تھائی لینڈ کے غار میں پھنسے بچوں کو بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں جاری
بین الاقوامی ماہرین اور غوطہ خوروں نے نوعمر فٹ بال کھلاڑیوں اور ان کے کوچ کونکالنے کے لیے غور شروع کردیا
KARACHI:
شمالی تھائی لینڈ کے صوبے میں تنگ غار میں پھنسے 12 نوعمر فٹ بال کھلاڑیوں اور ان کے 25 سالہ کوچ کو باہر نکالنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کوچ سمیت تمام بچے بہت کمزور اور لاغر ہوچکے ہیں اور انہیں تیرا کر باہر نکالنا ناممکن ہے۔
اب تک غاروں میں غوطہ خوری کے درجنوں ماہرین نے ان بچوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جس کے لیے انہیں کئی کلومیٹر تیرنا پڑتا ہے جس میں 10 سے 12 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ تاہم غار میں پھنسے افراد کی بحفاظت واپسی کے لیے تھائی لینڈ کی بحریہ، امریکا و برطانیہ کے ماہر غوطہ خوروں، غاروں میں ریسکیو کا تجربہ رکھنے والے ماہرین اور دیگر افراد نے بچوں کو بچانے کے لیے کئی آپشنز پر غور شروع کردیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چند دنوں بعد بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور غار میں پانی بھرنے سے آخری پناہ گاہ بھی ڈوب سکتی ہے۔ اسی لیے پائپوں کے ذریعے فی گھنٹہ ہزاروں لیٹر پانی باہر نکالا جارہا ہے تاکہ اسے بچوں تک پہنچنے سے روکا جاسکے ۔ محکمہ موسمیات نے اس ہفتے علاقے میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریسکیو ماہرین کی تشویش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
غوطہ خوروں کے مطابق سرنگ نما غار کے دومقامات انتہائی تنگ ہیں اور بچوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے انہیں تیراکی سیکھنا لازمی ہے لیکن ان بچوں کی اکثریت تیرنا نہیں جانتی۔ دوسری صورت میں یہ بچے مزید کئی ماہ تک وہاں پھنسے رہیں گے اور مون سون ختم ہونے کے بعد غار سوکھنے پر ہی واپس نکل سکیں گے۔
غار میں تاریکی ہے اور پانی انتہائی گدلا بھی ہے جو پھنسے ہوئے لوگوں تک رسائی میں مزید مشکلات کی وجہ بن رہا ہے۔ تاہم ایک غوطہ خور نے وہاں پہنچ کر ویڈیو بنائی ہے جس میں تمام بچوں کو بہتر حالت میں دیکھا جاسکتا ہے اور وہ اپنا تعارف کراتے نظر آتے ہیں۔
اس کے بعد تھائی لینڈ بحریہ کے فوجی وہاں تک پہنچے اور بچوں کو طبی امداد اور کھانا پہنچایا اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی بھی کی۔ تمام بچے کمزوری محسوس کررہے لیکن کوئی جانی خطرے سے دوچار نہیں۔ دوسری جانب پانی کی بڑی مقدار کو غار سے نکالا جارہا ہے لیکن غار کے دہانے سے دوبارہ پانی اندر داخل ہورہا ہے۔ بچوں کو تیراکی سکھانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
ریسکیو عملہ فائبر آپٹک لائن کو بچوں تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ وہ اپنے والدین سے بات کرسکیں اور ماہرینِ نفسیات نے کہا ہے کہ یہ ان کے لیے بہت حوصلہ افزا عمل ہوگا۔
دوسری جانب بچوں کی پناہ گاہ کے قریب سرنگ کھودنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے جس کے لیے 20 سے 30 ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ ماہرین ایک ایک انچ جگہ کو دیکھ رہے ہیں تاکہ وہاں کوئی قدرتی درز یا راستہ نکل آئے اور اسے کھود کر راہ نکالی جاسکے۔
اس کے باوجود بارش سے غار میں مزید پانی بھرجانے کا چیلنج اب بھی سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔
شمالی تھائی لینڈ کے صوبے میں تنگ غار میں پھنسے 12 نوعمر فٹ بال کھلاڑیوں اور ان کے 25 سالہ کوچ کو باہر نکالنے کی سرتوڑ کوشش کی جارہی ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کوچ سمیت تمام بچے بہت کمزور اور لاغر ہوچکے ہیں اور انہیں تیرا کر باہر نکالنا ناممکن ہے۔
اب تک غاروں میں غوطہ خوری کے درجنوں ماہرین نے ان بچوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جس کے لیے انہیں کئی کلومیٹر تیرنا پڑتا ہے جس میں 10 سے 12 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ تاہم غار میں پھنسے افراد کی بحفاظت واپسی کے لیے تھائی لینڈ کی بحریہ، امریکا و برطانیہ کے ماہر غوطہ خوروں، غاروں میں ریسکیو کا تجربہ رکھنے والے ماہرین اور دیگر افراد نے بچوں کو بچانے کے لیے کئی آپشنز پر غور شروع کردیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چند دنوں بعد بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور غار میں پانی بھرنے سے آخری پناہ گاہ بھی ڈوب سکتی ہے۔ اسی لیے پائپوں کے ذریعے فی گھنٹہ ہزاروں لیٹر پانی باہر نکالا جارہا ہے تاکہ اسے بچوں تک پہنچنے سے روکا جاسکے ۔ محکمہ موسمیات نے اس ہفتے علاقے میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریسکیو ماہرین کی تشویش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔
غوطہ خوروں کے مطابق سرنگ نما غار کے دومقامات انتہائی تنگ ہیں اور بچوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے انہیں تیراکی سیکھنا لازمی ہے لیکن ان بچوں کی اکثریت تیرنا نہیں جانتی۔ دوسری صورت میں یہ بچے مزید کئی ماہ تک وہاں پھنسے رہیں گے اور مون سون ختم ہونے کے بعد غار سوکھنے پر ہی واپس نکل سکیں گے۔
غار میں تاریکی ہے اور پانی انتہائی گدلا بھی ہے جو پھنسے ہوئے لوگوں تک رسائی میں مزید مشکلات کی وجہ بن رہا ہے۔ تاہم ایک غوطہ خور نے وہاں پہنچ کر ویڈیو بنائی ہے جس میں تمام بچوں کو بہتر حالت میں دیکھا جاسکتا ہے اور وہ اپنا تعارف کراتے نظر آتے ہیں۔
اس کے بعد تھائی لینڈ بحریہ کے فوجی وہاں تک پہنچے اور بچوں کو طبی امداد اور کھانا پہنچایا اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی بھی کی۔ تمام بچے کمزوری محسوس کررہے لیکن کوئی جانی خطرے سے دوچار نہیں۔ دوسری جانب پانی کی بڑی مقدار کو غار سے نکالا جارہا ہے لیکن غار کے دہانے سے دوبارہ پانی اندر داخل ہورہا ہے۔ بچوں کو تیراکی سکھانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔
ریسکیو عملہ فائبر آپٹک لائن کو بچوں تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ وہ اپنے والدین سے بات کرسکیں اور ماہرینِ نفسیات نے کہا ہے کہ یہ ان کے لیے بہت حوصلہ افزا عمل ہوگا۔
دوسری جانب بچوں کی پناہ گاہ کے قریب سرنگ کھودنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے جس کے لیے 20 سے 30 ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ ماہرین ایک ایک انچ جگہ کو دیکھ رہے ہیں تاکہ وہاں کوئی قدرتی درز یا راستہ نکل آئے اور اسے کھود کر راہ نکالی جاسکے۔
اس کے باوجود بارش سے غار میں مزید پانی بھرجانے کا چیلنج اب بھی سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔