اتنا مہنگا کمر بند پاگل ہے کیا
جب میں ایک موچی سے جوتے کی مرمت کراتا ہوں تو اسے اپنی مرضی سے دس، بیس، تیس روپے دے کر سمجھتا ہوں کہ یہ بھی زیادہ ہیں۔
گذشتہ برس مئی کی بات ہے۔کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں ایک فلیٹ کے مکین ایاز نے کچرا چننے والے ایک افغان بچے گل آغا سے کہا کہ اگر وہ فلیٹ کی صفائی کر دے تو پیسے ملیں گے۔اس بچے نے صفائی کر دی۔فلیٹ کے مکین نے اسے دس روپے دینے کی کوشش کی۔بچے نے پچیس پر اصرار کیا۔فلیٹ کے مکین ایاز نے گولی مار دی۔عزیز آباد تھانے میں قتل کا مقدمہ درج ہوگیا۔
یہ تو ایک انتہائی نوعیت کا واقعہ ہے مگر کبھی ہم نے سوچا کہ عام زندگی میں ہمارا رویہ اپنے سے ابتر اور اپنے سے برتر لوگوں سے کیسا مختلف ، مضحکہ خیز و سنگدلانہ ہوتا ہے۔کبھی ہم نے خود سے پوچھا کہ ہم اپنی طاقت کا نخرہ انھیں ہی کیوں دکھاتے ہیں جو ضرورت مند ہیں اور سخاوت کا مظاہرہ انھی لوگوں کے ساتھ کیوں کرتے ہیں جنھیں ہماری سخاوت کی ہرگز ضرورت نہیں اور وہ سخاوت و کاروبار کو ایک ہی شے سمجھتے ہیں۔
جب میں ایک موچی سے جوتے کی مرمت کراتا ہوں تو اسے اپنی مرضی سے دس ، بیس ، تیس روپے دے کر سمجھتا ہوں کہ یہ بھی زیادہ ہیں اور جب میں کسی برانڈڈ دوکان میں جاتا ہوں تو وہاں یہ سوچ کر بھاؤ تاؤ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ کاؤنٹر پر کھڑی سیلز گرل یا آس پاس ٹہلتے گاہک مجھے غریب،گنوار یا نودولتیا نہ سمجھ لیں۔لہذا میں چپ چاپ مسکراتے ہوئے وہی قیمت ادا کرتا ہوں جو کسی جوتے یا جیکٹ کے ساتھ لٹک رہے فینسی ٹیگ پر لکھی ہے۔
میرے محلے میں ایک ادھیڑ عمر آدمی برسوں سے چھولے چاٹ کا ٹھیلہ لگا رہا ہے۔وہ دوپہر کو آتا ہے اور رات تک ٹھیلے پر کھڑا رہتا ہے۔چند ماہ پہلے اس نے مہنگائی کی مجبوری میں چاٹ کی پلیٹ کی قیمت تیس روپے سے بڑھا کر پچاس روپے کر دی۔اور اگلے چند روز تک اسے کچھ ایسی باتیں سننا پڑیں۔
دماغ تو ٹھیک ہے ایک دم بیس روپے بڑھا دیے۔ہاں بھئی یہاں تو ہر کوئی من مانی کے لیے آزاد ہے۔قیمت تو بڑھا دی پلیٹ میں چھولے بھی تو بڑھاؤ۔اب کہیں کل کلاں سو روپے فی پلیٹ مت مانگ لینا۔تمہارا نہ تو بجلی کا خرچہ ہے، نہ دوکان کا کرایہ ، تم تو پولیس بھتے کے سوا کوئی سرکاری ٹیکس بھی نہیں دیتے پھر بھی تیس کی پلیٹ پچاس روپے کی کردی۔ویسے آپس کی بات ہے ایک پلیٹ میں تمہیں کتنا منافع ہو جاتا ہوگا۔دو تین ہزار تو کما ہی لیتے ہوگے دن بھر میں۔گویا پچاس روپے کی چاٹ کھائی اور سو روپے کی باتیں سنا ڈالیں۔
اب یہی طعنہ زن بحیثیت افلاطون کسی بہتر سی خاتون کے ساتھ ایک بہتر سے ریسٹورنٹ میں داخل ہوتا ہے۔اس کا انداز ہی بدل جائے گا۔ویٹر اس سے اور وہ ویٹر سے نرم لہجے میں بات کرے گا۔تم کیا لوگی ؟ اوکے۔اچھا ایک پاستا کر دو، ایک بیف ہوائین اسٹیک، میڈیم نہیں ویل ڈن، اچھا میڈیم کر دو، ڈرنکس ؟ مجھے تو فریش لائم دے دو اور تم ؟ اوکے ایک مارگریٹا مگر آئس زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔اسٹارٹر؟ کالاماری ہے ؟ نہیں ہے ، ارے ایسا ریسٹورنٹ ، ایسا ایمبیانس اور کالاماری سیلیڈ نہیں ، اوکے اسٹارٹر ڈراپ کر دو۔
قصہ مختصر ادائیگی کا وقت آ گیا۔اب یہ نہیں کہے گا بھیا کتنا بل بنا۔بلکہ کہے گا چیک پلیز، اوکے نہیں نہیں میرے والٹ میں ہیں۔پانچ ہزار تین سو پلس ٹیکس پلس ٹین پرسنٹ سروس چارجز ٹوٹل چھ ہزار دو سو پچاس۔سویٹ ہارٹ تمہارے پاس دو تین سو روپے کا چینج ہے، ویٹر کو خالی نہیں بھیجنا چاہیے کیا سوچے گا ، یہ لو، اینڈ بائی دا وے فوڈ از ایکسیلنٹ بٹ اے لٹل ایکسپینسو ، اینی ویز۔
دونوں گاڑی میں بیٹھے اور پہلے ریڈ سگنل پر پہنچے۔گجرہ لے لو صاب تازہ چنبیلی کا گجرہ ہے، بیگم صاحبہ کے ہاتھوں میں اچھا لگے گا صاب۔کتنے کا ہے؟ چالیس روپے کی جوڑی صاب ؟ ابے پاگل ہو گیا ہے کیا ، بیس روپے کے دو دے رہا ہے تو دے دے ؟ نہیں صاب بیس نہیں آپ تیس دے دو۔اچھا یہ لے تیس روپے تو بھی کیا یاد کرے گا۔
تو یہ ہے ہمارا رویہ۔جس موچی ، چاٹ والے ، کار کا شیشہ صاف کرنے والے ، سگنل پر کھڑے خواجہ سرا ، ستر بہتر سالہ بھکاری ، خوانچہ فروش ، کمربند فروش ، جنتری فروش اور غبارے بیچنے والے کا گھر روز کے روز کمانے سے جڑا ہوا ہے، اس سے ہم دس بیس تیس روپے پر بھی سودے بازی کرتے ہیں، اتنا مہنگا بیچنے پر خوفِ خدا یاد دلاتے ہیں، لالچی ہونے کے طعنے دیتے ہیں، عین اس وقت مہنگائی کنٹرول کرنے میں ریاست کی ناکامی بھی یاد آجاتی ہے۔مگر جس ریسٹورنٹ ، بوتیک ، ہئیر ڈریسنگ اسٹوڈیو ، کافی و کیک شاپ کو ہماری سخاوت کی قطعاً ضرورت نہیں وہاں ہم جو بھی بل بنے اسے کم کرنے کو نہیں کہتے، انگریزی یا اردش میں بات کرتے ہیں۔بحث میں نہیں الجھتے،کرنی بھی پڑ جائے تو انگریزی میں کوششاتے ہیں ، بلا چون و چرا ٹیکس سمیت بل ادا کرتے ہیں اور اوپر سے ٹپ بھی دھر کے مسکراتے ہوئے باہر نکلتے ہیں۔کیونکہ مینر ازم کا تقاضا یہی ہے۔ایسی جگہوں پر خود کو قابو میں رکھنا اور کار پارکنگ بوائے کو تیس کے بجائے پچاس روپے مانگنے پر لیکچر پلانا ہی تو مینر ازم ہے۔
ان میں سے بہت سے لوگ جب باہر جاتے ہیں تو رویہ بالکل تبدیل ہوتا ہے۔وہ ٹیوب اسٹیشن کے باہر کپڑا بچھا کر بیٹھے گٹاری فقیر کا گیت اکڑوں سنتے ہیں اور ایک ڈالر سے پانچ ڈالر تک کپڑے پر رکھ دیتے ہیں۔وہ پکاڈلی سرکس پر گھومنے والے کسی خوانچہ فروش سے بالکل نہیں کہتے چریا ہو گیا ہے کیا ، ابے یہ کنگھا دو پاؤنڈ کا بیچ رہا ہے ؟ گرین اسٹریٹ میں تو اس سے اچھے کنگھے پاؤنڈ کے چار ملتے ہیں۔یہ ساری بقراطی اپنے ملک میں اپنے کمزور لوگوں پر ہی چل سکتی ہے۔
البتہ کچھ اصحاب سے میں واقف ہوں جو کسی بھی میلے کچیلے جوتی چٹخاؤ مفلوک الحال سے بال پوائنٹ سے لے کر گلاب کے ایک پھول ، مسواک اور بچوں کی کتاب سمیت کوئی بھی شے خرید لیتے ہیں اور قیمت پر بحث نہیں کرتے۔مقصد خریداری نہیں مدد ہے۔یہ احساس دلائے بغیر کہ ہم مدد کر رہے ہیں۔
انگریزی میں کہتے ہیں پاؤنڈ فولش پینی وائز ، اردو میں کہتے ہیں اشرفیاں لٹیں کوئلوں پہ مہر۔مطلب دونوں کا ایک ہی ہے۔اس مطلب میں سے مقصد تلاش کرنا ہمارا کام ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)