طالبان حامی وزیراعظم
اب پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک طرف تو جنگ کی سطح تک پہنچ گئے دوسری طرف زرداری صاحب کو مشکلات کا احساس دلایا گیا
پاکستان پیپلز پارٹی راولپنڈ ی کے تاریخی لیاقت باغ میں جلسہ نہیں کرسکتی جب کہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 میں لیاقت باغ میں جلسہ کرکے اپنی تہلکہ مچا دینے والی انتخابی مہم کا آغاز کیا تھا۔ پیپلزپارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کی شام ہی میدان میں انتخابی جلسہ کے اختتام پر دہشت گردی کے حملے میں شہید ہوئی تھیں۔
راولپنڈی کی انتظامیہ دہشت گردی کے خطرے کی بنا پر پی پی پی کو جلسے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال خیبر پختونخوا میں بھی ہے۔ اس صورتحال کی بنا پر گزشتہ 5سال کے اتحادی اور مخالف پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ موجودہ دہشت گردی کی لہر کے ذریعے طالبان کے حامی وزیراعظم کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان جماعت اسلامی کے 1970 کے جیسے نعروں کو دہرا کر ووٹروں کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نواز شریف طالبان کی طرف سے دی گئی چھوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب اور کے پی کے میں جلسے کررہے ہیں، یہ چیزیں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنی ہیں کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بعض حلقوں میں انتہاپسند کالعدم تنظیموں سے مفاہمت کرلی ہے۔ تحریک انصاف کے نائب صدر مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے بیانات میں طالبان کو تسلی دے رہے ہیں کہ وہ کچھ دیر انتظار کریں پھر حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔
اس صورتحال کا ایک طویل پس منظر ہے، اب اس حقیقت کو تو سب مانتے ہیں کہ جنرل مشرف نے جب اس صدی کے آغاز پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی وزیر خارجہ کی پیشکش کو قبول کیا تو اسٹبلشمنٹ نے اپنی پرانی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ پاکستانی سرحد سے متصل افغانستان کے پہاڑی علاقے تورا بورا سے فرار ہونے والے عرب، ازبک اور افغان اور دیگر طالبان کو ایک منصوبہ بندی کے ذریعے جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاقوں میں روپوش کردیا گیا۔
2002 کے انتخابات میں متحارب مذہبی جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور خیبر پختونخوا کی حکومت ایم ایم اے کے حوالے کی گئی۔ مبصرین کے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ ان جماعتوں کے کارکن تو ایک دوسرے کے قتل کو عین عبادت سمجھتے ہیں، وہ پھر کس طرح ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہوگئے ہیں، بہرحال کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پہلے پشاور اور کوئٹہ میں منتقل ہوئی اور پھر یہ لڑائی کراچی تک پہنچ گئی، یوں ایک طرف تو افغانستان میں صدر کرزئی اور امریکا کے خلاف مزاحمتی تحریک مضبوط ہوئی اور پھر بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں آزادی کی تحریک پروان چڑھی۔
اگرچہ پرویز مشرف حکومت نے دہشت گردی میں مطلوب کئی عرب باشندوں کو امریکا کے حوالے کیا مگر القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں محفوظ رہائش میسر آگئی۔ میڈیا کو انتہاپسند نظریات کو پھیلانے کے لیے خوبی سے استعمال کیا گیا۔ مشرف حکومت نے اسکولوں کے نصاب میں تبدیلی کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو روشن خیال بنانے کے بارے میں سوچا مگر مشرف حکومت کو سہارادینے والی ق لیگ آڑے آگئی ۔
انتہا پسندوں نے 2007 کے انتخابات کے موقعے پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرکے ایک طرف ملک کو قیادت اور پیپلزپارٹی کو اس کے مستقبل سے محروم کرنے کی کوشش کی، جب آصف علی زرداری نے قیادت سنبھالی تو انھوں نے سابق صدر اسکندر مرزا کی پالیسی کو اپناتے ہوئے تمام فریقوں کو اقتدار میں شامل کرنے کی حکمت عملی تیار کی، مگر وہ جلد ہی اسٹبلشمنٹ کے جال میں پھنس گئے اور مسلم لیگ ن سے عدلیہ کی بحالی پر ٹکراؤ ہوا جس سے انھیں زیادہ نقصان پنجاب میں ہوا۔
پیپلزپارٹی اور پنجاب کے عوام میں فاصلے گہرے ہوتے چلے گئے، ممبئی میں دہشت گردی کی واردات نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ایک نئے محاذ پر کھڑا کردیا، اب پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک طرف تو جنگ کی سطح تک پہنچ گئے دوسری طرف زرداری صاحب کو مشکلات کا احساس دلایا گیا، پیپلزپارٹی کے مقتدرہ سے تعلقات بہتر ہوئے۔ اس صورتحال میں انتہاپسندوں کو اپنے نیٹ ورک کو ملک بھر میں پھیلانے کے بھرپور موقع فراہم ہوئے۔ قبائلی علاقوں کا تو ذکر کیا، پہلے طالبان نے سوات پر قبضہ کیا، پھر انھوں نے جنوبی پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کے دائرے میں شامل کیا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک 2010 اور 2011 میں جنوبی پنجاب کی صورتحال کا ذکر کرتے تھے مگر پیپلزپارٹی کی حکومت اس بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہی۔
2008 میں مخلوط حکومت کے قیام کے ساتھ کراچی کے مضافاتی علاقوں سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے درمیانی علاقوں میں زمینوں پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی کراچی میں داخل ہوگئی اور اس کی شکل لسانی ہوگئی۔ ادھر صدر زرداری نے قائم علی شاہ کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنادیا مگر وزیراعلیٰ کے اختیارات کئی دیگر رہنماؤں کو تفویض کردیے، ایوان صدر نے بھی وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کرنے شروع کیے۔
سندھ میں گزشتہ 5 سال کے دوران ایک طاقتور اور مکمل اختیارات سے لیس ایسے وزیراعلیٰ کا تصور نہیں ابھرا جیسا پنجاب میں شہباز شریف کو حاصل رہا ہے، پیپلزپارٹی کی حکومت نے Good Governance کو پالیسی کے طور پر ترک کیا، اس بنا پر پولیس اور اس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی کارکردگی بھی مفلوج ہوئی۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنما ایک دوسرے پر ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگانے لگے۔ ایم کیو ایم کے ایم پی اے رضا حیدر کے قتل کے بعد کراچی میں 100 کے قریب افراد قتل ہوئے۔ ایم کیو ایم نے رضاحیدر کے قتل کا الزام اے این پی پر عائد کیا مگر بعد میں ثابت ہوا کہ یہ کارنامہ انتہاپسند عناصر کا تھا۔ لیاری میں امن کمیٹی وجود میں آئی، پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کمیٹی کی مجرمانہ سرپرستی شروع کردی، شہر میں بھتے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا، پہلی دفعہ ایم کیو ایم اور لیاری کے سیاسی عناصر ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔
اس زمانے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں طالبان کی کمین گاہوں کے قیام پر واویلا کیا تھا، مگر پیپلزپارٹی اور اے این پی اور دوسری جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف متحارب تھیں اس لیے الطاف حسین کی بات پر توجہ نہیں دی گئی پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سندھ میں بلدیاتی نظام پر دیہی اور شہری علاقوں میں خلیج پیدا کی گئی۔ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی قیادت اس خلیج کے منفی اثرات کا اندازہ نہیں لگاسکی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے Good Governance پر یقین نہ رکھنے کا فائدہ پورے ملک میں انتہاپسندوں نے اٹھایا۔ صورتحال اس نہج پر پہنچی کہ انتہاپسند قوتیں انتخابی نتائج کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آگئیں۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران دہشت گردی اور انتخابی عمل کے دوران ہونے والی دہشت گردی میں واضح فرق ہے، خاص طور پر مخصوص جماعتوں کو اس خطرناک ہتھیار سے انتخابی عمل سے دور کرنے سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ کراچی میں گزشتہ دنوں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں پیپلزپارٹی سندھ کے کسی رہنما کی عدم موجودگی اور رحمن ملک کی نمایندگی سے ثابت ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی ابھی بھی تضاد کا شکار ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ طالبان کے حامی وزیراعظم کا 2014 میں افغانستان سے امریکا کی واپسی کے موقعے پر اہم کردار ہوگا۔ یہ صورتحال صرف پاکستان کے لیے نہیں خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ ہے، ملک اور خطے کو ایک روشن خیال جماعت ہی بحران سے نکال سکتی ہے مگر اس مقصد کے حصول کے لیے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا اور جمہوری طور طریقے اپنانا ہوں گے ورنہ خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوجائے گا جو دوسری جنگوں سے زیادہ بھیانک ہوگی۔
راولپنڈی کی انتظامیہ دہشت گردی کے خطرے کی بنا پر پی پی پی کو جلسے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ یہ صورتحال خیبر پختونخوا میں بھی ہے۔ اس صورتحال کی بنا پر گزشتہ 5سال کے اتحادی اور مخالف پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے ہیں۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ موجودہ دہشت گردی کی لہر کے ذریعے طالبان کے حامی وزیراعظم کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عمران خان جماعت اسلامی کے 1970 کے جیسے نعروں کو دہرا کر ووٹروں کو متاثر کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
نواز شریف طالبان کی طرف سے دی گئی چھوٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب اور کے پی کے میں جلسے کررہے ہیں، یہ چیزیں بھی ذرایع ابلاغ کی زینت بنی ہیں کہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے بعض حلقوں میں انتہاپسند کالعدم تنظیموں سے مفاہمت کرلی ہے۔ تحریک انصاف کے نائب صدر مخدوم شاہ محمود قریشی اپنے بیانات میں طالبان کو تسلی دے رہے ہیں کہ وہ کچھ دیر انتظار کریں پھر حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔
اس صورتحال کا ایک طویل پس منظر ہے، اب اس حقیقت کو تو سب مانتے ہیں کہ جنرل مشرف نے جب اس صدی کے آغاز پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی وزیر خارجہ کی پیشکش کو قبول کیا تو اسٹبلشمنٹ نے اپنی پرانی پالیسی تبدیل نہیں کی۔ پاکستانی سرحد سے متصل افغانستان کے پہاڑی علاقے تورا بورا سے فرار ہونے والے عرب، ازبک اور افغان اور دیگر طالبان کو ایک منصوبہ بندی کے ذریعے جنوبی اور شمالی وزیرستان کے علاقوں میں روپوش کردیا گیا۔
2002 کے انتخابات میں متحارب مذہبی جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا گیا اور خیبر پختونخوا کی حکومت ایم ایم اے کے حوالے کی گئی۔ مبصرین کے لیے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ ان جماعتوں کے کارکن تو ایک دوسرے کے قتل کو عین عبادت سمجھتے ہیں، وہ پھر کس طرح ایک سیاسی پلیٹ فارم پر متحد ہوگئے ہیں، بہرحال کابل میں لڑی جانے والی لڑائی پہلے پشاور اور کوئٹہ میں منتقل ہوئی اور پھر یہ لڑائی کراچی تک پہنچ گئی، یوں ایک طرف تو افغانستان میں صدر کرزئی اور امریکا کے خلاف مزاحمتی تحریک مضبوط ہوئی اور پھر بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں آزادی کی تحریک پروان چڑھی۔
اگرچہ پرویز مشرف حکومت نے دہشت گردی میں مطلوب کئی عرب باشندوں کو امریکا کے حوالے کیا مگر القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں محفوظ رہائش میسر آگئی۔ میڈیا کو انتہاپسند نظریات کو پھیلانے کے لیے خوبی سے استعمال کیا گیا۔ مشرف حکومت نے اسکولوں کے نصاب میں تبدیلی کے ذریعے نوجوانوں کے ذہنوں کو روشن خیال بنانے کے بارے میں سوچا مگر مشرف حکومت کو سہارادینے والی ق لیگ آڑے آگئی ۔
انتہا پسندوں نے 2007 کے انتخابات کے موقعے پر محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کرکے ایک طرف ملک کو قیادت اور پیپلزپارٹی کو اس کے مستقبل سے محروم کرنے کی کوشش کی، جب آصف علی زرداری نے قیادت سنبھالی تو انھوں نے سابق صدر اسکندر مرزا کی پالیسی کو اپناتے ہوئے تمام فریقوں کو اقتدار میں شامل کرنے کی حکمت عملی تیار کی، مگر وہ جلد ہی اسٹبلشمنٹ کے جال میں پھنس گئے اور مسلم لیگ ن سے عدلیہ کی بحالی پر ٹکراؤ ہوا جس سے انھیں زیادہ نقصان پنجاب میں ہوا۔
پیپلزپارٹی اور پنجاب کے عوام میں فاصلے گہرے ہوتے چلے گئے، ممبئی میں دہشت گردی کی واردات نے پیپلزپارٹی کی حکومت کو ایک نئے محاذ پر کھڑا کردیا، اب پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک طرف تو جنگ کی سطح تک پہنچ گئے دوسری طرف زرداری صاحب کو مشکلات کا احساس دلایا گیا، پیپلزپارٹی کے مقتدرہ سے تعلقات بہتر ہوئے۔ اس صورتحال میں انتہاپسندوں کو اپنے نیٹ ورک کو ملک بھر میں پھیلانے کے بھرپور موقع فراہم ہوئے۔ قبائلی علاقوں کا تو ذکر کیا، پہلے طالبان نے سوات پر قبضہ کیا، پھر انھوں نے جنوبی پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کے دائرے میں شامل کیا۔ وزیر داخلہ رحمن ملک 2010 اور 2011 میں جنوبی پنجاب کی صورتحال کا ذکر کرتے تھے مگر پیپلزپارٹی کی حکومت اس بارے میں رائے عامہ ہموار کرنے میں ناکام رہی۔
2008 میں مخلوط حکومت کے قیام کے ساتھ کراچی کے مضافاتی علاقوں سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے اور ناردرن بائی پاس کے درمیانی علاقوں میں زمینوں پر قبضے کے لیے ہونے والی لڑائی کراچی میں داخل ہوگئی اور اس کی شکل لسانی ہوگئی۔ ادھر صدر زرداری نے قائم علی شاہ کو سندھ کا وزیراعلیٰ بنادیا مگر وزیراعلیٰ کے اختیارات کئی دیگر رہنماؤں کو تفویض کردیے، ایوان صدر نے بھی وزیراعلیٰ کے اختیارات استعمال کرنے شروع کیے۔
سندھ میں گزشتہ 5 سال کے دوران ایک طاقتور اور مکمل اختیارات سے لیس ایسے وزیراعلیٰ کا تصور نہیں ابھرا جیسا پنجاب میں شہباز شریف کو حاصل رہا ہے، پیپلزپارٹی کی حکومت نے Good Governance کو پالیسی کے طور پر ترک کیا، اس بنا پر پولیس اور اس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی کارکردگی بھی مفلوج ہوئی۔ ایم کیو ایم اور اے این پی کے رہنما ایک دوسرے پر ٹارگٹ کلنگ کا الزام لگانے لگے۔ ایم کیو ایم کے ایم پی اے رضا حیدر کے قتل کے بعد کراچی میں 100 کے قریب افراد قتل ہوئے۔ ایم کیو ایم نے رضاحیدر کے قتل کا الزام اے این پی پر عائد کیا مگر بعد میں ثابت ہوا کہ یہ کارنامہ انتہاپسند عناصر کا تھا۔ لیاری میں امن کمیٹی وجود میں آئی، پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس کمیٹی کی مجرمانہ سرپرستی شروع کردی، شہر میں بھتے اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں اضافہ ہوا، پہلی دفعہ ایم کیو ایم اور لیاری کے سیاسی عناصر ایک دوسرے کے مدمقابل آگئے۔
اس زمانے میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کراچی میں طالبان کی کمین گاہوں کے قیام پر واویلا کیا تھا، مگر پیپلزپارٹی اور اے این پی اور دوسری جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف متحارب تھیں اس لیے الطاف حسین کی بات پر توجہ نہیں دی گئی پھر ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت سندھ میں بلدیاتی نظام پر دیہی اور شہری علاقوں میں خلیج پیدا کی گئی۔ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کی قیادت اس خلیج کے منفی اثرات کا اندازہ نہیں لگاسکی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے Good Governance پر یقین نہ رکھنے کا فائدہ پورے ملک میں انتہاپسندوں نے اٹھایا۔ صورتحال اس نہج پر پہنچی کہ انتہاپسند قوتیں انتخابی نتائج کو کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں آگئیں۔
گزشتہ پانچ سال کے دوران دہشت گردی اور انتخابی عمل کے دوران ہونے والی دہشت گردی میں واضح فرق ہے، خاص طور پر مخصوص جماعتوں کو اس خطرناک ہتھیار سے انتخابی عمل سے دور کرنے سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ کراچی میں گزشتہ دنوں ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی اور اے این پی کی مشترکہ پریس کانفرنس میں پیپلزپارٹی سندھ کے کسی رہنما کی عدم موجودگی اور رحمن ملک کی نمایندگی سے ثابت ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی ابھی بھی تضاد کا شکار ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار کی یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ طالبان کے حامی وزیراعظم کا 2014 میں افغانستان سے امریکا کی واپسی کے موقعے پر اہم کردار ہوگا۔ یہ صورتحال صرف پاکستان کے لیے نہیں خطے کے امن کے لیے بھی خطرہ ہے، ملک اور خطے کو ایک روشن خیال جماعت ہی بحران سے نکال سکتی ہے مگر اس مقصد کے حصول کے لیے ماضی سے سبق سیکھنا ہوگا اور جمہوری طور طریقے اپنانا ہوں گے ورنہ خطے میں ایک نئی جنگ کا آغاز ہوجائے گا جو دوسری جنگوں سے زیادہ بھیانک ہوگی۔