قرضے ہڑپ کرنے والوں کی گرفت
چیف جسٹس عوامی مفاد میں بہت سارے معاملات کا از خود نوٹس لے رہے ہیں جس میں قرضے ہڑپ کرنے والوں کی گرفت بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک اور قوم کا ایک ایک پیسہ وصول کریں گے۔ انھوں نے واضح الفاظ میں کہاکہ قرض معاف کرانے والے رقم ادا کریں یا پھر مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ دلاسکے تو کرسی پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں۔ انھوں نے کہاکہ قرضے معاف کرانے والوں کے پاس دو آپشن ہیں۔
پہلا آپشن یہ ہے کہ وہ مقدمات کا سامنا کریں۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ 75 فی صد رقم قوم کو واپس کریں۔ چیف جسٹس نے کھلے الفاظ میں کہاکہ قوم کا پیسہ سب کو واپس کرنا ہوگا۔ بالکل درست ہے۔ قوم کا پیسہ نہ تو مال غنیمت ہے اور نہ کسی کے باپ دادا کی جاگیر۔ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے، اسے ہڑپ کرنے کا کسی کو بھی کوئی حق نہیں۔ حکمرانوں نے قوم کے نام پر بیرونی قرضے لے کر ملک کے ہر شہری کو ایک لاکھ 17 ہزار روپے کا مقروض کردیاگیا ہے۔
بے شک دنیا کا نظام قرضوں پر چل رہا ہے ۔ افراد سے لے کر ملکوں تک ہر جگہ قرضے لیے جاتے ہیں ۔ تاہم تیسری دنیا کے ممالک میں یہ روش عام ہے کہ حکمران ملک وقوم کے نام پر قرضے لے کر ہڑپ کر جاتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے غریب عوام قرضوں قرضوں کے بوجھ تلے بری طرح دبتے چلے جاتے ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں یہ روش شروع سے ہی بہت عام ہے جس کے نتیجے میں ہمارے حکمران امیر سے امیر تر اور بے چارے عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اسی غلط روش نے حکمرانوں کو مالا مال اور عوام کو کنگال کردیا ہے۔ قرضوں کی معافی پاکستان میں کرپشن کی اصل جڑ ہے۔ اس لعنت کے ذریعے پاکستان کی عوام قرضوں میں بری طرح جکڑتے چلے جا رہے ہیں اور ان کی معاشی حالت روز بروز بد سے بد تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
عوام کا مال ہڑپ کرنے کی عادت کی وجہ سے ہمارے سیاستدانوں نے سیاست کو خدمت کے بجائے کاروبار بنا دیا ہے۔ اسی لیے وہ الیکشن میں روپیہ پانی کی طرح بہاتے ہیں اور نوٹ کے بدلے ووٹ خریدتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک کے بھولے بھالے عوام سے جھوٹے وعدے بھی کرتے ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد بے چارے عوام کی کوئی خبر بھی نہیں لیتے اور ان کی طرف کبھی مڑ کر دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے۔
اگر قوم کا معاشی نظام انصاف کے اصولوں پر قائم نہ ہو تو پھر اس کی حالت خراب سے خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہاں طرح طرح کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں، اس کا سب سے برا اور پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امیر آدمی امیر تر اور غریب آدمی غریب سے غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور عدم مساوات کی خلیج گہری سے گہری ہوتی چلی جاتی ہے۔
اس عدم مساوات کی وجہ سے معاشرے میں طرح کے مسائل جنم لینے لگتے ہیں اور بے چینی میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی صورتحال کی وجہ سے طرح طرح کے جرائم بھی جنم لیتے ہیں جس سے معاشرے کا امن، سکون بھی غارت ہونے لگتا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سی خامی اور خرابی ہے جس کی وجہ سے امیر لوگ راتوں رات امیر سے امیر تر ہورہے ہیں جب کہ اس کے برعکس دن رات محنت کرنے والے اور اپنا خون پسینہ ایک کرنے والے دن بدن نہ صرف غریب سے غریب تر بلکہ دو روٹی کے بھی محتاج ہوتے جارہے ہیں۔
بے چارے غریب آدمی کی یہ مجال بھی نہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ کسی بینک یا مالیاتی ادارے سے قرضہ حاصل کرسکے اور اگر کسی طرح وہ یہ قرضہ حاصل بھی کرے تو اسے واپس نہ کرنا یا تاخیر سے واپس کرنا اس کے بس کی بات نہیں کیونکہ ایسی صورت میں اس کا جان چھڑانا ناممکن ہوگا اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کے نتیجے میں اس وقت پاکستان کے عوام کے بچے بچے کا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات 268 کھرب 15 ارب روپے کی بلند ترین سطح پر موجود ہیں۔ ن لیگ کی حکومت کے دوران 2013 سے 2017 کے صرف چار سال کے عرصے میں پاکستان کے بیرونی قرضوں اور واجبات میں 47 فی صد اضافہ ہوا۔ سابق حکومت نے محض ایک سال کی مدت میں اندرونی ذرایع سے 12 کھرب 45 ارب روپے کے نئے قرضے حاصل کیے جوکہ مفت کی مے پینے کے مترادف ہے۔ یہ فاقہ مستی ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی۔ صورت حال انتہائی تشویشناک اور توجہ طلب ہے۔
چیف جسٹس کا یہ کہنا کہ وطن عزیز کا ہر شہری ایک لاکھ 17 ہزار کا مقروض ہے حالات کی سنگینی کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ وہ قرض ہے جو پاکستان کے شہریوں نے کبھی نہیں لیا اور نہ ہی اس سے ان کا کوئی تعلق اور واسطہ ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ تمام قرضے ہمارے حکمرانوں نے محض اپنی عیاشیوں پر اڑانے کے لیے ملک و قوم کے نام پر حاصل کیے تھے۔
چیف جسٹس عوامی مفاد میں بہت سارے معاملات کا از خود نوٹس لے رہے ہیں جس میں قرضے ہڑپ کرنے والوں کی گرفت بھی شامل ہے۔ ہمارے خیال میں چیف صاحب کا یہ حوصلہ مند اقدام ایک عظیم قومی خدمت ہے۔ امید ہے کہ انھوں نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ اسے اس کے منطقی انجام تک پہنچاکر ہی دم لیںگے اور قومی دولت لوٹنے والوں اور عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے والوں کو ایسی قرار واقعی سزائیں دلوائیںگے کہ آیندہ کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہیں ہوگی۔