فیصلے کی گھڑی اور سیاسی صورتحال

امید کی جانی چاہیے کہ بپھری ہوئی سیاست اور سنگلاخ زمینی حقائق کے درمیان جمہوری ہم آہنگی شفاف الیکشن کی راہ ہموار کرے۔

امید کی جانی چاہیے کہ بپھری ہوئی سیاست اور سنگلاخ زمینی حقائق کے درمیان جمہوری ہم آہنگی شفاف الیکشن کی راہ ہموار کرے۔ فوٹو: فائل

نیب کے ایگزیکٹو بورڈ نے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف ، سابق وزیر مملکت رانا افضل، سابق صوبائی وزیر رانا مشہود ، سابق ایم این اے رائے منصب کے خلاف مقدمات کو الیکشن تک موخرکرتے ہوئے انتخابی عمل میں شامل کسی سیاست دان کو 25 جولائی 2018 تک گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، مذکورہ مقدمات کی مزید تحقیقات انتخابات کے بعد ہوگی۔

نیب اعلامیہ کے مطابق قومی احتساب بیورو کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیر صدارت نیب ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں منعقد ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے ، نیب نے واضح کیا کہ تمام شکایات کی جانچ پڑتال ،انکوائریاں اور انوسٹی گیشن مبینہ الزامات کی بنیاد پر شروع کی گئی ہیں جو کہ حتمی نہیں ، نیب تمام متعلقہ افراد سے بھی قانون کے مطابق ان کا موقف معلوم کریگا تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں۔

دریں اثنا احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس کا محفوظ فیصلہ سنانے سے متعلق تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے،ایک صفحہ پر مشتمل تحریری حکم نامہ کے مطابق ایون فیلڈ ریفرنس کا محفوظ شدہ فیصلہ آج 6 جولائی بروز جمعہ سنایا جائے گا، عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو 6 جولائی کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔

بلاشبہ الیکشن تک کسی سیاستدان کو گرفتار نہ کرنے کا فیصلہ اس اعتبار سے صائب کہا جائے گا کہ ملکی تاریخ کے انتہائی اہم سیاسی دورانیہ میں 25 جولائی کا انتخابی معرکہ ہورہا ہے ، سیاست شدید اعصابی دباؤ میں ہے، کئی اہم امیدواروں کو مختلف النوع مسائل کا سامنا ہے ۔

انتخابی مہم بھی سر پر ہے تاہم جس ارتکاز توجہ ، یکسوئی، اجتماعی انتخابی دانش اور ووٹرز تک رسائی اور رابطہ کی حکمت عملی کی کامیابیوں کا تعلق ہے اس میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف سے احتساب ، عدالتی فعالیت ، مقدمات کی سماعت اور پولنگ کے لیے ووٹرز کو متحرک کرنے کے لیے فری ہینڈ نہ ملنے کی شکایت بھی میڈیا پر سنی جا رہی ہے، پی ٹی آئی سبقت کے لیے زور لگا رہی ہے، الیکشن کے عمومی تاثر کے سگنل بھی تشویش ناک حد تک ملے جلے ہیں۔


بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ الیکشن ہر قیمت پر شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے چاہئیں ،کیونکہ سیاسی آزادی کے فقدان سے انتخابی مہم کا متاثر ہونا سنگین خدشات کو جنم دے گا، ن لیگ کے حوالہ سے میڈیا اور سیاسی حلقوں کی متضاد رائے ہے، ن لیگی مخالف حلقوں کے مطابق نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر جمعہ کو فیصلہ سنائے جانے کے وقت حاضر نہ ہوئے تو ن لیگ کی انتخابی مہم ، پارٹی کے داخلی اتحاد اور سینئر رہنماؤں کے لیے صورتحال خاصی صبر آزما اورچیلنجنگ ہوجائے گی، جب کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ چند روز کے لیے موخر کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی اہلیہ لندن کے اسپتال میں وینٹی لیٹر پرہیں، جیسے ہی ان کی طبیعت ٹھیک ہوتی ہے وہ فوری واپس آئیں گے اور اسی کمرہ عدالت میں کھڑے ہوکر جج صاحب کے منہ سے فیصلہ سننا چاہیں گے۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ ہماری عدالتوں میں غیرضروری طور پر کئی ماہ کیسز کے فیصلے محفوظ رکھنے کی روایت موجود ہے ، فیصلہ کچھ دن موخر کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ادھر سیاسی حلقوں اور ن لیگی حامیوں کا اصرار ہے کہ نواز شریف کو فیصلہ کے وقت عدالت کے روبرو ہونا چاہیے اب جب کہ عدالتی فیصلہ کا وقت آچکا ہے تب بھی مسلم لیگ ن کے قائدین اور ووٹرز کو امید ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز میں سے کسی ایک کا عدالت میں حاضر ہونا یقینی ہونا چاہیے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تنگیٔ وقت اور سیاسی مصلحت ن لیگ کے سیاسی اور انتخابی تقدیر کا پانسہ کس طرف پلٹتی ہے۔ادھر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ موخر نہیں ہونا چاہیے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہمیشہ عدالتوں کے فیصلوں کا احترام کیا ہے، اس کیس میں بھی عدالت کے فیصلے کا احترام کروں گا چاہے حق میں آئے یا خلاف، لاہور ہائیکورٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کلثوم نواز شدید علیل ہیں جس کی وجہ سے نواز شریف بیرون ملک ہیں، اگر احتساب عدالت فیصلہ سنانے کی تاریخ بڑھا دے تو نواز شریف پیش ہوسکتے ہیں۔

تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ عدالت نے آج 6جولائی کو نواز شریف کے کیس کا فیصلہ سنانا ہے عدالت نے انھیں طلب کیا ہے انھیں عدالت کا احترام کرتے ہوئے پیش ہونا چاہیے، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے رکن فیصل سبزواری نے کہا کہ پارٹی جھنڈے ضبط کیے گئے ہیں، ہمارے پرانے ڈونرزکو روکا جا رہا ہے کہ وہ ہمیں انتخابی مہم چلانے کے لیے فنڈز نہ دیں۔

ایسی سیکڑوں شکایتیں ہیں جو الیکشن کے انعقاد اور الیکشن کمیشن کی فعالیت کے حوالہ سے سوالیہ نشان ہیں۔اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ بپھری ہوئی سیاست اور سنگلا خ زمینی حقائق کے درمیان جمہوری ہم آہنگی شفاف الیکشن کی راہ ہموار کرے اور قوم 25 جولائی کو کون جیتا کی خوشخبری سنے اور نتائج پوری قوم کے لیے اطمینان بخش ثابت ہوں۔

 
Load Next Story