بیکٹریائی انفیکشن جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے
ٹاکسک شاک سنڈروم مختلف قسم کے بیکٹیریائی انفیکشنز کی پیچیدگی کا نام ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔
گزشتہ دنوں عالمی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ایک کینیڈین لڑکی کی موت کی خبر نمایاں رہی۔
خبر کو توجہ ملنے کا سبب لڑکی کی وجۂ موت تھی۔ وہ ٹاکسک شاک سنڈروم (toxic shock syndrome) نامی مرض کا شکار ہوئی۔ یہ بیماری کسی زمانے میں عام تھی مگر اب نایاب ہوچکی ہے۔ اب اس کے کیسز بہت کم سامنے آتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ٹاکسک شاک سنڈروم کا سبب روئی کے عام سے پھاہے ( ٹیمپون) بنتے ہیں جو خون کے اخراج کو روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ٹاکسک شاک سنڈروم مختلف قسم کے بیکٹیریائی انفیکشنز کی پیچیدگی کا نام ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ عام طور پر یہ مرض Staphylococcus aureus نامی بیکٹیریا سے خارج ہونے والے زہریلے مواد سے پھیلتا ہے۔ تاہم ایک اور قسم کے اسٹریپ بیکٹیریا بھی یہی زہر پیدا کرتے ہیں۔
یہ بیکٹیریا روئی کے جاذب پھاہوں میں نمو پاتے ہیں، اسی لیے خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی تھیں جو اپنے مخصوص ایام کے دوران روئی سے بنے ٹیمپون کا استعمال کرتی تھیں۔ تاہم ان واقعات کے بعد بیکٹیریا کی افزائش کرنے والے ٹیمپون، سینیٹری پیڈز اور زخموں سے خون کا اخراج روکنے میں استعمال ہونے والے روئی کے پھاہوں کی مخصوص اقسام کی تیاری روک دی گئی۔
اس اقدام سے ٹاکسک شاک سنڈروم کے کیسز میں کمی آتی چلی گئی، تاہم اب بھی بعض اوقات یہ واقعات پیش آجاتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں عوام کی صحت حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی وہاں یقیناً اس بیکٹیریائی انفیکشن کے واقعات رونما ہوتے ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان کا تذکرہ نہ ہوتا ہو۔
ٹاکسک شاک سنڈروم خواتین، مردوں اور بچوں کو کسی بھی عمر میں نشانہ بنا سکتا ہے۔ جن افراد کی جلد پر زخم ہوتے ہیں یا جو آپریشن سے گزرتے ہیں، وہ اس بیکٹیریائی انفیکشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔
علامات
٭ اچانک بخار ہوجانا
٭ لَو بلڈ پریشر
٭ قے ہونا
٭ ہتھیلوں اور تلووں پر سرخی آجانا
٭ الجھن یعنی کنفیوژن کا شکار ہونا
٭ پٹھوں میں درد
٭ آنکھوں، منھ اور حلق میں سرخی آجانا
٭ دورہ پڑنا
٭ سر میں درد
ان علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بالخصوص اگر متأثرہ فرد میں یہ علامات ٹیمپون استعمال کرنے کے بعد ظاہر ہوئی ہوں اور اس کی جلد پر زخم بھی ہو تو پھر فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
اسباب
Staphylococcus aureus نامی بیکٹیریا اس مرض کا سبب بنتا ہے۔ علاوہ ازیں اسٹریپ بیکٹیریا بھی اس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہ مرض کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے تاہم عام طور پر یہ انفیکشن ان خواتین میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے جو مخصوص ایام کے دوران ٹیمپون استعمال کرتی ہیں۔ بعض صورتوں میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے:
٭ اگر جلد پر زخم ہوں
٭ حال ہی میں آپریشن ہوا ہو
٭ برتھ کنٹرول اسفنج اور اسی قسم کی مصنوعات استعمال کی جارہی ہوں
٭ کوئی وائرل انفیکشن جیسے چکن پوکس لاحق ہوا ہو
ٹاکسک شاک سنڈروم سے جُڑی پیچیدگیاں
یہ انفیکشن برق رفتاری سے پھیلتا ہے۔ نتیجتاً کئی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں:
٭ گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں
٭ آخر کار موت واقع ہوسکتی ہے
احتیاطی تدابیر
ترقی یافتہ ممالک میں ان تمام میٹیریلز کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو ٹاکسک شاک سنڈروم کے بیکٹیریا کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام کمپنیوں کو روئی کی جاذب مصنوعات کے ڈیزائن، معیار، سائز مقرر کرنے کے علاوہ ڈبے پر صارفین کے لیے رہنما ہدایات درج کرنے کا بھی پابند کردیا گیا تھا۔ خواتین کو مخصوص ایام کے دوران ٹیمپون کا استعمال ان ہدایات کے مطابق کرنا چاہیے اور ہر چار سے آٹھ گھنٹے بعد انھیں تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔
اگر کسی فرد کو یہ انفیکشن ایک بار ہوچکا ہے تو دوبارہ بھی ہوسکتا ہے، چناں چہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ ٹیمپون کا استعمال ترک کردیا جائے۔
خبر کو توجہ ملنے کا سبب لڑکی کی وجۂ موت تھی۔ وہ ٹاکسک شاک سنڈروم (toxic shock syndrome) نامی مرض کا شکار ہوئی۔ یہ بیماری کسی زمانے میں عام تھی مگر اب نایاب ہوچکی ہے۔ اب اس کے کیسز بہت کم سامنے آتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ٹاکسک شاک سنڈروم کا سبب روئی کے عام سے پھاہے ( ٹیمپون) بنتے ہیں جو خون کے اخراج کو روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔
ٹاکسک شاک سنڈروم مختلف قسم کے بیکٹیریائی انفیکشنز کی پیچیدگی کا نام ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ عام طور پر یہ مرض Staphylococcus aureus نامی بیکٹیریا سے خارج ہونے والے زہریلے مواد سے پھیلتا ہے۔ تاہم ایک اور قسم کے اسٹریپ بیکٹیریا بھی یہی زہر پیدا کرتے ہیں۔
یہ بیکٹیریا روئی کے جاذب پھاہوں میں نمو پاتے ہیں، اسی لیے خواتین اس مرض کا زیادہ شکار ہوتی تھیں جو اپنے مخصوص ایام کے دوران روئی سے بنے ٹیمپون کا استعمال کرتی تھیں۔ تاہم ان واقعات کے بعد بیکٹیریا کی افزائش کرنے والے ٹیمپون، سینیٹری پیڈز اور زخموں سے خون کا اخراج روکنے میں استعمال ہونے والے روئی کے پھاہوں کی مخصوص اقسام کی تیاری روک دی گئی۔
اس اقدام سے ٹاکسک شاک سنڈروم کے کیسز میں کمی آتی چلی گئی، تاہم اب بھی بعض اوقات یہ واقعات پیش آجاتے ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک میں جہاں عوام کی صحت حکومتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی وہاں یقیناً اس بیکٹیریائی انفیکشن کے واقعات رونما ہوتے ہوں گے، یہ دوسری بات ہے کہ ذرائع ابلاغ میں ان کا تذکرہ نہ ہوتا ہو۔
ٹاکسک شاک سنڈروم خواتین، مردوں اور بچوں کو کسی بھی عمر میں نشانہ بنا سکتا ہے۔ جن افراد کی جلد پر زخم ہوتے ہیں یا جو آپریشن سے گزرتے ہیں، وہ اس بیکٹیریائی انفیکشن کا شکار ہوسکتے ہیں۔
علامات
٭ اچانک بخار ہوجانا
٭ لَو بلڈ پریشر
٭ قے ہونا
٭ ہتھیلوں اور تلووں پر سرخی آجانا
٭ الجھن یعنی کنفیوژن کا شکار ہونا
٭ پٹھوں میں درد
٭ آنکھوں، منھ اور حلق میں سرخی آجانا
٭ دورہ پڑنا
٭ سر میں درد
ان علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ بالخصوص اگر متأثرہ فرد میں یہ علامات ٹیمپون استعمال کرنے کے بعد ظاہر ہوئی ہوں اور اس کی جلد پر زخم بھی ہو تو پھر فوری ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔
اسباب
Staphylococcus aureus نامی بیکٹیریا اس مرض کا سبب بنتا ہے۔ علاوہ ازیں اسٹریپ بیکٹیریا بھی اس کی وجہ بن سکتے ہیں۔ یہ مرض کسی کو بھی نشانہ بنا سکتا ہے تاہم عام طور پر یہ انفیکشن ان خواتین میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے جو مخصوص ایام کے دوران ٹیمپون استعمال کرتی ہیں۔ بعض صورتوں میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے:
٭ اگر جلد پر زخم ہوں
٭ حال ہی میں آپریشن ہوا ہو
٭ برتھ کنٹرول اسفنج اور اسی قسم کی مصنوعات استعمال کی جارہی ہوں
٭ کوئی وائرل انفیکشن جیسے چکن پوکس لاحق ہوا ہو
ٹاکسک شاک سنڈروم سے جُڑی پیچیدگیاں
یہ انفیکشن برق رفتاری سے پھیلتا ہے۔ نتیجتاً کئی پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں:
٭ گردے ناکارہ ہوسکتے ہیں
٭ آخر کار موت واقع ہوسکتی ہے
احتیاطی تدابیر
ترقی یافتہ ممالک میں ان تمام میٹیریلز کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو ٹاکسک شاک سنڈروم کے بیکٹیریا کی افزائش کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ تمام کمپنیوں کو روئی کی جاذب مصنوعات کے ڈیزائن، معیار، سائز مقرر کرنے کے علاوہ ڈبے پر صارفین کے لیے رہنما ہدایات درج کرنے کا بھی پابند کردیا گیا تھا۔ خواتین کو مخصوص ایام کے دوران ٹیمپون کا استعمال ان ہدایات کے مطابق کرنا چاہیے اور ہر چار سے آٹھ گھنٹے بعد انھیں تبدیل کرتے رہنا چاہیے۔
اگر کسی فرد کو یہ انفیکشن ایک بار ہوچکا ہے تو دوبارہ بھی ہوسکتا ہے، چناں چہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہے۔ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ ٹیمپون کا استعمال ترک کردیا جائے۔