تبدیلی ہو یا انقلاب بظاہر ممکن نہیں

مشرق وسطی کی سیاسی آب و ہوا میں آنیوالا تغیر پاکستان میں کسے نئے موسم کی آمد کا اعلان کرنے لگا


سارہ لیاقت May 03, 2013

MAYDANSHAR: انقلاب ، تبدیلی جیسے خوشنما الفاظ آج کل ہمارے سیاستدانوں کی تقریروں میں بڑے تواتر سے استعمال کیے جا رہے ہیں،انھی الفاظ کا سہارا لے کر کہیں نوجوانوں کو سبزباغ دکھائے جا رہے ہیں توکہیں ،غربت،مہنگائی کے ہاتھوں تنگ عوام کے دلوں میں نئی امیدوں کے سفر کے راستے، نئے وعدوں سے روشن کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کہیں ملک میں انقلاب لانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں تو کہیں برے دن گزر جانے کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ اور تو اور کئی کئی بار حکمرانی کرنیوالوں کے دلوں میں بھی انقلاب لانے کی خواہش بیدار ہونے لگی ہے۔سوال یہ ہے کہ وہی لوگ جن کے پہلے باپ دادا اور اب بیٹے ،پوتے پچھلے پچاس ساٹھ برسوں سے اس ملک میں کسی نہ کسی طرح حکمرانی کرتے رہے ہیں اور ملک کے حالات بد سے بد ترین ہونے کے بعد یہی لوگ اب کسی نئے انقلاب کا وعدہ کیسے کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں آج تک سیاست مخصوص گھرانوں سے باہر نکل ہی نہیں سکی یہی مخصوص لوگ ہر دفعہ کسی نئے روپ میں ہمارے سامنے ہوتے ہیں کبھی مسلم لیگ ن ، ق ، وغیرہ کا ٹیگ لگائے تو کبھی پیپلز پارٹی یا اس کے کسی نئے گروپ کی صورت میں، ایسے میں پھر سے انھی کے جھانسے میں آنا اور ان کے وعدوں پر اعتبار کرنا کیا ہماری اپنی غلطی نہیں ہے۔

پچھلے دو، تین برسوں میں عرب ممالک میں انقلاب کی جو لہر اٹھی اس کے قدموں کی چاپ پاکستان میں بھی کچھ لوگوں کو سنائی دینے لگی۔ مشرق وسطی کی سیاسی آب و ہوا میں آنیوالا تغیر پاکستان میں کسے نئے موسم کی آمد کا اعلان کرنے لگا مگر یہاں نہ انقلاب آیا اور نہ ہی اب آ سکتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ آج انھی حکمرانوں کے جلسوں میں ہزاروں کے مجمعوں کا اکٹھا ہونا ہے جو ہمیشہ سے ہمارے سروں پر مسلط رہے ہیں جن کی اپنی تو جائیدادیں لاکھوں سے اربوں تک پہنچ گئی اور لوگوں کے لیے مہنگائی ، لوڈشیڈنگ ، بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کے تحفے رہ گئے۔

ہمارے آس پاس روزانہ ایسے ہزاروں واقعات رونما ہو رہے ہوتے ہیں جو کہ بظاہر کسی کی نظر میں نہیں آتے لیکن بعض اوقات قوموں کی زندگی میں ایک چھوٹا سا واقعہ ایک بہت بڑے انقلاب کو تبدیلی کو جنم دیتا ہے۔ یہی حال تیونس میں ہوا جہاں برسوں کا پگھلتا لاوا ایک شخص کی خود سوزی کے واقعے کے بعد ایسا پھٹا کہ تیونس کی گلیاں ، سڑکیں لوگوں سے بھرگئیں اور احتجاج احتجاج۔

انقلاب کے نعرے گونجنے لگے۔ تیونس کے بادشاہ نے اس احتجاجی آواز کو ایسے ہی دبانے کی کوشش کی جیسے دنیا بھر میں آمر اپنی رعایا کی آواز کو کبھی باہر نہیں آنے دیتے لیکن چونکہ یہ ایک شخص ، ایک طبقے یا ایک مکتبہ فکر کی آواز نہیں تھی بلکہ پورے تیونس کے لوگوں کی مشترکہ آواز کچھ اس طرح سے ابھری کہ پھر تیونس کے بادشاہ کے پاس آخرکار ملک سے بھاگنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ رہا اور قانون قدرت دیکھیے کہ وہ شخص جو کہ اپنے مغربی آقائوں کو خوش رکھنے کے لیے اپنے لوگوں کے ساتھ اس حد تک بے وفائی کرتا گیا کہ ان کی زندگی اجیرن کر کے رکھ دی پھر انھی آقائوں نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا اور وہ پناہ حاصل کرنے کے لیے مختلف ممالک کی منت سماجت اور انکار کے بعد آخرکار سعودی عرب پہنچ گیا۔ زین العابدین بن علی وہ واحد حکمران نہیں جن کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا بلکہ مغربی ممالک کا تو ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ پہلے اپنی پسند کے غلام حکمرانوں کو مسند شاہی پہ بٹھا کہ اپنے مفاد کے فیصلے کرواتے رہو اور پھر جب ان پہ برا وقت آجا ئے تو آنکھیں پھیر لو تو کون ؟...میں کون ؟

تیونس میں آخر حالات یہاں تک پہنچے کیسے اس کے پیچھے بظاہر وجہ اتنی بڑی نہیں۔ مگر درحقیقت برسوں کا وہ استحصال ہے جس کا سامنا وہاں کے عوام کر رہے تھے۔ ملکہ تیونس کے بڑے بڑے اخراجات ، اقربا پروری ، کرپشن ، مہنگائی ، بیروزگاری بہت سے عوامل نے آ خر کار عوام کو اٹھ کھڑے ہونے پر مجبور کر دیا۔ فرانس کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی برانچ کے سربراہ ڈینیل لبیگ کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق تیونس کی 30 سے 40 فیصد معیشت پر مسٹر بن علی اورطرابلس کے خاندان کا کنٹرول تھا۔ ان کے مطابق عام فہم زبان میں ہم دس ارب ڈالر کی بات کر رہے ہیں۔

وہ حکمران جو کہ 23سال سے حکومت کر رہا تھا عوام کے سامنے 23 دن بھی نہ ٹھہر سکا۔ حالیہ تیونس میں اٹھنے والی انقلابی لہر جس کے شعلے مصر ، یمن ، الجزائر اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک تک بھی جا پہنچے۔ ہمارے سیاست دانوں کے حالات بھی شاید ان سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ ان کے عیش و عشرت دیکھ کر کبھی کوئی نہیں کہہ سکتا یہ اسی ملک کے حکمران ہیں جہاں کی پچاس فی صد سے زیادہ آبادی رات کو بھوکے پیٹ سوتی ہے۔ پاکستان اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے۔

مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ بجلی،گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے کے باوجود ایک عام آدمی کے لیے بالکل نایاب ہوتی جا رہی ہیں۔ کرپشن کا یہ حال ہے کہ ملک کا دیوالیہ نکلنے کو ہے۔ بڑے بڑے ادارے اپنی تباہی کے دھانے پر ہیں۔ جان ،مال عزت کچھ بھی تو محفوظ نہیں ہے۔ بنت حوا کی عصمتوں کے محافظ ہی آج لٹیرے بنے بیٹھے اس کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اجتماعی خودکشی کے واقعات ہمارے معاشرے میں بڑھتی ابتری کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

لیکن ان سب حالات کے باوجود مجھے انقلاب کی دستک اس لیے سنائی نہیں دیتی کہ آج پھر وہی لوگ ہمیں نئے خواب دکھانے آ گئے ہیں جن کے ہاتھوں ہم پہلے بھی کئی بار لٹ چکے ہیں اور نہ ہی تبدیلی کی کوئی روشنی نظر آتی ہے اس لیے کہ باتیں تو ہم سب کرتے ہیں مگر جب ووٹ ڈالنے کی باری آتی ہے تو یا تو گھروں سے باہر نہیں نکلتے اور جو لوگ نکلتے ہیں ان کے فیصلے اپنے یا اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے نہیں بلکہ اپنی ذات ، برادری ، فرقے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہم لوگ جو ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے روادار نہیں ہیں۔ جہاں بظاہر ہر آدمی اس بات پر مطمئن و مسرور دکھائی دیتا ہے کہ شکر ہے میں اور میرا گھر محفوظ ہیں ، باہر جو بھی ہو رہا ہے ہونے دو۔ جہاں ابھی لوگ بے حسی کی چادر تانے یوں سو رہے ہیں کہ انھیں کسی بیوہ ماں کے آنسو ، کسی بہن کی پکار ، کسی معصوم یتیم کی آواز بے چین نہیں کرتی ۔ جہاں انسانیت ، شیطانیت کا روپ لیے ہر روز ایک نئے واقعے کی صورت میں ہمارے سامنے دندناتی پھرتی ہے اور ہم مگن رہتے ہیں۔ ایسے میں انقلاب یہاں آئے بھی تو کیسے آئے۔ تبدیلی کیسے اپنا راستہ بنائے گی۔ تبدیلی یا انقلاب عوام کے فیصلے سے آتے ہیں حکمرانوں کے للکارنے سے نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔