بے حس سیاست کی انتہا

اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والوں کے لیے نئے سیاسی دروازے کھلے ہوتے ہیں۔


Muhammad Saeed Arain July 06, 2018

سنتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور یہ بے حس بھی ہوتی ہے مگر اب سیاست میں اخلاق، لحاظ، آداب میں نمایاں کمی کے بعد بے حسی کی انتہا ہوتی بھی نظر آرہی ہے۔ مگر ہر سیاستدان ابھی ایسا نہیں ہوا بلکہ مفادات کی بجائے نظریے، اخلاقیات، دیرینہ سیاسی تعلق کے علاوہ واپسی کا راستہ ہمیشہ کھلا رکھنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے اور بہت سے لوگ کسی وجہ سے اپنی پارٹی چھوڑنے کے بعد بھی اپنے سابق قائد یا پارٹی پر تنقید نہیں کرتے اور اخلاقی حدود کا ادب کی حد تک خیال رکھتے ہیں۔

ایسی ہی ایک مثال مخدوم جاوید ہاشمی ہیں جنھوں نے نواز شریف کے برے وقت میں نہ صرف مسلم لیگ (ن) کو سنبھالا تھا بلکہ جنرل پرویز مشرف کے عتاب کا نشانہ بن کر طویل عرصہ جیل میں گزار دیا تھا۔

جاوید ہاشمی نے برے وقت میں (ن) لیگ نہیں چھوڑی تھی بلکہ میاں نواز شریف نے جب ان کی قربانیوں کی قدر نہیں کی تھی تو دل برداشتہ ہوکر پی ٹی آئی میں شامل ہوتے ہوئے عمران خان پر واضح کردیا تھا کہ وہ جمہوریت کے فروغ کے حامی اور غیر جمہوری اقدامات کے باغی ہیں جس کا ثبوت انھوں نے کسی کے اشاروں پر کیے جانے والے دھرنوں کی مخالفت کرکے دیا تھا اور پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر آنے والی نشست بھی چھوڑ دی تھی اور دو سال بعد اپنی مسلم لیگ میں واپس لوٹ آئے۔ مگر انھوں نے عمران خان کی ذات کا احترام نواز شریف جیسا برقرار رکھا اور عمران خان کی پالیسی سے ضرور اختلاف رکھا اور جو مناسب سمجھا یا حق جانا اس پر اظہار خیال ضرورکیا۔

ایک مشہور اینکر اس بات کا کریڈٹ نواز شریف کو ضرور دیتے ہیں کہ ایک سال سے مسلسل مخالفت اور تنقید کے باوجود چوہدری نثار کو مسلم لیگ (ن) میں برداشت کیا گیا اور فارغ نہیں کیا گیا۔ اصولی سیاست کے دعویدار شاہ محمود قریشی نے پی پی حکومت میں دوبارہ وزیر خارجہ نہ بنائے جانے پر ناراض ہوکر بابر اعوان کی طرح اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ نہیں دیا تھا اور بعد میں پی ٹی آئی میں شمولیت کر لی تھی۔

اصولی طور پر تو ہر منتخب شخص کو اپنی پارٹی کا ایک حد تک وفادار رہنا چاہیے اور پارٹی اور قائد سے اختلاف کے بعد پارٹی میں رہنا ناممکن ہوجائے تو اپنی ہی پارٹی پر پارٹی میں رہ کر تنقید کھلے عام نہیں کرنی چاہیے بلکہ پارٹی چھوڑ دینی چاہیے۔ چوہدری نثار کا دعویٰ ہے کہ وہ 32 سال نواز شریف کے ساتھ رہے اور ان کی نااہلی کے بعد نواز شریف کی پالیسی کے خلاف ہوگئے اور وزیر نہیں بنے مگر دس ماہ تک (ن) لیگ کے رکن قومی اسمبلی بنے رہے مگر نشست نہیں چھوڑی اور پارٹی اور نواز شریف پر کڑی تنقید بھی کرتے رہے۔

اگر وہ اصول پرست ہوتے تو مستعفی ہوجاتے مگر شہباز شریف کے بقول چوہدری نثار سیاسی بچپنے کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اکثر لوگ نظریات کی بجائے ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سیاست میں آتے ہیں اور اگر کسی کو ایک بار وزارت یا اسمبلی رکنیت مل جائے تو وہ اسے خاندانی جاگیر سمجھ لیتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ ہمیشہ اسے ہی پارٹی کا ٹکٹ اور عہدہ ملتا رہے تاکہ اس کے حلقے سے کسی اورکو ابھرنے اور آگے آنے کا موقعہ نہ ملے۔

یہ بھی سو فیصد حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے سوا ہر پارٹی اس کے سربراہ کی جاگیر اور ملکیت ہے جس میں مداخلت کوئی بھی پارٹی سربراہ برداشت نہیں کرتا اور اپنے حامیوں سے ہر معاملے میں جی حضوری چاہتا ہے اور جب تک مفاد ہو تب تک ہر عہدیدار، ارکان اسمبلی اور رہنما اپنے قائد کی ہاں میں ہاں ملاتے نہیں تھکتے اور جب ان کی نہ مانی جائے یا سیاسی مفاد پہ ضرب پڑے تو ان کا سویا ہوا ضمیر جاگ پڑتا ہے یا انھیں بھولے ہوئے اصول یاد آجاتے ہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ ہر جمہوری پارٹی میں اس کا غیر جمہوری سربراہ مطلق العنان اور آمر ہوتا ہے جو اپنی مرضی کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا اور اس کی پارٹی کی مرکزی کمیٹی میں اس کے حمایتیوں کی بھرمار ہوتی ہے جہاں اظہار رائے محدود یا کچھ کرنے کے خواہاں خاموش رہنے پر مجبور ہوتے ہیں مگر مفاد نہ ملنے پر انھیں پتا چل جاتا ہے کہ یہ حلقہ یا شہر اس کے بڑوں کی جاگیر نہیں کیونکہ وہ اپنے حلقے کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔

یہ بھی جمہوریت نہیں کہ اس کے حلقے میں اسے یا اس کے خاندان کی گرفت رہے اور دوسرا آگے نہ آئے اس لیے سیاست میں مفاد متاثر ہونے پر پارٹی بدلنا اور نئے قائد کی خوشنودی کے لیے پرانے قائد پر الزام تراشی اب عام ہوتی جا رہی ہے جس سے نئی پارٹی میں راہ ہموار ہوتی ہے۔ اپنی پارٹی سے منحرف ہونے والوں کے لیے نئے سیاسی دروازے کھلے ہوتے ہیں۔

بے حس و بے رحم سیاست میں نہ قائد کو اپنے قربانیاں دینے والے رہنماؤں کی قدر ہوتی ہے نہ پھر کسی پارٹی چھوڑنے والے میں لحاظ باقی رہتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کی مفادانہ سیاست میں اخلاقیات کو بالکل نظرانداز کردیا جاتا ہے اور طوطا چشمی کرکے آنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں کی جاتی اور احسانات بھلا دیے جاتے ہیں۔ سیاست میں لحاظ، اخلاق، قربانیوں، طویل سیاسی رفاقت کا بھی خیال رکھا جانا چاہیے مگر اس سلسلے میں ذمے داری فریقین کی ہونی چاہیے اگر ایسا ہو جائے تو سیاست موثر اور جمہوریت مضبوط ہوسکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔