بلاول لیاری اور محرومیاں پہلا حصہ

لیاری تو امن کا گہوارہ رہا ہے، یہاں کے غریب محنت کشوں نے آمریت کی مخالفت کی جس کی پاداش میں کوڑے بھی کھائے۔

shabbirarman@yahoo.com

ان دنوں یہ خبر، اس پر تبصرے اور تجزیے میڈیا پر زیر بحث ہیں کہ پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے کراچی کے علاقے لیاری میں چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کے قافلے پر مشتعل مظاہرین نے پتھراو کیوں کیا۔

اتوار یکم جولائی کی سہ پہر بلاول بھٹو زرداری اپنے انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے، این اے 246 کراچی کے قدیم علاقے لیاری پہنچے تو جونا مسجد، بہار کالونی،کھچی پاڑہ، شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ کے مقام پر سیکڑوں مشتعل افراد سڑکوں پر نکل آئے اور قافلے کوآگے جانے سے روک دیا۔

علاقہ مکینوں نے بلاول کی گاڑی روک لی اور بلاول کے خلاف شدید نعرے بازی کی، مظاہرین کا کہنا تھا کہ لیاری پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے لیکن یہاں کے عوام آج بھی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ لوگو ں نے شدید گرمی میں پانی کی عدم فراہمی پر پانی کی بوتلیں لہرا کر مظاہرہ کیا۔ خواتین خالی مٹکے اٹھا کر گھروں کی چھتوں پر احتجاج کرتی رہیں اور پانی دو، پانی دو کے نعرے لگائے، مظاہرین کا کہنا تھا کہ بلاول یا پیپلز پارٹی کو لیاری کے علاقے ہنگورہ آباد میں قبول نہیں کیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی نے لیاری سے 2008ء اور 2013ء کے انتخابات جیتنے کے باوجود لیاری کے عوام کے لیے کچھ نہیں کیا،انھیں انتخابات میں ووٹ نہیںدیا جائے گا۔ مظاہرین نے پولیس موبائل سمیت متعدد گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھا رکھے تھے اور جیسے ہی بلاول کی گاڑی قریب آئی تو اس کو گھیرے میں لے کر شدید پتھراؤکیا، پیپلز پارٹی کے پرچم بھی نذر آتش کیے۔

اس موقعے پر پی پی کارکنوں اور مظاہرین کے درمیان تصادم بھی ہوا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے، بلاول اور ان کے ساتھ موجود سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ، شیریں رحمان اور دیگر رہنما محفوظ رہے۔ بلاول کے ڈرائیور نے اشتعال انگیز صورت حال کے پیش نظر ریورس گیئر میں گاڑی چلاکر چیئرمین پی پی کو اس صورت حال سے باہر نکالا۔ راستہ نہ ملنے کی وجہ سے بلاول کا قافلہ آگے جانے میں ناکام ہوگیااور واپس روانہ ہوگیا۔

مشتعل افراد کو روکنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج اور شیلنگ بھی کی تاہم مظاہرین قابو سے باہر رہے اور بلاول کے واپس جانے کے باوجود ان کا احتجاج جاری رہا، پتھراؤ اور احتجاج کے باعث بلاول 40منٹ تک گاڑی میں ہی بیٹھے رہے جس کے بعد ان کی ریلی کا راستہ تبدیل کردیا گیا اور وہ گلیوں سے ہوتے ہوئے چیل چوک پہنچے تو وہاں موجود لوگوں نے بلاول کا شاندار استقبال کیا جب کہ لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں نوجوانوں نے بلاول کے قافلے کے گزرتے وقت ''گو بلاول گو'' اور ''نو مور گینگ وار'' کے نعرے لگائے۔

اسی دن رات گئے کلری تھانے میں چیئرمین بلاول کے قافلے پرحملے اور پتھراؤ کیFIRدرج کرادی گئی جس میں 13نامزد ملزمان کے نام جب کہ 400 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔ کلری تھانہ میں درج ایف آئی آر میں حاجی باواڑ ، رفیق جینگو، اسماعیل، نوید بشنی، کامران، آدم، کاشان، صدیق، عمر ادا، کبیر ہنگورو، رشید جت ،کریم و دیگر کے نام شامل ہیں۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ جلد ان شر پسند عناصر سمیت دیگر چار سو افراد کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے گرفتار کرلیا جائے گا۔


بلاول کی لیاری میں ریلی کے سامنے علاقہ مکینوں کے احتجاج پر پیپلز پارٹی کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی نبیل گبول، سابق رکن سندھ اسمبلی سعید غنی، بلاول بھٹو زرداری کے ترجمان سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے بالترتیب کہا ہے کہ 20 سے 25 لڑکوں نے بلاول کاقافلہ روکنے کی کوشش کی یہ لڑکے مخالف جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔

کچھ شر پسند عناصر نے گاڑی پر پتھراؤ کیا چیئرمین بلاول آگے جانا چاہتے تھے لیکن اس کے لیے بد نظمی نہیں چاہتے تھے، تشدد کی سیاست کرنے والی جماعتیں پیپلز پارٹی کا راستہ نہیں روک سکتیں،ہم تشدد کا جواب سیاسی عمل سے دیں گے۔ ضلع انتظامیہ، پولیس اور رینجرز اپنی ذمے داری ادا کریں، الیکشن کمیشن واقعے کا نوٹس لے اور رکاوٹوں کے خاتمے کی ہدایت دے، تشدد پر یقین رکھنے والے عناصر کو نہ روکا گیا تو کشیدگی کی ذمے دار انتظامیہ ہوگی۔

لیاری میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو وعدے ذوالفقارعلی بھٹو نے کیے وہ وعدے بینظیر نے پورے کیے اور ان کے وعدے میں پورے کروں گا، بی بی کا بیٹا آپ کی خدمت کرنا چاہتا ہے، لیاری کے لوگوں سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے اور یہ سیاسی نہیں بلکہ دلوں کا رشتہ ہے، میں لیاری سے اس لیے الیکشن لڑ رہا ہوں تاکہ یہاں کے مسائل حل کراسکوں، ہمارے منشور میں ایک پروگرام بھوک مٹاؤ ہے جس کے تحت کھانے پینے کی اشیا سستی ملیں گی، میں وعدہ کرتا ہوں کہ لیاری کے عوام کو پانی دیں گے، اگر اس مقصد کے لیے انھیں سمندر کا پانی بھی میٹھا کرنا پڑا تو وہ کریں گے، شرپسند سمجھتے ہیں کہ بلاول پتھروں سے ڈر جائے گا تو یہ ان کی بھول ہے، شہیدوں کا وارث ہوں اور ان کا مشن جاری رکھوں گا، عوام سے کیا گیا وعدہ پورا کروںگا، یقین ہے لیاری کے عوام میرا ساتھ دیں گے۔

جمہوریت میں احتجاج کرنا ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن اگر یہ احتجاج پر تشدد بن جائے تو مہذب معاشرہ اس کی مذمت کرتا ہے، سیاست میں تشدد خطرناک روایت ہے جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ گزشتہ تمام انتخابات میں پی پی پی لیاری سے کامیاب ہوتی رہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ لیاری میں جو بھی ترقیاتی کام ہوئے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوئے اور اس سچائی سے بھی کسی طرح سے فرار ممکن نہیں ہے کہ لیاری ہمیشہ مسائلستان بنا رہا ہے جس کے ذمے داراپنے بھی تھے اور غیر بھی جنہوں نے ہمیشہ لیاری کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور لیاری کے غریبوں کو خون کے آنسو رلایا ہے۔

لیاری تو امن کا گہوارہ رہا ہے، یہاں کے غریب محنت کشوں نے آمریت کی مخالفت کی جس کی پاداش میں کوڑے بھی کھائے، پھانسی پر بھی لٹک گئے، ناکردہ گناہوں کی سزا بھی بھگتی، انسانی بنیادی ضروریات سے بھی محروم رکھے گئے، روزگار کے دروازے لیاری کے نوجوانوں کے لیے بند بھی کیے گئے،ایک وقت لیاری میں ایسا بھی آیا کہ پورا لیاری میدان کربلا کا نمونہ بن گیا تھا، زمین کا پانی بھی خشک ہوچکا تھا، لیاری کے لوگ پینے کے پانی کی بوند بوند کو ترس رہے تھے، سمجھ میں آتا ہے کہ یہ سب کچھ جمہوریت کا ساتھ دینے کا شاخسانہ تھا۔

محترمہ بینظیر بھٹونے پہلی بار وزیر اعظم پاکستان بننے کے فوری بعد زخموں پر مرہم رکھا، لیاری میں ترقیاتی کاموں کا آغازکیا، کچھ ترقیاتی کام پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تھے توکچھ کام زیر تکمیل تھے کہ محترمہ کی حکومت برطرف کردی گئی، لیاری پھر سے اجڑنا شروع ہوگیا، وقت گزرتا رہا لیاری کے لوگ مسائل میں گرفتار ہوتے گئے، جب دوبارہ محترمہ بینظیر بھٹو برسر اقتدار آئیں تو لیاری کے ادھورے کام وہی سے شروع کیے جہاں سے روک لیے گئے تھے۔

اس مدت میں لیاری میں پانی کا مسئلہ تقریبا حل کیا گیا ، سیوریج کے مسائل بھی حل کیے گئے، لیاری کے نوجوانوں کو روزگار بھی ملا، ابھی لیاری میں خوشحالی کی ابتدا تھی کہ ایک بار پھر پی پی پی کی حکومت برطرف کردی گئی۔ تیسری مرتبہ کے متوقع انتخابات سے قبل ہی محترمہ بینظیر بھٹو کو راستے سے ہٹاتے ہوئے شہید کردیا گیا اور لیاری لاوارث ہوگیا ۔ (جاری ہے )
Load Next Story