گھوڑا بدک گیا تو کپتان گر بھی سکتے ہیں

خدشہ ہے کہ عمران خان جس ٹیم کے ساتھ نئے پاکستان کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں، اس کے کھلاڑی کسی اور ٹیم کا حصہ نہ بن جائیں


صدام حسین July 06, 2018
موجودہ سیاسی بساط اور کنٹرولڈ جمہوری نظام کے ذریعے عمران خان کبھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ (فوٹو: فائل)

انتخابات 2018 کا بگل چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی شروع ہوچکی ہے لیکن مطلع ابھی ابر آلود ہے۔ بے شمار وسوسے اور واہمے ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے بلکہ بڑھتے جارہے ہیں۔ سیاسی طوطے حسب طبع فالیں نکال رہے ہیں۔ کوئی الیکشن کے التواء کی ڈگڈگی بجا رہا ہے تو کوئی معلق پارلیمان کی آمد کی خبر سنا رہا ہے؛ اور کوئی ایک جماعت کے کلین سویپ کا منجن بیچنے میں لگا ہے۔

ن لیگ کے ملتان کے صوبائی امیدوار اقبال سراج کی دو ویڈیوز سوشل میڈیا پر نمودار ہوئیں۔ پہلی ویڈیو میں اقبال سراج نے الزام لگایا کہ ایک ادارے کے اہلکاروں نے ان پر تشدد کیا اور ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑنے کےلیے دباؤ ڈالا، انہوں نے تھپڑوں سے سرخ اپنے گال بھی کیمرے کی نذر کیے۔ دوسری تردیدی ویڈیو تھی جس میں وہ گھبرائے ہوئے عرض گزار تھے کہ ان کی طلبی 'محکمہ زراعت' کے 'افسروں' نے کی تھی، غلط فہمی میں کسی اور کا نام لے بیٹھا۔ جن کا نام لیا 'ان کا اس معاملے سے تعلق نہیں ہے۔' اس ویڈیو کا سامنے آنا تھا کہ میاں نواز شریف نے جھٹ سے سارا الزام ایک ادارے پر دھر دیا بلکہ وہ توکسی کانام بھی لینا چاہ رہے تھے لیکن مجمع میں سے کسی ہمدرد نے کہنی سے ٹہوکا دیا کہ کنٹرول میاں صاحب کنٹرول! بقول میاں نواز شریف، ہمارے بندے توڑ کر انہیں پیڈ شیڈ پہنا کر 'بلے' پکڑا کر سیاسی پچ پر اُتارا جا رہا ہے۔ جنہیں کرکٹ میں دلچسپی نہیں اُنہیں جیپ پر سوار کرکے چولستان جیپ ریلی کےلیے تیار کیا جارہا ہے اور یہ کام کوئی اور نہیں محکمہ زراعت کررہا ہے۔ جیپ سے یاد آیا، کرین بھی ویسے بڑی کارآمد مشین ہے۔ جب چاہا، جس کو چاہا ایک ہی جھٹکے میں اکھاڑ پھینکا۔

نواز شریف شاید زمانے کے نباض نہیں رہے۔ ان کےلیے مشکل سمے ضرور چل رہا ہے لیکن نجانے کیوں انہیں ہر واقعے میں محکمہ زراعت کا ہاتھ سجھائی دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ مشکل وقت میں سجن، یار، بیلی سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ بھی شاید وہی ہواہے۔ نثار جو کبھی یارِ غار تھا، اب جیپ پر چڑھا پھولا نہیں سماتا۔ ویسے نثار کو بڑی محفوظ سواری ملی ہے، جنگل میں گھومتے گھامتے کہیں کسی درندے سے سامنا ہو جائے تو شیشے چڑھا کر آسانی سے جان بچائی جاسکتی ہے۔ اورتو اور، جیپ پہاڑی راستوں میں آسانی سے ڈھلانوں پر پھڈک کر گزر جاتی ہے۔

لیکن نواز شریف اپنے یاروں کی بے وفائی کو خوامخواہ 'محکمہ زراعت' کے سر تھوپ رہے ہیں۔ ہم تو بچپن سے ہی مطالعہ پاکستان میں پڑھتے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری اکثریتی آبادی کھیتی کرکے ہی اپنا اور باقی ملک کا پیٹ پالتی ہے۔ اب اگرمحکمہ زراعت نے پرانے پاکستان کی بلکتی عوام کی بھوک کا مداوا کرنے کےلیے نئے پاکستان کے منصوبے کے تحت عاجزانہ کوششیں شروع کی ہیں تو بجائے انہیں سراہنے کے الٹا طنزیہ جملے بازی کی جا رہی ہے۔ پچھلے پانچ سال جس فصل کی آبیاری کےلیے خون پسینہ ایک کیا گیا ہے، اس کی 25 جولائی کو کٹائی کا موسم ہے۔ ظاہر ہے اگر محکمہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے تو فصل کا تو ستیاناس ہوجائے گا۔ نواز شریف صاحب کو ان مجبوریوں کو سمجھنا چاہیے۔

سیاسی بساط پر مہروں کو مسلسل آگے پیچھے کرنے کے عمل کے نتیجے میں بادشاہ جو بھی بنے، اصل بادشاہ تو بادشاہ گر ہی رہے گا۔ زمانے کے اندازو اطوار بدل گئے ہیں لیکن نہیں بدلے تو بادشاہ گری کے انداز نہیں بدلے۔ بادشاہ گری کا یہ کھیل اس ملک کی بنیاد رکھے جانے کے دن سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ اتفاق سے ہمارے بادشاہ گر وں کا پسندیدہ کھیل بھی شطرنج ہے اور وہ اس میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیائی زمانے میں جمہوری نظام کو کنٹرول کرنے کے اکثر اندازے اور تدبیریں الٹی ہو رہی ہیں اورسارے ہتھکنڈے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ کنٹرولڈ ڈیموکریسی شاید اب کی بار نہ چل سکے۔ سینیٹ میں 'کنٹرولڈ سیٹ اپ' کامیابی سے لے آیا تو گیا لیکن لانے والوں کی سبکی ہوتے زمانے نے دیکھی۔ اب ووٹر پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ باشعور ہو چکا ہے۔ آج وہ پانچ سال قبل ووٹ لے کر جانے والوں کا گریبان پکڑ کر اپنے ووٹ کی عزت اور حقوق کا حساب مانگ رہا ہے۔ ووٹر یہ بھی جان چکا ہے کہ کون کس کی چھتری تلے آرہا ہے اور کس کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے پیراشوٹیوں کو اس الیکشن میں تو شاید کچھ حصہ مل جائے لیکن مستقبل ان کا کچھ نہیں۔

یہ بات سمجھنے کےلیے پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت عوام کی حکومت کا نام ہے۔ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے چاہیں تو کسی گنگو تیلی کو اپنا وزیراعظم بنا لیں، چاہیں تو کوئی شیخ چلی منتخب کرلیں۔ لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم اس لیے نرالا ہے کہ یہاں خود منتخب نمائندوں کو اپنی عوامی طاقت کا بھروسہ نہیں ہوتا اور وہ ہمہ وقت خود ہی پیراشوٹ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر ان کا کام تو قانون سازی کرنا ہوتا ہے لیکن انہیں سڑکیں اور نالیاں پکی کرنے اورفیتے کاٹنے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ معاشی، دفاعی اور خارجہ امور سے متعلق پالیسی سازی ان کےلیے شجر ممنوعہ تصور کی جاتی ہے کہ اس دیوارِپُرخار کو ہاتھ لگایا تو ہاتھ چھلنی اور انگلیاں فگار ہو جائیں گی۔

تبدیلی کے علمبردار عمران خان کی کوئی تقریر مغربی جمہوریتوں کے ثمرات گنوائے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور وہ پاکستان میں بھی 'اصلی' جمہوریت لانے کے خواہش مند ہیں۔ کے پی کی پانچ سالہ تجربہ گاہ میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے البتہ اگلے پانچ سال میں پورے ملک پر اپنی تبدیلی کا تجربہ ضرور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کےلیے انہوں نے مختلف تجربہ کار اور گھاگ قسم کے سائنس دانوں کی پوری ایک ٹیم اکٹھی کی ہے۔ بلکہ کئی سائنس دان تو اب بھی ان کی ٹیم میں شامل ہونے کےلیے ہاتھ باندھے قطار میں لگے کھڑے ہیں۔ عمران خان کو بنی گالا کے کسی پرسکون گوشے میں بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ ان کی جماعت 22 سال میرٹ کی بنیاد پر جدوجہد کے بعد 22 ایسے رہنما کیوں پیدا نہیں کرسکی جو 22 نشستیں جیت سکتے؟ اگر ایسا نہیں ہوسکا تو وہ 22 کروڑ لوگوں کے پرانے پاکستان کو نیا کیسے بنائیں گے؟ مجبوراََ کپتان کو چلے ہوئے کارتوسوں سے ہی مسلح ہونا پڑا۔ کیا یہ پیرا شوٹیے نئے پاکستان کی بنیادیں اٹھانے میں کپتان کو اینٹ گارا فراہم کریں گے؟ یا انہی کو بنیادوں میں چنوا دیں گے؟

عمران خان کایہ دعویٰ بھی بجا ہے کہ ہوا اُن کے موافق چل رہی ہے، لیکن خدشہ یہ ہے کہ جس ٹیم کے ساتھ وہ نئے پاکستان کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہیں اس کے بیشتر کھلاڑی مستقبل قریب میں کسی اور ٹیم کا حصہ نہ بن جائیں۔ موجودہ سیاسی بساط اور کنٹرولڈ جمہوری نظام کے ذریعے عمران خان کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ جس ہوا کے گھوڑے پر وہ سوار ہیں، ہوا نے رخ بدل لیا تو گھوڑا ان کے نیچے بدک کر انہیں گرا بھی سکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں