نواز اور مریم کی جیل یاترا۔ فائدہ کس کو ہو گا

فیصلہ عوامی رائے کے برعکس بھی آسکتا ہے۔


مزمل سہروردی July 05, 2018
[email protected]

ISLAMABAD: نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف ایک مقدمہ میں فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ احتساب عدالت نے مقدمہ کی کارروائی مکمل کر لی ہے اور فیصلہ کے لیے جمعہ کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ یہ فیصلہ جمعہ کو آجاتا ہے یا ایک آدھ دن آگے چلا جاتا ہے یہ معمولی بات ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ بس اب الیکشن سے پہلے فیصلہ آجائے گا۔ ایسے میں کیا بیگم کلثوم نواز کی لندن میں بیماری کی وجہ سے نواز شریف اور مریم نواز کے استثنا کو آگے بڑھاتے ہوئے فیصلہ کو بھی موخر کیا جائے گا یا ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنا دیا جائے گا۔ میرے خیال میں جیسے ان کی غیر موجودگی میں کیس کی کارروائی آگے بڑھی ہے ایسے ہی ان کی موجودگی اور غیر موجودگی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔

ویسے تو عدالتی فیصلوں کے بارے میں پیش گوئی کرنا درست نہیں ۔ یہ نظام انصاف کی روح کے خلاف ہے۔ جج صاحب کیا فیصلہ دیں گے یہ کسی کو کیسے معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلہ لازمی یہی آئے گا۔ ویسے تو عمومی عوامی رائے یہی ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو سزا ہو جائے گی لیکن یہ ضروری نہیں کہ عوامی رائے درست ہو ۔

فیصلہ عوامی رائے کے برعکس بھی آسکتا ہے۔ اس لیے صرف اس مفروضے کو سامنے رکھ کر کوئی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا کہ صرف سزا ہی ہونے جا رہی ہے۔ جب تک فیصلہ نہیں آجاتا ہمیں تجزیہ کرتے وقت یہ آٓپشن سامنے رکھنا ہو گا کہ نواز شریف اور مریم نواز بری بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہمارے سامنے اب دو منظر نامے ہیں ۔ایک یہ کہ سزا ہو گی اور دوسرا یہ کہ بری ہو جائیں گے۔

اگر بری ہو جائیں گے تو کیا ہوگا؟میں سمجھتا ہوں کہ بری ہونے سے نواز شریف اور مریم نواز کو بہت فائدہ ہو گا۔ مریم نواز قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ سکیں گی۔ نواز شریف کی نااہلی ختم ہونے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی الیکشن مہم کو بہت فائدہ ہو گا۔ اس بریت کا براہ راست نتیجہ یہ ہو گا کہ ن لیگ الیکشن میں واضع برتری سے جیت سکتی ہے ۔ نواز شریف ہیرو بن جائیں گے۔ جن قوتوں نے یہ سب کچھ کیا ہے وہ زیرو ہو جائیں گی۔ کچھ دوستوں کو سمجھ آہی گئی ہو گی کہ اس فیصلہ کے کتنے خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اس لیے اس فیصلہ کے امکانات اتنے ہی کم ہیں ۔اسی لیے عوامی رائے بھی یہی ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔

دوسری صورت جس کے بارے میں عمومی رائے زیادہ مضبوط ہے کہ سزا ہو جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ سزا کی مدت پر اختلاف ہے لیکن شائد زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سزا ہو جائے گی۔ نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو سزا ہو جائے گی بیچارے کیپٹن صفدر بچ سکتے ہیں۔ اب جب نواز شریف اور مریم دونوں کو سزا ہو گی تو کیا ہوگا۔ بہر حال اس کے بھی براہ راست انتخابات پر اثرات ہونگے۔ اس بارے میں اختلاف ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ اس کا ن لیگ کوفوری طور پر نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف کو فائدہ ہو گا۔ بہر حال اس پر بعد میں بات کریں گے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا نواز شریف اور مریم نواز سزا کے بعد لندن میں ہی قیام کریں گے یا ملک میں واپس آجائیں گے۔ ابھی تک میاں نواز شریف اور مریم نواز نے وطن واپسی کے حوالہ سے ایک ابہام رکھا ہوا ہے۔ یہ خبریں بھی آئی ہیں کہ وہ وطن واپس آرہے ہیں لیکن کوئی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ بعد میں یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی صحت میں بہتری کے بعد ہی وطن واپسی کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ لیکن میری رائے میں سزا ہونے کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کے لیے لندن مزید رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس کا براہ راست سیاسی نقصان ہو گا۔

اس لیے زیادہ مناسب فیصلہ تو یہی ہو گا کہ جونہی سزا کا اعلان ہو نواز شریف اور مریم نواز بیگم کلثوم نواز کو اسی حالت میں چھوڑ کر وطن واپس آجائیں اور خود کو قانون کے حوالہ کر دیں۔ یہ یقینا ان کی مخالف قوتوں کے لیے ایک سرپرائز ہو گا کیونکہ ابھی تک کے اندازے یہی ہیں کہ بیگم کلثوم نواز لمبے عرصے تک وینٹی لیٹر پر رہیں گی اس لیے اسی وینٹی لیٹر کو بنیاد بنا کر نواز شریف لمبے عرصے تک لندن میں رہنے کا پلان بنا چکے ہیں۔ اس لیے سزا کے بعد بھی وہ لندن میں ہی رہیں گے۔ اور کہیں گے جیسے ہی بیگم کلثوم نواز کی طبیعت بہتر ہوتی ہے ہم واپس چلے جائیں گے اور اس طرح چند ماہ گزارے جا سکتے ہیں۔

لیکن اندر کی خبر بھی یہی آرہی ہے کہ لندن میں ہونے والے اجلاسوں میں میاں نواز شریف کو یہی مشورہ دیا گیا ہے کہ جیسے سزا کا اعلان ہو جائے ،آپ بیگم کلثوم نواز کو وینٹی لیٹر پر چھوڑ کر پہلی فلائٹ سے وطن واپس آجائیں اور جیل چلے جائیں ۔ بعد میں ضمانت کی کوشش کی جائے گی۔ اگر بیگم کلثوم نواز کی بیماری کی وجہ سے ضمانت مل گئی تو ٹھیک ورنہ نہ سہی۔ جیل میں رہا جائے۔ ایک رائے یہ ہے کہ نواز شریف اکیلے ملک واپس آجائیں اور مریم نواز لندن میں ماں کے پاس رہیں۔ لیکن ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ مریم نواز قانون سے فرارکا الزام اپنے سر لینے کو تیار نہیں ہیں اور وہ نواز شریف کے ساتھ واپسی کے لیے بضد ہیں۔

اگر فرض کر کے یہ مان لیا جائے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو جیل ہو جاتی ہے تو کیا ہوگا۔ کیا اس کا ن لیگ کو فائدہ ہو گا یا نقصان۔ شائد ن لیگ کے سیاسی دشمن سوچ رہے ہیں کہ اس کا ن لیگ کو نقصان ہو گا۔ ان کے خیال میں پوری الیکشن مہم بیٹھ جائے گی۔ نواز شریف اور مریم جیل جانے سے ن لیگ کے ووٹر اور سپورٹر میں بد دلی پھیلے گی۔ جس کا براہ راست اثر الیکشن میں آئے گا۔ وہ واضح برتری سے جیت جائیں گے۔ لیکن یہ تجزیہ غلط بھی ہو سکتا ہے۔ یہ الیکشن ہے ،کب کیا ہو جائے کچھ معلوم نہیں۔

کیا نواز شریف اور مریم نواز کے جیل جانے کا ن لیگ کو فائدہ نہیں ہو سکتا؟ بیگم بیمار ،ماں بیمار اور باپ بیٹی جیل میں ۔ اس کا فائدہ بھی ہو سکتا۔ اگر نا اہلی کے بعد مجھے کیوں نکالا کا سیاسی فائدہ ہو گیا ہوتا۔ اگر جی ٹی روڈ سے لاہور واپس آنے کا سیاسی فائدہ ہو گیا تھا۔تو جیل جانے کا تو اس سے کہیں بڑھ کر سیاسی فائدہ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے نواز شریف اور مریم نواز کو جیل جانے پر اتنی سیاسی ہمدردی ملے کہ ن لیگ کی سیاسی مہم کو ایک نئی روح اور ایک نئی زندگی مل جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہوگا۔

جو مخالف یہ سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف کی سزا کے بعد انھیں سیاسی فائدہ ہو گا۔ ان مخالفین کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نا اہلی کے فوری بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کی جیت ہوئی تھی اور مخالفین ہار گئے تھے۔ لاہور اور لودھراں ہار گئے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ جیل جانے سے پھر ن لیگ کو ہی فائدہ ہو جائے۔ اس لیے نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ایک دو دھاری تلوار سے کم نہیں۔ یہ جہاں نواز اور مریم کو نقصان پہنچا سکتی ہے وہاں اس سے ان کے دشمنوں کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کے سیاسی دشمن ان کے جیل جانے کو اپنی فتح قرار دیں گے۔

یہ تحریک انصاف کو فائدہ دے گا۔ وہ کہیں گے یہ ہماری فتح ہے۔ لیکن جیل کا ہر دن بھاری بھی ہو سکتا ہے۔ ایک دفعہ نواز شریف جیل چلے گئے تو پھر باہر آنے کی باتیں ہونگی۔ ان کے بہادری سے جیل جانے کی باتیں ہونگی۔ ان کے جیل سے پیغام چلیں گے۔ملاقاتیں ہونگی۔ مریم کی جیل کی تو اور ہی شان ہو گی۔ وہ بیٹی کی ہمدردی بھی لیں گی۔ اس لیے انھیں جیل میں رکھنا آسان نہیں ہو گا۔ جس طرح ان کا یہ فیصلہ مشکل ہے کہ وہ فوری وطن آکر جیل چلے جائیں۔ اس طرح ان کو جیل میں رکھنا بھی کم مشکل فیصلہ نہیں ہو گا۔ دونوں کے اپنے اپنے الگ سیاسی محرکات ہیں۔

ایک دوست کا سوال ہے کہ کیا ایسا کوئی امکان ہے کہ اس سزا کے بعد مسلم لیگ (ن) الیکشن کا بائیکاٹ کر دے۔نواز شریف لندن سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیں۔ جیل سے بائیکاٹ کا اعلان کر دیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کچھ بھی ہو جائے بائیکاٹ کا کوئی امکان نہیں۔ بائیکاٹ سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔ن لیگ الیکشن ہر صورت لڑے گی۔چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں