رعشے کی بیماری

ورزش اس مرض کا نصف علاج ہے


سائرہ بانو May 05, 2013
فوٹو : فائل

میرا تعلق انسانوں کے اس طبقے سے ہے جو صحت کو واقعی دولت سمجھتے ہیں اور اس کی حفاظت کے لیے کوئی نہ کوئی ورزش کرتے رہتے ہیں۔

خوش قسمتی سے میرے دفتر میں ایک نہایت اعلیٰ پیمانے کا جم ہے۔ اس لیے روزانہ کھانے کے وقفے میں، میں کچھ دیر وہاں جاکر ورزش کرلیتی ہوں۔

کھانے کے وقفے کے دوران وہاں ادارے میں کام کرنے والے دوسرے افراد کے علاوہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہوتی ہے۔ کچھ دن سے اتفاقاً میرے برابر والی ٹریڈمل پر ایک خوش شکل اور خوش اخلاق خاتون ورزش میں مصروف تھیں۔ گفتگو کی تو پتا چلا کہ وہ ''پارکنسنز'' کے مرض میں مبتلا ہیں اور کم از کم دو گھنٹے مختلف اقسام کی ورزشیں کرتی ہیں۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر میں نے ان سے دریافت کیا کہ بجائے ادویات استعمال کرنے کے وہ ورزش کیوں کرتی ہیں؟ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ انھیں ادویات سے زیادہ ورزش سے افاقہ ہوا ہے۔ پہلے انھوں نے ڈاکٹر کے مشورے سے ورزش شروع کی لیکن اب اس کی افادیت کی قائل ہوگئی ہیں۔

میری دل چسپی کے پیش نظر ان خاتون نے پارکنسنز کے بارے میں اپنی معلومات سے مجھے بھی مستفید کیا۔ انھوں نے بتایا کہ پارکنسنز کو اردو میں عام طور پر رعشے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاہم اس مرض کا انگریزی نام ایک ڈاکٹر جیمز پارکنسن سے مستعار لیا گیا ہے، جس نے 1817 میں اس مرض کے بارے میں پہلا تفصیلی مضمون لکھاتھا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پارکنسنز سے متاثرہ افراد کی تعداد 400,000 سے زاید ہے جب کہ عالمی سطح پر یہ تعداد 6 ملین سے تجاوز کرچکی ہے اور امکان ہے کہ 2030 تک یہ تعداد دگنی ہوسکتی ہے۔

انسانی دماغ ڈوپامائن نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا کرتا ہے، جو پٹھوں اور عضلات کو لچک دار بناتا ہے اور جسمانی حرکات میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ تاہم پارکنسنز سے متاثرہ افراد کا دماغ ڈوپامائن پیدا کرنا بند کردیتا ہے، جس کی وجہ سے مریض کے بازوؤں، ہاتھوں اور ٹانگوں میں رعشہ، حرکت میں سست روی، اعصاب میں اکڑاؤ اور توازن کی خرابی جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر مرض شدت اختیار کرجائے تو خوراک نگلنے، چلنے پھرنے اور بات کرنے میں بھی مشکل پیش آسکتی ہے۔ گوکہ یہ مرض کسی بھی شخص کو متاثر کرسکتا ہے۔ تاہم ساٹھ برس سے زائد عمر کے افراد عام طور پر اس کا شکار ہوتے ہیں۔

عضلاتی انحطاط کے اس مرض کا مکمل علاج ممکن نہیں لیکن درست اور بروقت علاج سے اس کو مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ ادویات ، جسمانی ورزش اور اگر ضرورت ہو تو آپریشن کی مدد سے مریض کی حالت میں استحکام لایا جاسکتا ہے۔ بعض اوقات دیگر اعصابی مسائل یا سر کی چوٹ کی وجہ سے بھی اس قسم کی علامات ظاہر ہوسکتی ہیں۔ اس لیے ڈاکٹرز ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین تجویز کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے
ایسا کوئی لیبارٹری ٹیسٹ دستیاب نہیں جو اس مرض کی تشخیص کرسکے۔ اس لیے تفصیلی اعصابی معائنے پر انحصار کیا جاتا ہے۔

چوں کہ یہ مرض حرکات و سکنات کو متاثر کرتا ہے، اس لیے فزیو تھیراپی کی مدد لی جاتی ہے، تاکہ مخصوص ورزشوں کی مدد سے مریض کسی مدد کے بغیر روزمرہ سرگرمیاں انجام دے سکے۔ توازن یا چال میں ہونے والی تبدیلی مریضوں کو زیادہ متاثر کرتی ہے اور ان کے گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

گرنے کا نتیجہ ہڈیاں ٹوٹنے اور عارضی یا مستقل معذوری کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ چلنا، جسمانی قوت میں اضافے کی تربیت اور مخصوص جسمانی ورزشیں مریضوں کی چال کو متوازن بناتی ہیں اور انھیں گرنے کے خطرے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ چلنا ایک ایسی محفوظ ورزش ہے جو نہ صرف توازن کو بہتر بناتی ہے بلکہ جسم میں آکسیجن کے انجذاب میں بھی اضافہ کرتی ہے۔ تاہم اگر کسی اور طبی مسئلے کی وجہ سے مریض کو چلنے میں مسئلہ ہو تو ڈاکٹر اور فزیوتھراپسٹ کوئی متبادل ورزش تجویز کرسکتے ہیں۔ ورزش کے دورانیے میں رفتہ رفتہ اضافہ کرنا چاہیے۔

اپنی دل چسپی کے موضوع کو سن کر ایک مقامی اسپتال کی ایڈوانسڈ ری ہیبی لیٹیشن سروسز کے کوآرڈینیٹر محبت علی آغا خان بھی اس معلوماتی گفتگو میں شریک ہوگئے۔ محبت علی نے بی ایس پی ٹی، ایم ایس سی پی ٹی (نیورو) کیا ہے اور اب ڈی پی ٹی (ڈاکٹر آف فزیو تھیراپی) کی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ وہ پارکنسنز کے مریضوں کو فزیو تھراپی کرواتے ہیں اور ان مریضوں کے لیے بنائے گئے سپورٹ گروپ کو معلوماتی لیکچر بھی دیتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ موروثی مرض نہیں ہے اور نہ ہی اب تک اس کی وجہ کا تعین کیا جاسکا ہے۔ پارکنسنز کا پچاس فی صد علاج ادویات سے اور بقیہ پچاس فی صد ایکسرسائز سے ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس میں اضافہ ہی ہوتا ہے تاہم درست علاج اور اچھی دیکھ بھال سے اس کی رفتا ر میں کمی آجاتی ہے۔

اس مرض کے تین اہم نتائج نکلتے ہیں: پہلے عضلات سخت ہوجاتے ہیں پھر کم زور اور آخر میں ان کی حرکت محدود ہوجاتی ہے اور یوں مریض روزمرہ سرگرمیاں انجام نہیں دے پاتا۔ اگر ادویات کے ذریعے ڈوپامائن درست سطح پر آ بھی جائے تو یہ مسائل برقرار رہتے ہیں۔ تاہم فزیوتھراپی سے ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

انھوں نے مرض کی علامات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ''اس مرض کی ایک اہم بات یہ ہے کہ نہ تو ایک ہی دوا زندگی بھر استعمال کی جاسکتی ہے اور نہ ہی ایک قسم کی ایکسرسائز ہمیشہ کروائی جاسکتی ہے۔ پارکنسنز کی ایک عام علامت یہ ہے کہ مریض چلتے چلتے یا بستر سے اٹھتے وقت آگے یا پیچھے کی طرف گرجاتا ہے، جب کہ دوسری اہم علامت 'فریزنگ گیٹ ' ہے یعنی جب وہ بستر سے اٹھتا ہے اور چلنا چاہتا ہے اس کا پہلا قدم نہیں اٹھتا۔ مریض آہستہ چلتا ہے ، چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہے۔ تاہم اس کے لیے رک کر مڑنا بہت مشکل ہوتا ہے۔''

ایک عام صحت مند شخص کی فزیکل فٹنس کی جانچ درج ذیل عوامل سے کی جاتی ہے:
دل اور شریانوں کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت، عضلات کی طاقت، عضلات کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت، جسمانی لچک کی جانچ اور جسمانی ساخت (باڈی ماس انڈیکس اور جسم میں چکنائی کا تناسب)

تاہم پارکنسنز کے مریضوں کی فزیوتھیراپی میں تین اجزا بہت اہم ہوتے ہیں: عضلات کی کم زوری کو ختم کرنے اور عضلات کی طاقت میں اضافے کی کوشش، رعشے کی وجہ سے عضلات کی لچک میں کمی کا تدارک اور چال کی درستی۔

پارکنسنز کے مریضوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حرکت کرنا ہی ان کے مسئلے کا حل ہے۔ اگر وہ یہ سوچ کر اپنی سرگرمیاں محدود کردیں کہ اس طرح ان کی حالت بہتر ہوجائے گی، تو یہ غلط ہے۔ ایک تجرباتی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کوئی صحت مند فرد بھی تین ہفتے تک بستر پر رہے اور حرکت نہ کرے تو عضلات کی طاقت میں ایک تہائی کمی آجاتی ہے۔ مریض اگر جسمانی سرگرمی میں کمی کردے تو وہ معذوری کی حد کو پہنچ سکتا ہے۔

دورانِ معائنہ فزیوتھیراپسٹس اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مریض کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھر نے، کھڑے رہنے، وزن اٹھانے کا طریقہ اور توازن کیسا ہے۔ توازن کی خرابی کی وجہ سے مریض کی چال متاثر ہوتی ہے اور اس کے آگے یا پیچھے کی طرف گرنے کا خطر ہ ہوتا ہے۔ چوںکہ مریض عام انسانوں کی طرح اپنے ہاتھ سیدھے نہیں رکھ پاتا اور گرتے وقت اپنا بچاؤ نہیں کرپاتا، جس کی وجہ سے سر پر چوٹ لگتی ہے۔ ایسے مریضوں کو ایکسرسائز کرواتے وقت ان کی چال کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اگر مریض آگے گرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے جسم کے اگلے حصے کے عضلات سخت ہوچکے ہیں۔ اس لیے پشت کے عضلات کو مضبوط کرنے کی کوشش کروائی جاتی ہے تاکہ توازن برقرار رہ سکے۔ تاہم اگر چال پیچھے گرنے والی ہے تو آگے والے عضلات کو مضبوط کرنے کے لیے ورزشیں کروائی جاتی ہیں۔

دورانِ تربیت مریض کو یہ تمام جسمانی ورزشیں سکھائی جاتی ہیں، تاکہ وہ ان کو گھر پر بھی جاری رکھ سکیں۔ تاہم اگر انھیں یہ محسوس ہو کہ ان کا توازن خراب ہوگیا ہے یا کوئی اور مسئلہ درپیش ہے تو انھیں باقاعدگی سے فزیو تھراپسٹ سے ملنا چاہیے، تاکہ ان کی موجودہ حالت کے مطابق ورزش میں تبدیلی کی جاسکے۔

پارکنسنز میں مجموعی دیکھ بھال بہت اہمیت رکھتی ہے اور دوا، ورزش اور طرز زندگی میں تبدیلی اس نظام کا حصہ ہیں۔ صحت یابی یا بہتر صحت کے حصول کے لیے ان تینوں پہلوؤں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ طرز زندگی میں تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ مرض کی شدت کی وجہ سے مریض ایسے بہت سے کام نہیں کرپاتا جو وہ پہلے کررہا تھا۔ اس لیے فزیوتھراپسٹس اسے متبادل طریقے بتاتے ہیں مثلاً گرفت خراب ہونے کی وجہ سے عام قلم کے بجائے موٹا قلم، بڑے دانوں والی تسبیح یا موٹے دستے والا چمچہ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مریض کو اپنے کام خود کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ دوسروں پر اس کا انحصار کم سے کم ہو۔

محبت علی نے بتایا کہ پارکنسنز کے مریضوں کے لیے ایک ری ہیب پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ ان کے اسپتال کے نیورولوجی اور فزیو تھراپی ڈیپارٹمنٹ اور پاکستان پارکنسنز سوسائٹی کے اشتراک سے ماہانہ بنیادوں پر ایک پروگرام ہوتا ہے، جس میں مریضوں، ان کے تیمارداروں اور اہل خانہ کی آگاہی میں اضافے کے لیے نیورولوجسٹ، فزیوتھراپسٹس، اوکیوپیشنل تھراپسٹس، اسپیچ تھراپسٹس، ڈینٹسٹس وغیرہ لیکچر دیتے ہیں۔ مریض ان معلوماتی لیکچرز میں مفت شریک ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔