ولی عہدی نظام کے خلاف بغاوت
عوام جو اپنے مسائل حل نہ ہونے سے مشتعل بیٹھے ہیں اس ولی عہدی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔
پاکستان میں اشرافیہ نے موروثی سیاست کا جوکلچر ایجاد کیا تھا وہ بڑھتا پھیلتا ہوا اب مڈل کلاس کے ساتھ ساتھ مذہبی جماعتوں تک آگیا ہے ۔یوں دیکھا جائے تو سارے ایک ہی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ نے تو اس کلچر کو باضابطہ ولی عہدی نظام میں بدل دیا ہے جیسے پرانے زمانے میں بادشاہی نظام میں ولی عہدی کا کلچر رائج تھا۔
یہ موروثیت کسی نہ کسی شکل میں آج بھی چلی آ رہی ہے۔ اس غیر جمہوری کلچر کی وجہ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں موجود قابل اور جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے والے سینئر رہنماؤں کے حق کی کھلی خلاف ورزی اور توہین ہو رہی تھی ،اس زیادتی کی وجہ سے ہی سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوتا ہے اور وہ کئی کئی حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں جاری اس غیر جمہوری کلچر کے خلاف سیاسی جماعتوں میں موجود سینئر رہنماؤں میں بے چینی بڑھ رہی تھی، آخر کار اس کلچر کے خلاف پہلا قدم مسلم لیگ (ن) کے ممتاز اور سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان نے اٹھایا اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے مریم نواز کی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔وہ آج کل مسلم لیگ ن کی قیادت کے خلاف تندوتیز بیانات جاری کر رہے ہیں اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔ چوہدری نثار مسلم لیگ ن کے اقتدار کے دوران وزیر داخلہ رہے ہیں۔
چوہدری نثار نواز شریف کے سینئر ساتھی ہیں اور 36 سال سے نواز شریف کے شانہ بہ شانہ کام کر رہے ہیں، ایسے سینئر رہنماؤں کے سروں پر محض بیٹی ہونے کی وجہ میاں صاحب نے سینئر ساتھیوں کے سر پر سوار کرادیا تھا، یہ کس قدرافسوس کی بات ہے کہ عشروں پارٹی کی خدمت کرنے والوں کے سر پر نوجوان اور ناتجربہ کار کارکنوں کو محض اس لیے ولی عہد بنادیا جائے کہ وہ حکمرانوں کے بیٹے بیٹیاں ہیں اور سینئر رہنماؤں کو مجبور کردیا جائے کہ وہ ان نام نہاد ولی عہدوں کے سامنے اپنا سر جھکائیں، ان کی تعظیم کریں، اس غیر جمہوری غیر اخلاقی کلچر کے خلاف سینئر رہنماؤں میں ناراضگی اور بے چینی بڑھ رہی تھی جس کا اظہار چوہدری نثار نے کردیا اور واضح طور پر اعلان کردیا کہ میں مریم نواز کو قائد نہیں مانتا وہ اپنے اس موقف پر ابھی تک مضبوطی کے ساتھ قائم ہیں۔
ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ مسلم لیگ کے ایک اور سینئر رہنما زعیم قادری نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو وارننگ دی کہ لاہور حمزہ شہباز یا ان کے باپ کی جاگیر نہیں، لاہور ہم سب کا ہے کسی ولی عہد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ لاہور پر اپنی بالادستی کا اظہار کرے۔
واضح رہے کہ شریف برادران لاہورکو اپنی نو آبادی سمجھتے آرہے تھے اور لاہور کے عوام کی حمایت کے نام پر پنجاب پر اپنی بالادستی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ زعیم قادری نے مسلم لیگ (ن) سے اپنا رشتہ توڑتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ آزاد رکن کی حیثیت سے 2018 کے انتخابات میں حصہ لیں گے اور مسلم لیگ (ن) کو بتا دیں گے کہ ہم ہاری یا کسان نہیں ہیں کہ ہمارے سروں پر جونیئر لوگوں کو بٹھا دیا جائے۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کی قیادت ہمیشہ جمہوریت کی بالادستی کے دعوے کرتی آرہی ہے لیکن ان کی عملی سیاست جمہوریت کے اصولوں سے میل نہیں کھا رہی ہے، انھیں اپنی پارٹی کو جمہوری اصولوں کے مطابق لانا چاہیے تھا اور کارکنوں کو ان کا حق دینا چاہیے تھا تاکہ ان میں محرومی کے جذبات پیدا نہ ہوتے اور وہ بڑھ چڑھ کر سیاسی عمل میں حصہ لیتے اسی طریقے سے اسٹیبلشمنٹ کا مقابلہ بھی کیا جا سکتا تھا لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔
اب حالات تیزی سے شریف فیملی کے خلاف جا رہے ہیں 'کرپشن سمیت کئی الزامات میں میاں فیملی کے خلاف کئی کیس اعلیٰ عدالتوں میں اور نیب میں زیر سماعت ہیں' ایسے نازک وقت میں پارٹی کو متنازعہ بنانا اور سینئر دوستوں کو ناراض کرنا کسی بھی طور عقل مندی اور تدبرکا رویہ نہیں کہلا سکتا۔ عوام جو اپنے مسائل حل نہ ہونے سے مشتعل بیٹھے ہیں اس ولی عہدی نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔اس کا بہترین طریقہ الیکشن ہے اور ہو سکتا ہے کہ عوام اس سارے معاملے کو سمجھیں اور موروثیت کے خلاف ووٹ کاسٹ کریں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو ایک جمہوری ملک قرار دیا تھا اورکہا تھا کہ پاکستان کی بقا جمہوریت سے وابستہ ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کو جمہوریت سے دور لے جایا جاتا رہا اور اب صورتحال یہ ہے کہ تقریباً ہر سیاسی اور مذہبی جماعت میں تیزی سے موروثیت کا کلچر جڑیں پکڑ رہا ہے پارٹیوں میں میرٹ سینیارٹی اہلیت کے بجائے ولی عہدی کے نظام کی حمایت اور سرپرستی کی جا رہی ہے۔ اس کلچر میں مڈل کلاس کی پارٹیاں اور مذہبی جماعتیں بھی ملوث ہو رہی ہیں اور باپ کی جگہ بیٹے کو رہنما بناکر جمہوریت کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
پاکستان کی اشرافیائی جماعتوں میں تو ولی عہدی نظام اتنی گہری جڑیں پکڑ چکا ہے کہ یہاں جمہوری کلچر معدوم ہوتا جا رہا ہے اور باپ کی جگہ بیٹوں یا بیٹیوں کو آگے لایا جا رہا ہے۔ ساری دنیا میں جمہوری کلچر مضبوط ہو رہا ہے اور جمہوری نظام کے ذریعے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے غالباً پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ولی عہدی نظام کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ ہمارے ملک میں جمہوریت بھی اشرافیائی ہے اور ہماری جمہوریت میں 70 سال سے اشرافیہ کی بالادستی کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں شاہانہ طرز حکومت کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ہمیں تحریک پاکستان کے دور میں تلاش کرنا پڑے گا۔
1948 میں جب تحریک پاکستان عروج پر تھی تو ہماری زمینی اشرافیہ کو یقین ہوگیا کہ اب ملک کو تقسیم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ بدقسمتی سے جو علاقے پاکستان میں شامل ہونے والے تھے وہ انتہائی پسماندہ تھے یہاں قبائلی اور جاگیردارانہ نظام مضبوط تھا پاکستان کی وڈیرہ شاہی کو یقین ہوگیا کہ اب ملک تقسیم ہونے جا رہا ہے تو وڈیرے اور جاگیردار مسلم لیگ میں شامل ہونے لگے اور ہوشیاری سے انھوں نے مسلم لیگ میں اپنی پوزیشن مضبوط بنا لی جب ملک تقسیم ہوگیا تو مسلم لیگ پر وڈیروں اور جاگیرداروں کی گرفت مضبوط ہوچکی تھی۔
قائد اعظم کی زندگی تک انھیں پر پرزے نکالنے کا موقعہ نہ ملا قائد اعظم کے انتقال کے بعد ان کے لیے اقتدار کا راستہ صاف ہوگیا لیکن وزیر اعظم لیاقت علی خان ان کی آنکھوں میں کھٹک رہے تھے کیونکہ وہ وڈیرہ شاہی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے سو انھیں راولپنڈی میں قتل کرادیا گیا۔
لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اشرافیہ کا راستہ صاف ہوگیا اور جمہوریت کا نام لینے والی یہ اشرافیہ فوجی حکومتوں کا حصہ بنتی رہی جس طرح پانی کے بغیر مچھلی زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح اقتدار کے بغیر اشرافیہ زندہ نہیں رہ سکتی جب اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط ہوگئی تو اس نے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اقتدار کی راہ کھولنے اور مضبوط کرنے کے لیے ولی عہدی نظام کو مضبوط بنانا شروع کیا لیکن ولی عہدی نظام کے خلاف بغاوت جاری ہے اور اب ولی عہدی نظام کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا۔