جرمنی لے جایا گیا پی آئی اے طیارہ A310 فروخت کردیا گیا
طیارے کی فروخت پیپرا قواعدکے تحت کی گئی ہے،ترجمان پی آئی اے کی تصدیق
قومی ایئرلائن کا A.310 ایئربس طیارہ جرمنی میں ہی فروخت کردیا گیا۔
تر جمان پی آئی اے مشہود تاجور نے تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ طیارے کو فروخت کردیاگیا ہے ،طیارے کی فروخت پیپرا قواعدکے تحت کی گئی ہے، اس طیارے کی فروخت کیلیے پاکستان ، امریکا اور جرمن کے اخبارات میں اشتہارات بھی جاری کیے گئے تھے۔
دریں اثنا ذرائع کہتے ہیں کہ جس ایئرپورٹ پر طیارہ ڈیڑھ سال سے پارک کیاگیا تھا اسی ایئرپورٹ کی انتظامیہ نے طیارے کا ڈھانچہ خرید لیا، واضح رہے کہ فروخت کیے گئے طیارے کونومبر2016میں کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھرکرمالٹا اورپھر جرمنی ایئرپورٹ Leipzig لے جایاگیا تھا جہاں پارک کردیاگیا تھا۔
ایوی ایشن کے ماہرین کے مطابق کسی بھی طیارے کی کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے سے قبل سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اجازت لی جاتی ہے، مذکورہ طیارہ کی اڑان بھرنے سے قبل سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اجازت لی گئی تھی، جس کے بعد قومی ایئرلائن کے طیارے کی مبینہ فروخت کے حوالے سے خبریں بھی شائع ہوتی رہیں جس کے بعد پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کی جانب سے طیارے کی مبینہ فروخت میں ملوث تین سابق افسران کوشوکازنوٹس بھی جاری کیے گئے تھے جبکہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن نے(AP.BEQ) A310 طیارے کی فروخت کے حوالے سے حکام نے انتہائی رازداری سے انکوائری بھی کی تھی۔
انکوائری رپورٹ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹران اورایوی ایشن ڈویژن میں ارسال کردی گئی تھی، انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیاگیا تھاکہ پی آئی اے کے طیارے کی فروخت میں تین سابق اہم افسران ملوث ہیں ان میں پی آئی اے کے سابق قائمقام سی ای اوبرنڈ ہیلڈن سمیت دیگر 2 افسران بھی شامل تھے جس میں آسٹریا سے تعلق رکھنے والے سابق ٹیکینکل ایڈوائزر پی آئی اے Helmout بھی شامل تھے۔
پی آئی اے کی جانب سے مذکورہ طیارے کی مبینہ فروخت پرانکوائری چیف انٹر نل آڈیٹرجاوید منشا اور لیگل ایڈوائزراحمد رؤف نے کی تھی، انکوائری کمیٹی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ برائے فروخت دستاویزA.310.(AP.BEQ ) ایکسپریس کے پاس موجود ہے۔
واضح رہے کہ نومبر2016 میں قومی ایئرلائن کا A 310 طیارے جب جرمنی لے جایاگیا تھا اس وقت پی آئی اے کے سربراہ جرمن کے برنڈ ہیلڈن قائمقام سی ای او تھے ۔اس وقت طیارے کی فروخت کے حوالے سے پی آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ طیارہ فروخت نہیں کیاگیا۔
سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال قبل طیارے کومالٹا اور جرمنی کیوں لے جایاگیا جبکہ طیارے میں مسافر بھی نہیں تھے اس وقت پی آئی اے کے حکام کا یہ دعویٰ تھا کہ طیارہ فروخت نہیں کیاگیا بلکہ قومی ایئرلائن کی ملکیت ہے جب طیارہ کی فروخت کامعاملہ سینیٹ کمیٹی برائے ہوابازی نے اٹھایا تب بتایا گیا کہ طیارہ جرمنی لے جانے کے حوالے سے انکوائری شروع کردی گئی ، سینیٹ کمیٹی میں پی آئی اے کے حکام کو طلب بھی کیاگیا تھا۔
تر جمان پی آئی اے مشہود تاجور نے تصدیق کرتے ہوئے کہاکہ طیارے کو فروخت کردیاگیا ہے ،طیارے کی فروخت پیپرا قواعدکے تحت کی گئی ہے، اس طیارے کی فروخت کیلیے پاکستان ، امریکا اور جرمن کے اخبارات میں اشتہارات بھی جاری کیے گئے تھے۔
دریں اثنا ذرائع کہتے ہیں کہ جس ایئرپورٹ پر طیارہ ڈیڑھ سال سے پارک کیاگیا تھا اسی ایئرپورٹ کی انتظامیہ نے طیارے کا ڈھانچہ خرید لیا، واضح رہے کہ فروخت کیے گئے طیارے کونومبر2016میں کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھرکرمالٹا اورپھر جرمنی ایئرپورٹ Leipzig لے جایاگیا تھا جہاں پارک کردیاگیا تھا۔
ایوی ایشن کے ماہرین کے مطابق کسی بھی طیارے کی کراچی ایئرپورٹ سے اڑان بھرنے سے قبل سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اجازت لی جاتی ہے، مذکورہ طیارہ کی اڑان بھرنے سے قبل سول ایوی ایشن اتھارٹی سے اجازت لی گئی تھی، جس کے بعد قومی ایئرلائن کے طیارے کی مبینہ فروخت کے حوالے سے خبریں بھی شائع ہوتی رہیں جس کے بعد پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کی جانب سے طیارے کی مبینہ فروخت میں ملوث تین سابق افسران کوشوکازنوٹس بھی جاری کیے گئے تھے جبکہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن نے(AP.BEQ) A310 طیارے کی فروخت کے حوالے سے حکام نے انتہائی رازداری سے انکوائری بھی کی تھی۔
انکوائری رپورٹ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹران اورایوی ایشن ڈویژن میں ارسال کردی گئی تھی، انکوائری کمیٹی نے انکشاف کیاگیا تھاکہ پی آئی اے کے طیارے کی فروخت میں تین سابق اہم افسران ملوث ہیں ان میں پی آئی اے کے سابق قائمقام سی ای اوبرنڈ ہیلڈن سمیت دیگر 2 افسران بھی شامل تھے جس میں آسٹریا سے تعلق رکھنے والے سابق ٹیکینکل ایڈوائزر پی آئی اے Helmout بھی شامل تھے۔
پی آئی اے کی جانب سے مذکورہ طیارے کی مبینہ فروخت پرانکوائری چیف انٹر نل آڈیٹرجاوید منشا اور لیگل ایڈوائزراحمد رؤف نے کی تھی، انکوائری کمیٹی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ برائے فروخت دستاویزA.310.(AP.BEQ ) ایکسپریس کے پاس موجود ہے۔
واضح رہے کہ نومبر2016 میں قومی ایئرلائن کا A 310 طیارے جب جرمنی لے جایاگیا تھا اس وقت پی آئی اے کے سربراہ جرمن کے برنڈ ہیلڈن قائمقام سی ای او تھے ۔اس وقت طیارے کی فروخت کے حوالے سے پی آئی اے حکام کا کہنا تھا کہ طیارہ فروخت نہیں کیاگیا۔
سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ سال قبل طیارے کومالٹا اور جرمنی کیوں لے جایاگیا جبکہ طیارے میں مسافر بھی نہیں تھے اس وقت پی آئی اے کے حکام کا یہ دعویٰ تھا کہ طیارہ فروخت نہیں کیاگیا بلکہ قومی ایئرلائن کی ملکیت ہے جب طیارہ کی فروخت کامعاملہ سینیٹ کمیٹی برائے ہوابازی نے اٹھایا تب بتایا گیا کہ طیارہ جرمنی لے جانے کے حوالے سے انکوائری شروع کردی گئی ، سینیٹ کمیٹی میں پی آئی اے کے حکام کو طلب بھی کیاگیا تھا۔