5جولائی 1977  تا 25 جولائی 2018

اس جولائی کے مہینے میں نیب عدالت avenfield ریفرنس کے حوالے سے فیصلہ صادر کرنے لگی ہے۔

Jvqazi@gmail.com

جولائی کا یہ مہینہ پاکستان کی تاریخ میں کچھ اپنے انداز سے تحریر ہوگا، یہ ملک کروٹ بدل رہا ہے۔ الیکشن کے نقارے بج چکے ہیں، ہر طرف پوسٹر، بینرکی زیبائش ہے۔ سوشل میڈیا، الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا میں حلقوں کی بات ہے، تقاریر و جلسوں کے کیمپ لگے ہوئے ہیں۔ انفارمیشن و ڈس انفارمیشن ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ موجود ہیں۔ سب کے کمانے اور کھانے کے دن ہیں۔ اوطاقوں اور وڈیروں کے ڈیروں پر دیگیں اتر رہی ہیں۔

اس جولائی کے مہینے میں نیب عدالت avenfield ریفرنس کے حوالے سے فیصلہ صادر کرنے لگی ہے۔ ملزم ملک سے باہر ہیں اگر عدالت فیصلہ سنا دیتی ہے تو ملزم موجود نہ ہوں گے اور اگر موجود ہوں گے تو لازم ہے کہ ان کو ہتھکڑیاں عدالت کے احاطے میں لگائی جائیں گی۔ دونوں صورتوں میں ان کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل بنتی ہے اور پھر ایک اور اپیل سپریم کورٹ میں بھی یوں کہیے کہ ایک اورسال کہیں نہیں گیا اور عین ممکن ہے اس دوران 426Cr.P.C کے تحت یا نیب قانون کے تحت ان کی بیل بھی نہ ہو۔

avenfield ریفرنس کے یہ ملزم اس وقت لندن میں ہیں۔ نواز شریف کی اہلیہ اور مریم نواز کی ماں اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہیں اور وہ اپنے خاندان پر آئے اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ یہ ہیں وہ جو اس قوم کے لیڈر ہیں۔ ان کے نہ ہونے سے ان کی الیکشن کی تیاریاں متاثر ہورہی ہیں۔ دوسری طرف ان کے لیے ہمدردی کا ووٹ منتظر ہے۔ نیب کا فیصلہ مختصرا اس الیکشن پراپنے اثرات چھوڑے گا۔1985ء کے الیکشن میں بینظیر نے بائیکاٹ کیا جس کی وجہ سے MRD کے تمام اتحادیوں کو بائیکاٹ کرنا پڑا۔

ملک میں پیپلز پارٹی کے لیڈر غلام مصطفیٰ خان جتوئی تھے انھوں نے پارٹی کے اندر اپنا مؤقف یہ رکھا کہ الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہیے۔ اس دور میں بینظیر کا سیاسی تجربہ بہت کم تھا۔ انھوں نے انکار کیا اور اس طرح ایک vacuum پیدا ہوا، جو پر نہ ہوا۔ ایک ایسا لمحہ جہاں electable کی سیاست اتنی مضبوط نہ تھی۔ بھٹو کی پھانسی کا زخم ابھی تازہ تھا، لوگوں میں طیش تھا اور پورے الیکشن کی باگ ڈور ضیاء الحق کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ بینظیر پورے ملک کی لیڈر تھی، جب کہ میاں نواز شریف پورے ملک کے لیڈر نہیں۔ان کا زور سینٹرل پنجاب میں ہے لیکن بات یہ ہے کہ اس ملک کی سیاست کا محور اب سینٹرل پنجاب ہے۔ باقی تین صوبوں اور ساؤتھ پنجاب میں مضبوط پارٹیاں ٹکراؤ کی سیاست نہیں کرتیں۔ ٹکراؤ کی سیاست تو شہباز شریف صدر مسلم لیگ (ن) بھی نہیں کرتے فقط قائد مسلم لیگ ن اور جانشین قائد مسلم لیگ ن کرتے ہیں۔

2013ء میں جاتے جاتے پیپلزپارٹی کی حکومت نے لگ بھگ نو سو ارب کے قرضے لیے تھے تو یہ وہی چوہدری نثار تھے جنہوں نے پارلیمنٹ میں تقریرکرتے ہوئے حکومت پر الزام لگایا کہ انھوں نے ملک کو گروی رکھ دیا ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2400 ارب روپے کا قرضہ آخری سال میں لیا ہے۔ balance of payment کے حوالے سے ایک اتنا برا بحران ملک میں چھوڑکے جارہے ہیں جس کی مثال نہیں ملتی۔

جولائی کے مہینے میں مہنگائی بھی نئی کروٹ لے رہی ہے۔ پیٹرول مہنگا، سود کی شرح بڑھ رہی ہے اور افراط زر کمزور۔ اس مہینے الیکشن کی وجہ سے consumption زیادہ ہوگی اور پچیس جولائی کو واضح ہوجائے گا کہ کون بنے گا وزیراعظم؟


5 جولائی 1977 ء سے25 جولائی 2018ء یہ وہ دور ہے جو چالیس سال تک چلا اور یہ پاکستان تھا جو جنرل ضیاء الحق کے زیر اثر تھا۔کیا یہ پاکستان پچیس جولائی کے بعد اس اثر سے نکل رہا ہے؟ اگر اس اثر سے نہیں بھی نکلا توکم ازکم اس اثرکو الوداع کہنے کی صحیح معنوں میں بنیادیں ضرور پڑیں گی۔ آخر کار عمران خان، پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر پہنچ ہی گئے۔ وہ بھی خیر سے اب درگاہوں والے ہوگئے۔ زرداری صاحب تو اس نسب سے پہلے ہی ہیں اور میاں نواز شریف بھی داتا دربارکے چکرکاٹتے رہتے ہیں لیکن وہ درباروں والے نہیں۔

اس جولائی کے مہینے میں نہ وہ قومی اتحاد ہے 1977ء والا، نہ اسلامی اتحاد ایم ایم اے کا 2002ء والا اور مذہبی حوالے سے جو زور اس وقت ہے وہ بھی بہت حد تک اپنا اثرو رسوخ گنوا بیٹھا ہے۔ جولائی کے اس مہینے میں آخرکار تیس سال بعد سیاست نے کراچی کو تبدیل کیا ہے۔ وہ ٹیلیفونک خطاب وہ دہشت و وحشت سب تاریخ کا حصہ ہوا۔ لیاری جو پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اس بار شایدکوئی مثبت انداز نہ دے سکے لیکن یہ دیکھنا لازمی ہے کہ لیاری میں پتھراو کا ہونا کہیں engineered تو نہیں۔

ایک پاکستان وہ تھا جو 14 August 1947 ء سے لے کر 16 december ء1971 ء تک تھا۔ دوسرا پاکستان یہ ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں ۔ ایسا پاکستان جس کو آئین تو ملا مگر دوبار یہ آئین توڑا گیا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے پاکستان میں اب آئین توڑنا بھی تاریخ کا حصہ ہوا۔ پاکستان میں یہ مسلسل تیسرا بیلٹ باکس ہونے والا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوریت مضبوط نہ ہوسکی۔

پاکستان میں سیاست وقت کے ساتھ ساتھ بالغ نہ ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ پانچ جولائی کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے بیانیے کا سہارا لیا اور اس کے بعد اس نے آمریتی آئین اور احتساب کا سہارا لیا۔ ضیاء الحق کا بیانیہ اور سرد جنگ کے مفادات کچھ اس طرح مل گئے یہ ملک ضیاء الحق کے جانے کے بعد اس دلدل میں اور دھنستا چلا گیا۔ ضیاء الحق اپنی زندگی میں اس ملک پر اتنا بھاری نہ رہا جتنا کہ C-130 کے سانحے کے بعد حاوی ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ دنیا میں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا لیکن پاکستان اب بھی اسی کی باقیات میں دھنسا ہوا ہے۔

سب سے بڑا جمہوریت کو دھچکا 1985ء میں لگا جب غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ ہوا، جو ایم آر ڈی اور پیپلز پارٹی نے کیا۔ یہ وہ انتخابات تھے جس میں آصف زرداری اور ان کے والد صوبائی و قومی اسمبلی کے لیے لڑے مگر ہارگئے۔ یہ وہ انتخابات تھے جس میں نواز شریف ظاہر ہوئے۔ ان کی سیاست کی بنیاد پڑی، وزیر خزانہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب بنے۔ یہ وہ انتخابات تھے جس میں محمد خان جونیجو بلا مقابلہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔ جونیجو وزیر اعظم بنے تو پہلی ہی ملاقات میں ضیاء الحق سے کہنے لگے ـ''آپ وردی کب اتاریں گے'' یہ وہ دن تھا جب جنرل ضیاء الحق نے جونیجوکو اتارنے کا تہیہ کر لیا مگر اس کام کو تمام کرنے کے لیے دو سال لگ گئے۔ نواز شریف اس وقت جنرل ضیاء کے دائیں بازو تھے۔

غلام اسحاق خان پاکستان کے صدر بنے اس زمانے میں نگران وزیراعظم کوئی نہ تھے کہ اس وقت آئین میں ایسی گنجائش نہیں تھی۔ بینظیر وزیر اعظم بنی مگر اہم عہدوں پر ان کے وزراء نہ تھے۔ جنرل اسلم بیگ کے پاس 58(2)(b) indirectly کی باگ ڈور تھی۔ 1996ء میں جب میاں صاحب آئے تو انھوں نے 58(2)(b) کا خاتمہ کیا۔ جنرل مشرف کے پاس ایک ہی طریقہ تھا اقتدار پر قبضے کا وہ تھا ماورائے آئین قدم۔ یہ قدم بہ قدم پر براہ راست و بلا واسطہ آمریتیں و جمہوریتیں ایک دوسرے سے سب گتھم تھ ،مگر 5 July سے 25 July تک کیا اب یہ باب بند ہوگا؟ کیونکہ آیندہ کا پاکستان اب ایسے کسی اقدام کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اسے اب نئے چیلیجنز کا سامنا ہے۔ اسے اب ایک ایسے انداز میں رواں ہونا ہے جو دنیا کو اچھا لگتا ہو،کیونکہ پاکستان کو اس دنیا میں رہنا ہے۔
Load Next Story