بہار کا موسم
مغربی جمہوریت کا خمیر بھی سرمایہ دارانہ نظام سے اٹھا ہے اور مغربی جمہوریت بھی ارتکاز زر کا ہی کام انجام دیتی ہے۔
الیکشن کا موسم سیاستدانوں کے لیے بہارکا موسم ہوتا ہے ، جلسے جلوس، وعدے دعوے غرض سیاستدان اس موسم میں پورے جوبن پر ہوتے ہیں، یہ بات درست ہے کہ عوام سیاست کے اسرار و رموز سے واقف نہیں ہیں ۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ بے چارے عوام اہل سیاست کے وعدوں اور دعوؤں کا اعتبارکرلیتے ہیں اور بار بار کے دھوکوں سے ہوشیار نہیں ہوتے لیکن کیا یہ بات بھی کوئی سمجھنے والا راز ہے کہ ستر سال سے ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
کھانا پینا رہنا سہنا غرض زندگی کی گاڑی اسی راستے پر اسی رفتار سے چل رہی ہے جس طرح وہ ستر سال پہلے چل رہی تھی اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تو سیاستدانوں کی نئی پود یعنی نئی نسل عوام میں متعارف ہوئی ہے اور پورے یقین کے ساتھ اپنے ماں باپ کی جگہ لے رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اقتدارواختیار ان کے ہاتھوں میں ہوگا اور وہ ماں باپ کی چھوڑی ہوئی دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں گے۔
اس مختصر سے کھیل کو ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں ۔ اشرافیہ کی جان اسی جمہوریت کے ڈسٹ بن میں چھپی ہوئی ہے ۔ اس موروثی کھیل کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح سیاستدان جمہوریت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا جمہوریت سے اشرافیہ کا عشق صرف اس لیے ہے کہ وہ اس کھیل میں دولت کے انبار لگا لیتے ہیں۔
بلاشبہ اشرافیہ نے بڑی چالاکی سے عوام کو مختلف حوالوں سے بانٹ رکھا ہے اور ان کی طاقت کو ایک مرکز پر آنے نہیں دیتے کہ اگر عوام ایک مرکز پر آجائیں تو بلاشبہ طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں اور جب عوام طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں تو 1977 کی تحریک بن جاتے ہیں۔1977 کی تحریک بلاشبہ متنازعہ تھی کیونکہ یہ تحریک خود جمہوریت کے خلاف تھی، یہی نہیں بلکہ امریکا اس تحریک کو سرمایہ فراہم کر رہا تھا لیکن یہ تحریک طاقت کا سرچشمہ یوں بن گئی تھی کہ ساری ریاستی مشنری اس تحریک کو دبانے کے لیے لگا دی گئی تھی لیکن اس تحریک کو دبایا نہ جاسکا اس وقت تک جب تک ایک ڈکٹیٹر نے اقتدار پر قبضہ نہیں کرلیا۔
اس تحریک کا ذکر اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ عوام کی اجتماعی طاقت کا اندازہ ہوا اور 70 سال سے عوام کو جمہوریت کے نام پر جس چالاکی سے استعمال کیا جا رہا ہے، عوام اس کا احساس کریں اور اپنی اجتماعی طاقت کو اس ظالمانہ نامنصفانہ نظام کو ختم کرنے اور ایک منصفانہ عوام دوست نظام قائم کرنے میں لگائیں۔ مشکل یا بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں انقلابی نہ سہی ایسی بھی کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما نہیں جو کم ازکم مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرز پر ہی اپنے ملک میں ایسا جمہوری نظام رائج کرسکے جو عوام کے مسائل حل کرنے میں رہنمائی کرسکے۔
بلاشبہ مغربی جمہوریت کا خمیر بھی سرمایہ دارانہ نظام سے اٹھا ہے اور مغربی جمہوریت بھی ارتکاز زر کا ہی کام انجام دیتی ہے لیکن اس جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس جمہوریت میں عوام کے مسائل حل کرنے کا ایک حد تک اہتمام ہوتا ہے جب کہ ہماری دیسی جمہوریت شرم و حیا سے مبرا ایک ایسا نظام ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے، اس بے شرمانہ اور بے رحمانہ نظام کو جمہوریت کا نام دے کر عوام کو مستقل بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور عوام بے وقوف بن رہے ہیں۔
ابھی انتخابات کی تیاری کے موقعے پر جو نامزدگی فارم تیار کیے گئے تھے، اس میں امیدوار کے اثاثوں وغیرہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ اس ''ظلم'' کے خلاف شاطر سیاستدانوں نے واویلا مچا کر اسے مسترد کردیا۔ لیکن چونکہ اس بار بعض ریاستی ادارے کرپٹ سیاستدانوں کی ناک میں نکیل ڈالنے پر بضد ہیں، سو انھوں نے نامزدگی فارم کے ساتھ ایک حلف نامہ جمع کرنے کا حکم جاری کیا جس میں امیدوار کے اثاثوں وغیرہ کی تفصیل پوچھی گئی ہے چونکہ امیدواروں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر حلف نامے غلط ثابت ہوئے تو پھر غلط حلف نامے جمع کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی ۔ اس خوف کی وجہ سے امیدواروں نے ممکنہ حد تک اثاثے بتانے کی کوشش کی جس کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی الیکشن کا امیدوار کروڑ پتی سے کم نہیں اور اندرون ملک بیرون ملک اربوں کے اثاثے سامنے آئے ہیں۔
یہ حال تو صرف ان لوگوں کا ہے جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ان کے علاوہ ارب پتیوں کا ایک پورا طبقہ ہے جو عوام کی محنت کی کمائی پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اس طبقے کے قبضے میں ملک کی مجموعی دولت کا 80 فیصد حصہ ہے جو پردے کے پیچھے رہ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اس طبقے کے ہاتھوں میں جمع اربوں کھربوں روپے نکالنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے، کیا پر امن طریقے سے کوئی اربوں کی دولت سے دستبردار ہوسکتا ہے خواہ اس اربوں کی دولت کے مالک عوام ہی کیوں نہ ہوں؟
الیکشن کا یہ ڈرامہ 25 جولائی کو ختم ہوجائے گا مختلف حوالوں سے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے عوام مالکان کے بتائے ہوئے نشان پر ٹھپہ لگا کر اپنا ووٹ ووٹ باکس میں ڈال آئیں گے ووٹ کا احترام ہوگا ووٹر ہمیشہ کی طرح ذلیل و خوار ہوگا۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کی تعظیم میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ سر جھکا رہے ہیں۔
تعلیم یافتہ کلاس کا وہ حصہ جو ضمیر فروش ہے اس سے گلہ بے کار ہے لیکن وہ تعلیم یافتہ طبقہ جو اپنے ضمیر کے ساتھ زندہ ہے کیا وہ یوں ہی عملی طور پر مردہ بنا رہے گا۔ کیا اس کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ اس ملک میں برسوں سے کھیلے جانے والے جمہوریت کے مکروہ چہرے سے نقاب اٹھا کر اس ملک کے عوام کو بتائے کہ یہ جمہوریت نہیں اشرافیہ کی آمریت ہے جس کے آٹو میکنزم میں ہر آنے والے دن غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔
کھانا پینا رہنا سہنا غرض زندگی کی گاڑی اسی راستے پر اسی رفتار سے چل رہی ہے جس طرح وہ ستر سال پہلے چل رہی تھی اگر کچھ تبدیل ہوا ہے تو سیاستدانوں کی نئی پود یعنی نئی نسل عوام میں متعارف ہوئی ہے اور پورے یقین کے ساتھ اپنے ماں باپ کی جگہ لے رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اقتدارواختیار ان کے ہاتھوں میں ہوگا اور وہ ماں باپ کی چھوڑی ہوئی دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں گے۔
اس مختصر سے کھیل کو ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں ۔ اشرافیہ کی جان اسی جمہوریت کے ڈسٹ بن میں چھپی ہوئی ہے ۔ اس موروثی کھیل کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح سیاستدان جمہوریت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ کیا جمہوریت سے اشرافیہ کا عشق صرف اس لیے ہے کہ وہ اس کھیل میں دولت کے انبار لگا لیتے ہیں۔
بلاشبہ اشرافیہ نے بڑی چالاکی سے عوام کو مختلف حوالوں سے بانٹ رکھا ہے اور ان کی طاقت کو ایک مرکز پر آنے نہیں دیتے کہ اگر عوام ایک مرکز پر آجائیں تو بلاشبہ طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں اور جب عوام طاقت کا سرچشمہ بن جاتے ہیں تو 1977 کی تحریک بن جاتے ہیں۔1977 کی تحریک بلاشبہ متنازعہ تھی کیونکہ یہ تحریک خود جمہوریت کے خلاف تھی، یہی نہیں بلکہ امریکا اس تحریک کو سرمایہ فراہم کر رہا تھا لیکن یہ تحریک طاقت کا سرچشمہ یوں بن گئی تھی کہ ساری ریاستی مشنری اس تحریک کو دبانے کے لیے لگا دی گئی تھی لیکن اس تحریک کو دبایا نہ جاسکا اس وقت تک جب تک ایک ڈکٹیٹر نے اقتدار پر قبضہ نہیں کرلیا۔
اس تحریک کا ذکر اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ عوام کی اجتماعی طاقت کا اندازہ ہوا اور 70 سال سے عوام کو جمہوریت کے نام پر جس چالاکی سے استعمال کیا جا رہا ہے، عوام اس کا احساس کریں اور اپنی اجتماعی طاقت کو اس ظالمانہ نامنصفانہ نظام کو ختم کرنے اور ایک منصفانہ عوام دوست نظام قائم کرنے میں لگائیں۔ مشکل یا بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں انقلابی نہ سہی ایسی بھی کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنما نہیں جو کم ازکم مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرز پر ہی اپنے ملک میں ایسا جمہوری نظام رائج کرسکے جو عوام کے مسائل حل کرنے میں رہنمائی کرسکے۔
بلاشبہ مغربی جمہوریت کا خمیر بھی سرمایہ دارانہ نظام سے اٹھا ہے اور مغربی جمہوریت بھی ارتکاز زر کا ہی کام انجام دیتی ہے لیکن اس جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس جمہوریت میں عوام کے مسائل حل کرنے کا ایک حد تک اہتمام ہوتا ہے جب کہ ہماری دیسی جمہوریت شرم و حیا سے مبرا ایک ایسا نظام ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے، اس بے شرمانہ اور بے رحمانہ نظام کو جمہوریت کا نام دے کر عوام کو مستقل بے وقوف بنایا جا رہا ہے اور عوام بے وقوف بن رہے ہیں۔
ابھی انتخابات کی تیاری کے موقعے پر جو نامزدگی فارم تیار کیے گئے تھے، اس میں امیدوار کے اثاثوں وغیرہ کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ اس ''ظلم'' کے خلاف شاطر سیاستدانوں نے واویلا مچا کر اسے مسترد کردیا۔ لیکن چونکہ اس بار بعض ریاستی ادارے کرپٹ سیاستدانوں کی ناک میں نکیل ڈالنے پر بضد ہیں، سو انھوں نے نامزدگی فارم کے ساتھ ایک حلف نامہ جمع کرنے کا حکم جاری کیا جس میں امیدوار کے اثاثوں وغیرہ کی تفصیل پوچھی گئی ہے چونکہ امیدواروں کو یہ خوف لاحق تھا کہ اگر حلف نامے غلط ثابت ہوئے تو پھر غلط حلف نامے جمع کرانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی ۔ اس خوف کی وجہ سے امیدواروں نے ممکنہ حد تک اثاثے بتانے کی کوشش کی جس کا حال یہ ہے کہ کوئی بھی الیکشن کا امیدوار کروڑ پتی سے کم نہیں اور اندرون ملک بیرون ملک اربوں کے اثاثے سامنے آئے ہیں۔
یہ حال تو صرف ان لوگوں کا ہے جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں ان کے علاوہ ارب پتیوں کا ایک پورا طبقہ ہے جو عوام کی محنت کی کمائی پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے اس طبقے کے قبضے میں ملک کی مجموعی دولت کا 80 فیصد حصہ ہے جو پردے کے پیچھے رہ کر اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اس طبقے کے ہاتھوں میں جمع اربوں کھربوں روپے نکالنے کا طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے، کیا پر امن طریقے سے کوئی اربوں کی دولت سے دستبردار ہوسکتا ہے خواہ اس اربوں کی دولت کے مالک عوام ہی کیوں نہ ہوں؟
الیکشن کا یہ ڈرامہ 25 جولائی کو ختم ہوجائے گا مختلف حوالوں سے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے عوام مالکان کے بتائے ہوئے نشان پر ٹھپہ لگا کر اپنا ووٹ ووٹ باکس میں ڈال آئیں گے ووٹ کا احترام ہوگا ووٹر ہمیشہ کی طرح ذلیل و خوار ہوگا۔ یہ ہے وہ جمہوریت جس کی تعظیم میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ سر جھکا رہے ہیں۔
تعلیم یافتہ کلاس کا وہ حصہ جو ضمیر فروش ہے اس سے گلہ بے کار ہے لیکن وہ تعلیم یافتہ طبقہ جو اپنے ضمیر کے ساتھ زندہ ہے کیا وہ یوں ہی عملی طور پر مردہ بنا رہے گا۔ کیا اس کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ اس ملک میں برسوں سے کھیلے جانے والے جمہوریت کے مکروہ چہرے سے نقاب اٹھا کر اس ملک کے عوام کو بتائے کہ یہ جمہوریت نہیں اشرافیہ کی آمریت ہے جس کے آٹو میکنزم میں ہر آنے والے دن غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے۔