سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تحریک

کیا سرمایہ دارانہ نظام ختم ہو جاتا ہے تو دنیا کے سامنے ایک بہتر متبادل کیا رہ جاتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

دنیا کی تاریخ میں اقتصادی استحصال کا سلسلہ ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔ شاہانہ نظام میں چونکہ رعایا کے کوئی حقوق ہی نہ تھے لہٰذا اس نظام میں معاشی اور سماجی استحصال کے خلاف کوئی منظم آواز یا تحریک موجود نہ تھی، البتہ اقتداری جھگڑے عام تھے اور حکومتیں طاقت یا سازش کے ذریعے بدلی جاتی تھیں۔

عوام کو قابو میں رکھنے اور انھیں بغاوتوں سے روکنے کے لیے منظم طریقے سے دینی اداروں میں یہ پروپیگنڈا کرایا جاتا تھا کہ غربت اور امارت قدرت کا کھیل ہے۔ قسمت اور مقدر کے نام سے سادہ لوح عوام کو اس قدر بے بس کر دیا جاتا تھا کہ ان کی نظر میں اپنے اقتصادی دشمنوں کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھیں۔ اس طرح معاشی استحصال کے خلاف اٹھنے والی ممکنہ آواز کا گلہ گھونٹ دیا گیا تھا۔

آج اس موضوع پر قلم اٹھانے کا خیال یوں آیا کہ میڈیا میں یہ خبریں آ رہی ہیں کہ روس اور امریکا نے خلاء پر اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ انسانیت کے ان دشمنوں کو یہ احساس نہیں کہ دنیا کے اربوں انسان بد ترین اقتصادی استحصال کا شکار ہیں ان انسانوں کو غربت افلاس، بھوک، بیماری کی دلدل سے نکالنے کے بجائے کوئی مریخ پر پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ جس سرمایہ دارانہ نظام کی کارستانیاں ہیں، جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ انسانوں کے اصل دشمن کو سامنے لایا جا سکے۔

پاکستان کے 21 کروڑ عوام ہی نہیں بلکہ دنیا کے اربوں انسان بھوک افلاس غربت بیکاری جہل، بیماری جیسے بے شمار عذابوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ سلسلہ نیا نہیں صدیوں پرانا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے متعارف ہونے کے بعد غریب طبقات کے استحصال میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس بہیمانہ استحصال کے خلاف رد عمل کے طور پر سوشلزم کا نظریہ وجود میں آیا۔ سوشلزم ایک ایسا معاشی نظام تھاجس میں طبقاتی استحصال کے سارے راستے بند کر دیے گئے تھے، عوام اسی نظام میں ایک مطمئن اورآسودہ زندگی گزار رہے تھے۔

یہ نظام تیزی کے ساتھ دنیا میں پھیل رہا تھا۔ سوشلزم کے دنیا میں تیزی سے پھیلاؤ اور عوام میں غیر معمولی مقبولیت سے خوفزدہ سرمایہ دارانہ نظام کے مفکرین نے مختلف طریقوں سے اس نظام کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کی۔ سرد جنگ کا آغاز اس سلسلے کی ہی ایک کڑی تھا۔ سرد جنگ کو پھیلا کر اسٹار وار تک لے جایا گیا۔ سوشلسٹ ممالک خصوصاً روس کے وسائل ضایع کر کے اسے دیوالیہ کر دیا گیا اور آخر کار یہ نظام روس کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ناکام ہو گیا، یا اسے ناکام کر دیا گیا۔ یہ سازش اس قدر منظم تھی کہ سوشلسٹ ملکوں نے سرمایہ دارانہ معیشت کو اپنا لیا۔


دنیا ایک بار پھر طبقاتی استحصال کے شکنجے میں آ گئی اور غربت بھوک افلاس جہل عام ہو گئے۔ دنیا کے اربوں انسان اب سرمایہ دارانہ نظام کے پنجے میں جکڑے ظلم سہہ رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے مفکرین نے اس نظام سے سادہ لوح عوام کو بد ظن کرنے کے لیے عالمی سطح پر یہ منظم پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ سوشلزم دین دھرم کا مخالف نظام ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس پروپیگنڈے سے مذہبی رہنما بری طرح متاثر ہوئے اور مسجدوں، مندروں، گرجاؤں میں سوشلزم کے خلاف نفرت کا ایک طوفان اٹھا دیا گیا۔

سادہ لوح عوام اس پروپیگنڈے سے بری طرح متاثر ہوئے۔ اس طرح سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے، آج پوری دنیا کرۂ ارض پر بسنے والے انسان اقتصادی نا انصافیوں کا شکار ہیں۔ کوئی مفکر، کوئی فلسفی، کوئی دانشور، کوئی نظریہ ساز دنیا کے انسانوں کو سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال سے بچانے کے لیے کوئی فلسفہ کوئی نظریہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اس نظام نے کرپشن کا جال اس طرح پھیلایا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مخالفین بھی اس سیلاب میں بہہ جاتے ہیں اور یہ نظام اور طاقتور ہو جاتا ہے۔

اس نظام کو اب ملٹی نیشنل کمپنیوں، عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ملکوں کو قرضوں کے جال میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے پسماندہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے قرض میں بچہ بچہ جکڑا ہوا ہے، ان اداروں کے قرض کا سود ادا کرنے کے لیے پسماندہ ملک جن میں پاکستان بھی شامل ہے مزید قرض لے رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرستوں نے بھرپور طریقے سے یہ پروپیگنڈا کیا کہ سوشلزم نام کی کسی چیزکا اب وجود نہیں رہا اور دنیا کی یہ مجبوری ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ نظام ہی میں زندگی گزارے۔ اس قسم کا پروپیگنڈا کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ دنیا کے انسان سرمایہ دارانہ نظام میں کس تباہ حالی کا شکار ہیں اور انسانوں کو اس معاشی استحصال سے کس طرح نکالا جا سکتا ہے۔ اگرچہ سوشلزم کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے لیکن سرمایہ دارانہ استحصال سے نجات کا راستہ کیا ہے؟

دنیا بھر میں اب بھی سوشلزم کے نام لیوا موجود ہیں کمیونسٹ پارٹیاں موجود ہیں وہ سوشلزم کی بحالی کے بجائے اگر سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی بات کریں تو طبقاتی استحصال کے مارے ہوئے دنیا کے انسان اس نظام زر کے خلاف لڑنے کے لیے زیادہ آسانی سے تیار ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس استحصالی نظام کا براہ راست شکار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں مارکسٹ فلاسفر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کیا وہ سوشلزم کی بحالی کی کوششوں کے بجائے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی منظم تحریکیں نہیں چلا سکتے۔

کیا سرمایہ دارانہ نظام ختم ہو جاتا ہے تو دنیا کے سامنے ایک بہتر متبادل کیا رہ جاتا ہے، دنیا کے انسان سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیوں سے تنگ ہیں اگر اس نظام کے خلاف ایک منظم اور منصوبہ بند تحریک چلائی جاتی ہے تو منطقی طور پر دنیا کے تمام انسان اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔
Load Next Story