یوم سوگ نہیں یوم فتح کی ضرورت

کراچی میں دندناتے پھرنے والے حیوانوں کی تعداد پانچ سو یا پانچ ہزار ہوسکتی ہے.


Zaheer Akhter Bedari May 03, 2013
[email protected]

ایک ہفتے کے اندر اندر تین یوم سوگ، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کن عذابوں سے گزر رہا ہے۔ سارا شہر، شہر خموشاں کا منظر پیش کر رہا ہے، ہر چہرہ سوگوار، ہر آنکھ میں خوف و دہشت کے سائے، وہ عروس البلاد جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا خوف، دہشت اور غیر یقینیت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔

شیطانوں اور قاتلوں کی تعداد چند سو یا چند ہزار ہوسکتی ہے، مٹھی بھر شیطان دو کروڑ انسانوں پر غالب ہیں۔ یہ دنیا پر غلبہ حاصل کرنے نکلے ہیں لیکن دنیا پر غلبہ نہ خودکش حملوں سے ممکن ہے نہ سیمنٹ کے بموں سے نہ ٹائم بموں سے نہ بارودی گاڑیوں سے۔ دنیا پر غلبہ یا تو بہت بڑی فوجی قوت سے حاصل ہوسکتا ہے یا انسانوں کے دلوں کو جیت کر یہ غلبہ ممکن ہے۔ اول تو آج کی دنیا پر غلبہ نہ کسی بڑی سے بڑی فوجی قوت سے حاصل کیا جاسکتا ہے نہ اکیلے بکھرے اور منقسم معاشروں میں دل جیت کر غلبہ حاصل کرنا ممکن ہے۔

اس پس منظر میں چند گروہوں کی یہ خواہش کیسے پوری ہوسکتی ہے کہ وہ خودکش حملوں، ٹائم بموں، بارودی گاڑیوں کے ذریعے دنیا پر غلبہ حاصل کرلیں گے؟ لیکن اس حقیقت کے باوجود دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کی اس جنگ کا پہلا ہدف کراچی پر غلبہ حاصل کرنا ہے اور کراچی کے دو کروڑ عوام محض خوف اور دہشت کی وجہ سے ان مٹھی بھر قاتلوں سے سہمے ہوئے ہیں ۔

خوف اور دہشت ایک نفسیاتی کمزوری ہوتی ہے۔ اس حوالے سے میرے ذہن پر بچپن کے کچھ واقعات نقش ہیں جو کل کی طرح تازہ ہیں۔ ہمارے شہر بیدر سے کوئی 25-20 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گھنا جنگل تھا جو درندوں سے بھرا تھا۔ شہروں کے باسی شہروں میں امن وامان کے ساتھ رہتے تھے، جنگل کے باسی اپنے جنگلی قانون کے تحت زندگی گزارتے تھے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ ایک بڑے قد کاٹھ کا جنگلی جانور جنگل سے نکل کر شہر کے مضافات میں آگیا اور بے دھڑک انسانوں کی جان لینے لگا، بیسویں صدی کے پہلے نصف کی دنیا توہمات سے بھری ہوئی تھی، توہم پرست لوگوں کے ذہنوںمیں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ جنگلی جانور نہیں، کوئی ایسی بلا ہے جسے انسانوں سے ناراض خدا نے ان پر مسلط کیا ہے۔

اس دہرے خوف کی وجہ سے سارا شہر لرزاں تھا، جنگلی جانور نے جب دیکھا کہ انسان اس سے خوفزدہ ہے تو اس کی ہمت بڑھ گئی اور وہ سرشام شہر میں گھسنے لگا جو اس کے سامنے آتا اسے یہ چیر پھاڑ کر رکھ دیتا، اب تو سارا شہر اس قدر خوفزدہ ہوگیا کہ سرشام ہر گھر کے دروازے بند ہونے لگے، خوف و دہشت کا عالم یہ تھا کہ اس جنگلی جانور کا نشانہ بننے والے چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکارتے لیکن کسی گھر کا دروازہ نہ کھلتا۔ ہر شخص اپنے گناہوں سے توبہ کرتا نظر آتا، خواہ اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو۔ مولوی حضرات شہریوں کے اس خوف میں یہ کہہ کر اضافہ کرتے کہ یہ ان کے گناہوں کی سزا اور خدا کا عذاب ہے۔

ایسے دہشت زدہ ماحول میں ایک آواز اٹھی، بزدلو! تم لاکھوں میں ہو اور تمہیں خوفزدہ کرنے والاتمہاری جانیں لینے والا صرف ایک جنگلی جانور ہے، آؤ باہر آؤ! میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تم سے آگے رہوں گا، یہ فضلو قصائی تھا، اس کی عمر 35-30 سال ہوگی، وہ گلی گلی، محلے محلے میں آواز لگاتا پھرتا۔ بزدلو! باہر نکلو، میرے پیچھے آؤ، ایک جنگلی جانور سے ڈر کر گھروں میں بند ہو۔

فضلو قصائی کی بات آہستہ آہستہ خوفزدہ لوگوں پر اثر کرنے لگی اور پھر سرشام گھروں میں چھرا لیے ان کی قیادت کرنے لگا۔ انسانوں سے بے خوف جنگلی جانور باہر آیا اور ہجوم پر حملہ آور ہوا۔ فضلو قصائی آگے بڑھا اور چھرے سے جانور پر جھپٹا، جانور نے فضلو قصائی کو اگرچہ لہولہان کردیا لیکن فضلو کے چھرے اور شہریوں کے لاٹھی ڈنڈوں نے جنگلی جانور کی تکابوٹی کردی، شہریوں کو اپنی قوت اور خوف کا احساس ہوا۔ یوں بیدر کے شہری اس بلا سے نجات حاصل کرسکے۔

کراچی میں دندناتے پھرنے والے حیوانوں کی تعداد پانچ سو یا پانچ ہزار ہوسکتی ہے لیکن دو کروڑ انسانوں کی آبادی میں پانچ سو یا پانچ ہزار حیوانوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہوتی ہے اگر دو کروڑ انسان ان حیوانوں پر تھوک دیں تو یہ غرق ہوجائیں گے، لیکن ایسا اس لیے نہیں ہورہا ہے کہ دو کروڑ بزدل انسان 30-25 ہزار پولیس اور رینجرز پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں، دو کروڑ کی آبادی اور سیکڑوں کلومیٹر پھیلے اس شہر میں جہاں ہزاروں بستیاں ہیں، لاکھوں گلیاں ہیں پولیس اور رینجرز کچھ نہیں کرسکتی، ہر گلی، ہر محلے کی حفاظت نہ پولیس رینجرز کرسکتی ہے نہ اس پر تکیہ کیا جاسکتا ہے۔

ان حیوانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے شہر کے سارے لوگوں کو خوف و دہشت کے حصار سے باہر نکلنا ہوگا، کسی فضلو قصائی کا انتظار کیے بغیر، کیونکہ اب پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے اور جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو سر بچانا ضروری ہوجاتا ہے۔ گلی گلی، محلہ محلہ پھیلے ہوئے ان حیوانوں کی حیوانیت کو روکنے کے لیے اس شہر کے عوام کو گلی گلی محلے محلے اپنی تنظیمیں بنانی پڑیں گی، تنظیمیں محض خواہش کرنے سے بن سکتی ہیں نہ بیانات سے، اس شہر کے اسٹیک ہولڈروں کو بلاتخصیص قومیت، رنگ، نسل، زبان، انفرادی اور جماعتی مفادات اور تحفظات کو بالائے طاق رکھ کر گلی گلی محلے محلے جانا ہوگا، اور جب دو کروڑ انسان باہر نکلیں گے تو 500 یا 5000 حیوان خوف ہی سے مرجائیں گے، انھیں مار کر اپنے ہاتھ گندے نہیں کرنا پڑیں گے۔

لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ 500 یا 5000 حیوان 2 کروڑ انسانوں پر بھاری کیوں پڑ رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دہشت گرد منظم ہیں، ہر کام منصوبہ بندی کے ساتھ کر رہے ہیں، جدید مواصلاتی سہولتوں، عقائدی ہتھیار اور بھاری معاوضے کی وجہ سے وہ خیبر سے کراچی تک اٹھارہ کروڑ انسانوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں اور اٹھارہ کروڑ انسان چند ہزار حیوانوں سے اس قدر خوفزدہ ہیں کہ سرشام گھروں میں بند ہورہے ہیں، اس سائیکی کی وجہ سے وہ اور زیادہ پراعتماد ہوکر انسانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ان منظم اور منصوبہ بند قوتوں کا مقابلہ منظم اور منصوبہ بند جنگ ہی سے ہوسکتا ہے افراتفری سے نہیں۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی شہر اور معاشی حب ہے،اس شہر کو دوزخ سے جنت بنانے کے دعوے تو سب کر رہے ہیں لیکن جو لوگ یہاں سے ہزاروں میل دور بیٹھ کر لاکھوں کے پرامن جلسوں میں یہ وعدے کررہے ہیں، ان کی نظریں کراچی میں ہر روز بہنے والے خون ناحق پر نہیں بلکہ اسلام آباد کے ایوانوں پر لگی ہوئی ہیں، وہ تین صوبوں میں بکھری ہوئی بے گناہ انسانوں، بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں کی لاشوں کو پھلانگتے ہوئے اسلام آباد کی طرف جانا چاہتے ہیں، اسی مفاد پرستی، ہوس اقتدار کی وجہ سے اس ملک کے عوام کی اکثریت ان اقتدار کے بھوکوں سے نفرت کر رہی ہے۔

آج وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں اور مچانوں پر بیٹھ کر سادہ لوح ووٹروں کا شکار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں کہ 18 کروڑ عوام کے منہ اور سمت ایک ہوجائیں تو جھکا دیں وہ ان حیوانوں کی طرح ان عظیم مدبروں کے سر بھی جو 65 سال سے اس ملک کے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بناتے آرہے ہیں۔ عوام خواہ کراچی میں رہنے والے ہوں یا پختونخوا یا بلوچستان میں رہنے والے ہوں، ان کی اجتماعی طاقت اتنی بڑی ہوتی ہے کہ حکومتیں اس کے آگے سرنگوں ہوجاتی ہیں، اگر یقین نہ ہو تو ذرا 1968 اور 1971 میں جھانکیے، دیکھیے کیسے کیسے جوان کیسی کیسی طاقتیں عوام کے سامنے سرنگوں تھیں۔ اب یوم سوگ نہیں یوم فتح کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔