بلوچستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کے واقعات میں تسلسل دیکھنے میں آرہا ہے، تازہ ترین واقعے میں پنج گور میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے دو ایف سی اہلکار شہید اور ایک زخمی ہوگیا۔ پانی
بھرنے کے لیے جانے والے اہلکاروں پر شرپسندوں نے فائرنگ کی تھی جب کہ نوشکی میں پاک افغان سرحدکے قریب فائرنگ کے تبادلے کے بعد ایف سی نے ایک زخمی سمیت پانچ شرپسندوں کوگرفتارکرکے راکٹ لانچرز،دستی بموں سمیت بڑی مقدار میں اسلحہ اور منشیات قبضے میں لے لیں جب کہ کوسٹ گارڈزنے حب میں کارروائی کے دوران 11.40 ملین ڈالر مالیت کی منشیات قبضے میں لی۔
یہ درست ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے بے مثال جانی قربانیاں دے کر امن وامان کی ابتر صورتحال پرکافی حد تک قابو پایا ہے، لیکن مسئلہ صرف دہشتگردی کا نہیں ہے بلکہ سیاسی ومعاشی اور بلوچستان کے عوام کی محرومیوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران سیاسی عدم استحکام کے باعث بھی دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے کیونکہ جب بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو اسٹبلشمنٹ نے راتوں رات رخصت کیا تو ایک ایسا سیاسی خلاء پیدا ہوا ، جو پر نہیں ہوسکا۔
ایک مضبوط جمہوری حکومت بہتر طریقے اور بہتر انداز میں عوام کی خدمت کرکے ان کے مسائل حل کرتی ہے تو احساس محرومی میں کمی واقع ہوتی ہے ۔قومی سیاسی منظرنامے کو دیکھیں ، عام انتخابات صرف بیس دن کی دوری پر ہیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت عوام کے پاس اپنا منشور ، دعوے اور وعدے اور سنہرے مستقبل کی نوید لے کر جارہے ہیں ، ہر قومی لیڈر اپنے بیانیے کے مطابق عوام کو اپنی جانب راغب کررہا ہے لیکن بدقسمتی سے بلوچستان کے حوالے سے مکمل خاموشی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال کو صرف قانون نافذ کرنیوالے اداروں اوردہشتگردوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
بلوچستان کے عوام کے مسائل اور ان کی پسماندگی کو دور کرنے کی غرض سے کسی بھی سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعت کی کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آرہی ۔ ہر طرف سناٹا ہے،کوئی بلوچستان کے مسئلے پر بات نہیں کررہا ۔کراچی بھی برسوں بدامنی کا شکار رہا ہے، نو گو ایریاز بھی تھے، اب وہاں صورتحال کافی بہترہے۔
تین بڑی قومی سیاسی جماعتوں کے سربراہ کراچی سے قومی اسمبلی کی نشستوں پر امیدوار ہیں اور تواتر سے اپنی مہم بھی چلا رہے ہیں اور اہل کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی بھی کروا رہے ہیں ۔ لیکن بلوچستان سے کوئی قومی لیڈر یا جماعت انتخابی مہم بھرپور انداز سے نہیں چلا رہی ، ایسا لگتا ہے جسے بلوچستان مین ان کے لیے کچھ نہیں رکھا، یہ صورتحال بلوچستان کے احساس محرومی میں مزید اضافے کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
یہاں پر اسٹمبلشمنٹ کے کرتا دھرتا افراد کو بھی سوچنا چاہیے کہ جو پالیسیاں وہ تشکیل دے رہے ہیں کیا وہ قابل عمل ہیں ؟ یا ان پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے احساس محرومی کو شرپسند عناصر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
بلوچستان عالمی سازشوں کا گڑھ کیوں بنا ہے ۔ بلوچستان تو پاکستان کی ترقی کا گیٹ وے ہے، لیکن ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم نے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے ان پر نمک پاشی کی ہے۔ اربوں کے منصوبے ناکامی سے اس لیے دوچار ہیں کہ ان میں مقامی افراد کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرکے ترقی وخوشحالی کا سفر پاکستان طے کرسکتا ہے یہی درست سمت جس پر ہمیں چلنا ہے۔