کی حکومت ہے۔ اور اس کی اسی کمزوری کی وجہ سے یہ حکومت دوسرے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔ ورنہ ملک میں الیکشن کمیشن کی مرضی کے بغیر اس وقت پتابھی نہیں ہل سکتا۔ کوئی تبادلہ نہیں ہو سکتا۔ کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ اس سارے معاملہ سے الیکشن کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ملک کا مفاد اسی میں ہے کہ الیکشن کمیشن ملک میں شفاف و غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے باگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لے۔ تا کہ انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کو ختم کیا جا سکے۔ آپ دیکھ لیں چیف جسٹس ایک حلقہ میں گئے ہیں تو کتنا شور مچ گیا ہے۔
یہ انتخابات کا وقت ہے ،لوگوں کی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ تمام اداروں کو مل کر الیکشن کمیشن کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھانے کی جدو جہد کرنی چاہیے۔ ایک کمزور الیکشن کمیشن سب کو لے بیٹھے گا۔ اس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ ہمارے قومی اداروں کے لیے بدنامی کا باعث بن جائے گا کیونکہ جب الیکشن کمیشن کام نہیں کرے گا تو باقی اداروں کو کرنا پڑے گا۔ پھر جمہوری نظام پر سوالیہ نشان پیدا ہوںگے۔
الیکشن کمیشن اس وقت کیا کر رہا ہے۔ جب کہیں انتخابات کے حوالے سے شکایات پیدا ہوتی ہیں تو یہ بیان آجاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے نوٹس لے لیا۔ لیکن کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس نوٹس لینے کے بعد کیا ہوا ۔ یہ نوٹس کے بعد کہانی ختم کیوں ہو جاتی ہے۔ اس پربھی غو رکرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی حال ہی میں الیکشن کمیشن نے چند بڑی شکایات پر نوٹس لیے ہیں۔ کم از کم ان پر ہی کوئی کارروائی کر دیں تا کہ یہ تو معلوم ہو سکے کہ نوٹس سے آگے بھی کچھ ہو سکتا ہے۔