دیس میں نکلا چاند

پہلے سیاسی مخالفین کی سوچ بھی ایک دوسرے کے متعلق کتنی مثبت ہوا کرتی تھی۔


سردار قریشی July 04, 2018

کئی سال پہلے بھارت سے آئے ہوئے گلوکار جوڑے، جگجیت سنگھ اور چترا نے، جن کی بعد میں علیحدگی ہوگئی تھی اور اب جگجیت تو شاید دنیا میں بھی نہیں رہے،کراچی پریس کلب میں اپنی آوازکا جادو جگایا تھا۔ محفلِ غزل میں سنائے ہوئے ، ان کے ایک گیت کے بول ''ہم تو ہیں پردیس میں، دیس میں نکلا ہوگا چاند'' مجھے اب تک یاد ہیں۔ تب تو یہ الفاظ محض ایک سریلے بول کے تھے لیکن اب واقعی دیس میں چاند نکل آیا ہے۔

یہاں پردیس کا استعارہ کراچی کے لیے ہے جہاں میں رہتا ہوں جب کہ دیس سے مراد میرا آبائی شہر ٹنڈو غلام علی ہے، جہاں میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اورجہاں میرا بچپن ہی نہیں لڑکپن اور نوجوانی کا زمانہ بھی گزرا۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق انسان کا خمیر جس مٹی سے اٹھتا ہے وہ اس کے لیے بیحد کشش رکھتی ہے اور مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتی ہے۔

آپ یقین نہیں کریں گے، لیکن سچ کہتا ہوں کہ 1969ء میں اپنی شادی اورکراچی منتقلی کے بعد ایک بار میں عین عیدکے روز بلا ارادہ وہاں جا نکلا تھا جب کہ والدین، بھائی بہن اور بیوی سب نوابشاہ میں تھے اور اصولاً مجھے وہاں جانا چاہیے تھا۔

اب کے چاند دیکھنے میں خود تو ٹنڈو نہیں گیا البتہ کراچی میں بیٹھے بیٹھے فون پر اس کا نظارہ ضرور کیا جب میرے دوست حبیب الرحمان قریشی نے اطلاع دی کہ میر غلام علی تالپور نے الیکشن 2018ء میں حصہ لینے اور قومی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کے منحرف سابق صوبائی وزیر، سابق صدر آصف علی زرداری کے کیڈٹ کالج پیٹارو کے زمانہ طالب علمی کے دوست اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے شوہر نامدار ذوالفقار مرزا کے مقابل قومی اسمبلی کی نشست این اے 229 پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔

وہ 1958ء میں ایوبی دورکی زرعی اصلاحات کے نتیجے میں جاگیرداری نظام کے خاتمے سے قبل زیریں سندھ کے سب سے بڑے جاگیردار اور 1940ء کے عشرے میں خود مختار سندھ حکومت کے وزیر اعظم، میر بندہ علی خان تالپور کے بڑے صاحبزادے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب 1970ء میں بدین سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو خود میر صاحب کا آشیرواد لینے ٹنڈو غلام علی آئے تھے اور وہ سر شاہنواز بھٹو سے اپنی دوستی یاد کرکے، سندھ بھرکے تالپور میروں کی سخت مخالفت کے باوجودان کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ اور ایک یہ دور ہے کہ میر غلام علی تالپور الیکشن 2018ء میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

ان سے پہلے ان کے چھوٹے بھائی میر محمد حسن عرف میر بابو بھی دو بار پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑکر سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے ہیں۔ تب میر غلام علی کینیڈا میں مقیم تھے اور آج میر بابو کا قیام دبئی میں ہے۔ وقت وقت کی بات ہے۔ پیپلزپارٹی کا حمایت یافتہ یا امیدوار ہونے کی اہمیت اپنی جگہ لیکن الیکشن لڑنے اور جیتنے کے لیے میرے خیال میں ان کا میر بندہ علی خان کا بیٹا ہونا ہی کافی ہے جو آج بھی اپنی خاندانی شرافت و نیک نامی کے باعث لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

پارٹی وابستگی تو محض ایک بہانہ ہے ورنہ میر بندہ علی خان اور سر شاہنواز بھٹوکی ذاتی دوستی کی طرح دونوں خاندانوں میں قرابت داری کا تعلق بھی ہے۔ آصف علی زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور، میرپورخاص کے جس خاندان میں بیاہی ہوئی ہیں اس سے میر صاحبان کی بھی رشتے داری ہے۔ میر بندہ علی خان کی چار شادیوں میں سے ایک اسی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کی دو صاحبزادیاں بھی فریال تالپورکے شوہر میر منور تالپور کے خاندان میں بیاہی ہوئی ہیں۔

بات سے بات نکلتی ہے کے مصداق میر غلام علی کے الیکشن لڑنے کی بات خاندانی قرابت داری تک جا پہنچی۔ میر صاحب کا سن پیدائش بھی 1958ء ہے جب کہ میں اپنی جنم بھومی سے 60ء کے عشرے میں بچھڑا تھا۔ اب کا تو پتہ نہیں، بچپن میں وہ ہو بہو اپنے عظیم والد کے ہمشکل تھے۔

میں نے انھیں حاجی کھموں کے کندھے پر سوار ہوکر اسکول جاتے ہوئے بھی دیکھا تھا جن کے دوسرے ہاتھ میں وہ چھوٹی سی کرسی ہوا کرتی تھی جس پر وہ ہیڈ ماسٹر سائیں کریم بخش سرائی کے کلاس روم میں ان کی میزکے پاس بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ وہ اس لحاظ سے میرے استاد بھائی بھی ہیں کہ پرائمری تعلیم کی چار جماعتیں میں نے بھی سائیں کریم بخش سے پڑھی تھیں۔

میں ہی نہیں میرے بڑے اور چھوٹے بھائی بھی ان کے شاگرد رہے ہیں۔ انھی دنوں ایک دو بار شام کے وقت وہاں سے گزرتے ہوئے میں نے میر غلام علی کو اپنے ڈیرے (حویلی) کے بیرونی بڑے دروازے کے سامنے دربان، چاچا یوسف کے کمرے کے اونچے چبوترے پر سائیں کریم بخش سے ٹیوشن لیتے بھی دیکھا تھا۔ وہ دونوں (استاد و شاگرد) تو فرش پر بچھی چٹائی پر بیٹھے پڑھ پڑھا رہے ہوتے جب کہ میر بندہ علی خان خود بھی حویلی کے رخ چبوترے پر پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوتے تھے۔

چاچا یوسف، جو ابراہیم ٹپالی (پوسٹ مین) کے والد تھے، بہت بوڑھے ہوگئے تھے اور میر صاحب کی موجودگی میں بھی اپنی چارپائی پر تہ شدہ بستر سے ٹیک لگائے لیٹے رہتے تھے۔ ان کی ڈیوٹی بدلتی رہتی تھی اور کبھی کبھی وہ بڑے میر، میر محمد بخش تالپور مرحوم کی حویلی کے بیرونی بڑے دروازے سے ملحق اپنے کمرے میں اسی طرح چارپائی پر لیٹے لیٹے ڈیوٹی دیتے ہوئے بھی پائے جاتے تھے۔

صبح دس گیارہ بجے کے قریب انھیں ناشتہ کرنے کے لیے حویلی سے جو پھلکا ملتا وہ اپنے صافے کے پلو سے باندھ کر بازار میں واقع دکان پر میرے پاس پہنچتے، میں ان کے لیے چائے منگواتا اور دونوں ساتھ مل کر ناشتہ کرتے۔ کبھی کبھی ان کا بیٹا ابراہیم بھی ڈاک تقسیم کرتا ہوا، وہاں آ نکلتا اور ہمارے ساتھ ناشتے میں شریک ہوجاتا۔ اس دن مجھے اس کے لیے ایک کپ زیادہ چائے منگوانی پڑتی تھی اور ناشتہ بہت مہنگا پڑتا تھا۔

میر بندہ علی خان کو دوسری مرتبہ اسی چبوترے کے فرش پر بیٹھے زاروقطار روتا دیکھنے کا اتفاق اس وقت ہوا جب ان کے والد میر حاجی محمد حسن کی میت تدفین کے لیے حویلی سے بڑی امام باگاہ میں واقع میروں کے مخصوص قبرستان لے جائی جانے والی تھی۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں جا پہنچی۔ میر غلام علی کے الیکشن لڑنے سے یاد آیا، ٹھری کے رئیس خان محمد نظامانی بھی ایک زمانے میں ان کے والد کے مقابلے میں الیکشن لڑا کرتے تھے، ہر بار بڑی شان سے ہارتے مگر باز نہ آتے ۔

ایک موقعے پرکسی کے دریافت کرنے پر کہا کیا بار بار ہارکر بھی انھیں سمجھ نہیں آتا کہ الیکشن جیتنا ان کے بس کی بات نہیں، بلاوجہ پیسہ اور وقت دونوں برباد کرتے ہیں۔ بولے یہ بات نہیں ہے، میں الیکشن اس لیے لڑتا ہوں کہ میر بندہ علی خان کے مقابلے میں کھڑا ہونا بذات خود بہت بڑے اعزازکی بات ہے۔

پہلے سیاسی مخالفین کی سوچ بھی ایک دوسرے کے متعلق کتنی مثبت ہوا کرتی تھی۔ میر غلام علی پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں جب کہ ذوالفقار مرزا پہلے بھی کئی بار اس تجربے سے گزر چکے ہیں، صاحبِ حیثیت ہونے کے علاوہ انھیں خاص بدین شہرکا باسی ہونے کا ایڈونٹیج بھی حاصل ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے ) کی حمایت اس کے علاوہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں