موازنہ۔۔۔ پاکستانی جمہوریت اور آمریت کا

جب تک پاکستان میں آزاد ترقی پسند اور غریب پرور حکومت نہیں آتی ملک کے حالات بد سے بدتر کی طرف جاتے رہیں گے۔


Anis Baqar July 06, 2018
[email protected]

مجموعی طور پر اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت پر اگر کسی ملک میں واقعی پریکٹس ہو رہی ہو تو وہ عوام کے لیے ایک شجر سایہ دارکی مانند ہے اور اس کی شاخیں زمین کی طرف جھکی ہوئی ہیں اور ثمرِ ذائقہ دار سے بھری ہوئی ہیں، مگر معاشی طور پر کمزور ممالک جہاں کی لیڈرشپ علم، ادب، فلسفہ، سائنس اور سیاسی اصولوں سے عاری ہے وہاں ہر وقت پت جھڑکا موسم رہتا ہے اور عام لوگوں کے لیے ہر لمحہ سن اسٹروک کا ہے۔

جن لوگوں کے پاس مواقعے ہیں وہ ملک چھوڑ کر فرسٹ ورلڈ جا رہے ہیں۔ خصوصاً ٹیلنٹڈ، ذہین، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ امریکا، کینیڈا اور دیگر جگہوں کا سفر جاری ہے۔ ایسا کیوں کہ روپیہ روبہ زوال ہے۔ دورکیوں جائیے بنگلہ دیش پر ایک نظر جس کو یہاں کا صاحب اقتدار طبقہ خصوصاً لیڈر حضرات مغربی پاکستان پر بوجھ تصورکرتے تھے، اسے گنوا کے بہت خوش تھے، مگر پاکستان کے لیڈر حضرات نے گزشتہ 20 برسوں میں کیا کیا ہے اس کا موازنہ بہت ضروری ہے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ ملک کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بھنور میں دھکیلنے والے کون ہیں؟

کون بڑے زور شور سے قرض لینے کے بعد سابق وزیراعظم سے داد و تحسین لیتا تھا اور اب وہ ملک سے فرار ہے۔ ایک زمانے میں ملک میں یہ نعرے لگتے تھے کہ قرض اتارو ملک سنوارو اور ماؤں بہنوں نے جو زیورات اور دھن دیا وہ کیا ہوا؟ پاکستان میں ایک پارٹی نے نہیں تمام پارٹیوں نے قرض کو اپنی کمائی سمجھ لیا تھا اور پورے ملک میں لیڈران نے لگژری کاروں کا انبار لگا دیا۔ ہر شے امپورٹ کرنے کا کلچر بنا لیا گیا جب کہ ایکسپورٹ دم مرگ ہے۔

ایسی صورت میں ملک کا کیا بنے گا۔ خدانخواستہ اگر ہم بلیک لسٹ کے بھنور میں پھنس گئے تو پھر (LC) لیٹر آف کریڈٹ کا کیا ہوگا۔ ڈالر کتنی بلندیوں پر اڑ رہا ہو گا اب تو ملک کے کونے کونے میں اعلیٰ ترین سپر مارکیٹوں کا بازار گرم ہے۔ ہر وہ سپر اسٹور زیادہ زور شور سے کاروبارکر رہا ہے جہاں صابن سے لے کر سرکہ بھی غیر ملکی دستیاب ہے۔ پھر مہنگی اشیا کا کیا کہنا؟

یہ ظاہری نام و نمود صرف 15 فیصد عوام کے لیے ٹارگٹ مارکیٹ تصورکرکے کام ہو رہا ہے اگر لگژری کاروں اور پٹرول کے ان پر خرچ کو روکا جائے تو ملک کا 20 فیصد تک قرض کم ہو سکتا ہے اور موجودہ حالات میں اگر امپورٹ پر پابندیاں لگائی جائیں تو معاملات 35 تا 40 فیصد کم ہو سکتے ہیں مگر ملک کو ادھار پر چلانے والے دراصل امیر ممالک کے مفاد میں پالیسی بناتے ہیں جب کہ ملک کے 80-85 فیصد عوام ترستے رہیں۔ سوچیے ملک کے عوام کے مفاد میں پالیسی وضع کیونکر کی جائے۔ کیونکہ کھربوں کے اثاثے لاکھوں میں ڈکلیئر ہو رہے ہیں۔ یہ ہیں لیڈران اور یہ سب صادق و امین ہیں۔

گزشتہ پندرہ برسوں میں معاشی صورت حال مزید دگرگوں ہوچکی ہے۔ لیڈران جیتنے والی پارٹی کی طرف دوڑ رہے ہیں لیکن عوام کے سامنے لیڈروں کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، ہر جگہ لیڈروں کا گھیراؤ ہو رہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو روپیہ عوامی دور میں ڈالرکے مقابل اور گراوٹ کا شکار ہو گا۔ ایک افواہ جو پھیلی ہے کہ ڈالر 130 یا اس سے بھی مہنگا ہونے کو ہے۔

ڈالرکے خریدار یہ دولت کے پجاری ڈالرکی خرید میں مصروف ہیں اورکوئی قانون ان پر لاگو نہیں۔ کیونکہ دولت مند ملک اپنا دفاع جانتے ہیں یہ صرف سیاسی پناہ نہیں دیتے بلکہ غریب ملکوں کے کرپٹ لوگوں کو بھی پناہ دیتے ہیں تاکہ معاشی آسودگی ان ممالک میں فروغ پاتی رہے، ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ آسودہ حال ہمارے حکمراں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ ہمارے ملک میں یہ غیر ملکی نمایندے ہیں۔ ان کی دولت کا انبار وہیں لگتا ہے اور ان کی مصنوعات کے خریدار ہمارے ہی ملک میں رہتے ہیں۔

زیادہ عرصے کی بات نہیں جب پرویز مشرف نے ملکی باگ ڈور سنبھالی تو سرمائے میں استحکام نظر آیا۔ گوکہ وہ عوامی نمایندہ ہرگز نہ تھے ڈالر 70-60 روپے پر تھا لہٰذا آمریت کے خلاف تحریک چلائی گئی اور این آر او کا جال امریکا اور برطانیہ میں تیار کیا گیا اور ان کے من پسند لوگ ہمارے حکمران بنے، ان میں بینظیر بھٹو جن کا عوام کی نبض پر کسی حد تک ہاتھ تھا۔ اچانک خاک نشین کر دیا گیا اور یہ معلوم نہ ہوا کہ یہ اتفاقیہ عمل تھا یا غیر ملکی سازش؟ یا عالمی دوغلا پن۔ اس راز سربستہ کا پردہ اب تک چاک نہ ہوا۔

خیر کون تھا عمل کے پیچھے، وقت کی قبر میں دفن ہوگیا۔ مانا کہ پرویز مشرف کی حکومت عوامی نہ تھی مگر مشرف نے جہاں ایک طرف معیشت کا چکر گھومتا ہوا رکھا تو دوسری طرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کسی غیر ملک کے حوالے ہونے نہ دیا۔ جو بھی اعتراضات کروانے تھے محض اپنے ملک میں ہی، مگر ان کی جگ ہنسائی نہ کی گئی اور نہ غیر ملکی قید و بند میں دیا گیا ورنہ ان کو تو عافیہ صدیقی سے بدتر زندگی گزارنی پڑتی۔

اب معاشی در پر ذرا دستک دیں تو دیکھیے کہ پاکستان کوگرے لسٹ کے لوازمات سے گزرنا تو دورکی بات بالکل اس کے قریب نہ تھا جب کہ اب تو بلیک لسٹ ہونے کے خدشات سر پہ منڈلا رہے ہیں، آخر یہ سب جمہوریت کے نام پر روا رکھا جا رہا ہے۔ آخر ملک کو یہ آمریت نما جمہوریت جس میں قومی اسمبلی کے اجلاس سال میں بہ مشکل دو تین بار کسی مسئلے پر ہوتے ہوں۔ ان میں اکثر وزیراعظم کی آمد نہ ہوتی ہو یہ کیسی جمہوریت جہاں فیصلہ خاندان کے لوگ اور احباب کرتے ہوں یا پھر کسی بیرونی طاقت کے اشارے پر ہوتے ہوں۔

ابھی توکچھ ایسی انہونی نہیں ہوئی کہ فاٹا کا ڈنڈا بھی نہیں گھوما کہ پٹرول جمپ کر کے کہاں گیا اور ڈیزل کو پَر لگ گئے۔ یعنی مہنگائی کی آندھی چل پڑی۔ اس پر سے حکمراں مزید قرض کے خواہاں ہیں۔ اس عمل کے لیے اب گیس کی باری آنے کو ہے لہٰذا کارکردگی کی بنیاد پر تو جمہوری حکومتیں بالکل ناقص ثابت ہو رہی ہیں۔ لہٰذا اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ملک میں خصوصاً کمزور معاشی حیثیت والے ممالک آمریت کے لیے بہترین ہیں۔ جناب جب جمہوریت کے نام پر جمہوری فریب رسانی ہے تو یہی ہوتا جب کہ آمر ذرا پست ہمت ہوتا ہے اور اپنی پرفارمنس اچھی دکھانا چاہتا ہے لیکن جمہوریت کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد قومی اسمبلی میں شرکت سے بھی استثنیٰ حاصل کر لیتے ہیں۔

جب تک پاکستان میں آزاد ترقی پسند اور غریب پرور حکومت نہیں آتی ملک کے حالات بد سے بدتر کی طرف جاتے رہیں گے۔ اب وقت آچکا ہے کہ عوام بیدار ہو رہے ہیں اور ایسے نظام سے اپنی وابستگی توڑ رہے ہیں۔ اس انتخابات کے بعد خدشہ ہے کہ 2023ء کے انتخابات میں لوگ لیڈروں کا گھیراؤ کریں گے لہٰذا آنے والی حکومت عوام کو مشکلات سے دور کر دے خاص طور سے بجلی، پانی، رہائش اور روزگار کی سہولت۔ اس کے لیے زمینداری نظام میں اصلاحات، ڈیموں کا جال بچھانا ہو گا، اگر حکومت شجرسایہ دار اور ثمرات سے پر نہ ہوئی تو لیڈروں کو منظر عام سے بھاگنا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں