دہشت گردی اور انتخابات
یہ الیکشن صرف ایک سیاسی ضرورت یا آئینی تقاضا نہیں ہے، یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے۔
ہر قسم کا تشدد قابلِ مذمت ہے۔ جان لینے والے ہمدردی کے نہیں صرف اور صرف سزا کے مستحق ہیں اور اگر سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے خون خرابہ بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے تو اس کی پکڑ انتظامی طور پر انتہائی کڑی ہو نی چاہیے۔ پاکستان میں ہونے والے انتخابات عام چناؤ نہیں ہیں۔
دنیا کا ایک نیوکلیئر صلاحیت رکھنے والا ملک جو عرصہ دراز سے استحکام کی تلاش میں ہے اور جس پر دوست اور دشمن دونوں خاص توجہ رکھتے ہیں، اگلے پانچ سالوں کے لیے ایک ایسی حکومت چننے جا رہا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خواب پورے کر سکے اور پریشانیاں کم کر پائے۔ پاکستان کا استحکام اس خطے اور بین الاقوامی نظام کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ یہ الیکشن صرف ایک سیاسی ضرورت یا آئینی تقاضا نہیں ہے، یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے۔ وہ تمام قوتیں جو ہمارے قدم اس منزل سے پہلے روکنا چاہتی ہیں، ملک دشمنی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
کراچی، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں پر نشانہ بننے والی جماعتوں کی جھنجھلاہٹ اور غصہ بجا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے ا ن کی انتخابی مہم بر ی طرح متاثر ہوئی ہے لہذا ان جماعتوں کی طرف سے صدائے احتجاج کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر الیکشن کے عمل پر سے تشدد کی تلوار نہ ہٹائی گئی تو تمام تر کاوش خاک ہو جائے گی اور وہ عمل جس کے ذریعے ہم ملک کو سدھارنا چاہتے ہیں، مزید بگاڑ اور فساد کا باعث بن جائے گا۔ یہ قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کا دھارا نہیں روکا جا سکتا، اس کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں کو ہر حال میں ہٹانا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ حقائق سے نظر نہیں ہٹانی چاہیے، مشکل وقت میں جذبات حقائق پر حاوی کر دیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ماحول ترتیب دے دیا جاتا ہے جس میں سچ کا کڑوا پن غلط بیانی کی ملمع کاری سے چھپا دیا جاتا ہے۔ مظلومیت کی داستانیں حقائق میں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جیسے سیاست ظالم اور مظلوم کا اکھاڑہ ہے نہ کہ طاقت کا وہ کھیل جس میں ہر داؤ جائز سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں دہشت گردی کے واقعات کا تناظر جاننا ضروری ہے۔
اس وقت ملک میں موجود نظام جس کو ہم نگراں حکومت کہتے ہیں ان سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے بنا ہے جو پچھلے پانچ سال مکمل اقتدار اور بے لاگ اختیار سے مستفید ہو ئیں۔ مرکز اور صوبوں میں موجود نظام چلانے والوں کا چناؤ آج کل واویلا کرنے والی جماعتوں نے اپنے ہاتھوں سے کیا، ہر فرد بشمول نگراں وزیر اعظم اور نگراں وزیر اعلی جو اس وقت ملک کو چلا رہے ہیں چھان پھٹک کے بعد منظور کیے گئے۔ پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیوایم، پی ایم ایل ق، حتیٰ کہ جے یو آئی اور ن لیگ سمیت سب نے نگراں حکومت کی ایک ایک اینٹ اتفاق رائے کی بھٹی میں سے گزار کر یہ دیوار چنی۔
اس تمام عمل سے ان جماعتوں نے نظام سے باہر مشاورت کو یکسر رد کر دیا اور ہر ایسی تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ اس جمہوری عمل کے منافی ہے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد حزبِ اختلاف اور حکومت کے مابین بات چیت تک محدود ہے۔ ان جماعتوں کو معلوم تھا کہ وہ اس ملک کو کس حال میں چھوڑے جا رہے ہیں۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک یہ دعوے کرتے ہوئے نہ چوکتے تھے کہ ان کے پاس دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں تمام معلومات موجود ہیں اور وہ اتنے زیرک ہیں کہ پاکستان میں اودھم مچانے والے تمام منصوبے ان معلومات کی بنیاد پر ناکام بنا دیں گے۔
سندھ میں ہر جماعت طاقت کا حصہ تھی اور آخری دو ماہ کے علاوہ رسمی حزبِ اختلاف کی موجودگی کی پریشانی سے بھی عاری تھی۔ سندھ کی حکومت ہمیشہ خود کو کامیاب حکمرانی کے تمغے دیتی تھی اور ہر دوسرے روز یہ دعوے کیے جاتے تھے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ خیبر پختوانخوا میں بھی صورتحال یہی تھی۔ ان جماعتوں کو نگراں حکومت کی ساخت کرتے وقت اپنے تجربات کی روشنی میں ایسے لوگوں پر یہ ذمے داری ڈا لنی چاہیے تھی جو ممکنہ چینجلز سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
آج اگر ایک لنگڑی لو لی، بیمار اور ضعیف نگراں حکومت چند اضلاع میں دہشت گردوں کو نہیں پکڑ سکتی اور یہ اسی عظیم ناکامی کا حصہ ہے جو پچھلے پانچ سال میں حکومت میں موجود جماعتوں کے علاوہ سب پر عیاں تھی۔ اس طرح الیکشن کمیشن اگر اپنا صحیح کردار ادا کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہا تو ہم کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں۔ آئین کو پڑھ لیجیے، الیکشن کمیشن کو بنانے میں کیا کسی صحافی، عام شہری، فوجی یا اس وقت کی اسمبلی سے باہر کسی سیاسی قوت کا کوئی حصہ ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ کمیشن اور اس کے کمشنر انھی جماعتوں نے اپنے پسندیدہ ضابطوں کے ذریعے بنائے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں اگلے پچاس سال کی پلاننگ کرنے کے دعوے داروں کو کیا یہ معلوم نہیں تھا کہ انتخابی مہم کے دو یا تین ماہ میں پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے کیسا الیکشن کمیشن چاہیے اور کہیں وہ اتفاق رائے کے نام پر ایک ایسے سمجھوتے پر راضی نہیں ہو رہے جو ظاہراً تو خوش کن نظر آئے مگر اندر سے سیاسی نادانیوں سے بھرا ہوا ہو۔ بد قسمتی سے انتخابی عمل کو درپیش تمام خطرات کے لیے جو پیش بندی کی جانی چاہیے تھی وہ ان سیاسی جماعتوں نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دی۔ یہ اپنی موجودہ مشکلات کے خالق خود ہیں۔
اس موقع پر ہمیں یہ بھی یاد دہانی کرانی چاہیے کہ انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے جب کبھی بھی انتخابی عمل کو موخر کرنے کا کسی حلقے کی طرف سے شوشہ چھوڑا جاتا تھا تو سب سے زیادہ اور شدید ردِعمل انھی جماعتوں کی طرف سے آتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی ہزاروں لاشوں کو انتخابات کے ذریعے پھلانگنے کی جرات اور اہلیت کو بطور مثال دہرایا جاتا تھا۔
یہ کہا جاتا تھا کہ انتخابات ہر حال میں وقت پر ہوں گے، چاہے کچھ بھی قیمت چکانی پڑے۔ مگر آج کل تیور بدل گئے ہیں اور پرانا عزم متزلزل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یقیناً ابھی تک بہت سی قیمتی پاکستانی جانوں کا نقصان اس وجہ سے ہو چکا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں بھر پور شرکت کرنا چاہتی تھیں۔ ان کی قربانیوں کو سلام کرتے ہوئے ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ابھی تک انتخابی مہم میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں ان تمام جماعتوں کے اقتدار میں ہوتے ہوئے سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کتنے ہیں، یہ موازنہ کسی بھی حقیقت پسند شخص کی آنکھیں کھول دے گا ۔
جمہوری دور میں صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انسانی جانیں ضایع نہیں ہوئیں بلکہ تلف کی گئیں۔ خون مزدور کے پسینے کی طرح بہایا گیا۔ بعض دن تو ایسے گزرے کہ جب چوبیس گھنٹوں میں سو سے زیادہ لاشیں ایک شہر سے اٹھائی گئیں۔ دہشت گردوں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں میں انسانی جانوں کا نقصان اس کے علاوہ تھا۔ اگر وہ سب کچھ یہ کہہ کر برداشت کر لیا گیا کہ جمہوری اقتدار اس تمام خلفشار کے باوجود قائم رکھنا قومی ضرورت ہے تو پھر موجودہ حالات میں محدود اور مخصوص دہشت گردی کو آنے والے اہم انتخابات کے لیے افسوس ناک مگر ضروری قربانی کے طور پر قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی انتخابی مشکلات کو کسی صورت غیر اہم یا غیر سنجیدہ طریقے سے نہیں لیا جا سکتا لیکن ان کو اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرنا بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب اور اندرون ِسندھ میں جیسی کمزور انتخابی مہم چلا رہی ہے اس کو دیکھ کر تو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس جماعت کا موجودہ انتخابات سے پہلے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ جو میدان دہشت گردوں کے ہاتھوں سے محفوظ بھی ہے وہاں پر انتخابی مہم کمزور اور ناقص نظر آتی ہے۔
ان حالات میں اپنی بے عملی اور سیاسی بے توقیری کو دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ جوڑنا حقائق کے منافی ہو گا۔ پر تشدد واقعات ایک مسئلہ ہیں اور ان کا تدارک ضروری ہے مگر ان کی وجہ سے انتخابی نتائج کتنے مختلف ہوں گے، یہ جاننے کے لیے صرف ایک لمحہ اپنی آنکھیں بند کیجیے اور یہ سو چیے کہ اگر پاکستان میں مکمل طور پر پر امن ماحول پیدا ہو بھی جائے تو ووٹر پچھلے پانچ سال کی کارکردگی کو جانچتے ہوئے کیا فیصلہ کرے گا۔
دنیا کا ایک نیوکلیئر صلاحیت رکھنے والا ملک جو عرصہ دراز سے استحکام کی تلاش میں ہے اور جس پر دوست اور دشمن دونوں خاص توجہ رکھتے ہیں، اگلے پانچ سالوں کے لیے ایک ایسی حکومت چننے جا رہا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خواب پورے کر سکے اور پریشانیاں کم کر پائے۔ پاکستان کا استحکام اس خطے اور بین الاقوامی نظام کی ایک بنیادی اکائی ہے۔ یہ الیکشن صرف ایک سیاسی ضرورت یا آئینی تقاضا نہیں ہے، یہ ایک تاریخ ساز موقع ہے۔ وہ تمام قوتیں جو ہمارے قدم اس منزل سے پہلے روکنا چاہتی ہیں، ملک دشمنی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔
کراچی، خیبر پختونخوا، بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں پر نشانہ بننے والی جماعتوں کی جھنجھلاہٹ اور غصہ بجا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان کارروائیوں کی وجہ سے ا ن کی انتخابی مہم بر ی طرح متاثر ہوئی ہے لہذا ان جماعتوں کی طرف سے صدائے احتجاج کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر الیکشن کے عمل پر سے تشدد کی تلوار نہ ہٹائی گئی تو تمام تر کاوش خاک ہو جائے گی اور وہ عمل جس کے ذریعے ہم ملک کو سدھارنا چاہتے ہیں، مزید بگاڑ اور فساد کا باعث بن جائے گا۔ یہ قوم اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کا دھارا نہیں روکا جا سکتا، اس کے راستے میں کھڑی رکاوٹوں کو ہر حال میں ہٹانا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ حقائق سے نظر نہیں ہٹانی چاہیے، مشکل وقت میں جذبات حقائق پر حاوی کر دیے جاتے ہیں۔ ایک ایسا ماحول ترتیب دے دیا جاتا ہے جس میں سچ کا کڑوا پن غلط بیانی کی ملمع کاری سے چھپا دیا جاتا ہے۔ مظلومیت کی داستانیں حقائق میں تبدیل کر دی جاتی ہیں۔ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ جیسے سیاست ظالم اور مظلوم کا اکھاڑہ ہے نہ کہ طاقت کا وہ کھیل جس میں ہر داؤ جائز سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں دہشت گردی کے واقعات کا تناظر جاننا ضروری ہے۔
اس وقت ملک میں موجود نظام جس کو ہم نگراں حکومت کہتے ہیں ان سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے بنا ہے جو پچھلے پانچ سال مکمل اقتدار اور بے لاگ اختیار سے مستفید ہو ئیں۔ مرکز اور صوبوں میں موجود نظام چلانے والوں کا چناؤ آج کل واویلا کرنے والی جماعتوں نے اپنے ہاتھوں سے کیا، ہر فرد بشمول نگراں وزیر اعظم اور نگراں وزیر اعلی جو اس وقت ملک کو چلا رہے ہیں چھان پھٹک کے بعد منظور کیے گئے۔ پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیوایم، پی ایم ایل ق، حتیٰ کہ جے یو آئی اور ن لیگ سمیت سب نے نگراں حکومت کی ایک ایک اینٹ اتفاق رائے کی بھٹی میں سے گزار کر یہ دیوار چنی۔
اس تمام عمل سے ان جماعتوں نے نظام سے باہر مشاورت کو یکسر رد کر دیا اور ہر ایسی تجویز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ اس جمہوری عمل کے منافی ہے جو اٹھارویں ترمیم کے بعد حزبِ اختلاف اور حکومت کے مابین بات چیت تک محدود ہے۔ ان جماعتوں کو معلوم تھا کہ وہ اس ملک کو کس حال میں چھوڑے جا رہے ہیں۔ اس وقت کے وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک یہ دعوے کرتے ہوئے نہ چوکتے تھے کہ ان کے پاس دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے بارے میں تمام معلومات موجود ہیں اور وہ اتنے زیرک ہیں کہ پاکستان میں اودھم مچانے والے تمام منصوبے ان معلومات کی بنیاد پر ناکام بنا دیں گے۔
سندھ میں ہر جماعت طاقت کا حصہ تھی اور آخری دو ماہ کے علاوہ رسمی حزبِ اختلاف کی موجودگی کی پریشانی سے بھی عاری تھی۔ سندھ کی حکومت ہمیشہ خود کو کامیاب حکمرانی کے تمغے دیتی تھی اور ہر دوسرے روز یہ دعوے کیے جاتے تھے کہ حالات بہتر ہو جائیں گے۔ خیبر پختوانخوا میں بھی صورتحال یہی تھی۔ ان جماعتوں کو نگراں حکومت کی ساخت کرتے وقت اپنے تجربات کی روشنی میں ایسے لوگوں پر یہ ذمے داری ڈا لنی چاہیے تھی جو ممکنہ چینجلز سے نپٹنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
آج اگر ایک لنگڑی لو لی، بیمار اور ضعیف نگراں حکومت چند اضلاع میں دہشت گردوں کو نہیں پکڑ سکتی اور یہ اسی عظیم ناکامی کا حصہ ہے جو پچھلے پانچ سال میں حکومت میں موجود جماعتوں کے علاوہ سب پر عیاں تھی۔ اس طرح الیکشن کمیشن اگر اپنا صحیح کردار ادا کرتے ہوئے نظر نہیں آ رہا تو ہم کس کو موردِ الزام ٹھہرائیں۔ آئین کو پڑھ لیجیے، الیکشن کمیشن کو بنانے میں کیا کسی صحافی، عام شہری، فوجی یا اس وقت کی اسمبلی سے باہر کسی سیاسی قوت کا کوئی حصہ ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ کمیشن اور اس کے کمشنر انھی جماعتوں نے اپنے پسندیدہ ضابطوں کے ذریعے بنائے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں اگلے پچاس سال کی پلاننگ کرنے کے دعوے داروں کو کیا یہ معلوم نہیں تھا کہ انتخابی مہم کے دو یا تین ماہ میں پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے کیسا الیکشن کمیشن چاہیے اور کہیں وہ اتفاق رائے کے نام پر ایک ایسے سمجھوتے پر راضی نہیں ہو رہے جو ظاہراً تو خوش کن نظر آئے مگر اندر سے سیاسی نادانیوں سے بھرا ہوا ہو۔ بد قسمتی سے انتخابی عمل کو درپیش تمام خطرات کے لیے جو پیش بندی کی جانی چاہیے تھی وہ ان سیاسی جماعتوں نے اپنے ہاتھوں سے تباہ کر دی۔ یہ اپنی موجودہ مشکلات کے خالق خود ہیں۔
اس موقع پر ہمیں یہ بھی یاد دہانی کرانی چاہیے کہ انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے جب کبھی بھی انتخابی عمل کو موخر کرنے کا کسی حلقے کی طرف سے شوشہ چھوڑا جاتا تھا تو سب سے زیادہ اور شدید ردِعمل انھی جماعتوں کی طرف سے آتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی ہزاروں لاشوں کو انتخابات کے ذریعے پھلانگنے کی جرات اور اہلیت کو بطور مثال دہرایا جاتا تھا۔
یہ کہا جاتا تھا کہ انتخابات ہر حال میں وقت پر ہوں گے، چاہے کچھ بھی قیمت چکانی پڑے۔ مگر آج کل تیور بدل گئے ہیں اور پرانا عزم متزلزل ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یقیناً ابھی تک بہت سی قیمتی پاکستانی جانوں کا نقصان اس وجہ سے ہو چکا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں بھر پور شرکت کرنا چاہتی تھیں۔ ان کی قربانیوں کو سلام کرتے ہوئے ہمیں ایک لمحے کے لیے یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ابھی تک انتخابی مہم میں دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کی تعداد کتنی ہے اور پچھلے پانچ سالوں میں ان تمام جماعتوں کے اقتدار میں ہوتے ہوئے سیاسی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے کتنے ہیں، یہ موازنہ کسی بھی حقیقت پسند شخص کی آنکھیں کھول دے گا ۔
جمہوری دور میں صوبہ سندھ اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں انسانی جانیں ضایع نہیں ہوئیں بلکہ تلف کی گئیں۔ خون مزدور کے پسینے کی طرح بہایا گیا۔ بعض دن تو ایسے گزرے کہ جب چوبیس گھنٹوں میں سو سے زیادہ لاشیں ایک شہر سے اٹھائی گئیں۔ دہشت گردوں کی طرف سے کیے جانے والے حملوں میں انسانی جانوں کا نقصان اس کے علاوہ تھا۔ اگر وہ سب کچھ یہ کہہ کر برداشت کر لیا گیا کہ جمہوری اقتدار اس تمام خلفشار کے باوجود قائم رکھنا قومی ضرورت ہے تو پھر موجودہ حالات میں محدود اور مخصوص دہشت گردی کو آنے والے اہم انتخابات کے لیے افسوس ناک مگر ضروری قربانی کے طور پر قبول کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان حملوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی انتخابی مشکلات کو کسی صورت غیر اہم یا غیر سنجیدہ طریقے سے نہیں لیا جا سکتا لیکن ان کو اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرنا بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب اور اندرون ِسندھ میں جیسی کمزور انتخابی مہم چلا رہی ہے اس کو دیکھ کر تو یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اس جماعت کا موجودہ انتخابات سے پہلے سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ جو میدان دہشت گردوں کے ہاتھوں سے محفوظ بھی ہے وہاں پر انتخابی مہم کمزور اور ناقص نظر آتی ہے۔
ان حالات میں اپنی بے عملی اور سیاسی بے توقیری کو دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ جوڑنا حقائق کے منافی ہو گا۔ پر تشدد واقعات ایک مسئلہ ہیں اور ان کا تدارک ضروری ہے مگر ان کی وجہ سے انتخابی نتائج کتنے مختلف ہوں گے، یہ جاننے کے لیے صرف ایک لمحہ اپنی آنکھیں بند کیجیے اور یہ سو چیے کہ اگر پاکستان میں مکمل طور پر پر امن ماحول پیدا ہو بھی جائے تو ووٹر پچھلے پانچ سال کی کارکردگی کو جانچتے ہوئے کیا فیصلہ کرے گا۔