’’سائیکل‘‘ سے ’’ٹریکٹر‘‘ تک 

زمیندار اورکاشت دار طبقہ سائیکل کی نسبت ٹریکٹر سے زیادہ اپنائیت محسوس کرتا ہے۔

mohammad_asghar_abdullah@yahoo.com

KARACHI:
حالیہ الیکشن میں مسلم لیگ ق واحد پارٹی ہے، جو اپنے روایتی انتخابی نشان سے ازخود دست بردار ہو گئی اور اب وہ سائیکل کی جگہ ٹریکٹر کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ حالانکہ سائیکل بھی ہر لحاظ سے ایک بامعنی اور بہترین نشان تھا، بلکہ پنجاب میں چوہدری برادران کے پانچ سالہ دورکی علامت بن چکا تھا۔

2002ء میں مسلم لیگ ق نے سائیکل کے انتخابی نشان کے تحت ہی حصہ لیا۔ یہ الیکشن وہ جیت گئی۔اس کے بعد ہی چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب اور بعد میں چوہدری شجاعت حسین وزیراعظم بنے۔ 2008ء اور 2013ء میں''سائیکل'' مگر بری طرح پٹ گئی اور ممکن ہے کہ یہ بھی ایک وجہ ہو''سائیکل'' سے جان چھڑانے کی، حالانکہ اس میں انتخابی نشان کا توکوئی قصور نہیں تھا۔ ''ٹریکٹر'' سے البتہ مسلم لیگ ق کو یہ انتخابی فائدہ ہو گا کہ دیہی حلقوں میں، جہاں اس کے امیدواروں کا بیش تر ووٹ بینک ہے، زمیندار اورکاشت دار طبقہ سائیکل کی نسبت ٹریکٹر سے زیادہ اپنائیت محسوس کرتا ہے، کیونکہ یہ اس کی پہچان بھی ہے اور روزی روٹی کمانے کا وسیلہ بھی۔

مسلم لیگ ق نے حالیہ الیکشن میں باقی پارٹیوں کی نسبت بہت کم امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ الیکشن عملی طور پر ن لیگ بمقابلہ تحریک انصاف بن گئے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق دونوں نے مل کر ن لیگ کا مقابلہ کیا۔ 2014ء میں تحریک انصاف انتخابی دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ کیا تون لیگ حکومت کے خلاف چوہدری برادران بھی ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے۔ سپریم کورٹ میں انتخابی دھاندلی کے مقدمہ بھی دونوں پارٹیوں کا موقف یکساں تھا۔

عمران خان نے پاناما لیکس پر احتجاج شروع کیا تو چوہدری برادران نے اس کی بھی تائید کی۔ تمام تر تحفظات کے اسلام آباد کا لاک ڈاون کرنے کے مسئلہ پر عمران خان کی مخالفت نہیں کی۔ پنجاب کے اکثر و بیش تر ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں کا بھرپورساتھ دیا۔حتیٰ کہ لودھراں سے جہانگیرترین اور لاہور سے علیم خان کے ضمنی الیکشن میں خواتین پولنگ ایجنٹ کے فرائض بھی مسلم لیگ ق کی کارکن انجام دے رہی تھیں۔

اس عرصہ میں چوہدری شجاعت حسین اور عمران خان کے درمیان کم ازکم دو براہ راست ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ دوسری طرف پنجاب میں پرویزالٰہی کے پانچ سالہ دور کی تعریف میں عمران خان نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ لہٰذا یہ سمجھنا تو چنداں مشکل نہیں تھا کہ حالیہ الیکشن میں ن لیگ کے خلاف دونوں پارٹیاں اکٹھی ہوں گی۔

اب گجرات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی ہے اور چوہدری پرویزالٰہی اور وجاہت حسین کا بیٹا اور ان کے نیچے دو صوبائی امیدوار مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے متفقہ امیدوار ہیں۔ چوہدری پرویزالٰہی کے نیچے شہر کی صوبائی نشست پر تحریک انصاف کے سلیم سرور جوڑا دونوں پارٹیوں کے متفقہ امیدوار ہیں۔ اس طرح گجرات کی حد تک چوہدری برادران کو اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔


چوہدری پرویز الٰہی تلہ گنگ سے بھی قومی اسمبلی کے لیے مسلم لیگ ق اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدوار ہیں اور ان کے نیچے صوبائی نشست پر ایک مسلم لیگ ق اور ایک تحریک انصاف کا امیدوار ہے۔ بہاولپور میں طارق بشیر چیمہ بھی دونوں پارٹیوں کے متفقہ امیدوار ہیں۔ عمران خان نے انھیں بھی تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دی تھی، لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔

طارق بشیرچیمہ نے پیپلزپارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کی تھی اورکچھ عرصہ پہلے ان کو مشاہد حسین کی جگہ جنرل سیکریٹری مقرر کیا گیا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ ق کی قیادت نے بدترین حالات میں بھی تحریک انصاف کے ساتھ بہتر شرائط پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی ہے اور اگر ان کے بھگوڑے جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرتے تو یقینی طور پر اس کا فائدہ ان کو بھی ہونا تھا۔

چوہدری پرویزالٰہی گجرات میں اپنی نشست 1985ء سے مسلسل جیتتے چلے آ رہے ہیں اور اس بار بھی یہاں ان کو کوئی چیلنج درپیش نہیںہے۔ اس میں بھی کوئی کلام نہیں کہ پنجاب میں بطور وزیراعلیٰ ان کی کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ تعلیم، صحت، زراعت، صنعت اور لا اینڈ آرڈر میں ان کی اصلاحات بعد میں آنے والی حکومتوں کے لیے رول ماڈل بن چکی ہیں۔ان کے دور میں پنجاب کا جی ڈی پی 8فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا اور خواندگی کی شرح 70 فی صد کو چھو رہی تھی۔

اہل گجرات کے لیے یونیورسٹی آف گجرات بھی انھی کا تحفہ ہے، جواب دنیا بھر میں گجرات کی پہچان بن چکی ہے۔پنجاب اور گجرات کے لیے چوہدری پرویزالٰہی کی یہ عوامی خدمات ایسی ہیں، جس میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں اور پنجاب اور گجرات میں مسلم لیگ ق کا پہچان بن چکی ہیں اور اس کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں مسئلہ چوہدری برادران کے ساتھ یہ ہواکہ ان کے ساتھی پرلے درجے کے بے وفا نکلے، جب کہ خود چوہدری برادران بھی کھرے کھوٹے کی پہچان نہ کر سکے۔

اس سب کچھ کے باوجود چوہدری پرویز الٰہی نے جس طرح اپنی انتخابی سیاست کو زندہ رکھااور آگے بڑھایا ہے، یہ کسی سیاسی معجزہ سے کم نہیں۔ پنجاب میں الیکشن کے بعد چوہدری پرویز الٰہی کا کردار اس وقت مزید اہم ہو جائے گا، جب پنجاب میں حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ شروع ہو گا اور ایک نئی سیاسی بساط بچھے گی، کیونکہ جوڑ توڑ کی سیاست میں ان کی مہارت بہرحال مسلمہ ہے۔ شاعر نے کہا تھا ،

بخشے ہے جلوہٗ گل، ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا
Load Next Story