بارش کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کا میکنزم سوالیہ نشان

محکمہ موسمیات مسلسل خبردار کررہا ہے کہ ملک میں بارشوں کا سیزن آگیا ہے۔


Editorial July 05, 2018
محکمہ موسمیات مسلسل خبردار کررہا ہے کہ ملک میں بارشوں کا سیزن آگیا ہے۔ فوٹو : فائل

KARACHI: پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں ہونے والی بارش نے 38سالہ ریکارڈ توڑ دیا ۔ لاہور سمیت مختلف شہروں میں کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی طوفانی بارش نے تباہی مچا دی ، سڑکیں، گلیاں تالاب میں تبدیل ، نشیبی علاقوں میں پانی گھروں میں داخل ہو گیا ، انڈر پاسز دریا بن گئے، شدید بارش کی وجہ سے لیسکو کے تین سو سے زائد فیڈرز ٹرپ کرگئے جس کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی کئی گھنٹوں تک معطل رہی،لاہور ایئر پورٹ پر بیرون ملک جانے والی متعدد پروازیں تاخیر کا شکار ہو گئیں، چھتیں ، دیواریں گرنے،کرنٹ لگنے کے مختلف واقعات میں 14افراد جاں بحق جب کہ متعدد زخمی ہوئے ۔

مون سون کی موسمی بارشوں سے ہونے والی تباہی ہر بار معاشرے کے ضمیر کو جھنجھوڑتی آئی ہے اور لمحہ موجود کی حکومت اس کے ارباب اختیار کی غفلت، تساہل اور بارش کے جمع پانی، نکاسی سمیت دیگر بدانتظامیوں پر میڈیا بھرپور گرفت کرتا ہے، شہری اپنے مصائب ، ڈوبے ہوئے علاقوں ،انسانی ہلاکتوں، املاک کی بربادی پر صدمہ اور مشکلات کا رونا روتے ہیں جب کہ بارشوں سے پیدا ہونے والی ابتر صورتحال پر بحث ملک گیر ہوتی ہے۔

گزشتہ چند برسوں سے بڑے شہروں میں ہونے والی ترقی ، ان کی خوبصورتی ، نکاسی آب ، تعمیر نو، تزئین اور ماس ٹرانزٹ سہولتوں کی فراہمی کے حوالہ سے لاہور کا تقابل جب بھی دیگر شہروں سے ہوتا تھا تو لاہور کی خصوصی انفرادیت کا ضرور ذکر ہوتا اور ن لیگ کو درپیش مسائل سے قطع نظر وزیراعلیٰ شہباز شریف کا ایک پلس پوائنٹ لاہور کے ترقیاتی منصوبوں کی گونج بھی تھی جب کہ حال ہی میں وہ اپنی انتخابی مہم کے سلسلہ میں کراچی پہنچے تو انھوں نے کراچی کو پیرس بنانے کا دعویٰ بھی کیا اور یہ حقیقت ہے کہ سیاسی کشیدگی، محاذ آرائی اور الزام تراشی کی اعصاب شکن انتخابی گہما گہمی میں سیاست دان کراچی اور لاہور کے ترقیاتی تقابل سے کبھی فارغ نہیں ہوئے۔

میڈیا نے چند روز قبل بھی ملک کے دیگر شہروں کو لاہور جیسا ترقی یافتہ بنانے کے لیے ایک تحسین آمیز انداز نظر اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کراچی کے شاندار ماضی اور حالیہ شہری صورتحال اورکچرے کے انبار کو تنزلی اور انحطاط کا افسوس ناک مظہر قراردیا۔

چنانچہ گزشتہ روز لاہور کی طوفانی بارش سے جہاں مال روڈ کی تباہی سامنے آئی ادھر میانی صاحب میں قبروں کو بھی نقصان پہنچا، تاجر برادری کے حوالہ سے خبروں میں بتایا گیا کہ کروڑوں کی الیکٹرانک اشیا ، گارمنٹس اور دیگر سامان خراب ہوا، ٹرین اور میٹرو بسوں کو بھی پانی پر چلنا پڑا، مگر جس بحث نے شہریوں اور سیاسی رہنماؤں کی توجہ مبذول کی وہ بارش کی مشکلات پر سیاست کرنے کی افسوسناک روش تھی جسے نامناسب کہا گیا، اگر سچی بات کی جائے تو لاہور ہی نہیں کراچی سمیت کسی بھی شہر میں ایسی ہولناک بارش ہوتی تو صورتحال اتنی ہی گھمبیر ہوتی، موسلادھار بارشوں کا تسلسل اور طوفانی ہواؤں سے کاروبار حیات کا مفلوج ہوجانا انوکھی بات نہیں اور نہ ہی اس موقع کو پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنا کوئی دانشمندی ہے۔

سیاسی مخالفین کا کہنا تھا کہ شہباز ترقیاتی ڈرامہ بے نقاب ہوا، شہر پیرس نہیں وینس ضرور بن گیا، بارش سے نمٹنے میں صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی بے بسی اور عدم فعالیت پر کڑی تنقید ہوئی مگر ن لیگ ذرایع کا یہ شکوہ سامنے آیا کہ ابھی تو انھیں بخش دیا جائے کہ حکومت نگرانوں کے سپرد ہے ، ان سے پوچھا جائے کہ وہ کیوں پیشگی اقدامات اور بارش اور سیلاب سے بچاؤ کے پروگرام اور موثر انتظامات کرنے میں ناکام رہے، بلاشبہ مون سون جون اور جولائی کے دورانیہ پر محیط موسمی چیلنج ہے جس سے کوئی حکومت لاتعلقی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

محکمہ موسمیات مسلسل خبردار کررہا ہے کہ ملک میں بارشوں کا سیزن آگیا ہے، وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو اپنے ضلعی اداروں اور ریسکیو آپریشنز سے متعلق میکنزم کو ریڈ الرٹ کا حکم دے، سیوریج سسٹم بارش کے پانی کی عدم نکاسی کے باعث ہمیشہ زیر بحث آتا ہے، دنیا کے جدید ملکوں میں نکاسی آب کا سسٹم شفاف ترین ہے، وہاں قدرتی آفات سے بچاؤ کے لیے انسانی فکر وعمل اور ضرورت ایجاد کی ماں ہے کے اصول پر غیرمعمولی اقدامات اور اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔

انسان یا حکومتیں فطرت سے نہیں لڑ سکتیں مگر ریاستی اور حکومتی سطح پر باد و باراں کو زحمت کے بجائے رحمت بنانے کی کوششوں سے غفلت صائب طرز عمل تو نہیں ۔ اس لیے جہاں لاہور بارش کے باعث معمولات زندگی کے معطل ہوجانے کی صورتحال سے دوچار رہا وہاں ملکی سماجی زندگی اور حکومتی اقدامات اور انفرااسٹرکچر کے فقدان پر عوامی ردعمل کا دھارا پورے ملکی انفرااسٹرکچر کی خرابیاں گنتا رہا اور قدرتی آفات سے نمٹنے میں ناقص منصوبہ بندی بھی اس کے پیش نظر رہی ہے۔

خبروں کے مطابق اتنی شدید بارش ہوئی کہ بادامی باغ، لکشمی، بھاٹی، فیروزپور روڈ، جی پی او چوک، اچھرہ، شاہدرہ ، اسلام پورہ ، گڑھی شاہو ، محمد نگر ، ریلوے اسٹیشن سمیت دیگر علاقے پانی میں ڈوب گئے ، سڑکوں کے کنارے کھڑی گاڑیاں زمین کے اندر دھنس گئیں، جی پی او چوک کے قریب سڑک میں شگاف پڑ گیا، ڈی سی لاہور نے لارنس روڈ، لکشمی چوک، جی پی او چوک اور دیگر مقامات پر نکاسی آب کے کام کا جائزہ لیا۔

ریسکیواہلکاروں کے مطابق انھوں نے متعددافراد کوکشتی کے ذریعے لکشمی چوک میں کھڑے ہونے والے کئی فٹ گہرے پانی سے محفوظ جگہ پرمنتقل کیا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں ایک بار پھر بارشوں کا آغاز ہو گیا ہے جو مزید دو روز تک جاری رہنے کا امکان ہے۔دوسری طرف بارشوں کے بعد دریاؤں میں پانی کی آمد میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 23ہزار 100کیوسک کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ارسا نے صوبوں کو ان کے حصے کا پورا پانی فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ ارباب بست وکشاد کو سوچنا چاہیے کہ بے انتہا بارشوں کا نتیجہ ہی سیلاب کا پیش خیمہ بنتا ہے۔

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ قدرتی آفات انسانی عزم کو للکارتے ہیں، زلزلوں، سمندری طوفانوں، پہاڑی تودوں ، سیلابوں اور سونامی سے ہونے والی تباہ کاریوں سے جدید دنیا ناواقف نہیں، انتہائی ترقی یافتہ ملکوں کو قدرتی آفات نے چیلنج کیا مگر وہاں حکومتیں بے دست وپا نہیں بنتیں، ان کی امکانی صورت دہشتناک ڈزاسٹر رسک ایجوکیشن اور مینجمنٹ کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے، مقامی حکومتیں اور ضلعی حکام آنکھیں کھلی رکھتے ہیں۔اسی طرح انسانی جانیں بچائی جاسکتی ہیں۔

لاہور میں بارشوں کا معاملہ ٹلا نہیں، مون سون سے رسم وراہ پیدا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی سے مدد لی جانی چاہیے، شہری نالوں کی مستقل صفائی اور ڈرینج و سیوریج سسٹم کی اوورہالنگ کے لیے تمام فرسودہ طریقے ختم کر کے جدید مشینری سے استفادہ کو یقینی بنایا جائے۔ سیلاب اور بارشوں میں گہری ہم آہنگی اور اس کے لرزہ خیز مضمرات کا فطری حل تلاش کیجیے، ملک کے تمام شہروں اور دیہی علاقوں کو بارش پروف میکنزم دینے کے لیے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ، وہ موسمی تبدیلیوں پر حکومت اور عوام کی بہتر تربیت کرسکتا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔