مزدوروں اور کسانوں سے بے اعتنائی

کڑوا سچ یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے آیندہ عام انتخابات میں مزدوروں اور کسانوں کو بالکل نظرانداز کردیا ہے.


Shakeel Farooqi May 03, 2013
[email protected]

عام انتخابات سر پر ہیں اور ہر سیاست داں عوام، عوام کی رٹ لگا رہا ہے جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ ان تمام سیاست دانوں کی غالب اکثریت کا تعلق ایلیٹ کلاس سے ہے، جسے وطن عزیز کے مفلوک الحال اور مظلوم عوام سے نہیں بلکہ مسند اقتدار سے دلچسپی ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عوام کا ساٹھ فیصد حصہ انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیتا کیونکہ اسے دال روٹی کے چکر سے ہی فرصت حاصل نہیں ہوتی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ملک کے منتخب ایوانوں تک رسائی حاصل کرنا صرف اپر کلاس کا ہی کھیل رہا ہے۔ اگر کوئی اکا دکا نچلے طبقے کا امیدوار منتخب ہوکر پارلیمان میں چلا بھی جاتا ہے تو وہ بھی ایوانوں میں جاکر غیرفعال، غیرموثر اور عملاً بے دست و پا ہوجاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ انتخابی فہرستوں پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی یہ بات بالکل عیاں ہوجائے گی کہ الیکشن میں حصہ لینے والے عوام کے حقیقی نمایندہ امیدواروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔

کڑوا سچ یہ ہے کہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے آیندہ عام انتخابات میں مزدوروں اور کسانوں کو بالکل نظرانداز کردیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں میں صرف 28 امیدوار ایسے ہیں جنھوں نے خود کو محنت کش اور مزدور پیشہ طبقے سے وابستہ ڈکلیئر کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں نہ تو لیبر قوانین میں اصلاحات پر کوئی خاطر خواہ توجہ دی گئی ہے اور نہ ہی مظلوم بے زمین زرعی مزدوروں اور ہاریوں کے حالات میں بہتری کے اقدامات کو کوئی اہمیت دی گئی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ انقلاب انقلاب کے نعرے لگانے والی سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد Status Quo کو برقرار رکھنے کے سوائے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی بھی جماعت عملاً معاشی اور معاشرتی نظام میں کسی تبدیلی کی خواہاں نہیں ہے۔ افسوس کہ ان میں سے کسی بھی پارٹی نے وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ارتکاز دولت کی روک تھام کا سرے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا۔ ان کے تمام کھوکھلے دعوے محض جھوٹے اور پرفریب نعروں تک ہی محدود ہیں۔

کسی بھی سیاسی پارٹی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ عوام کے حقوق کی کوئی بات کرتی۔ ان کا تمام شوروغوغا اور واویلا صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود ہے۔ کسی نے بھی کوئی واضح پروگرام پیش نہیں کیا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مزدوروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیا اقدامات کیے جائینگے۔ اس موقعے پر ہمیں انڈین نیشنل کانگریس المعروف بھارت کی کانگریس پارٹی کا وہ مشہور نعرہ یاد آرہا ہے جو اس نے کسانوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے آزادی کے بعد ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پورے زوروشور سے بلند کیا تھا اور اس سے خاطرخواہ نتائج بھی اپنے حق میں حاصل کیے تھے۔ کانگریس کے اس نعرے کے پرکشش الفاظ یہ تھے:

کانگریس نے دی آزادی، زنجیر غلامی کی توڑی
ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی

بیلوں کی جوڑی کانگریس پارٹی کا انتخابی نشان تھا جسے اس نے ہمیشہ خوب خوب exploit کیا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ آزادی کے بعد برسراقتدار آتے ہی کانگریس کی حکومت نے زرعی شعبے میں جو انقلابی کارنامہ انجام دیا وہ زمینداری نظام کا یک بیک خاتمہ تھا۔

مگر وطن عزیز کے سیاست دانوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ان کی غالب اکثریت پیٹ بھرے وڈیروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں پر مشتمل ہے جن کا محنت اور مشقت سے دور پرے کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے اور ان کا حال ان شاعروں جیسا ہے جو ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ بیٹھ کر مزدوروں کے بارے میں شاعری کیا کرتے ہیں اور جنھیں غریبوں کا غم ہر وقت ستاتا رہتا ہے۔ اس پر ہمیں بھگت کبیر کا ایک سادہ سا دوہا یاد آرہا ہے:

جاکے پیر پرے نہ بوائی
وہ کیا جانے پیر پرائی

مطلب یہ کہ جس کے پیروں میں کبھی پھٹن نہ ہوئی ہو وہ بھلا دوسرے کی تکلیف کو کیونکر سمجھ سکتا ہے۔ اسی مفہوم کی کہاوت انگریزی زبان میں یوں ہے: "Wearer Knows Where the shoe pinches"۔ ہماری نام نہاد جمہوریت کا حال یہ ہے کہ جس کسی کے پاس دولت کی فراوانی ہوتی ہے وہ الیکشن میں سرمایہ کاری کرتا ہے اور نوٹ کے ذریعے ووٹ خرید لیتا ہے۔ بعض چالاک لوگ اپنی دولت کے بل بوتے پر چند نمائشی فلاحی کام کرکے بھی اپنی ساکھ میں اضافہ کرتے ہیں۔

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن کی سیاست پر اقتدار کے بھوکے سیاست دانوں کا ہی غلبہ رہا ہے جو باری باری سے اپنی اپنی اننگز کھیلتے رہتے ہیں اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے دوستانہ حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اب الیکشن 2013 کے موقع پر اصل صورت حال یہ ہے کہ ''نئے جال لائے پرانے شکاری''۔ اس کے علاوہ سیاست دانوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شریک اقتدار بھی رہتا ہے اور حسب ضرورت حزب اختلاف کا کردار بھی ادا کرتا رہتا ہے۔ گویا رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

اس وقت مہنگائی کے بعد عام آدمی کا سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے لیکن ہم نے آج تک کسی سیاسی جماعت کی جانب سے یہ نہیں سنا کہ برسراقتدار آنے کی صورت میں وہ اس سنگین مسئلے کو کیسے اور کتنی مدت میں حل کرے گی۔ کراچی اور لاہور کی فیکٹریوں میں حالیہ آتش زدگی کا نشانہ بننے والے مظلوم مزدوروں کی بے بسی ہم سب کے سامنے ہے جن کی خبر گیری کی توفیق کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاست دان کو نہیں ہوئی۔ متاثرین کے اہل خانہ آج تک در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور ان بے چاروں کا پرسان حال کوئی نہیں ہے۔

روٹی، کپڑا اور مکان کے نام پر اقتدار حاصل کرنیوالی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی پورے 5سال حکمرانی کے مزے لوٹے اور ہاریوں اور مزدوروں کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کیا بلکہ مزدور دشمنی کا ثبوت دیا اور کنٹریکٹ لیبر کا نظام متعارف کرایا جس میں بیچارے کنٹریکٹ ملازم کے سر پر ہر وقت نوکری سے برخاستگی کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔

بہت سی پرائیویٹ کارپوریشنوں میں کسی ٹریڈ یونین کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے اور بیچارے ملازمین صرف مالکان کے ہی رحم و کرم پر ہیں، جو ان کے ساتھ غلاموں اور رعیت جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ لیبر فورس کا صرف تین فیصد سے بھی کم حصہ ایسا ہے جہاں ٹریڈ یونینوں کا کوئی وجود ہے۔ اس کے نتیجے میں بے چارے ورکر کو بہت سی ناجائز باتیں مجبوراً اور بادل نخواستہ ماننا پڑتی ہیں۔

پنجاب انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ مجریہ 2010 آئین کے آرٹیکل 17 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے جس کے تحت ورکرز کو انجمن سازی کا بنیادی حق حاصل ہے، جسے اس ایکٹ کے تحت ان سے چھین لیا گیا ہے۔ پنجاب کے علاوہ ملک کے باقی تین صوبوں کا حال بھی کم و بیش ایک ہی جیسا ہے جہاں مزدوروں کی حالت زار درج ذیل شعر کے مطابق انتہائی ناگفتہ بہ ہے:

نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریادکی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی میرے صیاد کی ہے

صوبہ سندھ پیپلز پارٹی نے گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو کے مصداق جاتے جاتے دیہی مزدور طبقے کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لی ہے اور سندھ کرایہ داری ایکٹ میں متنازعہ ترامیم کرکے جبری مشقت کو ازروئے قانون جائز قرار دے دیا ہے۔ بیشتر سیاسی پارٹیوں کے منشور میں اس بات کا بھی کوئی تذکرہ نہیں ہے کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ بے روزگاری کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے کون سی تدابیر اختیار کریں گے اور اس بارے میں ان کی حکمت عملی کیا ہوگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔