ٹیپو سلطان برصغیر کا اولین مجاہد آزادی

دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے.



MUMBAI: ٹیپوسلطان برصغیر کا وہ اولین مجاہد آزادی اور شہید آزادی ہے جس نے آزادی کی پہلی شمع جلائی اور حریت فکر، آزادی وطن اور دین اسلام کی فوقیت و فضیلت کے لیے اپنی جان نچھاور کردی تھی، ٹیپوسلطان نے حق و باطل کے درمیان واضح فرق و امتیاز قائم کیا اور پرچم آزادی کو ہمیشہ کے لیے بلند کیا تھا۔

1799 ٹیپوسلطان کی شہادت کا سال تھا، 4 مئی 1799 کو میدان جنگ میں جب اسے اپنے ساتھیوں کی غداری کا علم ہوا تو اس نے با آواز بلند ان سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ ''تم لوگ بہت جلد غلام بن کر رہوگے، چاول کے ایک ایک دانے اور پیاز کی ایک ایک گٹھی کو ترسو گے۔'' ٹیپوسلطان کی یہ پیش گوئی ٹھیک دو سو سال بعد پوری ہوئی اور آج برصغیر کے عوام کے لیے چاول اور پیاز کا حصول بھی دشوار ترین مرحلہ بن گیا ہے۔ انگریز قوم جو روایتی سازشی ذہنیت کی حامل ہے، ہندوستان میں تاجر بن کر آئی لیکن حکمران بن کر ہندوستان، اسلام اور مسلمان حکومتوں کو ختم کرنے کا عزم رکھتی تھی اور ان کے عزائم کی تکمیل میں ٹیپوسلطان ہی وہ واحد شخص تھا جو سد سکندری بنارہا۔

دنیا کے نقشے میں ہندوستان ایک چھوٹا سا ملک ہے اور ہندوستان میں ریاست میسور ایک نقطے کے مساوی ہے اور اس نقطے برابر ریاست میں سولہ سال کی حکمرانی یا بادشاہت اس وسیع وعریض لامتناہی کائنات میں کوئی حیثیت و اہمیت نہیں رکھتی، مگر اسی چھوٹی اور کم عمر ریاست کے حکمران ٹیپوسلطان نے اپنے جذبے اور جرأت سے ایسی تاریخ رقم کی جو تاقیامت سنہری حروف کی طرح تابندہ و پایندہ رہے گی۔ ٹیپو کا یہ مختصر دور حکومت جنگ و جدل، انتظام و انصرام اور متعدد اصلاحی و تعمیری امور کی نذر ہوگیا لیکن اس کے باوجود جو وقت اور مہلت اسے ملی اس سے ٹیپو نے خوب خوب استفادہ کیا۔

تہذیب و ثقافت، علم و ادب، ملکی مصنوعات، زراعت، تجارت اور فوجی شعبوں کو حیرت انگیز ترقی دی اور مختلف ایجادات کیں۔ شراب، جوئے، بدکاری اور دیگر اخلاقی و سماجی برائیوں کا خاتمہ کیا۔ غیر مسلموں کو عریانی و فحاشی کی روایات اور غیر انسانی رسومات پر ٹیپو نے پابندی لگادی تھی، اس نے چاول، ناریل، صندل اور ریشم کی صنعت و زراعت کو جدید خطوط پر آراستہ کرکے ان کی تجارت کو بیرون ملک تک پہنچادیا۔ ٹیپوسلطان کی زندگی کو دیکھتے ہوئے اسے اورنگزیب عالمگیر کا دوسرا روپ قرار دیا جاسکتا ہے، اس نے ساری عمر شریعت و سنت نبویؐ کی پیروی میں گزاری۔

ٹیپوسلطان 1750 میں بنگلور کے قریب ایک قصبے دیوان ہلی میں پیدا ہوا اور پیدائش کے ساتھ ہی اپنے والدین کے لیے خوش قسمت ثابت ہوا۔ ٹیپوسلطان کا نام جنوبی ہندوستان کے ایک مشہور بزرگ حضرت ٹیپو مستان کے نام پر رکھا گیا تھا، ٹیپوسلطان کے آبائو اجداد کا تعلق مکہ معظمہ کے ایک معزز قبیلے قریش سے تھا جو کہ ٹیپوسلطان کی پیدائش سے اندازاً ایک صدی قبل ہجرت کرکے ہندوستان میں براستہ پنجاب، دہلی اور آخر میں جنوبی ہند میں گلبرگہ آکر آباد ہوگیا تھا۔

ٹیپوسلطان کے والد نواب حیدر علی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کے حامل شخص تھے جو ذاتی لیاقت کے بے مثال جواں مردی اور ماہرانہ حکمت عملی کے سبب ایک ادنیٰ افسر ''نائیک'' سے ترقی کرتے ہوئے ڈنڈیگل کے گورنر بنے اور بعد ازاں میسور کی سلطنت کے سلطان بن کر متعدد جنگی معرکوں کے بعد خود مختار بنے اور یوں 1762 میں باقاعدہ ''سلطنت خداداد میسور'' (موجودہ کرناٹک) قائم کی۔ 20 سال تک بے مثال حکمرانی کے بعد نواب حیدر علی 1782 میں انتقال کرگئے اور یوں حیدر علی کے ہونہار جواں سال اور باہمت فرزند ٹیپوسلطان نے 1783 میں ریاست کا نظم و نسق سنبھالا۔

ٹیپوسلطان کو ورثے میں جنگیں، سازشیں، مسائل، داخلی دبائو اور انگریزوں کا بے جا جبر و سلوک ملا تھا، جسے اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور اعلیٰ حوصلے سے قلیل عرصے میں نمٹالیا، اس نے امور سیاست و ریاست میں مختلف النوع تعمیری اور مثبت اصلاحات نافذ کیں۔ صنعتی، تعمیراتی، معاشرتی، زرعی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں اپنی ریاست کو خودکفیل بنادیا۔ فوجی انتظام و استحکام پر اس نے بھرپور توجہ دی۔ فوج کو منظم کیا، نئے فوجی قوانین اور ضابطے رائج کیے، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کیے، جن میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے تحت اسلحہ اور پہلی بار راکٹ بھی تیار کیے گئے۔

ٹیپوسلطان کو وقت اور زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور عصری تقاضوں کا بخوبی احساس تھا اسی سبب اس نے بحریہ کے قیام اور اس کے فروغ پر زور دیا، نئے بحری اڈے قائم کیے، بحری چوکیاں بنائیں، بحری جہازوں کی تیاری کے مراکز قائم کیے، فرانسیسیوں کی مدد سے اپنی فوج کو جدید خطوط پر آراستہ کیا، سمندری راستے سے تجارت کو فروغ بھی اس کے عہد میں ملا۔ ٹیپوسلطان جانتا تھا کہ بیرونی دنیا سے رابطہ ازبس ضروری ہے اسی لیے اس نے فرانس کے نپولین بوناپارٹ کے علاوہ عرب ممالک، مسقط، افغانستان، ایران اور ترکی وغیرہ سے رابطہ قائم کیا۔

نپولین بوناپارٹ خود بھی ٹیپوسلطان کی حمایت و مدد کرنا چاہتا تھا کیونکہ انگریزوں سے اس کی دشمنی تھی، نپولین نے ٹیپو کی مدد کے لیے بحری بیڑہ بھی روانہ کیا تھا لیکن بوجوہ اس کی آمد میں تاخیر ہوگئی۔ٹیپو نے امن و امان کی برقراری، قانون کی بالادستی اور احترام کا نظام نہ صرف روشناس کرایا بلکہ سختی سے اس پر عملدرآمد بھی کروایا، جس سے رعایا کو چین و سکون اور ریاست کے استحکام میں مدد ملی۔ ٹیپوسلطان کا یہ قول کہ ''گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے'' غیرت مند اور حمیت پسندوں کے لیے قیامت تک مشعل راہ بنا رہے گا۔

بے شک ٹیپو کے درباریوں نے اس کے ساتھ غداری کی۔ جنوبی ہند کی اس وقت کی عظیم طاقتیں نظام دکن اور مرہٹے اس کے خلاف صف آرا ہوئے جو ان کی مجبوری تھی لیکن ٹیپو کو سب سے زیادہ نقصان آستین کے سانپوں یعنی میر قمرالدین، میر معین الدین، پورنیا، میر غلام لنگڑا اور میر صادق نے پہنچایا ورنہ ٹیپو ناقابل شکست تھا اور یقیناً اس مؤقف میں تھا کہ انگریزوں کے قدم اکھاڑ دیتا اور برصغیر میں مسلمانوں کی حکومت برقرار رہتی۔

ٹیپو سلطان اوائل عمر سے بہادر، حوصلہ مند اور جنگجویانہ صلاحیتوں کا حامل بہترین شہ سوار اور شمشیر زن تھا۔ علمی، ادبی صلاحیت، مذہب سے لگائو، ذہانت، حکمت عملی اور دور اندیشی کی خصوصیات نے اس کی شخصیت میں چار چاند لگادیے تھے، وہ ایک نیک، سچا، مخلص اور مہربان طبیعت ایسا مسلمان بادشاہ تھا جو محلوں اور ایوانوں کے بجائے رزم گاہ میں زیادہ نظر آتا تھا۔

ٹیپو خود عالم تھا اس لیے ادب نوازی اور ادیب پروری اس کی سرشت میں تھی، وہ عالموں، شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں کی قدر ومنزلت کرتا تھا، مطالعے اور اچھی کتابوں کا شوقین تھا، اس کی ذاتی لائبریری میں لا تعداد نایاب کتابیں موجود تھیں، ٹیپوسلطان وہ پہلا مسلمان حکمران ہے جس نے اردو زبان کو باقاعدہ فروغ دیا اور دنیا کا سب سے پہلا اور فوجی اخبار جاری کیا تھا۔

اس کے عہد میں اہم موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں، وہ جدت پسند تھا، زندگی کے مختلف شعبوں میں اس نے جدت پیدا کی مثلاً مہینوں کے نام تبدیل کیے، شہروں کے اسلامی نام تجویز کیے، سکہ سازی کو عروج دیا، زراعت میں جدید طریقے روشناس کرائے، بیرون مملک سے بیل، گھوڑے اور دیگر کارآمد جانور منگوا کر نئی نسلیں متعارف کروائیں۔ نئی نسل ٹیپوسلطان کی شخصیت اور لازوال کارناموں سے مکمل طور پر آگاہ نہیں ہے اور وقت کا یہ اہم تقاضا ہے کہ برصغیر کے اس پہلے مجاہد شہید آزادی، عظیم بطل حریت کی زندگی اور کارناموں سے نئی نسل کو واقف کرایا جائے تاکہ ان میں حریت فکر، حب الوطنی اور جذبہ آزادی پروان چڑھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔