فخر ملت صاحبزادہ حاجی فضل کریم
1977 کی تحریک نظام مصطفی میں صاحبزادہ فضل کریم کا مجاہدانہ کردار رہا اور جذبہ جنون قابل دید تھا.
مقبول عوام وخواص، ملک و ملت کا درد رکھنے والے اعلیٰ ظرف انسان، اپنوں کے لیے نرم دل اور باطل سامراجی قوتوں کے لیے مضبوط چٹان وآہنی پنجہ کے مالک، قوت فیصلہ و قوت اظہار کی بے کراں دولت سے مالا مال، بہار شباب سے تادم مرگ متحرک و فعال کردار ادا کرنے والے انسان، بلند قامت، خوش گفتار، خوبصورت خدوخال کے مالک، حضرت مولانا سردار احمد رضوی قادری کے لخت جگر مرکزی جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ اور سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حضرت علامہ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم جن کے شب و روز ملک و ملت کی خدمت سے عبارت تھے، عشق مصطفی کریم کی بدولت اﷲ رب العزت نے آپ کی شخصیت کو مقبول عام بنایا تھا، ہر لمحہ، ہر لحظہ امت مسلمہ کی زبوں حالی کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اسلام کی سربلندی اور نظام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے لیے زندگی بھر مصروف عمل رہے۔
اس حوالے سے آپ نے کبھی بھی سہل پسندی، مصلحت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حجرے و آستانے میں بیٹھ کر رسمی بیانات پر اکتفا اور گوشہ نشینی میں عافیت نہیں جانی، بلکہ برسر میدان باطل کو للکارنا آپ کا شیوہ اور طرہ امتیاز تھا۔ جلسے جلوسوں، ریلیاں، مظاہروں کا انعقاد کرکے ہمیشہ عشق مصطفیٰ کا عملی مظاہرہ فرماتے تھے۔ باطل کے ایوانوں کو ہلانا صاحبزادہ مرحوم کا خاصا تھا، زندگی بھر حق کی حقانیت اور باطل کی زد کے لیے جہد مسلسل میں رہے، ساری زندگی مقام مصطفیٰ کے تحفظ اور نظام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے لیے مصروف عمل رہے اور زندگی اس شان سے گزاری کہ عظیم باپ کی تعلیم و تربیت کا آئینہ ثابت ہوئے، محدث اعظم پاکستان کے بیٹے ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا، اپنے آپ کو محدث اعظم پاکستان کا حقیقی جانشین اور اہل و لائق فرزند ثابت کیا۔
فخر ملت حضرت علامہ صاحبزادہ حاجی فضل کریم رضوی، فیصل آباد میں 24 اکتوبر 1954 میں پیدا ہوئے، آپ چار بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے، آپ نے علوم دینیہ اپنے وقت کے جید اساتذہ کرام مفتی نواب الدین، مولانا سید منصور حسین شاہ، علامہ غلام رسول اور دیگر سے حاصل کرکے جامعہ رضویہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہوئے، جب کہ 1987 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات کی ڈگری حاصل کی، آپ زمانہ طالب علمی سے ہی بہترین مقرر اور متحرک کردار کے حامل تھے۔
فلاحی کاموں میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے، مذہبی، سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ فلاحی و سماجی کاموں اور خلق خدا کی بے لوث خدمت سے آپ کو قلبی لگاؤ تھا، آپ کے سماجی خدمات کے فیصل آباد اور گرد و نواح کے عوام بھی معترف ہیں، اس کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں اور پسماندہ علاقوں میں بیسیوں مدارس و مساجد کی سرپرستی اور سیکڑوں غریب طلبا کی کفالت کی سعادت بھی حاصل تھی۔
فخر ملت صاحبزادہ فضل کریم، خانوادہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کے چشم و چراغ مفتی اعظم حضرت مولانا محمد مصطفی رضاخان نوری، بریلوی سے بیعت تھے، بزرگان دین اور اولیاء اﷲ سے حد درجہ محبت و عقیدت رکھتے تھے، داتا کی نگری لاہور جلوہ گر ہوتے تو داتا دربار پر حاضری کی سعادت ضرور حاصل کرتے۔ کراچی تشریف لاتے تو حضرت سید عبداﷲ شاہ غازی رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار مبارک، میانوالی میں خواجگان خواجہ آباد شریف کے دربار عالیہ پر حاضری دیتے اور یہی وجہ تھی کہ جب مزارات سید داتا علی ہجویری، سید عبداﷲ شاہ غازی رحمۃ اﷲ علیہ اور دیگر مزارات ،خانقاہوں وآستانوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا تو آپ نے ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرکے دہشت گردوں پر واضح کیا کہ اولیاء اﷲ کے عقیدت مندوں اور مزارات مبارکہ پر حاضری دینے والے اہل عقیدت کے جذبات بم دھماکوں کے ذریعے پست نہیں کیے جاسکتے۔ وطن عزیز اولیاء اﷲ کا فیضان اور ہمارے اسلاف کی عظیم قربانیوں و بیش بہا خدمات کا ثمر ہے، دہشت گردوں کے اوچھے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوں گے، دہشت گردوں کو اپنے مذموم عزائم اور ناپاک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
فخر ملت صاحبزادہ فضل کریم کا ہر دینی، ملی تحریک میں نمایاں کردار اور حصہ تھا، آپ کے حالات زندگی اور سیاسی، مذہبی، سماجی، فلاحی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ ایک ضخیم کتاب میں بمشکل سموئے جاسکیں گی، مختصر مضمون میں آپ کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا، ازروئے عقیدت چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں۔ تحریک تحفظ ختم نبوت 1974 میں عملاً کردار ادا کرتے ہوئے قائدین اہلسنت کے ساتھ مثالی جدوجہد کی، جلسے جلوسوں کا انعقاد اور پرجوش خطابات کیے، بالآخر فخر ملت صاحبزادہ فضل کریم اور دیگر سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی عملی جدوجہد رنگ لائی ۔
1977 کی تحریک نظام مصطفی میں صاحبزادہ فضل کریم کا مجاہدانہ کردار رہا اور جذبہ جنون قابل دید تھا، تمام تر ریاستی مظالم کے باوجود آپ کے پایہ استقامت میں لغزش نہیں آئی۔ قائدین تحریک نظام مصطفیٰ و سربراہان جمعیت علمائے پاکستان کے شانہ بشانہ چل کر قربانیوں کی تاریخ رقم کی۔ بے پناہ حکومتی پابندیاں و زیادتیاں آپ کے جذبہ عشق مصطفیٰ اور نظام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ وابستگی کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکیں، باوجود اس کے کہ حکومت وقت کی جانب سے جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی عائد اور انتظامیہ کے سخت ترین حفاظتی تدابیر بھی آپ کے جذبہ صادق اور عزم پیہم کے سامنے ہیچ ثابت ہوئے۔
آپ نے تمام پابندیوں اور ریاستی زنجیروں کو توڑ کر ببانگ دہل جلسے منعقد کیے، جلوس نکالے، پرجوش خطابات کیے، یہاں تک کہ فورسز کے تشدد سے زخمی بھی ہوئے اور گرفتاری بھی عمل میں آکر پابند سلاسل رہے۔ 1978 میں ملتان میں آل پاکستان سنی کانفرنس کا لاکھوں افراد پر مشتمل اجتماع ہوا، جس میں دیگر فیصلوں کے علاوہ ایک اہم ترین فیصلہ سواد اعظم اہلسنت کی غیر سیاسی تنظیم ''جماعت اہلسنت پاکستان'' کو متحرک و فعال بنانے کا بھی ہوا، علمائے کرام، مشائخ عظام کے متفقہ فیصلے کے مطابق علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی کو جماعت اہلسنت کا مرکزی امیر اور صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم کو مرکزی ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔
آپ 1977 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں مرکزی دارالعلوم جامعہ رضویہ فیصل آباد کے مہتمم تھے اور ادارہ کے اساتذہ کرام اور طلبا نے آپ کو ہمیشہ ایک شفیق دوست اور بہترین منتظم پایا۔ آپ جمعیت علمائے پاکستان کے سینئر نائب صدر بھی رہے، بعد ازاں سربراہ بنے۔ متعدد بار صوبائی و قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر اسمبلیوں میں بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ 93، 97 کے انتخابات میں عوامی اعتماد کے ساتھ پنجاب اسمبلی کے رکن جب کہ 2002، 2008 کے الیکشن میں عوام کی طرف سے قومی اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے۔ صوبائی وزیر مذہبی امور بھی رہے۔
صاحبزادہ فضل کریم پاکستان کے مذہبی و سیاسی میدان میں منفرد حیثیت رکھتے تھے۔ اسلام و جہاد کے مقدس نام پر دہشت گردی کو فروغ دینے والے بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا عناصر کے خلاف پہلا فتویٰ جاری کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا، آپ کی وفات سے پیدا ہونے والا خلا مدتوں پر نہیں ہوسکے گا۔ ملک و قوم اور اہلسنت و الجماعت ایک نڈر، بے باک، مخلص رہنما سے محروم ہوگئے ہیں۔