شام کی خانہ جنگی میں مزید شدت

ایئر فورس کی بمباری سے متعدد ہلاکتیں ہوئیں مرنے والوں میں کمسن بچے بھی شامل تھے۔

شام میں خانہ جنگی کو شروع ہوئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب کہ اس دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد ستر ہزار سے متجاوز ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

دنیا کے قدیم ترین تاریخی شہروں والے حد درجہ سر سبزو شاداب وادیوں والے ملک شام میں گزشتہ کئی برسوں سے چاروں طرف موت کے سایے لہرا رہے ہیں۔ باغیوں کی سرکاری فوجوں سے خون آشام جھڑپیں جاری ہیں۔

سرکاری اعلان کے مطابق حکومتی دستوں نے ملک کے تیسرے سب سے بڑے شہر حمص میں باغیوں کے مضبوط ٹھکانوں پر بھاری توپخانے اور فضائیہ کی مدد سے حملہ کر کے باغیوں کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی۔ ایئر فورس کی بمباری سے متعدد ہلاکتیں ہوئیں مرنے والوں میں کمسن بچے بھی شامل تھے۔ اس کا انکشاف لندن میں قائم حقوق انسانی کے دفتر کی طرف سے کیا گیا ہے۔ صدر بشار الاسد کی فوج کی طرف سے باغیوں کے ٹھکانوں پر قبضہ کر لینے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

دوسری طرف الیپو شہر میں باغیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے بشار الاسد کی انسداد دہشت گردی فورسز کے ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا ہے اور اب ان کے ساتھی اپنے زیر قبضہ علاقوں میں مزید اضافے کے لیے جان کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ واضح رہے شام میں خانہ جنگی کو شروع ہوئے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب کہ اس دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد ستر ہزار سے متجاوز ہے۔ دوسری طرف امریکا کی طرف سے شام کے باغیوں کو جدید اسلحہ سے مدد دینے کے امکانات کی بازگشت بنی جارہی ہے مگر امریکی عوام نہیں چاہتے کہ امریکا شام کی خانہ جنگی میں خود بھی عملی طور پر ملوث ہو جائے۔


گزشتہ دنوں امریکی صدر بارک اوباما نے اعلان کیا تھا کہ شام میں سرکاری فورسز کی طرف سے عوام پر کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کی اطلاعات ملی ہیں جن کے بارے میں امریکا فوری طور پر تحقیقات کرائے گا اور اگر اطلاع درست ہوئی تو شامی حکومت کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ تاہم برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی طرف سے امریکی عوام کے مختلف سروے کرائے گئے ہیں جن میں امریکی عوام کی اکثریت امریکا کے شام کے تنازعہ میں ملوث ہونے کے خلاف ہے۔

یہ سروے آن لائن کرایا گیا تھا جس میں صرف 10 فیصد امریکی چاہتے ہیں کہ امریکا شام کے حالات کو بھی بہتر بنائے جب کہ 61فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے ملک کو کسی اور جھگڑے میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ شام میں امن کے قیام کے لیے امریکا' اسرائیل اور یورپی ممالک کا کردار انتہائی ضروری ہے۔

ادھر روس' اور ایران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شام حکومت کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں' اس عالمی کھینچاتانی میں شام تباہ ہو رہا ہے' عرب لیگ اور او آئی سی کا کردار بھی تماشائی کا ہے' دنیا کی طاقتور اقوام کا فرض ہے کہ وہ شام میں قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کریں' کسی ایک گروپ کی حمایت یا مخالفت سے امن قائم نہیں ہو گا بلکہ خون خرابے میں اضافہ ہو گا' امریکا کو اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا ہو گا' اگر امریکی انتظامیہ چاہے تو جنگ زدہ شام میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

اگر روایتی پالیسی جاری رکھی گئی تو پھر شام کے عوام کے مصائب میں بہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا' جس سے اس ملک کی وحدت کو قائم رکھنا مشکل ہو گا اور ارد گرد کے ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے لہٰذا مشرق وسطیٰ کو پر امن رکھنے کے لیے شام میں امن قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔
Load Next Story