پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو

یہ نہیں جانتے ہونگے کہ اس حلقے میں بہارکالونی میں اب کتنے بہار سے ہجرت کرنے والے رہتے ہیں۔

muhammad.anis@expressnews.tv

جب بادشاہ کو یہ معلوم نہ ہو کہ اُس کے شہر میں پھولوں کی دکان بند ہو چکی ہے تو سڑکوں پر استقبال کے لیے پھول نہیں پتھر ہی مل سکتے ہیں۔ بلاول بادشاہ ہے اس لیے اپنی رعایا کو گستاخ سمجھ کر ان کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ ڈال دیا۔ فرید بھائی کہتے ہیں کہ بادشاہ سر بھی قلم کردیتا تو ہم کیا بگاڑ سکتے تھے۔کاش! عوام لیلیٰ ہوتی اور ہمارے لیڈر مجنوں۔ پھر کوئی پتھر مارتا تو عوام ضرورکہتے کہ ''کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو'' یا مرزا غالبؔ کا یہ شعر دہراتے کہ

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ

سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

مجنوں اور لیڈر میں ایک اور فرق ہے۔ فرید بھائی کا سنہرا قول ہے کہ پتھر کھانے کے بعد بھی مجنوں ڈھیٹ نکلا، اس نے لیلیٰ کا پیچھا نہیں چھوڑا اور عقل نہیں آئی، لیکن لیڈرکو ایک پتھر میں ہی ہوش آگیا۔ جیسے انڈین فلموں میں ایک پتھر لگنے پر ہیرو کی یاداشت آجاتی ہے۔ جہاں سڑکیں نہ ہوں، پینے کے پانی کے لیے بچے اور عورتیں صبح سے ''گیلن'' اٹھا کرگھوم رہی ہوں، وہاں بلاول بھٹو کو 10 سال حکومت کے بعد یاد آیا کہ لیاری کے لوگوں کو سمندرکا پانی میٹھا کرکے دیں گے، اگر لیڈر واقعی عوام کا عاشق ہوتا تو یہ کہتا کہ

پھول مہنگے ہیں میری جان تو پتھر ماروں

لیاری کی پہچان ''فٹبال'' رہی ہے، مگر تحریک انصاف نے کراچی والوں کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اب ڈیفنس کی پہچان بدلنے کا وقت آگیا ہے کیونکہ لگتا یہ ہے کہ کراچی کے سب علاقوں نے سیاستدان پیدا کرنا چھوڑ دیے ہیں۔ کراچی کی نشستوں میں سے اکثر امیدوار ایسے ہیں جس کا مستقل پتہ ڈیفنس ہے۔

کراچی میں ہمیشہ سے سب سے کم ووٹر ڈیفنس کے علاقے سے نکلتا ہے، لیکن اس بار سب سے زیادہ امیدوار وہاں سے نکل کرکراچی پر حکومت کے لیے تیار ہیں۔ اُس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں یہاں ایسی''کمپنیاں'' کام کررہی ہو نگی جو سیاسی جماعتوں کو امیدوار فراہم کریں گی۔ فرید بھائی بہت اچھے ہیں ہمیشہ اتنی عزت کرتے ہیں کہ آپ ان کے سامنے شرمندہ ہو جائیں۔ میرے سوال پرکہنے لگے ''نوٹ'' اور''ووٹ'' لکھنے میں بس ''ن'' کا فرق ہے۔ عوام میں جاؤ تو ''ووٹ'' کو عزت دو۔ امیدوارکا انٹرویو کرو تو ''نوٹ'' کو عزت دو۔ یعنی عمران خان کا ساتھ ہر صورت میں ''ن'' سے رہے گا۔

جاوید صبا مشہور شاعر ہیں۔ ان کا ایک شعر ہے کہ

کیا کہیں، خبط عقل کُل ہے اُسے

چُل سمجھتے ہیں آپ، چُل ہے اسے


جنھیں یہ نہیں معلوم کہ لیاری کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتا ہے۔ جنھیں ہر مسئلے میں ٹانگ ڈالنے کی چُل ہے، وہ تمام ''علامہ'' لیاری پر تبصرے یوں کرتے ہیں جیسے ان کی زندگی ہی لیاری ہو۔ فرید بھائی انھیں چُل کا فنکارکہتے ہیں۔ ایک صاحب جنھیں کچھ زیادہ ہی چُل ہے فرمانے لگے کہ بلاول پر پتھر مارنے والوں میں گینگ وارکا ذکری گروپ ملوث ہے۔ انھیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ یہ واقعہ اُس جگہ پیش آیا ہے جسے جونا مسجد کہا جاتا ہے۔گجراتی، میمنی اورکچھی میں اکثر ''جونا'' کا مطلب پرانا ہوتا ہے۔

یہ ایک طرح کی باؤنڈری ہے لیاری میں رہنے والی دو پرانی قومیتوں کی۔ ایک طرف بلوچ ہیں اور دوسری طرف کچھی ہیں۔ ان صاحب کو یہ معلوم ہی نہیں ہوگا کہ یہ مظاہرہ کچھی کمیونٹی نے کیا ہے۔ یہ وہ کچھی کمیونٹی ہے جو قیام پاکستان کے پہلے سے یہاں آباد ہیں اور یہ ہی وہ ماہی گیر اور ہنر مندافراد مہیا کرنے والی کمیونٹی ہے جو یہاں کے جزائر پر بھی آباد ہے۔ پورٹ پر لیاری کے محنت کشوں کو اجرتوں پر کچھی برادری ہی روزگار دلاتی رہی ہے، جو صاحب اسلام آباد کی ٹھنڈی ہوا میں رہتے ہیں انھیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ کچھیوں میں سومرہ، لوہار وادڈا، ، کلر ، سنگھار، ہنگورہ کون ہوتے ہیں، لیکن انھوں نے اسے ذکری گروپ سے ملا دیا۔

انھیں یہ بھی نہیں معلوم ہو گا کہ یہ آبادی پاکستان کے قیام کے وقت سے لے کر بھٹو کی آمد تک ہارون خاندان کے زیر اثر رہی کیونکہ ہارون فیملی بھی کچھی تھی، لیکن بھٹو کا پہلا جھنڈا انھوں نے ہی لگایا، احمد علی سومرو خاندان کو کون بھلا سکتا ہے جو اُس وقت سے بھٹو کے نام پر ووٹ دیتے رہے ہیں۔ حالات کیسے بھی رہے ہوں۔ کچھی کمیونٹی نے پیپلز پارٹی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ یہ پی پی کا فطری ووٹر تھا۔ فرید بھائی مجھے نہیں چھوڑتے ۔ ہاتھ مارکر کہنے لگے کہ علی سنارا بھی تو کچھی تھا۔ جس پر پیپلز پارٹی سے محبت کے جرم میں بغاوت تک کے کیس ڈالے گئے۔ مجھے کہنے لگے تم بھول جاتے ہو ۔ بادام کھایا کرو ۔

ایک اور صاحب جو ویسے بہت باخبرصحافی ہیں لیکن آج کل انھیں پیپلز پارٹی سے محبت ہو گئی ہے وہ فرما رہے تھے کہ انھیں لیاری کا معلوم ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر وہ لیاری کے خدوخال بتا رہے تھے۔ انھیں معلوم بھی نہیں ہو گا کہ کچھی کمیونٹی بلاول کے اس حلقے میں کتنا اثر رکھتی ہے۔

آگرہ تاج کالونی،کمہار واڑہ، نیا آباد، موسیٰ لین، جناح آباد، چاکیواڑہ میں ان کی کتنی اکثریت ہے۔فرید بھائی کو بھی چُل ہوئی کہنے لگے محض ''نام'' رکھنے سے کوئی صحافیوں کا امیر نہیں ہو جاتا۔ انھیں یہ بھی نہیں معلوم ہو گا کہ یہ لوگ جب پیپلز امن کمیٹی کے نام کی دھوم تھی اور 2013 ء کے الیکشن میں جب عزیر بلوچ کا سکہ چلتا تھا، اس وقت یہ کون سی مشکل میں تھے۔انھیں نہیں معلوم ہو گا کہ کراچی کی سب سے پرانی آبادی میں عورتیں صبح سے پانی کی تلاش میں کیسے نکلتی ہیں۔کچھی کمیونٹی کا بڑا حصہ اب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، کچھ شرپسند اسے کمیونٹی کی لڑائی بتا رہے ہیں جب کہ اصل معاملہ کچھ طاقتوں کا ہے۔

انھیں کیا معلوم کہ ان کا دکھ کیا ہے وہ یہ بھی نہیں جانتے ہوں گے کہ لیاری کی بلوچ آبادی کس طرح تقسیم ہے۔ انھیں نہیں معلوم ہوگا کہ نوالین میں جداگال ہیں تو لاسی کہاں ہے۔ انھیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ لیاری میں ذکری کس مذہبی دباؤ میں ہیں۔ یہ جانتے ہونگے تو بس یہ کہ لیاری میں بلاول کے قافلے پر پتھر مارے گئے اور یہ دہشتگردی ہے، لیکن ان کے نام انھیں بنیادی سہولیات سے محروم رکھنا کیا دہشتگردی نہیں ہے۔ انھیں یہ نہیں معلوم ہو گا کہ یہاں میمن اورگجراتی کتنی تعداد میں رہتے ہیں۔

یہ نہیں جانتے ہونگے کہ اس حلقے میں بہارکالونی میں اب کتنے بہار سے ہجرت کرنے والے رہتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے ہونگے کہ پرانا حاجی کیمپ میں پشتون کتنے ہیں۔ یہ اس بات کو نہیں جانتے ہوں گے کہ گھانچی کیا سوچ رہے ہیں ، لیکن انھیں لیاری میں بسنے والوں میں بس تین چیزیں نظر آتی ہے ۔ پیپلزپارٹی، فٹ بال اورگینگ وار ۔

فرید بھائی کو پھر چُل ہوئی کہنے لگے ٹی وی پر بولنے سے پہلے مجھے فون کرلیتے تو میں انھیں بتاتا کہ ککری گراؤنڈ میں فٹ بال کھیلوگے یا گبول پارک میں۔ اس سے پوچھو کہ بھیا باغ کا نام مولوی عثمان پارک کب ہوا۔انھیں کیا پتہ کہ مسان روڈ، آتمارام پریتم داس روڈ کب شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ بنا۔ یہ نہیں جانتے کہ یہاں پر ایک بندے نے کتنا بڑا انقلاب برپا کیا۔ اس پورے علاقے میں حبیب حسن ''استاد'' ''سر'' کے نام سے مشہور ہے ۔ جس نے یہاں کہ ہر بچے کو اسکول بھجوانے کی کوشش کی۔ پورا لیاری اس کی تعلیم کی وجہ سے عزت کرتا ہے۔

جیب میں پیسے ہو یا نہ ہو اپنی پرانی موٹر سائکل میں وہ ہمیشہ اسکول کے چکر لگاتا ہوا نظر آیا۔ 30 سال سے پیپلز پارٹی سے وابستہ رہا ۔ 2001ء کے الیکشن میں لیاری کی یونین کونسل کا ناظم تھا۔ سخت گینگ وار میں بھی پیپلز پارٹی کو نہیں چھوڑا۔ جب سب بھاگ گئے وہ کھڑا رہا، لیکن پیپلز پارٹی نے اُسے بھی نظر انداز کر دیا۔ اب وہ آزاد امیدوار کے طور پر کھڑا ہے۔

NA246 لیاری میں بلاول کو کچھی کمیونٹی، تحریک انصاف، متحدہ مجلس عمل اور تحریک لبیک کے ساتھ اپنے ناراض لوگوں کے مقابلے کا سامنا ہوگا ۔ تحریک لبیک ایک بہت بڑا ووٹ بینک متاثرکرے گی، لیکن یہ سارا ووٹ تقسیم ہوگا۔ فرید بھائی نے چیل چوک کے سامنے کرسی پر چائے کا آخری گھونٹ لیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا کہ اس جگہ بلاول کی جگہ آصفہ کو ٹکٹ دیا جاتا،کیونکہ آصفہ کی پوزیشن لیاری میں بہت مضبوط ہے۔ لوگوں کو حیرت ہوگی کہ لیاری میں پیپلز پارٹی سے لوگ ناراض ہوکر بلاول کو پتھر مار سکتے ہیں، لیکن آصفہ نے لیاری میں کئی بار دورے کیے ہیں، عام عورتوں سے ملی ہے اور سب سے بڑھ کر وہ بینظیر جیسی لگتی ہے،ایک آسان سیٹ بلاول کو مشکل سے نکالنی ہوگی۔
Load Next Story