خواب برابری کے تعبیر صرف 36 امیدوار
انتخابات میں عام نشستوں پر خواتین کو لڑانے کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔
ووٹر۔۔۔۔ وہ چیونٹی جس کے انتخابات کے موسم میں پَر نکل آتے ہیں اور پھر یہ چیونٹی کسی ہاتھی کی موت کا باعث بھی بن سکتی ہے۔عوام کو بے وقوف سمجھنے والے کب تک اپنی طاقت کے زعم میں رہیں گے۔الیکشن کی گہماگہمی عروج پر ہے۔۔۔ لیکن ٹھہریے،گہماگہمی صرف ان کے لیے جنھیں کسی حملے کا خطرہ نہیں۔ باقی تو وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو پچھلے پانچ سال میں حکومت کا حصہ رہی ہیں یا یوں کہیے کہ حکومت گھسیٹتی رہی ہیں، اب ان کے پاس بڑے بڑے ڈیکس کے ذریعے پارٹی کے نغمات ''دور دور تک پہنچانے''، رنگ برنگی لائٹیں جگمگانے اور جگہ جگہ اپنے پرچم لہرانے کے سوا الیکشن کی کوئی گہماگہمی نہیں۔
جلسے جلوسوں پر حملوں کا خطرہ ہے، سیکیورٹی خدشات کے باعث جان پر بنی ہوئی ہے، چنانچہ بلند ترین آہنگ میں انتخابی نغمات کی ریکارڈنگ کے ذریعے انتخابی کیمپوں کے قریب آباد لوگوں کی جان پر بنا دی جاتی ہے۔ چاہے اس شور اور دھمک سے کسی دل کے مریض کے دل کا جانا ٹھہرجائے، مگر دل بہلاتی اس گہماگہمی کا نظر آنا ضروری ہے۔
اخباروں کے صفحات پلٹیے، ٹی وی کے چینل بدلیے یا سوشل میڈیا میں جھانک آئیں، ہر سو انتخابات کا شور ہے، وعدوں کا زور ہے۔ سیاسی جماعتوں کے وعدوں سے بھرے منشور ملک کی نصف آبادی یعنی عورتوں کو بھی اچھے دنوں اور صنفی مساوات کے سپنے دکھا رہے ہیں، مگر ان کی تعبیر ان جماعتوں کے نامزد امیدواروں میں خواتین کی تعداد دیکھ کر سامنے آجاتی ہے۔
یوں تو پاکستان کی ساری ہی سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی چیمپیئن بنتی ہیں، لیکن انتخابات میں عام نشستوں پر خواتین کو لڑانے کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 کے الیکشن کے بعد عام نشستوں کے لیے بطور پارٹی امیدوار مقابلہ کرنے والی خواتین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ میں ٹی وی چینلز بدلتی گئی اور سیاست دانوں کے بھانت بھانت کے دعوے کانوں میں پڑتے گئے۔
ایک صاحب، جو اردو پر مکمل عبور دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں، کچھ یوں پریس کانفرنس میں اظہار خیال کررہے تھے، ''ہمارا انتخابی نعرہ انتخابات سب کے لیے ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی پچاس فیصد کی جائے گی۔'' دل تو چاہا کہ چیخ کر کہوں کہ اگر ایسا ہی ہے تو آپ نے صرف سات خواتین کو پارٹی ٹکٹ کیوں دیا؟ مگر افسوس میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی، ہاں تحریر ضرور پہنچ سکتی ہے۔
دوسرے چینل پر انصاف کے نعرے لگانے والوں کی آواز آئی، ''ہمارے منشور کی بنیاد انصاف، امن اور خوش حالی ہے۔'' اے انصاف کی بولی بولنے والو! تم نے قومی اسمبلی کے لیے صرف چار خواتین کو ٹکٹ دیا ہے۔ یہ تو انصاف کا چوتھائی حصہ بھی نہ ہوا۔
ایک اور سیاست داں صنعت و تجارت کے شعبے پر خاص توجہ دینے اور ملازمت کے تیس لاکھ سے زاید مواقعے فراہم کرنے کی بات کر رہے تھے، مگر انھوں نے خواتین کی نمایندگی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان کی جماعت نے صرف سات خواتین کو پارٹی ٹکٹ کے لائق سمجھا ہے۔
دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیتا ہے، لیکن پاکستان کی دو بڑی مذہبی جماعتوں نے ایک بھی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا۔
عام انتخابات میں خواتین پر اعتماد کا عالم یہ ہے کہ 272 نشستوں والی قومی اسمبلی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے مجموعی طور پر36 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ 2008 کے الیکشن میں 34 جب کہ 2002 کے انتخابات میں 38 خواتین کو ٹکٹ دیے گئے تھے۔
خواتین کی پارلیمنٹ میں نمایندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 52 ویں نمبر پر ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود یہ نمایندگی دوسرے مسلم ممالک سے زیادہ ہے۔ مگر یہ نمایندگی مخصوص نشستوں کی بنیاد پر ہے، نہ کہ براہ راست انتخاب میں خواتین کی کام یابی کے باعث۔ اور یہ مخصوص نشستیں سیاسی خانوادوں کی خواتین کے لیے مختص سمجھی جاتی ہیں۔
جہاں تک خواتین کو عام نشستوں کے لیے امیدوار بنانے کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتوں کی روش یہ نظر آتی ہے: پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 میں پندرہ خواتین کو امیدوار نامزد کیا تھا، اب یہ تعداد کم ہوکر 11 رہ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن نے 2008 میں چھ خواتین کو ٹکٹ دیے تھے، اس مرتبہ سات خواتین کو میدان میں اتارا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ الیکشن میں پانچ خواتین کو امیدوار بنایا، اس بار سات حلقوں میں خواتین امیدوار سامنے لائی ہے۔ مسلم لیگ ق کی جانب سے دیے جانے والے ٹکٹوں کی تعداد آٹھ سے کم ہوکر چار رہ گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے لیے چار، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے صرف دو خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی کسی خاتون کو امیدوار نامزد نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خاتون امیدواروں میں عذرا پیچوہو، فریال تالپور، خالدہ گھرکی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ثمینہ دولتانہ، سائرہ افضل تارڑ، سمیرا ملک، ماروی میمن اور خوش بخت شجاعت اپنے اپنے حلقوں میں مضبوط امیدوار ہیں۔
پاکستان کے مخصوص معاشرے میں درپیش مشکلات کے باوجود خواتین جس طرح اپنی ذمے داریاں اور اپنا سماجی کردار احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں، وہ ہمارے جیسے سماج کے حامل دیگر ممالک کی عورتوں کے لیے ایک مثال ہے۔ آج کی پاکستانی عورت گھر سے لے کر تعلیم کے میدان اور سیاست کے ایوانوں تک اپنے فرائض بخوبی نبھا رہی ہے۔ اس کے باوجود اہل سیاست عملاً خواتین کی صلاحیتوں اور سماجی و سیاسی کردار کے اعتراف سے گریزاں ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا بے نظیر بھٹو، ان کی سیاسی بصیرت اور جرأت سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں تو یہ روایت رہی ہے کہ کسی جماعت پر مشکل وقت پڑتا ہے تو خواتین ہی آگے بڑھ کر جدوجہد اور قربانی کی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ پارٹی لیڈر کے ایک اشارے پر خاتون کارکنان سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ خواتین نے کیا کبھی اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ پارٹی ٹکٹ تقسیم صنفی امتیاز کے بغیر برابری کی بنیاد پر کیوں نہیں کی جاتی؟ یا کم از کم معقول تعداد میں خواتین کو امیدوار نامزد کیوں نہیں کیا جاتا؟
سیاسی جماعتوں میں شامل وہ تمام خواتین جو اپنی اپنی جماعت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں، اپنی جماعت میں خواتین کو نظرانداز کرنے پر آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟ ان کی ذرا سی کوشش اور احتجاج ان کی جماعتوں میں خواتین کا مقام تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ سارا منظر دل دکھانے والاہے، مگر میں مایوس نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ اس ملک میں تبدیلی کا وقت آچکا ہے۔ جو کبھی نہ ہوا وہ انشاء اﷲ اگلے پانچ سال میں ضرور ہوگا۔ جب صرف باتوں سے خواتین کے حقوق کی چیمپیئن شپ جیتی نہ جاسکے گی، بلکہ نامزد امیدواروں کی فہرست میں ''محترمہ، آنسہ اور مِس'' کے لاحقے والے ناموں کی نمایاں تعداد ہی بتائے گی کہ کون سی جماعت عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے۔
جلسے جلوسوں پر حملوں کا خطرہ ہے، سیکیورٹی خدشات کے باعث جان پر بنی ہوئی ہے، چنانچہ بلند ترین آہنگ میں انتخابی نغمات کی ریکارڈنگ کے ذریعے انتخابی کیمپوں کے قریب آباد لوگوں کی جان پر بنا دی جاتی ہے۔ چاہے اس شور اور دھمک سے کسی دل کے مریض کے دل کا جانا ٹھہرجائے، مگر دل بہلاتی اس گہماگہمی کا نظر آنا ضروری ہے۔
اخباروں کے صفحات پلٹیے، ٹی وی کے چینل بدلیے یا سوشل میڈیا میں جھانک آئیں، ہر سو انتخابات کا شور ہے، وعدوں کا زور ہے۔ سیاسی جماعتوں کے وعدوں سے بھرے منشور ملک کی نصف آبادی یعنی عورتوں کو بھی اچھے دنوں اور صنفی مساوات کے سپنے دکھا رہے ہیں، مگر ان کی تعبیر ان جماعتوں کے نامزد امیدواروں میں خواتین کی تعداد دیکھ کر سامنے آجاتی ہے۔
یوں تو پاکستان کی ساری ہی سیاسی جماعتیں خواتین کے حقوق کی چیمپیئن بنتی ہیں، لیکن انتخابات میں عام نشستوں پر خواتین کو لڑانے کا مرحلہ آتا ہے تو ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 2002 کے الیکشن کے بعد عام نشستوں کے لیے بطور پارٹی امیدوار مقابلہ کرنے والی خواتین کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ میں ٹی وی چینلز بدلتی گئی اور سیاست دانوں کے بھانت بھانت کے دعوے کانوں میں پڑتے گئے۔
ایک صاحب، جو اردو پر مکمل عبور دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں، کچھ یوں پریس کانفرنس میں اظہار خیال کررہے تھے، ''ہمارا انتخابی نعرہ انتخابات سب کے لیے ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمایندگی پچاس فیصد کی جائے گی۔'' دل تو چاہا کہ چیخ کر کہوں کہ اگر ایسا ہی ہے تو آپ نے صرف سات خواتین کو پارٹی ٹکٹ کیوں دیا؟ مگر افسوس میری آواز ان تک نہیں پہنچ سکتی تھی، ہاں تحریر ضرور پہنچ سکتی ہے۔
دوسرے چینل پر انصاف کے نعرے لگانے والوں کی آواز آئی، ''ہمارے منشور کی بنیاد انصاف، امن اور خوش حالی ہے۔'' اے انصاف کی بولی بولنے والو! تم نے قومی اسمبلی کے لیے صرف چار خواتین کو ٹکٹ دیا ہے۔ یہ تو انصاف کا چوتھائی حصہ بھی نہ ہوا۔
ایک اور سیاست داں صنعت و تجارت کے شعبے پر خاص توجہ دینے اور ملازمت کے تیس لاکھ سے زاید مواقعے فراہم کرنے کی بات کر رہے تھے، مگر انھوں نے خواتین کی نمایندگی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ ان کی جماعت نے صرف سات خواتین کو پارٹی ٹکٹ کے لائق سمجھا ہے۔
دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام عورتوں کو سب سے زیادہ حقوق دیتا ہے، لیکن پاکستان کی دو بڑی مذہبی جماعتوں نے ایک بھی خاتون کو ٹکٹ نہیں دیا۔
عام انتخابات میں خواتین پر اعتماد کا عالم یہ ہے کہ 272 نشستوں والی قومی اسمبلی کے لیے تمام سیاسی جماعتوں نے مجموعی طور پر36 خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ 2008 کے الیکشن میں 34 جب کہ 2002 کے انتخابات میں 38 خواتین کو ٹکٹ دیے گئے تھے۔
خواتین کی پارلیمنٹ میں نمایندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں 52 ویں نمبر پر ہے۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے باوجود یہ نمایندگی دوسرے مسلم ممالک سے زیادہ ہے۔ مگر یہ نمایندگی مخصوص نشستوں کی بنیاد پر ہے، نہ کہ براہ راست انتخاب میں خواتین کی کام یابی کے باعث۔ اور یہ مخصوص نشستیں سیاسی خانوادوں کی خواتین کے لیے مختص سمجھی جاتی ہیں۔
جہاں تک خواتین کو عام نشستوں کے لیے امیدوار بنانے کا تعلق ہے تو سیاسی جماعتوں کی روش یہ نظر آتی ہے: پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 میں پندرہ خواتین کو امیدوار نامزد کیا تھا، اب یہ تعداد کم ہوکر 11 رہ گئی ہے۔ مسلم لیگ ن نے 2008 میں چھ خواتین کو ٹکٹ دیے تھے، اس مرتبہ سات خواتین کو میدان میں اتارا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے گزشتہ الیکشن میں پانچ خواتین کو امیدوار بنایا، اس بار سات حلقوں میں خواتین امیدوار سامنے لائی ہے۔ مسلم لیگ ق کی جانب سے دیے جانے والے ٹکٹوں کی تعداد آٹھ سے کم ہوکر چار رہ گئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کے لیے چار، جب کہ عوامی نیشنل پارٹی نے صرف دو خواتین کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔ جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے گزشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی کسی خاتون کو امیدوار نامزد نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خاتون امیدواروں میں عذرا پیچوہو، فریال تالپور، خالدہ گھرکی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ثمینہ دولتانہ، سائرہ افضل تارڑ، سمیرا ملک، ماروی میمن اور خوش بخت شجاعت اپنے اپنے حلقوں میں مضبوط امیدوار ہیں۔
پاکستان کے مخصوص معاشرے میں درپیش مشکلات کے باوجود خواتین جس طرح اپنی ذمے داریاں اور اپنا سماجی کردار احسن طریقے سے ادا کر رہی ہیں، وہ ہمارے جیسے سماج کے حامل دیگر ممالک کی عورتوں کے لیے ایک مثال ہے۔ آج کی پاکستانی عورت گھر سے لے کر تعلیم کے میدان اور سیاست کے ایوانوں تک اپنے فرائض بخوبی نبھا رہی ہے۔ اس کے باوجود اہل سیاست عملاً خواتین کی صلاحیتوں اور سماجی و سیاسی کردار کے اعتراف سے گریزاں ہیں۔
محترمہ فاطمہ جناح ہوں یا بے نظیر بھٹو، ان کی سیاسی بصیرت اور جرأت سے کسے انکار ہوسکتا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں تو یہ روایت رہی ہے کہ کسی جماعت پر مشکل وقت پڑتا ہے تو خواتین ہی آگے بڑھ کر جدوجہد اور قربانی کی تاریخ رقم کرتی ہیں۔ پارٹی لیڈر کے ایک اشارے پر خاتون کارکنان سڑکوں پر نکل آتی ہیں۔ مگر سیاسی جماعتوں سے وابستہ خواتین نے کیا کبھی اس بات پر احتجاج کیا ہے کہ پارٹی ٹکٹ تقسیم صنفی امتیاز کے بغیر برابری کی بنیاد پر کیوں نہیں کی جاتی؟ یا کم از کم معقول تعداد میں خواتین کو امیدوار نامزد کیوں نہیں کیا جاتا؟
سیاسی جماعتوں میں شامل وہ تمام خواتین جو اپنی اپنی جماعت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں، اپنی جماعت میں خواتین کو نظرانداز کرنے پر آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟ ان کی ذرا سی کوشش اور احتجاج ان کی جماعتوں میں خواتین کا مقام تبدیل کرسکتا ہے۔ یہ سارا منظر دل دکھانے والاہے، مگر میں مایوس نہیں، کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ اس ملک میں تبدیلی کا وقت آچکا ہے۔ جو کبھی نہ ہوا وہ انشاء اﷲ اگلے پانچ سال میں ضرور ہوگا۔ جب صرف باتوں سے خواتین کے حقوق کی چیمپیئن شپ جیتی نہ جاسکے گی، بلکہ نامزد امیدواروں کی فہرست میں ''محترمہ، آنسہ اور مِس'' کے لاحقے والے ناموں کی نمایاں تعداد ہی بتائے گی کہ کون سی جماعت عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرتی ہے۔