کون سے پاکستان کے الیکشن

جی ہاں غریب ترین اور مقروض ترین لیکن اس کے باوجود ہم اس کی دہری شہریت سے باز نہیں آتے۔


Abdul Qadir Hassan May 03, 2013
[email protected]

قومی الیکشن میں چند دن باقی ہیں اور جن صحافیوں کو خدا نے پیش بینی کی صلاحیت دی ہے وہ مختلف جماعتوں کو قومی اسمبلی میں نشستیں الاٹ کر رہے ہیں اور نئی حکومت بنا رہے ہیں۔ ان کی پیش گوئیوں سے متاثر ہو کر کمزور ایمان والے امیدوار اپنے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔

میں نے سیاست اور سیاستدانوں کے لاتعداد اتار چڑھائو دیکھے ہیں اور اپنی نادانی کے زمانے میں ایسی کئی پیش گوئیاں کی ہیں جیسی ان دنوں کی جا رہی ہیں۔ ان پیش گوئیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1970ء کے آخری قومی الیکشن کے نتائج دیکھ کر ایک قومی سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان نے اپنے شہر خان گڑھ سے ایک چند سطری اور چند الفاظ پر مشتمل بیان جاری کیا کہ ''قوم نے غلط فیصلہ کیا ہے۔'' یہ متحدہ پاکستان کے آخری الیکشن تھے اور آخری اس لیے کہ قوم نے غلط فیصلہ کیا تھا، خود ہی ملک کو دو حصوں میں بانٹ دیا تھا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کا مشرقی پاکستان جو بعد میں بنگلہ دیش بن گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کا مغربی پاکستان جو نیا پاکستان کہلایا۔ بلاشبہ یہ ایک نیا پاکستان تھا، پرانا پاکستان تو 1970ء کے الیکشن میں ختم ہو چکا تھا۔ پاکستان کے جس سیاستدان نے اکثریت کی وجہ سے وزیر اعظم بننا تھا وہ نصف پاکستان کا صدر بن گیا اور جسے کچھ بھی نہیں ہونا تھا، وہ نئے پاکستان کا پہلے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر صدر اور وزیر اعظم بن گیا۔ یوں ایک الیکشن نے ملک کا ہی تیا پانچا کر دیا۔ اب مشرقی پاکستان نہیں ہے یعنی اس طرز اور فکر کا کوئی حصہ موجود نہیں ہے اور جو ہے اسی میں الیکشن ہو رہا ہے۔ میری کوئی پیش گوئی یعنی مجھے موصول ہونے والی کوئی پیش گوئی بھی نوابزادہ صاحب کے اس دکھ بھرے بیان کو رد نہیں کرتی کہ قوم نے غلط فیصلہ کیا ہے۔

میرے بس میں ہو تو میں پنجاب میں انتخابی سرگرمیوں پر پابندی لگا دوں اور لیڈروں سے عرض کروں کہ حضور سندھ، خیبر، بلوچستان وغیرہ میں جائو اور وہاں الیکشن لڑو۔ میں ابھی ابھی کسی شاعر کا ایک خوبصورت شعر پڑھ رہا تھا کہ

کرے نہ پل کوئی مسمار میرے
ابھی کچھ لوگ ہیں اس پار میرے

میں ان سب پلوں کی چوکیداری کا اعزاز حاصل کرنا چاہتا ہوں مگر ہم نے جو چوکیدار بنا رکھے ہیں، کیا وہ نگہبانی کا حق ادا کر رہے ہیں یا ان پلوں کی حفاظت کے احساس سے ہی محروم ہیں۔ میرے سیاسی لیڈر سب کے سب میرے سامنے ہیں۔ میں انھیں ان کی سیاست کے آغاز سے ہی جانتا ہوں اور ان کی ذہنی استعداد سے بھی کسی حد تک واقف ہوں مگر یہ جیسے بھی ہیں ، جتنے کچھ بھی ہیں، ہمیں انھی سے کام چلانا ہے۔

میرا جی تو یہ چاہتا ہے کہ ان سب قومی رہنمائوں کو ان کی اصل حالت میں بیان کر دوں۔ کسی ایک کے بدن پر بھی پورے کپڑے نہیں ہیں اور جتنے ہیں میں انھیں ہی دھو دھلا کر کلف لگا کر اور استری کر کے ان کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ پاکستان اگر پسماندہ دنیا کا کوئی اور ملک ہوتا تو یہ لیڈر اس میں کہیں نہ کہیں فٹ بیٹھ سکتے تھے لیکن پاکستان تو ایک غیر معمولی بلکہ دنیا بھر میں ایک انوکھا اور منفرد ملک ہے جو کسی نظریے کی طاقت سے وجود میں آیا ہے اور اس کی نئی سرحدیں کھینچ کر ان کے اندر ایک نئے ملک کو قائم کیا گیا ہے اور اس پر ایک نیا جھنڈا لہرا دیا گیا ہے۔

اسلام کا نظریہ جیسا بھی ہے یہ ملک اس کا نمایندہ ہے اور میری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہتی بلکہ میں پاگل پن کی حد تک بکھر اور پریشان ہو جاتا ہوں جب اس ملک کے بعض دانشور سیاستدان اور حکمران تک اپنے آپ کو پاکستان کے بھرے بازار میں سیکولر کہنے کی جسارت کرتے ہیں۔ گزشتہ حکومت کے پانچ برسوں میں سیکولرزم کا نعرہ بلند ہوتا رہا۔ دونوں بغلوں میں دو کتے اٹھا کر اپنا پہلا تعارف کرانے والے فوجی حکمران نے نہ صرف زبانی کلامی بلکہ عملاً اپنے سیکولر ہونے کا اعلان کیا اور برسوں تک اس نام نہاد اسلامی ملک پر حکومت کرتا رہا، اسلامی جمہوریہ پاکستان' نہ جانے کتنی بار اس مقدس نام کی توہین کی گئی ہے۔

میں جب یہ عرض کرتا ہوں کہ پاکستان نہ اسلامی ہے نہ جمہوریہ ہے اور نہ وہ پاکستان ہے جو قائد اعظم نے بنایا تھا تو ایک واقعہ بیان کرتا ہوں کوئی نکتہ بازی نہیں کرتا۔ کسی سیکولر شخص کا اس ملک میں رہنا گویا ایک 'دہری شہریت' ہے۔ یہ تو مسلمان شہریوں کا ملک ہے، سیکولر اقلیت میں شامل ہو سکتے ہیں جس کے حقوق مقرر ہیں۔ تعجب ہے کہ ایک تو سیکولر کہلانا دوسرے اس ملک کی قیادت اور حکومت کا دعویٰ کرنا، یہ دو متضاد باتیں ہیں جن کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ ملک آج دنیا کا ایک غریب ترین ملک ہے۔

جی ہاں غریب ترین اور مقروض ترین لیکن اس کے باوجود ہم اس کی دہری شہریت سے باز نہیں آتے۔ ہمارے پاس نہ صرف وسائل کی بھر مار ہے بلکہ ذہین ترین افرادی قوت کی افراط بھی ہے۔ ذرا غور فرمائیے، یہ ملک ایک ایٹمی ملک بھی ہے، اس کے ایک ذہین ترین اور بلا کے محب وطن ڈاکٹر قدیر خان کی بدولت۔ اس پر بھی غور فرمائیے کہ جس حکمران نے بنے بنائے بم کا عملاً اعلان کر دیا، وہ بھی پھولا نہیں سماتا کیونکہ قدرت نے اسے یہ موقع دے دیا تھا۔ سونے چاندی پیتل کوئلے اور نہ جانے کس کس دھات کے انبار ہماری سرزمین میں پوشیدہ پڑے ہماری راہ دیکھ رہے ہیں لیکن ہماری قوت ایمانی اتنی کمزور ہے کہ ہم سونے چاندی کے کسی ڈھیر کے اوپر سے پتھر ہٹانے کی ہمت بھی نہیں پاتے اور اپنے دشمنوں کی اجازت کے منتظر ہیں۔

بات الیکشن سے شروع ہوئی تھی کیا معلوم کوئی ایسا لیڈر طلوع ہو جائے جو ہمارے اندھیروں کو روشنی میں بدل دے اور یہ صرف صحیح پاکستان میں ہی پیدا ہو سکتا ہے، کسی دہری دوغلی شہریت میں نہیں۔ ہمیں خالص پاکستان کے الیکشن مطلوب ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں