الیکشن کمیشن کہیں ہم مزید نہ ڈوب جائیں
الیکشن کمیشن کے جن قواعد و ضوابط کی مالاجپی جاتی ہے، انھیں کوئی قانونی حیثیت حاصل ہے ہی نہیں۔
''الیکشن کمیشن'' دنیا بھر کے جمہوری ممالک میں مختلف ناموں سے کام کرنے والا وہ ادارہ ہوتا ہے جو الیکشن کا ''میلہ'' سجاتا ہے اور عوام کو شفاف قیادت مہیا کرکے چلتا بنتا ہے۔ کسی ملک میں یہ ادارہ صحت مند ہے، کسی میں بیمار و کمزور اور کسی ملک میں لولاو لنگڑا بھی ہے، جو صرف دیکھتا ہے ،کرتا کچھ نہیں۔
ادھر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت میں اختیارات کی کشمکش نظر آتی ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے سیکریٹریز کی بات ماننے کے لیے کوئی تیار دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں کہ تمام عملے کو علم ہے کہ سارے افسر الیکشن کمیشن یا نگران حکومت کی طرف سے چند دن کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ جیسے ہی نئی حکومت آئی یہ لوگ تبدیل کر دیے جائیں گے۔حتیٰ کہ لاہور کے تمام ایس ایچ اوز کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔جو تعینات ہوئے ہیں انھیں علم ہی نہیں کہ لاہور میں اُن کا علاقہ کون کون سا ہے اور انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ کرنا کیا ہے۔
جو شخص سرگودھا، فیصل آباد یا کسی دوسرے شہر سے لاہور میں تعینات ہو ا ہے اُسے تو ایک ڈیڑھ مہینہ لاہور کے علاقوں ، لوگوں کی نفسیات اور وہاں کے ماحول کو سمجھنے میں لگتا ہے ۔ نئے چیف سیکریٹری کا حال تو یہ ہے کہ اُس نے اگر کسی کی پوسٹنگ بھی کرنی ہے یا کہیں دوسری جگہ کسی کا تبادلہ کرنا ہے تو وہ پہلے الیکشن کمیشن سے اجازت طلب کرے گا، اس کے بعد دوبارہ واپس چیف سیکریٹری کے پاس کیس آئے گا اسی کام میں مہینہ بھی لگ سکتا ہے، اور مہینے بعد ویسے ہی نئی حکومت آ جاتی ہے ۔
میں اکا دکا مثالوں سے خراب سسٹم کی نشاندہی کرنے کی حقیر سی کوشش کر رہا ہوں۔ کیوں کہ ان حالات میں 25جولائی کے الیکشن کی شفافیت پر ایسے ایسے سوالات اُٹھیں گے کہ اگلے ایک دو سال میں ہم دوبارہ الیکشن کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ اب قوم خود دیکھ لے کہ الیکشن کے قوانین اور قواعدوضوابط کے تحت صوبائی اسمبلی کا امیدوار انتخابی مہم پر دس لاکھ روپے اور قومی اسمبلی کا امیدوار پندرہ لاکھ روپے تک خرچ کرنے کا مجاز ہے، لیکن انتخابی مہم شروع ہوتے ہی ہر پاکستانی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کے امیدوار اپنی انتخابی مہمات پر کروڑوں روپیہ بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔
کھلم کھلا الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔پارٹی سے ٹکٹ کی خریداری سے لے کر اسمبلی میں پہنچنے تک کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین کہتے ہیں کہ وہ زرِکثیر خرچ کر کے پارٹی سے ٹکٹ خریدتے ہیں، لہٰذا منافع کمانا تو ان کا حق بنتا ہے۔ اس کاروباری ذہنیت کے ساتھ الیکشن جیتنے والا امیدوار جب قانون ساز اسمبلی کے اندر داخل ہوتا ہے تو روزِاول سے ہی اس کی نیت دولت کا حصول ہوتی ہے۔
یہ سب بے ضابطگی، بے قاعدگی اور بدعنوانی نظام انتخابات چلانے کے ذمے دار ''الیکشن کمیشن'' کے سامنے ہوتی ہے، لیکن سیاسی دباؤ اور مقتدر شخصیات کے خوف کی وجہ سے یہ ذمے دار ادارہ انتخابی دھاندلیوں پر خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے جن قواعد و ضوابط کی مالاجپی جاتی ہے، انھیں کوئی قانونی حیثیت حاصل ہے ہی نہیں۔ یہ ایسے ہی بنے ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر قوانین مرتب کرلیے اور بس۔اس سے بڑا تماشا کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ووٹر پر پابندی ہے کہ وہ صرف ایک حلقے میں ووٹ ڈال سکتا ہے لیکن بالادست طبقے کو آزادی ہے وہ چاہے تو پانچ حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے لے۔ایک سے زیادہ حلقے سے جیتنے کے بعد وہ ایک حلقہ پاس رکھ کر باقی حلقے چھوڑ دے اور قرضے میں جکڑی غریب قوم اس انوکھے لاڈلے کے چھوڑے ہوئے حلقے میں پھر سے قومی وسائل جھونک دے اور ضمنی انتخاب کرائے۔
کیا الیکشن کمیشن کو احساس ہے کہ کسی حلقے کا ضمنی الیکشن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟ بھارت میں بھی پہلے ایسا ہی تھا پھر وہاں عوامی نمایندگی ایکٹ کی دفعہ 33 میں ترمیم کی گئی کہ ایک آدمی دو سے زیادہ حلقوں سے امیدوار نہیں بن سکتا۔ اور اب 2019ء کے انتخابات کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے کہ ایک آدمی کو صرف ایک حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن یہ سب کر سکتا ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟
بہت سے دیگر راستے بھی موجود ہیں۔ کسی کے جیتنے کے بعد حلقہ چھوڑنے کی صورت میں دوسرے نمبر پر آنے والے کو بھی کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں ضمنی انتخابات کے تمام اخراجات بشمول وہاں تعینات اہلکاروں کی کم از کم ایک دن کی تنخواہ اس امیدوار سے وصول کی جائے جس کے حلقہ چھوڑنے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کرانا پڑے۔انتخابی قوانین میں کوئی اصلاح تو کیجیے۔
یہ ملک چند سیاسی رہنماؤں کی چراگاہ تو نہیں کہ ہم اپنے وسائل اور قومی خزانہ ان انوکھے لاڈلوں کے ایڈونچر کے لیے برباد کراتے رہیں۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ وہ ایک آزاد ادارہ ہے یا چند سیاسی شخصیات کا مزارع؟
قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے 2سال قبل بھی الیکشن کمیشن کے حوالے سے کالم لکھا تھا جس میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ جنرل الیکشن 2018ء ہو بہو جنرل الیکشن 2013ء کی طرح ہو گا جس میں دھاندلیاں نہیں بلکہ بڑے بڑے دھاندلے ہوں گے ، کیوں کہ ہم یہ الیکشن بھی پرانے سسٹم کے تحت لڑ رہے ہیں جس کو لے کر پہلے ہی بیشتر دھرنے اور فساد رونما ہو چکے ہیں۔ لہٰذاالیکشن کمیشن غور کرے اور اپنے اندر سے سیاسی اثرو رسوخ کو ختم کرے۔ ملک کو شفاف قیادت فراہم کرے تاکہ وطن عزیز مسائل کے سمندر میں ڈوبنے سے بچ سکے۔
ادھر الیکشن کمیشن اور نگران حکومت میں اختیارات کی کشمکش نظر آتی ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے نئے سیکریٹریز کی بات ماننے کے لیے کوئی تیار دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں کہ تمام عملے کو علم ہے کہ سارے افسر الیکشن کمیشن یا نگران حکومت کی طرف سے چند دن کے لیے تعینات کیے گئے ہیں۔ جیسے ہی نئی حکومت آئی یہ لوگ تبدیل کر دیے جائیں گے۔حتیٰ کہ لاہور کے تمام ایس ایچ اوز کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔جو تعینات ہوئے ہیں انھیں علم ہی نہیں کہ لاہور میں اُن کا علاقہ کون کون سا ہے اور انھیں سمجھ نہیں آرہی کہ کرنا کیا ہے۔
جو شخص سرگودھا، فیصل آباد یا کسی دوسرے شہر سے لاہور میں تعینات ہو ا ہے اُسے تو ایک ڈیڑھ مہینہ لاہور کے علاقوں ، لوگوں کی نفسیات اور وہاں کے ماحول کو سمجھنے میں لگتا ہے ۔ نئے چیف سیکریٹری کا حال تو یہ ہے کہ اُس نے اگر کسی کی پوسٹنگ بھی کرنی ہے یا کہیں دوسری جگہ کسی کا تبادلہ کرنا ہے تو وہ پہلے الیکشن کمیشن سے اجازت طلب کرے گا، اس کے بعد دوبارہ واپس چیف سیکریٹری کے پاس کیس آئے گا اسی کام میں مہینہ بھی لگ سکتا ہے، اور مہینے بعد ویسے ہی نئی حکومت آ جاتی ہے ۔
میں اکا دکا مثالوں سے خراب سسٹم کی نشاندہی کرنے کی حقیر سی کوشش کر رہا ہوں۔ کیوں کہ ان حالات میں 25جولائی کے الیکشن کی شفافیت پر ایسے ایسے سوالات اُٹھیں گے کہ اگلے ایک دو سال میں ہم دوبارہ الیکشن کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔ اب قوم خود دیکھ لے کہ الیکشن کے قوانین اور قواعدوضوابط کے تحت صوبائی اسمبلی کا امیدوار انتخابی مہم پر دس لاکھ روپے اور قومی اسمبلی کا امیدوار پندرہ لاکھ روپے تک خرچ کرنے کا مجاز ہے، لیکن انتخابی مہم شروع ہوتے ہی ہر پاکستانی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ صوبائی و قومی اسمبلیوں اور سینیٹ کے امیدوار اپنی انتخابی مہمات پر کروڑوں روپیہ بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔
کھلم کھلا الیکشن قوانین کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔پارٹی سے ٹکٹ کی خریداری سے لے کر اسمبلی میں پہنچنے تک کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں پہنچنے والے اراکین کہتے ہیں کہ وہ زرِکثیر خرچ کر کے پارٹی سے ٹکٹ خریدتے ہیں، لہٰذا منافع کمانا تو ان کا حق بنتا ہے۔ اس کاروباری ذہنیت کے ساتھ الیکشن جیتنے والا امیدوار جب قانون ساز اسمبلی کے اندر داخل ہوتا ہے تو روزِاول سے ہی اس کی نیت دولت کا حصول ہوتی ہے۔
یہ سب بے ضابطگی، بے قاعدگی اور بدعنوانی نظام انتخابات چلانے کے ذمے دار ''الیکشن کمیشن'' کے سامنے ہوتی ہے، لیکن سیاسی دباؤ اور مقتدر شخصیات کے خوف کی وجہ سے یہ ذمے دار ادارہ انتخابی دھاندلیوں پر خاموش تماشائی بن جاتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے جن قواعد و ضوابط کی مالاجپی جاتی ہے، انھیں کوئی قانونی حیثیت حاصل ہے ہی نہیں۔ یہ ایسے ہی بنے ہیں کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے مل بیٹھ کر قوانین مرتب کرلیے اور بس۔اس سے بڑا تماشا کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ووٹر پر پابندی ہے کہ وہ صرف ایک حلقے میں ووٹ ڈال سکتا ہے لیکن بالادست طبقے کو آزادی ہے وہ چاہے تو پانچ حلقوں سے الیکشن میں حصہ لے لے۔ایک سے زیادہ حلقے سے جیتنے کے بعد وہ ایک حلقہ پاس رکھ کر باقی حلقے چھوڑ دے اور قرضے میں جکڑی غریب قوم اس انوکھے لاڈلے کے چھوڑے ہوئے حلقے میں پھر سے قومی وسائل جھونک دے اور ضمنی انتخاب کرائے۔
کیا الیکشن کمیشن کو احساس ہے کہ کسی حلقے کا ضمنی الیکشن قوم کو کتنے میں پڑتا ہے؟ بھارت میں بھی پہلے ایسا ہی تھا پھر وہاں عوامی نمایندگی ایکٹ کی دفعہ 33 میں ترمیم کی گئی کہ ایک آدمی دو سے زیادہ حلقوں سے امیدوار نہیں بن سکتا۔ اور اب 2019ء کے انتخابات کے لیے بھارتی الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے کہ ایک آدمی کو صرف ایک حلقے سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن یہ سب کر سکتا ہے تو ہمارا الیکشن کمیشن کیوں نہیں کر سکتا؟
بہت سے دیگر راستے بھی موجود ہیں۔ کسی کے جیتنے کے بعد حلقہ چھوڑنے کی صورت میں دوسرے نمبر پر آنے والے کو بھی کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس صورت میں ضمنی انتخابات کے تمام اخراجات بشمول وہاں تعینات اہلکاروں کی کم از کم ایک دن کی تنخواہ اس امیدوار سے وصول کی جائے جس کے حلقہ چھوڑنے کی وجہ سے ضمنی الیکشن کرانا پڑے۔انتخابی قوانین میں کوئی اصلاح تو کیجیے۔
یہ ملک چند سیاسی رہنماؤں کی چراگاہ تو نہیں کہ ہم اپنے وسائل اور قومی خزانہ ان انوکھے لاڈلوں کے ایڈونچر کے لیے برباد کراتے رہیں۔ سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ وہ ایک آزاد ادارہ ہے یا چند سیاسی شخصیات کا مزارع؟
قارئین کو یاد ہوگا کہ میں نے 2سال قبل بھی الیکشن کمیشن کے حوالے سے کالم لکھا تھا جس میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ جنرل الیکشن 2018ء ہو بہو جنرل الیکشن 2013ء کی طرح ہو گا جس میں دھاندلیاں نہیں بلکہ بڑے بڑے دھاندلے ہوں گے ، کیوں کہ ہم یہ الیکشن بھی پرانے سسٹم کے تحت لڑ رہے ہیں جس کو لے کر پہلے ہی بیشتر دھرنے اور فساد رونما ہو چکے ہیں۔ لہٰذاالیکشن کمیشن غور کرے اور اپنے اندر سے سیاسی اثرو رسوخ کو ختم کرے۔ ملک کو شفاف قیادت فراہم کرے تاکہ وطن عزیز مسائل کے سمندر میں ڈوبنے سے بچ سکے۔