لوڈشیڈنگ بڑھانے کے عندیے پرصنعتکاروں کو تشویش
مزید کمپنیوں کے پاور سیکٹر میں آنے سے مسابقت،صارفین کوفائدہ ہوگا،زبیر چھایا،ارشد وہرہ ودیگر
تجارتی وصنعتی حلقوں نے کے ای ایس سی کی جانب سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ مزید بڑھانے کے عندیے کوملکی ناگفتہ بہ معیشت پرکاری ضرب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں نہ صرف مقامی صنعتیں بند ہوجائیں گی بلکہ یوٹیلیٹیز فراہم کرنے والے اداروں کی بقا بھی خطرے میں پڑجائے گی۔
کراچی کے صنعتی علاقوں کی نمائندہ تنظیموں کے چیئرمین زبیر چھایا ، ڈاکٹر ارشد وہرہ ،فاروق کتھورا ، ہارون شمسی ودیگرنے کے ای ایس سی کی اس نئی حکمت عملی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں شفٹوں میں لوڈ شیڈنگ صنعت کو تباہ کررہی ہے، اس لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف پاکستان کا معاشی حب متاثر ہورہا ہے بلکہ ملکی برآمدات بھی توانائی بحران کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں،برآمدی آڈر وقت پر نہیں ہورہے اور وقت پر شپمنٹ کے لیے برآمدکنندگان کو بھاری قیمت ادا کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے سامان بھجوانا پڑ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی سپلائی میں کمی نے بھی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 100 فیصد مصنوعات برآمد کرنے والی صنعتیں جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہیں اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور بجلی گیس کے اس بحران میں اپنی پیداواری استعداد سے 60 فیصد کم پر کام کررہی ہیں جبکہ دوسری جانب پاور سپلائی کمپنیاں جن کا مقصد صرف بھاری منافع کمانا ہے، ان اقدامات کے ذریعے ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے والے شعبوں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاور سپلائی میں کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ایک کمپنی کی طرف سے شرائط وضوابط کادباؤ اس کمپنی کی ڈکٹیٹرشپ کی طرف جاتا ہے۔ انہوں نے موبائل فون سروس پروائیڈرز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تقریباً نصف درجن موبائل فون سروس پروائیڈرز ہیں، ان کا آپس میں ٹیرف کے معاملے میں بہت حد تک مقابلہ رہتا ہے اور وہ ٹیرف میں کمی کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے صارف کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اسی طرح ہر انڈسٹریل سیکٹر میں ایک سے زائد پاور سپلائی کمپنیاں ہونی چاہیے۔
کراچی کے صنعتی علاقوں کی نمائندہ تنظیموں کے چیئرمین زبیر چھایا ، ڈاکٹر ارشد وہرہ ،فاروق کتھورا ، ہارون شمسی ودیگرنے کے ای ایس سی کی اس نئی حکمت عملی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں شفٹوں میں لوڈ شیڈنگ صنعت کو تباہ کررہی ہے، اس لوڈ شیڈنگ سے نہ صرف پاکستان کا معاشی حب متاثر ہورہا ہے بلکہ ملکی برآمدات بھی توانائی بحران کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں،برآمدی آڈر وقت پر نہیں ہورہے اور وقت پر شپمنٹ کے لیے برآمدکنندگان کو بھاری قیمت ادا کر کے ہوائی جہاز کے ذریعے سامان بھجوانا پڑ رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی سپلائی میں کمی نے بھی مشکلات کو بڑھا دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 100 فیصد مصنوعات برآمد کرنے والی صنعتیں جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی ہیں اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور بجلی گیس کے اس بحران میں اپنی پیداواری استعداد سے 60 فیصد کم پر کام کررہی ہیں جبکہ دوسری جانب پاور سپلائی کمپنیاں جن کا مقصد صرف بھاری منافع کمانا ہے، ان اقدامات کے ذریعے ملک کے لیے زرمبادلہ کمانے والے شعبوں کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاور سپلائی میں کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ایک کمپنی کی طرف سے شرائط وضوابط کادباؤ اس کمپنی کی ڈکٹیٹرشپ کی طرف جاتا ہے۔ انہوں نے موبائل فون سروس پروائیڈرز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں تقریباً نصف درجن موبائل فون سروس پروائیڈرز ہیں، ان کا آپس میں ٹیرف کے معاملے میں بہت حد تک مقابلہ رہتا ہے اور وہ ٹیرف میں کمی کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے صارف کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اسی طرح ہر انڈسٹریل سیکٹر میں ایک سے زائد پاور سپلائی کمپنیاں ہونی چاہیے۔