عہد یوسفی
یوسفی اردو مزاح اور نثر نگاری میں ہمہ جہتی انداز کے مالک تھے، وہ تحریف لفظی سے مزاح پیدا کرنے کے فن میں یکتا تھے۔
ممتاز طنز و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی طویل علالت کے بعد 94 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ کرگئے اور یوں اردو مزاح کا عہد یوسفی تمام ہوا ۔ مشتاق احمد یوسفی 1923ء کو ہندوستان کی سابق مسلم ریاست ''ٹونک'' راجستھان میں پیدا ہوئے، 1956ء میں یوسفی پاکستان آگئے اور مقامی بینک میں ملازمت اختیار کرلی اور ترقی کرتے کرتے بینک کے صدر کے عہدے پر براجمان ہوئے۔
ان کے ادبی سفر کا آغاز 1960ء میں مضمون ''صنف لاغر'' سے ہوا ، جو لاہور سے شایع ہونے والے ادبی جریدے ''سویرا'' کی زینت بنا، ادبی سفر کے دوران ان کے مختلف مضامین مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ 1961ء میں انشائیوں اور مضامین پر مشتمل مجموعہ ''چراغ تلے'' منظر عام پر آیا، مجموعی طور پران کی پانچ کتابیں شایع ہوئیں، ان کی دیگرکتب کے نام خاکم بدہن، زرگزشت، آب گم اور شام شعر یاراں ہیں۔
یوسفی اردو مزاح اور نثر نگاری میں ہمہ جہتی انداز کے مالک تھے، وہ تحریف لفظی سے مزاح پیدا کرنے کے فن میں یکتا تھے گویا وہ اس فن کے بے تاج بادشاہ تھے، دور دور تک ان کا کوئی ہمسر اور ثانی نظر نہیں آتا ان کے قابل فخر طنزومزاح اور اردو نثر نگاری بجا طور پر عالمی ادب کی معراج کو چھوتی معلوم ہوتی ہے وہ بے مثال و لازوال ادبی اسلوب کے ایسے رمز شناس تھے جو اپنی برجستہ مزاح نگاری سے تخیل کے مختلف باب وا کرتے ہوئے سامعین اور قاری پر شگفتگی، مسکان و مسکراہٹ، قہقہے اور بعض اوقات آبدیدہ کر دینے کی مختلف کیفیات طاری کر دیا کرتے تھے، نیز ان کی نثر نگاری میں غور و فکر کے کئی پہلو نمایاں نظر آتے ہیں جو قاری کو اپنے سحر میں جکڑ کے بہت کچھ سوچنے سمجھنے پر مجبورکردیتے ہیں۔
ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے ان کی زندگی میں لکھا ''ہم اردو مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں'' ڈاکٹر اسلم فرخی نے کہاکہ ''یوسفی کا طرز بیاں سر تا سرادیب، ذہانت اور برجستگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہ بات سے بات پیدا نہیں کرتے بلکہ بات خود کو ان سے کہلوا کر ایک طرح کی طمانیت اورافتخار محسوس کرتی ہے۔''
رشید احمد صدیقی کے مطابق ''ظرافت کے فن اور اس کے صحیفہ اخلاق کا یوسفی کے ہاں بڑا قابل تعریف رکھ رکھاؤ ملتا ہے'' سید ضمیر جعفری لکھتے ہیں کہ ''یوسفی اپنے کھیت میں نفرت، کدورت یا دشمنی کا بیج بوتا ہی نہیں'' اور کرنل محمد خان نے بجا طور پر ان کو ''تاج محل'' کہا، احسن فاروقی لکھتے ہیں کہ ''وہ مزاح کو محض حماقت نہیں سمجھتے اور نہ محض حماقت ہی سمجھ کر پیش کرتے ہیں بلکہ اسے زندگی کی اہم حقیقت شمار کرتے ہیں'' کرنل (ر) اشفاق حسین نے مشتاق یوسفی کو تحریف لفظی سے مزاح پیدا کرنے کے فن کا ماہر اعظم قرار دیتے ہیں جب کہ حسن نثارکے مطابق ''اب قہقہہ مر گیا اور مسکراہٹ بیوہ ہوگئی'' رضا علی عابدی لکھتے ہیں کہ ''یوسفی بن مانگے تبصروں، فقروں اور چٹکلوں میں ذرا بھی بخیل نہ تھے، دیر تک خاموش رہتے لیکن جوں ہی محسوس ہوتا کہ کچھ کہنے کو ہیں، لوگ چپ سادھ لیتے کہ اب حس مزاح کا کوئی شاہکار نزول کے قریب ہے۔
انھوں نے بہت لکھا لیکن میں جانتا ہوں کہ اس سے زیادہ پڑھا، حالات اور معاملات پر غضب کی نگاہ تھی، بات کہنا تو دورکی بات ہے خاموش رہ کر سوچ رہے ہوتے تھے تو صاف ظاہر ہوتا تھا کہ حکمت کے کسی گوہرکی جستجو میں ہیں''۔ عارف عزیز لکھتے ہیں کہ زمین ایک اور آسماں کھاگئی''
چراغ تلے 1961ء میں شایع ہوئی، خاکم بدہن 1969ء میں، زر گزشت 1976ء میں، جب کہ شام شعر یاراں2014ء میں منظر عام پر آئیں۔ اپنی پہلی کتاب ''چراغ تلے'' کے پہلے باب میں یوسفی صاحب اپنا تعارف کچھ اس دلچسپ انداز میں کرواتے ہیں ''نام: سروق پر ملاحظہ فرمایئے، خاندان، سوپشت سے ہے، پیشہ آبا ''سپہ گری'' کے سوا سب کچھ رہا ہے، پہچان اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں، عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں، اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں، پسند: پھولوں میں رنگ کے لحاظ سے سفید گلاب اور خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرغوب ہے۔
یوسفی صاحب نے اپنے عہد کے بڑے مزاح نگاروں جن میں پطرس بخاری، ابن انشا، رشید احمد صدیقی، سید ضمیر جعفری، خالد اختر، کرنل محمد خان وغیرہ شامل ہیں پڑھا، ان کا کہناتھا کہ ''دلچسپ بلکہ قابل فخر بات یہ ہے کہ ان کا سب کا لب و لہجہ اور لکھنے کا انداز ایک دوسرے سے یکسر جدا ہے، ہر ایک کا حقیقی و ذاتی انداز ہے کوئی بھی نقال نہیں'' بالکل اسی طرح انداز یوسفی بھی اپنے ہمعصر بشمول مذکورہ بالا نیز مستنصر حسین تارڑ، دلاور فگار، انور مسعود، محمد خالد اختر، عطا الحق قاسمی، شفیق الرحمن، ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ایک سے بڑھ کر ایک اور خوب سے خوب تر مزاح اور نثر نگاروں میں قطعی منفرد اور ممتاز نظر آتا ہے۔
یوسفی صاحب کے نزدیک کسی مزاح نگار کے بڑے اور منفرد ہونے کا تعین کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ تعین کرنا کہ گلاب زیادہ اچھا ہے یا چنبیلی یا موتیا مشکل کام ہے۔ اسی طرح مزاح کے باغ میں ہر پھول اپنی جگہ منفرد اور بے مثل ہے۔
مشتاق احمد یوسفی آب گم میں لکھتے ہیں کہ ''ہم اتنا جانتے ہیں کہ خود کو Indispensable یعنی بے مثال و بے بدل سمجھ لینے والوں کے مرنے سے جو خلا پیدا ہوتا ہے وہ در حقیقت صرف دو گز زمین میں ہوتا ہے، جو ان ہی کے جسد خاکی سے اسی وقت پر ہو جاتا ہے'' عمر بھر یوسفی خود کو بے بدل نہیں سمجھا وہ ایک حقیقت پسند انسان تھے اور آفاقی سوچ کے حامل شخصیت کے مالک تھے۔
20 جون 2018ء میں آپ نے وفات پائی اور کراچی ڈیفنس فیز 1 کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ مشتاق احمد یوسفی کی خدمات کے اعتراف میں انھیں 1999ء میں ستارۂ امتیاز اور 2002ء میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا، دیگر ایوارڈز میں قائد اعظم یادگاری میڈل، پاکستان اکادمی ادیبات، ہجرہ ایوارڈ اور آدم جی ایوارڈ شامل ہیں۔ یوسفی صاحب کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیںگی۔