گردشی قرضوں کے بوجھ کی صارفین کو منتقلی پر احتجاج
ایڈجسٹمنٹ پرنظرثانی،صارفین کومشکلات سے بچانے کیلیے فیصلہ واپس لیاجائے، لاہور چیمبر
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عامر وحید نے کہا کہ گردشی قرضے کی ادائیگی کیلیے 180روپے کا قرضہ حاصل کر کے اس کا بوجھ سرچارج کی صورت میں بجلی صارفین کو منتقل کرنا کاروباری برادری اورعوام کے ساتھ زیادتی ہے، اس ایڈجسٹمنٹ پر نظرثانی کی جائے اور بجلی صارفین کو مزید مشکلات سے بچانے کیلیے فیصلہ واپس لیا جائے۔
اپنے ایک بیان میں شیخ عامر وحید نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی تیل سے پیدا کی جا رہی ہے جس سے نہ صرف گردشی قرضے میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کاروباری اداروں اور عوام کو بہت مہنگی پڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت خطے میں کافی زیادہ ہے جس سے کاروبار کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ہماری برآمدات مہنگی ہونے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ سخت مقابلے کا سامنا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیل کی درآمد پر ہر سال ملک کو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑتا ہے۔ انہوںنے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ تیل سے بجلی کی پیداوار پر انحصار کم کریں اور ملک میں موجود پانی سمیت متبادل و قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کریں جس سے کاروبار کی لاگت میں خاطر خواہ کمی ہو گی، مصنوعات سستی ہونے سے برآمدات میں اضافہ ہو گا، مہنگائی کم ہو گی اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو بہتر فروغ ملے گا۔
اسلام آبادچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر محمد نوید ملک اور نائب صدر نثار مرزا نے کہا کہ پاکستان میں پانی، ہوا، بائیو ماس اور سورج کی روشنی کو استعمال میں لا کر ہزاروں میگاواٹ بجلی پید اکی جا سکتی ہے جو تیل سے پیدا ہونے والی بجلی سے بہت سستی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرچکر بورڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40ہزار میگاواٹ سے زائد پن بجلی کی صلاحیت موجود ہے۔
اسی طرح محکمہ موسمیات کے ایک سروے کے مطابق صرف سندھ میں میں ہوا کے ذریعے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بھی ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج تک کسی حکومت نے ان سستے ذرائع سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی طرف بہتر توجہ نہیں دی جس وجہ سے کاروباری برادری سمیت عوام کو بجلی کے بھاری بل ادا کرنا پڑتے ہیں جب کہ پیداواری سرگرمیوں کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے سے عوام کی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے پالیسی سازوں اور حکومت پر زور دیا کہ موجودہ روش کو تبدیل کیا جائے اور ملک میں موجود توانائی کے سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو بہتر فروغ ملے گا، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی، روزگار کے بے شمار نئے مواقع پیدا ہوں گے اور صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہونے سے معیشت مستحکم ہو گی۔
اپنے ایک بیان میں شیخ عامر وحید نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر بجلی تیل سے پیدا کی جا رہی ہے جس سے نہ صرف گردشی قرضے میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کاروباری اداروں اور عوام کو بہت مہنگی پڑتی ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمت خطے میں کافی زیادہ ہے جس سے کاروبار کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ہماری برآمدات مہنگی ہونے کی وجہ سے عالمی مارکیٹ سخت مقابلے کا سامنا کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تیل کی درآمد پر ہر سال ملک کو اربوں ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں جس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ پڑتا ہے۔ انہوںنے پالیسی سازوں پر زور دیا کہ وہ تیل سے بجلی کی پیداوار پر انحصار کم کریں اور ملک میں موجود پانی سمیت متبادل و قابل تجدید ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کریں جس سے کاروبار کی لاگت میں خاطر خواہ کمی ہو گی، مصنوعات سستی ہونے سے برآمدات میں اضافہ ہو گا، مہنگائی کم ہو گی اور صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو بہتر فروغ ملے گا۔
اسلام آبادچیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر محمد نوید ملک اور نائب صدر نثار مرزا نے کہا کہ پاکستان میں پانی، ہوا، بائیو ماس اور سورج کی روشنی کو استعمال میں لا کر ہزاروں میگاواٹ بجلی پید اکی جا سکتی ہے جو تیل سے پیدا ہونے والی بجلی سے بہت سستی پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرچکر بورڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40ہزار میگاواٹ سے زائد پن بجلی کی صلاحیت موجود ہے۔
اسی طرح محکمہ موسمیات کے ایک سروے کے مطابق صرف سندھ میں میں ہوا کے ذریعے 50 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جبکہ سورج کی روشنی سے بھی ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے لیکن انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ آج تک کسی حکومت نے ان سستے ذرائع سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی طرف بہتر توجہ نہیں دی جس وجہ سے کاروباری برادری سمیت عوام کو بجلی کے بھاری بل ادا کرنا پڑتے ہیں جب کہ پیداواری سرگرمیوں کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے سے عوام کی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے پالیسی سازوں اور حکومت پر زور دیا کہ موجودہ روش کو تبدیل کیا جائے اور ملک میں موجود توانائی کے سستے ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جس سے صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو بہتر فروغ ملے گا، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی، روزگار کے بے شمار نئے مواقع پیدا ہوں گے اور صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہونے سے معیشت مستحکم ہو گی۔