روایتی تہذیبیں
میرے خیال میں یہ تبصرہ کتاب کی اہمیت اور وقعت کا قرار واقعی احاطہ نہیں کر پاتا۔
جیرڈ ڈائمنڈ یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں جغرافیہ کے پروفیسر ہیں۔ آپ ایک علمی شخصیت ہیں، جہاں ایک جانب آپ کو امریکا کا بہترین جغرافیہ دان قرار دیا جاتا ہے، وہیں آپ کو دنیا ایک ماہر تاریخ دان، ماہر بشریات، ماحولیات اور ارتقائی حیاتیاتی ماہر کی حیثیت سے بھی جانتی ہے۔
آپ ''دی چیمپینزی'' (1991)، ''گنز، جرمز اینڈ اسٹیل'' (1997)، ''کولیپس'' (2005) اور ''دی ورلڈ اَنٹل یسٹرڈے'' (2012) جیسی شہرۂ آفاق اور وقیع علمی کتب کے مصنف ہیں۔ آپ کو 30 سے زاید مختلف اعزازات سے نوازا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ''فی بی ٹاکاپا ایوارڈ برائے سائنس'' (1997)، رائل سوسائٹی پرائز سائنسی کتب کے لیے (1992، 1998 اور 2006)۔ پولٹر پرائز (1998) نیشنل میڈل آف سائنس (1999) وغیرہ۔
جیرڈ ڈائمنڈ نیوگنی کثرت سے جاتے رہتے ہیں۔ سال کے دو ماہ تو غالباً ان کے نیوگنی ہی میں گزرتے ہیں۔ بہت سے افراد جو ان کی فکر اور تحریروں سے واقف نہیں، انھیں حیرت ہوتی ہے کہ ایک ترقی یافتہ ملک کا اتنا بڑا نام، ایک پس ماندہ ملک میں آخر اتنا وقت کیوں گزارتا ہے۔ جنوری میں معروف رسالے ''دی اکنامسٹ'' نے آپ کی تازہ ترین کتاب ''دی ورلڈ اَنٹل یسٹرڈے'' پر تبصرہ کیا ہے۔
میرے خیال میں یہ تبصرہ کتاب کی اہمیت اور وقعت کا قرار واقعی احاطہ نہیں کر پاتا۔ گزشتہ دنوں جو کتاب پڑھنے کا موقع ملا تو میں حیران رہ گیا۔ میں نے اس سے قبل جیرڈ کی کوئی تحریر نہیں پڑھی تھی، البتہ آپ کی کتاب ''گنز، جرمز اینڈ اسٹیل'' پر نیٹ جیو (نیشنل جیو گرافک) کے لیے بننے والی ڈاکومنٹری کے کچھ حصے دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ''ٹیڈ'' کے لیے آپ کے ایک لیکچر کی وڈیو ملی تھی، لیکن میں دیکھ نہیں سکا۔ یہ کتاب پڑھنا شروع کی تو اس نے تو گویا اسیر ہی کرلیا۔ ہمارا آج کا ''تذکرہ'' اس کتاب کے آخری حصے سے متعلق ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ شہری زندگی میں افراد تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں۔ جیرڈ اس حوالے سے لکھتا ہے۔ ''روایتی تہذیبوں میں تنہائی کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ لوگ اپنی زندگیاں وہیں، یا آس پاس گزارتے ہیں، جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ قریبی رشتے دار اور بچپن کے ہم جولی تا عمر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ روایتی معاشرے چند سو افراد کے قبائل یا گروہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے مابین کوئی اجنبی نہیں ہوتا۔ شادی کے موقعے پر عموماً لڑکیاں بیاہ کر دوسرے گھر جاتی ہیں۔
یہ نیا گھر بھی ان کے لیے نیا نہیں ہوتا۔ وہ ان کے والدین کے گھر کے قریب ہی ہوتا ہے۔ اس کے علی الرغم گنجان آباد صنعتی معاشروں میں تنہائی ایک مزمن مرض کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ 'ہجوم میں اکیلا آدمی' محض ایک ادبی استعارہ نہیں، یہ امریکا اور یورپ کے بڑے شہروں میں رہنے اور کام کرنے والوں کے لیے ایک بنیادی حقیقت ہے۔ وہاں کے افراد سارا سارا دن ساتھ کام کرنے والوں سے بمشکل تمام واقف ہوپاتے ہیں۔ یہ اپنے خونی رشتوں سے طویل فاصلوں پر رہ رہے ہوتے ہیں۔
اولاد کو والدین کا کچھ پتا نہیں ہوتا، والدین اولاد سے دور۔ سب اکیلے۔ افریقا میں بہت سا وقت رہنے والے ایک دوست نے اسے مختصراً یوں بیان کیا کہ افریقا میں زندگی مادی سطح پر غربت زدہ، لیکن معاشرتی اور جذباتی سطح پر امیر ہوتی ہے، جب کہ امریکا میں مادی سطح پر امیر اور معاشرتی اور جذباتی سطح پر عسرت زدہ۔'' جیرڈ مزید لکھتے ہیں۔ ''دیگر مشاہدات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر فرد عدیم الفرصت ہے۔ وقت کے شدید دباؤ کا شکار۔ ہر فرد وقت کی قید میں جکڑا ہوا، گھڑی کی سوئی کے کانٹوں کی طرح دوڑ رہا ہے۔ سخت شیڈولز کا اسیر، شدید دباؤ میں کام کرنے والا، جسے ہر وقت مقابلے اور مسابقت کا سامنا ہے۔''
اس کے بعد مصنف نے نیوگنی، فلپائن اور کینیا میں پلنے بڑھنے والے کچھ بچوں کے تاثرات رقم کیے ہیں۔ ان کے والدین کو کاروبار، یا مشنری وجوہ سے ان پس ماندہ علاقوں میں رہنا پڑا۔ جب یہ بچے نوجوانی میں امریکا پلٹے تو انھوں نے اپنے تاثرات مصنف کو کچھ یوں بتائے۔
''امریکی بچے، ''ماچو بچے'' ہیں۔ ان کی گفتگو تک ''ماچو'' ہے۔ یہ ایک دوسرے کو پیٹتے ہیں۔ اچھے بچے امریکا میں سکھی نہیں رہ سکتے۔''
''نیوگنی کے بچوں کے ساتھ بڑا ہونے کے بعد میں نے جو پہلی بات امریکی بچوں میں دیکھی وہ یہ کہ یہ اسکول جاتے ہیں، اسکول سے واپس آکرگھر کے دروازے بند کرلیتے ہیں اور وڈیو گیم کھیلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ اپنے گھر سے نکلتے ہیں پھر اسکول چلے جاتے ہیں۔ نیوگنی میں ہم بہت سارا وقت گھر سے باہر ہم جولیوں کے ساتھ گزارتے تھے، ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے تھے۔''
مصنف کئی بچوں کے تاثرات رقم کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ نیوگنی اور فلپائن کے بچے گھر صرف سونے کے لیے جاتے ہیں۔ کھانے کے وقت بچے کسی بھی گھر میں کھانا کھا سکتے ہیں۔ خود ہماری دادی نے ہمیشہ اس بات کا اہتمام رکھا ہے کہ ''روٹی کی ڈلیا'' میں روٹی ہر وقت رہے۔ ہمارے گھر کا بڑا سا آنگن کسی بھی وقت محلے کے بچوں کا اکھاڑا یا کھیل کا میدان بن جاتا تھا۔ ایسے میں محلے کی دیگر خواتین کی طرح ہماری دادی کی بھی کوشش ہوتی تھی کہ آئے ہوئے بچے کچھ نہ کچھ کھا پی کر ہی جائیں۔
ذرا سوچیے کیا صنعتی معاشروں میں یہ ممکن ہے؟ کیا محلے کے بچوں کو خاتون خانہ خوش آمدید کہہ سکتی ہیں۔ اول تو معلوم نہیں انھیں خاتونِ خانہ کہا بھی جا سکتا ہے کہ نہیں۔ سارا دن تو وہ کام پر ہوتی ہیں اور بچے ''ڈے کئیر'' میں۔ آٹھ سے دس گھنٹے کی شدید دباؤ اور تناؤ والی ملازمت اور ایک سے تین گھنٹے کی سفری صعوبتوں کے بعد وہ گھر واپس لوٹتی ہیں۔
ایسے میں تو اپنے ہی بچے برے لگ رہے ہوتے ہیں، کجا یہ کہ محلے کے بچے بھی بن بلائے مہمان بن کر آن دھمکیں۔ امریکا میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جب ایسی جھنجلائی ہوئی ماؤں نے اپنے بلکتے ہوئے معصوم بچوں کو فرائنگ پَین میں تل دیا یا اوون میں جلا ڈالا۔
مہمان کو خوش آمدید تو ان ہی تہذیبوں میں کہا جاسکتا ہے جن کی مابعدالطبیعات میں مہمان کو خدا کی رحمت سمجھنا شامل ہو۔ جب یہ سمجھا جاتا ہو کہ آنے والے کے رزق کا بندوبست پہلے ہی ہوچکا ہوتا ہے۔ جہاں دسترخوان کا وسیع ہونا بابرکت سمجھا جاتا ہو، ایسی ہی تہذیبوں میں ممکن ہے کہ لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر مہمانوں کو لاتے ہیں اور کم از کم رات کا کھانا بغیر مہمان کے نہیں کھاتے۔جیرڈ ڈائمنڈ اپنی کتاب میں بچوں کے تاثرات لکھتے ہیں۔
''نیوگنی میں اگر کوئی بچہ ہوائی جہاز دیکھتا تو وہ اپنے لیے لکڑی اور تیلیوں کی مدد سے ایک ہوائی جہاز بنا لیتا تھا اور سارا دن مختلف آوازیں نکال نکال کر جہاز اڑاتا پھرتا تھا۔ امریکا میں بنے بنائے کھلونے مل جاتے ہیں۔'' وہاں کے بچے ہنرمندی اور تخلیق سے محروم رہ جاتے ہیں، نہ ہی انھیں اپنے ہاتھ سے بنے کھلونے استعمال کرنے کی مسرت ہی کبھی حاصل ہو پاتی ہے۔ ''افریقا میں آپ چیزیں بانٹتے ہیں۔ مثلاً جب میں اسکول میں تھا تو مجھے ایک ربڑ کی ٹیوب ملی۔ وہاں کے بچوں کے لیے یہ ایک قیمتی متاع ہے۔ ہم اس سے غلیل بناتے تھے۔ میں نے ربڑ کی ٹیوب کے ٹکڑے اپنے دوستوں میں خوب بانٹے، جب کہ امریکا میں اگر آپ کو کوئی قیمتی چیز مل جائے تو اسے آپ اپنے تک محدود رکھتے ہیں۔''
''امریکا نے میری آزادی چھین لی، جب میں نیوگنی میں تھا تو دوستوں کے ساتھ خوب کھیلتا تھا۔ ہم درختوں پر چڑھتے تھے اور نہروں میں نہاتے تھے۔ امریکا میں یہ سب کچھ ایک خوب صورت خواب ہے۔'' (دی ورلڈ اَنٹل یسٹرڈے۔ صفحہ 677)
جیرڈ ڈائمنڈ کی مندرجہ بالا کتاب یقیناً لائق مطالعہ ہے۔ روایتی تہذیبیں انسان کے لیے ہوا کرتی تھیں۔ ان کا مرکز و محور انسان تھا۔ صنعتی اور مغربی طرز کے معاشروں میں اپنی جڑوں اور روحانی اقدار سے کٹا انسان صرف سرمائے کے لیے ہوتا ہے اور وہ جیتا بھی صرف سرمائے ہی کے لیے ہے۔