جن کے ہاتھ میں جیت ہار کا سارا کھیل

پاکستانی رائے دہندگان کے طبقات کا جائزہ، رجحانات ایک نظر


سیف اللہ خٹک May 05, 2013
فوٹو : فائل

جمہوریت کی پوری عمارت رائے دہندہ پر استوار ہوتی ہے۔ یہ رائے دہندگان کے ہاتھوں میں تھمی پرچیاں اور مہریں ہی ہیں جو سیاست دانوں کی فتح اور شکست کا فیصلہ کرتی ہیں۔

ووٹرز کے یہ فیصلے بہت سے عوامل اور رجحانات پر استوار ہوتے ہیں، جن میں سے بعض مستقل حیثیت رکھتے ہیں اور بعض وقتی اور عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اس تجزیے کے ذریعے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستانی ووٹرز کس کس نوع کے طبقوں میں تقسیم ہیں۔ نیز حالیہ انتخابات میں رائے دہندگان کے میلانات بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔

ماضی کی نسبت 2013 کے انتخابات کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔ اب ووٹر کہیں زیادہ باشعور ہیں، ماضی کی طرح نہیں کہ ملک دولخت ہوگیا اور عوام کو اس کڑوے سچ سے بے خبر رکھا گیا کہ پاکستان ٹوٹنے جارہا ہے۔ حالات بہت بدل چکے ہیں۔ اب میڈیا ایک طرف عوام کو سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے وعدوں سے آگاہ کر رہا ہے تو دوسری طرف سیاسی راہ نماؤں کو عوام کی امنگوں اور توقعات سے بھی مطلع کرتا ہے۔ میڈیا کی فعالیت سے یہ امکان بھی بڑھ گیا ہے کہ انتخابات قانون کے مطابق آزادانہ و منصفانہ ماحول میں ہوں گے۔

پاکستان کے آئین کے تحت 18 سال کی عمر کو پہنچنے والا فرد ووٹ دینے کا اہل ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری کردہ حتمی انتخابی فہرستوں میں پاکستان کے ووٹروں کی مجموعی تعداد 8 کروڑ43 لاکھ 65 ہزار 51 بتائی گئی ہے۔ ان میں مرد ووٹروں کی تعداد 4 کروڑ77 لاکھ 73 ہزار 692 جب کہ خواتین ووٹروں کی تعداد3 کروڑ65 لاکھ 91 ہزار 359 ہے۔

پاکستان میں آبادی کا 52 فی صد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ اس تناظر میں خواتین ووٹرز کا اعدادوشمار کی روشنی میں جائزہ ملاحظہ ہو:



پاکستان میں خواتین میں ووٹ دینے کے رجحان علاقوں کے اعتبار سے اس طرح ہے: خیبرپختونخواہ میں 45 فی صد، سندھ میں 41 فی صد، پنجاب میں 37 فی صد، وفاق کے زیراہتمام علاقوں میں 19 فی صد، جب کہ قبائلی علاقوں میں مقامی روایات کی رو سے خواتین کو ووٹ دینے کا حق نہیں۔ روایات کے پابند عمائدین نے فاٹا کے علاقوں کی خواتین کے ووٹ دینے کو عزت کا مسئلہ قرار دے رکھا ہے۔ دوسری طرف ان علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں اور دہشت گردی کی لہر نے بھی ووٹنگ کے عمل کو مشکل بنادیا ہے۔ خصوصاً خواتین کے لیے اپنی رائے کا اظہار کرنے کے امکانات اور کم ہوگئے ہیں۔

ایسی ہی صورت حال کا سامنا بلوچستان کی خواتین رائے دہندگان کو رہتا ہے، جہاں سرداری نظام کے تحت بعض علاقوں میں عورتوں کے لیے ووٹ ڈالنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں واضح احکامات جاری کیے ہیں کہ انتخابی عمل میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے مگر مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی مصلحتوں اور مفادات کے تحت اس حکم کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔

اس ضمن میں سیاسی جماعتیں یہ دلیل دیتے ہوئے اس حکم کو یکسر رد کردیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور عسکریت پسندی کی بنا پر ممکن نہیں کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا میں اس حکم کی تعمیل کو ممکن بنایا جاسکے۔ خواتین کی ووٹنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے یہ ہدایات بھی تمام جماعتوں کو جاری کی ہیں کہ خواتین کی ووٹنگ کی شرح اگر کسی حلقے میں 10 فی صد سے کم ہوگی تو اس حلقے کے انتخابی نتائج کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

انتخابات میں اہم ترین کردار ووٹرز کے رجحانات ادا کرتے ہیں، لہٰذا انتخابی عمل، ووٹرز کے اثرات اور سیاسی پارٹیوں کی درجہ بندی کے تناظر میں کیا جانا ضروری ہے، جس سے انتخابی عمل کا منظرنامہ واضح ہوسکتا ہے، یعنی عمر، آمدنی، مذہب، کی سیاسی رجحانات کی بنیاد پر کیا جانا ضروری ہے۔



الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ غیرمسلم ووٹرز کی تعداد2770,051 ہے، اگرچہ پاکستان کرسچین کانگریس کے صدر نذیر بھٹی کے اس تعداد پر تحفظات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔



سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 2.77 ملین غیرمسلم ووٹر ہیں، جن میں سے سندھ کے 13 اضلاع اور پنجاب کے 2 اضلاع میں اقلیتی ووٹرز کی قابلِ ذکر تعداد موجود ہے۔

بی بی سی کے کالم نگار ریاض سہیل اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ سندھ میں اقلیتی نشستوں پر اونچی ذاتیں حاوی ہیں، جس کی وجہ سے اقلیتوں کے مسائل اور ان کی نمائندگی حقیقی معنوں میں ممکن نہیں، جب کہ اقلیتوں پر تحقیقی کام کرنے والے طاہر مہدی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے پارٹی میں اقلیتی ونگ بنا رکھے ہیں، جو درحقیقت اقلیتوں کی نمائندگی کے بجائے انہیں انتخابی عمل کے مرکزی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش ہے، جس پر اقلیتوں کی اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا قبضہ ہے۔



ان اعدادوشمار کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اقلیتوں نے متحد ہوکر موثرانداز میں اپنا ووٹ استعمال کیا تو واقعی اسمبلی کے 160 حلقوں میں موجود اقلیتی ووٹ انتخابی نتائج پر اثرانداز ہوسکتا ہے۔ اندرون سندھ متحدہ قومی موومنٹ PTI ، PML(N) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے اقلیتی امیدواروں کو نام زد کردیا ہے۔

ووٹروں کی درجہ بندی کے لحاظ سے تیسرا بڑا عنصر مذہب یا مذہب کے نام پر سیاست کرنے والی جماعتوں سے متعلق ہے۔ اس حوالے سے مسلکی منافرت کا فیکٹر بہت سے حلقوں میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ملک میں تواتر سے ہونے والی فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات نے اس عنصر کو قوت فراہم کی ہے۔ مذہبی منافرت کا زہر ایک عرصے سے پاکستانی معاشرے کو کھوکھلا کر رہا ہے اور اب انتخابی عمل پر اس کے اثرات کے حوالے سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ عنصر انتخابات میں بھی اپنا رنگ دکھانے کو ہے۔

امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ شدت پسندی اور ٹارگٹ کلنگ کا شکار شیعہ برادری انتخابی عمل میں سرگرمی سے حصہ لے کر ان سیاسی قوتوں کو اسمبلیوں میں جانے سے روکنے کی کوشش کرے گی، جو اس کے نزدیک فرقہ واریت اور شدت پسندوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ ہوں اس حوالے سے کچھ عرصہ پہلے سامنے آنے والی شیعہ تنظیم ''مجلس وحدت المسلمین'' کے سیاسی شعبے کے سربراہ ناصر شیرازی نے کہا ہے کہ ''پاکستان میں شیعہ ووٹرز کی تعداد دو کروڑ سے زیادہ ہے اور ان انتخابات میں یہ ووٹر بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے۔''

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی شیعہ برادری اپنے ووٹ کے ذریعے انتخابات کے نتائج پر غیر معمولی اثر ڈال سکتی ہے؟ معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر مہدی حسن اس خیال سے متفق نہیں۔ ان کے مطابق شیعہ برادری کا ووٹ ملک بھر میں بکھرا ہوا ہے لہٰذا وہ الیکشن پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ تاہم سندھ اور پنجاب کے کئی حلقے ایسے ہیں جہاں یہ فیکٹر اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ دوسری طرف ''اہلسنت والجماعت'' کے نام سے سرگرم کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ علامہ محمد احمد لدھیانوی نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوںنے پہلی بار قومی انتخابات میں بطور جماعت حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ملک بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا ان کا ووٹ بینک پورے ملک کے انتخابی حلقوں میں بکھرا ہوا ہے۔ صرف (ن) لیگ ہی نہیں تمام سیاسی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی سے لے کر ایم کیو ایم اور (ن)لیگ سے جے یو آئی تک ہر سیاسی جماعت نے ان کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے درخواستیں کی تھیں۔ ان دونوں جماعتوں انتخابات کے حوالے سے عزائم بتارہے ہیں کہ اس الیکشن میں مسلکی عنصر کئی حلقوں میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ایک تازہ سروے، جس میں آئندہ عام انتخابات میں عمر کے لحاظ سے ووٹ دینے کے حوالے سے رجحانات کا مشاہدہ پیش کیا گیا، سے پتا چلتا ہے کہ پاکستانی عوام کی رائے منقسم ہے۔ اس سروے کے اعدادوشمار کے مطابق:



گذشتہ دنوں ایک انگریزی ماہ نامے نے SDPI کے ساتھ مل کر پاکستان بھر کے 54 اضلاع میں ایک سروے کیا۔ سروے کے مطابق رجسٹرڈ ووٹروں میں 29 فی صد لوگ پاکستان پیپلز پارٹی، 25 فی صد مسلم لیگ (ن) اور 20 فی صد تحریک انصاف کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس سروے سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک کا زیادہ تر حصہ محض نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ سروے کے مطابق عمران خان کو عمر کے ہر حصے کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ 18 سال سے 35 سال تک کے اکثر رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیں گے۔ اسی طرح 36 سال سے 70 سال تک کی عمر کے لوگ بھی یہی ارادہ رکھتے ہیں۔

سندھ کے 55 فی صد رائے دہندگان نے کہا کہ وہ آئندہ انتخابات میں تیر کے نشان پر مہر لگائیں گے۔ خیبرپختون خواہ کے پشتو بولنے والے 34 فی صد رائے دہندگان نے پاکستان تحریک انصاف، جب کہ صرف 11 فی صد عوامی نیشنل پارٹی کے حق میں ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اے این پی صوبے میں دہشت گردی کے واقعات عسکریت پسندوں کی جانب سے ممکنہ حملوں کی بنا پر عوامی رابطہ مہم کو موثر انداز میں چلانے سے قاصر ہے اور مذہبی عنصر مضبوط حیثیت میں غالب ہے۔ خیبرپختون خوا میں ہندکو بولنے والوں میں 44 فی صد رائے دہندگان کا جھکاؤ مساوی طور پر پاکستان تحریکِ انصاف اور (ن) لیگ کی جانب ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندکو بولی والے علاقوں میں دونوں حریف پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

ووٹر کی معاشی حیثیت بھی اظہار رائے کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے۔ مختلف سرویز میں آمدن کے تناسب سے ووٹرز کا جو رجحان دیکھنے میں آیا ہے اس کے مطابق دس ہزار سے کم آمدن والے رائے دہندگان میں پاکستان پیپلزپارٹی 44 فی صد کی حمایت کے ساتھ پہلے، مسلم لیگ ن37فی صد کی حمایت کے ساتھ دوسرے، پاکستان تحریک انصاف25فی صد کے ساتھ تیسرے، جب کہ متحدہ قومی موومنٹ، جماعت اسلامی اور پاکستان مسلم لیگ ق بالترتیب چوتھے، پانچویں اور چھٹے نمبر پر ہیں۔

متوسط اور زیادہ آمدنی والے طبقے کے رائے دہندگان میں پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کو حمایت حاصل ہے۔



سرویز سے اخذکردہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ رائے دہندگان عمر، مذہب، آمدنی، اقلیت کے تناسب سے اہم ترین مسائل کے حوالے سے بھی مختلف سوچ رکھتے ہیں۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ سرویز کے ذریعے عوام کی رائے کس حد تک سامنے آسکی اور رائے دہندگان کے رجحانات کس حد تک نتائج پر اثرانداز ہوئے۔







بیرون ملک مقیم پاکستانی اور ووٹ کا حق

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں کو حکم دیا ہے کہ حالیہ الیکشن میں بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو یقینی بنایا جائے، جس پر الیکشن کمیشن، نادرا اور دیگر اداروں نے ان کے ووٹ ڈالنے کے لیے ''سوفٹ ویئر'' کے بروقت بننے پر تحفظات اور ووٹوں کا غلط استعمال اور متوقع دھاندلی جیسے خدشات کا اظہار کیا۔



ایک انگریزی اخبار کی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق بیرونِ ملک میں رہنے والے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد4.5ملین ہے۔ اعداد شمار کے مطابق:
٭... سعودی عرب میں1.7 ملین پاکستانی ووٹرز (ایک کروڑ70لاکھ)
٭... متحدہ عرب امارات، 1.3 ملین (ایک کروڑ30لاکھ)
٭... اومان،277,131 (2لاکھ ستتر ہزار تقریباً)
٭... کویت 131,589(ایک لاکھ اکتیس ہزار پانچ سو اننانوے)
٭...بحرین 80,166(اسی ہزار ایک سو چھیاسٹھ)
٭... انگلینڈ 367,988(تین لاکھ سرسٹھ ہزار نو سو اٹھاسی)
٭... امریکا 131,589(ایک لاکھ اکتیس ہزار پانچ سو اننانوے
٭... کینیڈا90,148 (نوے ہزار ایک سو اڑتالیس)
٭... یونان56,495 (چھپن ہزار چار سو پچانوے)
٭... ملائیشیا55,851 (پچپن ہزار آٹھ سو اکیاون)
٭... اسپین، 39,618(انتالیس ہزار چھے سو اٹھارہ)
٭... فرانس،23,585 (تئیس ہزار پانچ سو پچاسی)
٭... آسٹریلیا، 15,728(پندرہ ہزار سات سو اٹھائیس) رہتے ہیں۔
نادرا نے بیرون ملک میں مقیم رجسٹرڈ پاکستانی ووٹرز کے لیے سوفٹ ویئر تیار کرکے سپریم کورٹ میں پیش کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں