غار میں پھنسے فٹبالرز کو نکالنے کی کوششیں جاری
خوراک ورسدکی فراہمی اولین ترجیح،غوطہ خوری آخری حل ہوگا،ریسکیو انچارج
تھائی لینڈ کے غار میں پھنسے ہوئے فٹبالر بچوں کو نکالنے کی کوششیں تاحال جاری ہیں۔
9 دن قبل لاپتہ ہونے والے 12 بچوں اور اْن کے فٹبال کوچ کا سراغ گذشتہ دنوں مل گیا تھا اور وہ سب زندہ ہیں، 2 برطانوی غوطہ خوروں نے ان تمام 13 افراد کو شمالی صوبے چیانگ رائی کے تھیم لوانگ غار میں تلاش کیا، اب انھیں بڑھتے ہوئے پانی اور کیچڑ سے نکالنا بڑا مسئلہ ہے، بی بی سی کے مطابق ان کی صحت کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ اس گروپ کو سیلاب کا پانی کم ہونے تک کم از کم چار ماہ وہاں رکنا ہوگا، ایسے میں ان بچوں اور ان کے کوچ کو وہاں سے نکالنے کے آپشنز میں سب سے تیز غوطہ خوری ہے۔
امریکا میں غار کے ریسکیو کمیشن کے کوآرڈینیٹر انمار مرزا نے بتایاکہ غوطہ خوری کا طریقہ سب سے تیز اور خطرناک بھی ہے، تھائی بحریہ کے غوطہ خور غار میں غوطہ لگانے والے تین برطانوی ماہر غوطہ خوراور امریکی فوجیوں نے ان بچوں کو تلاش کرنے کی کوششیں کیں، اس آپریشن میں چین، میانمار، لاؤس اور آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک کے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ افراد شامل رہے، ان ماہر غوطہ خوروں کو ان بچوں تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں لگے جبکہ یہ بچے تربیت یافتہ غوطہ خور بھی نہیں ہیں۔
فلوریڈا میں انٹرنیشنل انڈرواٹر کیوریسکیواورریکووری آرگنائزیشن کے علاقائی کورآڈینیٹر ایڈ سورنسن نے بتایا کہ غوطہ خوری ایک آپشن ہے لیکن یہ بہت خطرناک اور پریشان کن ہے، ہمارے خیال میں یہ آخری آپشن ہوسکتا ہے، حکام نے غار کی دیواروں میں سوراخ کر کے سیلاب کے پانی وہاں سے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن موٹی چٹانوں نے کوششیں مسدود کردی ہیں۔
ڈرلنگ بھی ان بچوں کی مدد کرنے اور ان تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس کی ابتدا کرنے سے پہلے غار کے اوپر وہاں تک سڑک بنانی ہوگی تاکہ وہاں چٹانوں کو توڑ کر سوراخ کرنے والی ڈرل مشین لے جائی جا سکے، انھوں نے کہاکہ اگر ڈاکٹر کہیں گے کہ وہ جسمانی طور پر وہاں سے نکالے جانے کے قابل ہیں تو ہم لوگ ان کوغار سے نکالیں گے، ان کی صحت باعث تشویش ہے۔
غار کے دہانے پر فوج نے عارضی اسپتال قائم کیا تاکہ انھیں فوری طبی امداد فراہم کی جاسکے، بہت دنوں سے بھوکے افراد کو اگر کھانا مناسب طریقے سے نہیں دیا گیا تو ان کا دل کمزور ہو سکتا ہے یا پھر وہ کوما میں جا سکتے ہیں۔
مرزا کا کہنا ہے کہ ان کی خراب صحت انھیں بچانے کی راہ میں حائل ہے، سورینسن بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مناسب ہو تو انھیں خوراک، پانی فلٹریشن کا نظام اور آکسیجن پہنچائی جائے، ان کے پاس اب روشنی اور امید ہے، اس لیے میرا خیال ہے اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک ان کے پاس رسد نہ پہنچ جائے، ان میں غذا اور پانی کی کمی نہ ختم ہو جائے اور وہ آسودہ نہ ہو جائیں۔
9 دن قبل لاپتہ ہونے والے 12 بچوں اور اْن کے فٹبال کوچ کا سراغ گذشتہ دنوں مل گیا تھا اور وہ سب زندہ ہیں، 2 برطانوی غوطہ خوروں نے ان تمام 13 افراد کو شمالی صوبے چیانگ رائی کے تھیم لوانگ غار میں تلاش کیا، اب انھیں بڑھتے ہوئے پانی اور کیچڑ سے نکالنا بڑا مسئلہ ہے، بی بی سی کے مطابق ان کی صحت کے حوالے سے بھی تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ اس گروپ کو سیلاب کا پانی کم ہونے تک کم از کم چار ماہ وہاں رکنا ہوگا، ایسے میں ان بچوں اور ان کے کوچ کو وہاں سے نکالنے کے آپشنز میں سب سے تیز غوطہ خوری ہے۔
امریکا میں غار کے ریسکیو کمیشن کے کوآرڈینیٹر انمار مرزا نے بتایاکہ غوطہ خوری کا طریقہ سب سے تیز اور خطرناک بھی ہے، تھائی بحریہ کے غوطہ خور غار میں غوطہ لگانے والے تین برطانوی ماہر غوطہ خوراور امریکی فوجیوں نے ان بچوں کو تلاش کرنے کی کوششیں کیں، اس آپریشن میں چین، میانمار، لاؤس اور آسٹریلیا سمیت مختلف ممالک کے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ افراد شامل رہے، ان ماہر غوطہ خوروں کو ان بچوں تک پہنچنے کے لیے گھنٹوں لگے جبکہ یہ بچے تربیت یافتہ غوطہ خور بھی نہیں ہیں۔
فلوریڈا میں انٹرنیشنل انڈرواٹر کیوریسکیواورریکووری آرگنائزیشن کے علاقائی کورآڈینیٹر ایڈ سورنسن نے بتایا کہ غوطہ خوری ایک آپشن ہے لیکن یہ بہت خطرناک اور پریشان کن ہے، ہمارے خیال میں یہ آخری آپشن ہوسکتا ہے، حکام نے غار کی دیواروں میں سوراخ کر کے سیلاب کے پانی وہاں سے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن موٹی چٹانوں نے کوششیں مسدود کردی ہیں۔
ڈرلنگ بھی ان بچوں کی مدد کرنے اور ان تک پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن اس کی ابتدا کرنے سے پہلے غار کے اوپر وہاں تک سڑک بنانی ہوگی تاکہ وہاں چٹانوں کو توڑ کر سوراخ کرنے والی ڈرل مشین لے جائی جا سکے، انھوں نے کہاکہ اگر ڈاکٹر کہیں گے کہ وہ جسمانی طور پر وہاں سے نکالے جانے کے قابل ہیں تو ہم لوگ ان کوغار سے نکالیں گے، ان کی صحت باعث تشویش ہے۔
غار کے دہانے پر فوج نے عارضی اسپتال قائم کیا تاکہ انھیں فوری طبی امداد فراہم کی جاسکے، بہت دنوں سے بھوکے افراد کو اگر کھانا مناسب طریقے سے نہیں دیا گیا تو ان کا دل کمزور ہو سکتا ہے یا پھر وہ کوما میں جا سکتے ہیں۔
مرزا کا کہنا ہے کہ ان کی خراب صحت انھیں بچانے کی راہ میں حائل ہے، سورینسن بھی ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر مناسب ہو تو انھیں خوراک، پانی فلٹریشن کا نظام اور آکسیجن پہنچائی جائے، ان کے پاس اب روشنی اور امید ہے، اس لیے میرا خیال ہے اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک ان کے پاس رسد نہ پہنچ جائے، ان میں غذا اور پانی کی کمی نہ ختم ہو جائے اور وہ آسودہ نہ ہو جائیں۔