ایک جَست میں پچاس سال کا سفر
ہر اینکر کی خوہش ہونی چایئے کہ اُس کا پرو گرام صرف ایک پارٹی کے حامی نہیں بلکہ ہر طبقہء خیال کے لوگ شوق سے دیکھیں۔
کبھی وہ دور تھا جب کا غذ پر لکھے ہو ئے حرفوں کی تاثیر سے پڑھنے والوں کے دل ودماغ منورّ ہوتے تھے اور منہ سے نکلے ہوئے لفظوں کی طاقت سے جرم اور جبرکی قوتّیں کا نپ اٹھتی تھیں۔ مگر اب حرف زوال کا شکار ہے لکھنے اور بولنے والوں کی اکثریّت کا مطمعِ نظر مفاداور عنا د کے سوا کچھ نہیں۔
پرائیویٹ چینلز کو پو ری قوم نے خوش آمدید کہا تھا کہ صرف سرکا ر دربار کے بیا نئے سن سن کر لو گ تنگ آچکے تھے،وہ مخالفانہ نقطہء نظر سننا چاہتے تھے،کچھ عرصے تک نا ظرین کو سامنے بیٹھے ہو ئے متحارب سیاستدانو ںکی ایک دوسرے پر یلغار اور الزامات کی بھر مار میں تفریح نظر آئی مگر فارمولہ فلموں کیطرح فارمولہ ٹاک شوز اسقدر گھس پٹ گئے ہیںکہ اب انھیں دیکھتے ہی طبیعت مکدر ّ ہونے لگتی ہے اور پڑھے لکھے لوگوں نے تو بے نتیجہ اور پست معیار کی بحثوں والے شو دیکھنے بند کر دیے ہیں۔
ہمارے اینکر اور میڈیا پر سنز پر وگراموں کے نام رکھتے وقت یو رپ اور امریکا کی نقّالی کر تے ہیں،مگر یہ صرف نام کی حد تک ہے۔ موضوعات کاتنوعّ اور معیا ر کی رفعت،کبھی ھمار ے پرا ئیو یٹ میڈیا کی تر جیح نہیںبن سکی۔
اُ دھر ریاست کے طاقتور اداروں نے جب اپنی آئینی حدود سے باہر پاؤں پسارنے شروع کیے اور سیا سی معاملات میں دخل اندازی کے طویل مُدتی پروگرام بنائے تو ان کی نظر بھی ٹی وی چینلز پر پڑی انھوں نے کچھ کو لالچ دیا،کچھ دھمکا یااور تقریباً سارے پرائیویٹ میڈیا کو ھانک کر اپنے کیمپ میںلے گئے۔ لالچ یا خوف کے باعث اپریشن ردّ النواز میں نویّ فیصد اینکر تو پچی بن کر زیرِ عتاب لیڈر پر گولے برسانے پر تیا ر ہو گئے۔
اور ھوسِ لقمئہ تَر کی خاطر اداروں کا آلہء کا ر بننے والے اینکراور تجزیہ کا ر خود میڈیا کی آزادی کے دشمن بن گئے ۔نوجوان صحافی اور اینکر تو معیا رِ زندگی بہتر بنانے کے متمنّی ہوتے ہیں، ان سے مزاحمت کی توقّع عبث تھی، مگر سینئر صحافی قلعہء آزادی کے تحفظّ کے لیے ڈٹ جاتے تو میڈیا اتنی جلدی فتح نہ کیا جاسکتا،مگرصدحیف کہ بابِ عطاکے سامنے اہلِ کمال کا ھجوم جن کو تھاسر کشی پہ ناز وہ بھی اسی قطار میں ۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سیا ستدانوں کا انٹر ویو کر تے ہو ئے ہمارے ٹی وی اینکرز کا انداز جارحا نہ اور جر نیلو ں (چاہے ریٹائرڈ ہی ہوں ) کے سامنے عاجزانہ اور فدویا نہ ہو تاہے ۔اب تو ریٹائرڈ فوجی افسران ٹی وی چینلوں کو اتنی وافر تعداد میںفراہم کردیے گئے ہیں کہ بعض اوقات فی چینل دو دو حضرات میّسر ہوتے ہیںجو صبح دوپہر شام آمریّت کے حق میں اپنے ارشاداتِ عالیہ سے قوم کو مستفیض فرمارہے ہوتے ہیں۔
اُدھر زیرِ عتاب پارٹی کے لیڈروں کاانٹر ویو، انٹیروگیشن میں بدل جا تا ہے، اینکر تفشیشی افسربن کر ملزموں کی طرح ان کی تفشیش کرتاہے ۔جب کہ منظور شدہ سیاستدانو ں اور ریٹائرڈ جرنیلو ں کے ہر جواب پر قُبو ل ہَے قُبول ہَے کی صدا بلند ہوتی ہے، اُن سے ان کے نامکمل یا غلط جواب کی وضاحت مانگنے کی بھی جر ات نہیں کی جاتی ۔ زیا دہ تر اینکروں کی پسندو نا پسند اس حد تک عریا ں ہو چکی ہے کہ وہ اپنا تعصّب چھپانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ ان کے ایک ایک فقرے سے ان کا مفاد اور عناد چھلک رہا ہوتاہے۔
میڈیا کے کچھ دوست خود بتاتے ہیں کہ بہت سے اینکر ز کو تحریری اسکرپٹ موصول ہو تاہے اور وہ اسکرپٹ پڑھنے کی ذمّے داری پوری وفاداری اور تابعداری کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی سلب کر نے کے لیے تحریص کے ساتھ ساتھ دباؤ بھی ڈالاجاتاہے ۔ حسبِ ضرورت چھڑی اور گاجردونوں کا استعمال ہوتاہے،دباؤ ایک خاص حد سے بڑھا دیاجائے تو مینجمنٹ بھی ڈھیرہوجاتی ہے ۔
چند روز پہلے راقم نے ایک تقریب میں کچھ سینئر صحافیوں سے پوچھا ''کیااِسوقت ھمارا میڈیا آزاد ہے؟'' سب نے ناں میں جواب دیا کچھ نے تو بڑے دکھ اور تشویش سے نا دیدہ قوتوں کیطرف سے تحریص اور دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ بحث کا موضوع بھی اُدھر سے آتا ہے، اینکروں کو سوال لکھ کر بھیجے جاتے ہیں ،اور زیا دہ تر اینکر وہی سوال پڑھ دیتے ہیں اگر چار افراد میں سے ایک زیرِعتاب پارٹی کا حامی ہے تو اُس سے سوال پو چھنے کے بجائے جرح کی جاتی ہے،نا پسندیدہ لیڈر کے مخالفین اُسکے خلاف سخت ترین زبان استعمال کر تے ہیں،مگران کی بد زبانی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،اگر ان کا جواب حقائق کے منافی ہوتو بھی اسے بسر وچشم تسلیم کر لیا جاتا ہے،اور معتوب پارٹی کے اکلوتے حامی پر تو پ وتفنگ سے ایسے حملے کیے جاتے ہیں جیسے وہ انکا ذاتی دشمن ہو ۔
زندگی کے ہر فیلڈیعنی صحافت، سیاست،وکالت، عدالت یاسول سروس میں کچھ رول ماڈل ہوتے ہیں جنھیں اس فیلڈ کے نوجوان آئیڈیلائز کرتے ہیں اور ان کے نقشِ پا پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ،ہمارے اینکر زکے رول ماڈل کون ہیں؟ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی دَور ہو،صحافت اور میڈیا میں رول ماڈل وہی ہیں جنہوں نے طاقتوروں اور جابروں کے سامنے کلمہء حق کہا، نامساعد حالات کی تیز آندھیوں میں بھی اپنا چراغ جلائے رکھااور ضمیر کا پر چم کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔
ایسے صحافی اور اینکر آئیڈیل کبھی نہیں بن سکتے جو ضمیر بیچتے ہوں ، قلم کا سودا کرتے ہوں اور کسی کے ایجنٹ اور آلہء کا ر بن کر دیا گیاٹاسک نبھاتے ہوں۔ایسے اینکر جو بدزبان اور ادنیٰ خواہشات کے نگہبان ہوںکبھی قابلِ عزت قرار نہیں پاسکتے۔
ہرادارے اور ہر ریاست کی کچھ بنیادی اقدار (Core values)ہوتی ہیں، زندہ معاشرے جنکاتقدسّ پامال نہیں ہونے دیتے، ہمارے ہاں ایسی مقدسّ اقدار یا علامات میں اسلامی اقدار اور مقدس ہستیاں، خود ریاستِ پاکستان، بانیانِ پاکستان آئینِ پاکستان کا تقدسّ اور جمہوری نظام شامل ہیں ،جن کے تحفظ کے لیے کسی مجبوری اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا چائیے اورجن کی تحقیر اور تضحیک کے لیے کسی چینل یا اینکر کو استعمال کرنے کی کو شش بھی ہوتو اس کی مزاحمت ہو نی چایئے۔
موجودہ نظام میں بے شمار خامیا ں ہیں ان کی نشاندہی کے ساتھ بہتری کے لیے تجاویز سامنے آنی چائیں میں خود کئی بار اپنی تحریروں میں اس نظام کی Purification پر زور دے چکا ہوں مگر اینکر کسی کے کہنے پر جمہوری نظام کو اور اسے چلانے والے تمام سیاسی رہنماؤں کوہی ملعون کرناشروع کردیں اور فوجی مداخلت کو جائز قرار دینے لگیں تو یہ نامناسب ہی نہیں خطر ناک بھی ہے۔ اِسی طرح قومی ادارو ں (جسمیںپارلیمنٹ،عدلیہ، اورافواج شامل ہیں) کی توہین ہر گزنہیں ہونی چائیے، انکا غیرآئینی کردار تو زیرِ بحث آسکتاہے اور انھیں اپنے اندر بہتری لانے کا مشورہ بھی دیاجاسکتا ہے لیکن ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش قابلِ قبول نہیں ہے۔اس سلسلے میں کسی اینکر کو ہرگز استعمال نہیں ہوناچائیے۔
اینکرز کو سطحی موضوعات سے بلند ہو کرسوچناچائیے اور نئےInitiativesلے کر موضوعات میں تنوّع پیداکرنا چایئے۔ سیاست بازی اور سکینڈلز کے علاوہ سنجیدہ مسائل کو موضوع ِ بحث بنانا چاہیے ۔پانی کا مسئلہ ہمارے ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بننے جارہاہے اس کے حل کے لیے ماہرین کے ساتھ شو ہو نے چائیے۔آبادی کے پھلاؤکو بھی موضوعِ سخن بنانا چاہیے ۔
ہمارے ملک کی آبادی بائیس کروڑہے جسمیں %65 نوجوان ہیں ،انکا مستقبل صرف ہُنرمندی سے وابستہ ہے۔ نوجوانوں کیSkill Development ہمارے لیے آکسیجن کی طرح اہم ہے۔ اس پر کئی شوز ہونے چائیں۔ ہمارے نوجوان مختلف قسم کی سماجی اور اخلاقی برائیوں کا شکار ہورہے ہیں،انمیں فراڈ،چوری، منشیات اور دیگر جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔کیایہ مسئلہ سنجیدہ گفتگو کا موضوع نہیںبننا چائیے؟
Child Abuse )بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی) ایک بہت بڑامسئلہ بن چکا ہے ،اس پر ٹاک شوز ہونے چائیں اور نفسیا ت اور سماجیا ت کے ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں اس کے تدارک کے لیے موثر اقدامات اٹھانے چائیں۔ امن و امان، کریمینل جسٹس سسٹم اورپولیسنگ کے نظام میں اصطلاحات پر سنجیدہ بحث ہونی چائیے۔
کئی سالوں کی عرق ریزی اور تجربات کے بعد قوم نے متفقہ طورپر یہ طے کر لیا ہے کہ اس ملک کو (جیسا قائدؒ چاہتے تھے) جمہوری نظام کے تحت چلایا جائے گا،ستّر سالوں میں ایک نہیں چار بار''مسیحا''بھی نازل ہوئے مگراس مسیحائی فارمولے نے قومی ادارے برباد کردیے اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اس لیے ملک کے ہر طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنا وزن حاکمیّت ِ جمہور کے پلڑے میں ڈالے ۔قلمکار اپنے قلم اور کیمرے کو جمہوری استحکام کے لیے استعمال کریں اور جمہوریّت کو کمزور یا بدنام کرنے کی سازش میں شریک نہ ہوں بلکہ اس کی مزاحمت کریں۔
اگر کسی اینکر کو ایک پارٹی یا ایک لیڈر میں کو ئی برائی اور دوسرے لیڈر میں کوئی اچھائی نظر نہ آئے،اگر ایک لیڈر پر ہمیشہ تنقید کی جائے اور دوسر ںکے دامن پر لگے نمایاں داغوں کو نظر انداز کیا جائے توایسا کرنے والا متعصب یا ایک پارٹی کا جیالا اور متوالا سمجھا جائے گا، کسی اینکر،یا کمپیئر کو یہ زیب نہیں دیتا وہ کسی پارٹی کا ورکر بن جائے یا اُس پر جانبداری کا لیبل لگے۔متعصّب اینکرز کے ناظرین کی تعداد آہستہ آہستہ سمٹ جاتی ہے۔
ہر اینکر کی خوہش ہونی چایئے کہ اُس کا پرو گرام صرف ایک پارٹی کے حامی نہیں بلکہ ہر طبقہء خیال کے لوگ شوق سے دیکھیں۔ اینکر معلّم بھی ہوتا ہے اور رائے ساز بھی، معاشرے کے اتنے اہم فرد کو اپنا مقام پہچاننا چایئے اور اپنی ساکھ اور امیج کا ہر قیمت پر تحفظّ کر نا چایئے، ایک معیا ر ی اینکر کی سب سے بڑی توہین یہ ہے کہ اُسکے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ ''فلاں کابندہ '' ہے اور وہ فلاںجگہ سے لائن یا ہدایا ت لیتا ہے۔
ہماری دعا بھی ہے اور خو اہش بھی کہ نوجوان اینکر آئین کے تحفظ اور رزقِ حلال کے فروغ کا پرچم اٹھالیں، ہر قسم کے دباؤ،تحریص اورتر غیب کی زنجیریں توڑ دیں۔ ہدایت ناموں پر چلنے کے بجائے اپنی صلاحیتّیں وطنِ عزیز اور اس کے آئین کے تحفّظ کے لیے وقف کردیں اور یہ فیصلہ کر لیںکہ ہم آئین کو پامال کرنیوالے اور مالِ حرام کمانے والے کسی شخص کو اپنے کسی پروگرام میں مدعو نہیں کریں گے۔اگر ایسا ہوجائے تو یہ معاشرہ اور یہ ملک ایک جست میں پچاّ س سال کا سفر طے کر لے گا۔
پرائیویٹ چینلز کو پو ری قوم نے خوش آمدید کہا تھا کہ صرف سرکا ر دربار کے بیا نئے سن سن کر لو گ تنگ آچکے تھے،وہ مخالفانہ نقطہء نظر سننا چاہتے تھے،کچھ عرصے تک نا ظرین کو سامنے بیٹھے ہو ئے متحارب سیاستدانو ںکی ایک دوسرے پر یلغار اور الزامات کی بھر مار میں تفریح نظر آئی مگر فارمولہ فلموں کیطرح فارمولہ ٹاک شوز اسقدر گھس پٹ گئے ہیںکہ اب انھیں دیکھتے ہی طبیعت مکدر ّ ہونے لگتی ہے اور پڑھے لکھے لوگوں نے تو بے نتیجہ اور پست معیار کی بحثوں والے شو دیکھنے بند کر دیے ہیں۔
ہمارے اینکر اور میڈیا پر سنز پر وگراموں کے نام رکھتے وقت یو رپ اور امریکا کی نقّالی کر تے ہیں،مگر یہ صرف نام کی حد تک ہے۔ موضوعات کاتنوعّ اور معیا ر کی رفعت،کبھی ھمار ے پرا ئیو یٹ میڈیا کی تر جیح نہیںبن سکی۔
اُ دھر ریاست کے طاقتور اداروں نے جب اپنی آئینی حدود سے باہر پاؤں پسارنے شروع کیے اور سیا سی معاملات میں دخل اندازی کے طویل مُدتی پروگرام بنائے تو ان کی نظر بھی ٹی وی چینلز پر پڑی انھوں نے کچھ کو لالچ دیا،کچھ دھمکا یااور تقریباً سارے پرائیویٹ میڈیا کو ھانک کر اپنے کیمپ میںلے گئے۔ لالچ یا خوف کے باعث اپریشن ردّ النواز میں نویّ فیصد اینکر تو پچی بن کر زیرِ عتاب لیڈر پر گولے برسانے پر تیا ر ہو گئے۔
اور ھوسِ لقمئہ تَر کی خاطر اداروں کا آلہء کا ر بننے والے اینکراور تجزیہ کا ر خود میڈیا کی آزادی کے دشمن بن گئے ۔نوجوان صحافی اور اینکر تو معیا رِ زندگی بہتر بنانے کے متمنّی ہوتے ہیں، ان سے مزاحمت کی توقّع عبث تھی، مگر سینئر صحافی قلعہء آزادی کے تحفظّ کے لیے ڈٹ جاتے تو میڈیا اتنی جلدی فتح نہ کیا جاسکتا،مگرصدحیف کہ بابِ عطاکے سامنے اہلِ کمال کا ھجوم جن کو تھاسر کشی پہ ناز وہ بھی اسی قطار میں ۔
پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سیا ستدانوں کا انٹر ویو کر تے ہو ئے ہمارے ٹی وی اینکرز کا انداز جارحا نہ اور جر نیلو ں (چاہے ریٹائرڈ ہی ہوں ) کے سامنے عاجزانہ اور فدویا نہ ہو تاہے ۔اب تو ریٹائرڈ فوجی افسران ٹی وی چینلوں کو اتنی وافر تعداد میںفراہم کردیے گئے ہیں کہ بعض اوقات فی چینل دو دو حضرات میّسر ہوتے ہیںجو صبح دوپہر شام آمریّت کے حق میں اپنے ارشاداتِ عالیہ سے قوم کو مستفیض فرمارہے ہوتے ہیں۔
اُدھر زیرِ عتاب پارٹی کے لیڈروں کاانٹر ویو، انٹیروگیشن میں بدل جا تا ہے، اینکر تفشیشی افسربن کر ملزموں کی طرح ان کی تفشیش کرتاہے ۔جب کہ منظور شدہ سیاستدانو ں اور ریٹائرڈ جرنیلو ں کے ہر جواب پر قُبو ل ہَے قُبول ہَے کی صدا بلند ہوتی ہے، اُن سے ان کے نامکمل یا غلط جواب کی وضاحت مانگنے کی بھی جر ات نہیں کی جاتی ۔ زیا دہ تر اینکروں کی پسندو نا پسند اس حد تک عریا ں ہو چکی ہے کہ وہ اپنا تعصّب چھپانے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔ ان کے ایک ایک فقرے سے ان کا مفاد اور عناد چھلک رہا ہوتاہے۔
میڈیا کے کچھ دوست خود بتاتے ہیں کہ بہت سے اینکر ز کو تحریری اسکرپٹ موصول ہو تاہے اور وہ اسکرپٹ پڑھنے کی ذمّے داری پوری وفاداری اور تابعداری کے ساتھ نبھاتے ہیں۔ میڈیا کی آزادی سلب کر نے کے لیے تحریص کے ساتھ ساتھ دباؤ بھی ڈالاجاتاہے ۔ حسبِ ضرورت چھڑی اور گاجردونوں کا استعمال ہوتاہے،دباؤ ایک خاص حد سے بڑھا دیاجائے تو مینجمنٹ بھی ڈھیرہوجاتی ہے ۔
چند روز پہلے راقم نے ایک تقریب میں کچھ سینئر صحافیوں سے پوچھا ''کیااِسوقت ھمارا میڈیا آزاد ہے؟'' سب نے ناں میں جواب دیا کچھ نے تو بڑے دکھ اور تشویش سے نا دیدہ قوتوں کیطرف سے تحریص اور دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ بحث کا موضوع بھی اُدھر سے آتا ہے، اینکروں کو سوال لکھ کر بھیجے جاتے ہیں ،اور زیا دہ تر اینکر وہی سوال پڑھ دیتے ہیں اگر چار افراد میں سے ایک زیرِعتاب پارٹی کا حامی ہے تو اُس سے سوال پو چھنے کے بجائے جرح کی جاتی ہے،نا پسندیدہ لیڈر کے مخالفین اُسکے خلاف سخت ترین زبان استعمال کر تے ہیں،مگران کی بد زبانی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے،اگر ان کا جواب حقائق کے منافی ہوتو بھی اسے بسر وچشم تسلیم کر لیا جاتا ہے،اور معتوب پارٹی کے اکلوتے حامی پر تو پ وتفنگ سے ایسے حملے کیے جاتے ہیں جیسے وہ انکا ذاتی دشمن ہو ۔
زندگی کے ہر فیلڈیعنی صحافت، سیاست،وکالت، عدالت یاسول سروس میں کچھ رول ماڈل ہوتے ہیں جنھیں اس فیلڈ کے نوجوان آئیڈیلائز کرتے ہیں اور ان کے نقشِ پا پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ،ہمارے اینکر زکے رول ماڈل کون ہیں؟ کوئی بھی ملک اور کوئی بھی دَور ہو،صحافت اور میڈیا میں رول ماڈل وہی ہیں جنہوں نے طاقتوروں اور جابروں کے سامنے کلمہء حق کہا، نامساعد حالات کی تیز آندھیوں میں بھی اپنا چراغ جلائے رکھااور ضمیر کا پر چم کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا۔
ایسے صحافی اور اینکر آئیڈیل کبھی نہیں بن سکتے جو ضمیر بیچتے ہوں ، قلم کا سودا کرتے ہوں اور کسی کے ایجنٹ اور آلہء کا ر بن کر دیا گیاٹاسک نبھاتے ہوں۔ایسے اینکر جو بدزبان اور ادنیٰ خواہشات کے نگہبان ہوںکبھی قابلِ عزت قرار نہیں پاسکتے۔
ہرادارے اور ہر ریاست کی کچھ بنیادی اقدار (Core values)ہوتی ہیں، زندہ معاشرے جنکاتقدسّ پامال نہیں ہونے دیتے، ہمارے ہاں ایسی مقدسّ اقدار یا علامات میں اسلامی اقدار اور مقدس ہستیاں، خود ریاستِ پاکستان، بانیانِ پاکستان آئینِ پاکستان کا تقدسّ اور جمہوری نظام شامل ہیں ،جن کے تحفظ کے لیے کسی مجبوری اور کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لانا چائیے اورجن کی تحقیر اور تضحیک کے لیے کسی چینل یا اینکر کو استعمال کرنے کی کو شش بھی ہوتو اس کی مزاحمت ہو نی چایئے۔
موجودہ نظام میں بے شمار خامیا ں ہیں ان کی نشاندہی کے ساتھ بہتری کے لیے تجاویز سامنے آنی چائیں میں خود کئی بار اپنی تحریروں میں اس نظام کی Purification پر زور دے چکا ہوں مگر اینکر کسی کے کہنے پر جمہوری نظام کو اور اسے چلانے والے تمام سیاسی رہنماؤں کوہی ملعون کرناشروع کردیں اور فوجی مداخلت کو جائز قرار دینے لگیں تو یہ نامناسب ہی نہیں خطر ناک بھی ہے۔ اِسی طرح قومی ادارو ں (جسمیںپارلیمنٹ،عدلیہ، اورافواج شامل ہیں) کی توہین ہر گزنہیں ہونی چائیے، انکا غیرآئینی کردار تو زیرِ بحث آسکتاہے اور انھیں اپنے اندر بہتری لانے کا مشورہ بھی دیاجاسکتا ہے لیکن ان کے خلاف نفرت پھیلانے کی کوشش قابلِ قبول نہیں ہے۔اس سلسلے میں کسی اینکر کو ہرگز استعمال نہیں ہوناچائیے۔
اینکرز کو سطحی موضوعات سے بلند ہو کرسوچناچائیے اور نئےInitiativesلے کر موضوعات میں تنوّع پیداکرنا چایئے۔ سیاست بازی اور سکینڈلز کے علاوہ سنجیدہ مسائل کو موضوع ِ بحث بنانا چاہیے ۔پانی کا مسئلہ ہمارے ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بننے جارہاہے اس کے حل کے لیے ماہرین کے ساتھ شو ہو نے چائیے۔آبادی کے پھلاؤکو بھی موضوعِ سخن بنانا چاہیے ۔
ہمارے ملک کی آبادی بائیس کروڑہے جسمیں %65 نوجوان ہیں ،انکا مستقبل صرف ہُنرمندی سے وابستہ ہے۔ نوجوانوں کیSkill Development ہمارے لیے آکسیجن کی طرح اہم ہے۔ اس پر کئی شوز ہونے چائیں۔ ہمارے نوجوان مختلف قسم کی سماجی اور اخلاقی برائیوں کا شکار ہورہے ہیں،انمیں فراڈ،چوری، منشیات اور دیگر جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے ۔کیایہ مسئلہ سنجیدہ گفتگو کا موضوع نہیںبننا چائیے؟
Child Abuse )بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی) ایک بہت بڑامسئلہ بن چکا ہے ،اس پر ٹاک شوز ہونے چائیں اور نفسیا ت اور سماجیا ت کے ماہرین کے مشوروں کی روشنی میں اس کے تدارک کے لیے موثر اقدامات اٹھانے چائیں۔ امن و امان، کریمینل جسٹس سسٹم اورپولیسنگ کے نظام میں اصطلاحات پر سنجیدہ بحث ہونی چائیے۔
کئی سالوں کی عرق ریزی اور تجربات کے بعد قوم نے متفقہ طورپر یہ طے کر لیا ہے کہ اس ملک کو (جیسا قائدؒ چاہتے تھے) جمہوری نظام کے تحت چلایا جائے گا،ستّر سالوں میں ایک نہیں چار بار''مسیحا''بھی نازل ہوئے مگراس مسیحائی فارمولے نے قومی ادارے برباد کردیے اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، اس لیے ملک کے ہر طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنا وزن حاکمیّت ِ جمہور کے پلڑے میں ڈالے ۔قلمکار اپنے قلم اور کیمرے کو جمہوری استحکام کے لیے استعمال کریں اور جمہوریّت کو کمزور یا بدنام کرنے کی سازش میں شریک نہ ہوں بلکہ اس کی مزاحمت کریں۔
اگر کسی اینکر کو ایک پارٹی یا ایک لیڈر میں کو ئی برائی اور دوسرے لیڈر میں کوئی اچھائی نظر نہ آئے،اگر ایک لیڈر پر ہمیشہ تنقید کی جائے اور دوسر ںکے دامن پر لگے نمایاں داغوں کو نظر انداز کیا جائے توایسا کرنے والا متعصب یا ایک پارٹی کا جیالا اور متوالا سمجھا جائے گا، کسی اینکر،یا کمپیئر کو یہ زیب نہیں دیتا وہ کسی پارٹی کا ورکر بن جائے یا اُس پر جانبداری کا لیبل لگے۔متعصّب اینکرز کے ناظرین کی تعداد آہستہ آہستہ سمٹ جاتی ہے۔
ہر اینکر کی خوہش ہونی چایئے کہ اُس کا پرو گرام صرف ایک پارٹی کے حامی نہیں بلکہ ہر طبقہء خیال کے لوگ شوق سے دیکھیں۔ اینکر معلّم بھی ہوتا ہے اور رائے ساز بھی، معاشرے کے اتنے اہم فرد کو اپنا مقام پہچاننا چایئے اور اپنی ساکھ اور امیج کا ہر قیمت پر تحفظّ کر نا چایئے، ایک معیا ر ی اینکر کی سب سے بڑی توہین یہ ہے کہ اُسکے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ ''فلاں کابندہ '' ہے اور وہ فلاںجگہ سے لائن یا ہدایا ت لیتا ہے۔
ہماری دعا بھی ہے اور خو اہش بھی کہ نوجوان اینکر آئین کے تحفظ اور رزقِ حلال کے فروغ کا پرچم اٹھالیں، ہر قسم کے دباؤ،تحریص اورتر غیب کی زنجیریں توڑ دیں۔ ہدایت ناموں پر چلنے کے بجائے اپنی صلاحیتّیں وطنِ عزیز اور اس کے آئین کے تحفّظ کے لیے وقف کردیں اور یہ فیصلہ کر لیںکہ ہم آئین کو پامال کرنیوالے اور مالِ حرام کمانے والے کسی شخص کو اپنے کسی پروگرام میں مدعو نہیں کریں گے۔اگر ایسا ہوجائے تو یہ معاشرہ اور یہ ملک ایک جست میں پچاّ س سال کا سفر طے کر لے گا۔