جَب جَب چُناؤ کا رَن پڑا
ہارجیت کے قصے، انتخابی اتحادوں، سازشوں اور جبر کا ماجرا۔
بٹوارے سے قبل ہندوستان کے آخری انتخابات 21 نومبر تا 20 دسمبر 1945ء منعقد ہوئے۔ جن میں 30 مخصوص مسلم نشستیں آل انڈیا مسلم لیگ نے جیتیں۔۔۔ آٹھ اراکین بلامقابلہ منتخب ہوئے، جب کہ مدمقابل 18 امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوئیں۔ گویا 30 میں سے محض چار نشستوں پر ہی کسی قدر مقابلہ ہوا۔
مسلمانوں کی 30 مخصوص نشستوں میں سے 17 نشستیں (56.67 فی صد)، وہ ہیں جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بنیں، ان میں یو پی کی چھے، بمبئی، بہار اور مدراس کی تین، تین، جب کہ آسام اور سی پی کی ایک، ایک نشست شامل ہے۔ یو پی سے منتخب ہونے والوں میں لیاقت علی خان، راجا امیر احمد خان آف محمود آباد، ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد، خان بہادر غضنفر اللہ خان، نواب محمد اسمعیٰل خان اور سر محمد یامین بہار سے خان بہادر حبیب الرحمن، عابد حسین اور محمد نعمان؛ بمبئی سے قائداعظم، ایم ایم قلعدار اور سیٹھ احمد ابراہیم جعفر؛ مدراس سے ایم رحمت اللہ، حاجی عبدالستار سیٹھ اور مولوی جمال الدین؛ جب کہ آسام اور 'سی پی' سے بالترتیب علی اصغر اور نواب صدیق علی خان شامل ہیں، جب کہ باقی 13 مسلم نشستیں (43.33 فی صد) جو نئی مملکت کے حصے میں آسکیں، ان میں بنگال اور پنجاب کی چھے، چھے اور سندھ کی ایک نشست شامل ہے۔
بنگال سے کام یاب ہونے والوں میں عبدالرحمٰن صدیقی، حسین شہید سہروردی، شیخ رفیع الدین صدیقی، شاہ عبدالحمید، چوہدری محمد اسمعٰیل خان، مولوی تمیز الدین خان؛ پنجاب سے سرخرو ہونے والوں میں مولانا ظفر علی خان، کیپٹن عابد حسین، حافظ محمد عبداللہ، شیر شاہ جیلانی، مولانا غلام بھیک نیرنگ، نواب شیر محمد شاہ؛ جب کہ سندھ کی مسلمان نشست سے سیٹھ یوسف عبداللہ ہارون فتح یاب ہوئے۔ پاکستان کی پہلی 69 رکنی قانون ساز اسمبلی انہی مسلم اور چند مقامی غیرمسلم نمائندوں کو ملا کر بنائی گئی۔ ان میں سے 44 کا تعلق مشرقی بنگال، 17 کا مغربی پنجاب، 4 کا سندھ، 3 کا صوبہ سرحد اور ایک کا کوئٹہ میونسپلٹی سے تھا۔
بدقسمتی سے ہمیں انتخابی تاریخ سے پہلے جاگیرداروں، اسٹیبلشمنٹ اور فوجی مداخلت کے سیاہ کارناموں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ باقاعدہ پہلے عام انتخابات کی نوبت 23 برس بعد آسکی اور اس کے نتائج پر ہمارے غیرجمہوری رویوں نے ملک دو لخت کردیا، 1970ء کے پہلے عام انتخابات تک کے اہم انتخابی واقعات اور اس کے بعد سے 2013ء کو ہونے والے عام چناؤ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
٭اولین صوبائی انتخابی دنگل
بٹوارے کے بعد مارچ 1951ء میں ہونے والے انتخابات کو ملک کا اولین چناؤ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دنگل پنجاب اسمبلی کا تھا، جس میں بے ضابطگیوں کے سبب 'جھرلو' کی اصطلاح سامنے آئی۔ 197 نشستوں کے اس انتخاب میں، 10 لاکھ ووٹروں کی انتخابی فہرست سے بھی صرف 30 فی صد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ دسمبر 1951ء میں سرحد اور مئی 1953ء مین سندھ اسمبلی کے انتخابات میں 'مسلم لیگ' کو اکثریت حاصل ہوئی۔ اپریل 1954ء میں مشرقی پاکستان کے قوم پرست اتحاد 'جگتو فرنٹ' نے مسلم لیگ کو پہلی شکست سے دوچار کیا۔ 1956ء میں انتخابی اصلاحات کے لیے بننے والے سرکاری کمیشن نے بھی ان انتخابات میں خرابیوں کا اعتراف کیا۔
٭ملک غلام محمد کے سیاہ کارنامے
جمہوریت شکنی کے سیاہ باب میں تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کا نام سرفہرست ہے، جنہوں نے تین سیاہ فیصلے کیے، جن میں مارشل لا، منتخب اسمبلی توڑنا اور آرمی چیف کو کابینہ میں شامل کرنا شامل ہے۔ فروری 1953ء میں لاہور میں مذہبی فسادات کے دوران بے شمار جانیں تلف ہوئیں، حالات پر قابو پانے کے لیے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چھے مارچ 1953ء کو لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سرکردگی میں لاہور میں تین ماہ کے لیے مارشل لا لگا دیا، خراب حالات کو جواز بناتے ہوئے غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو بھی برطرف کردیا اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو نیا وزیراعظم بنایا۔ دستورسازی کی تاریخ میں 24 اکتوبر 1954ء کو ایک سیاہ ترین دن کی حیثیت حاصل ہے، جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے آمرانہ اقدام کرتے ہوئے ملک کی پہلی دستورساز اسمبلی تحلیل کرڈالی، جس سے دستورسازی کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
یہی نہیں بلکہ کاروبار مملکت میں افسر شاہی کے کل پرزوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بعد فوج کو باقاعدہ انتظامی امور میں ملوث کرنے کا واقعہ پیش آیا اور 25 اکتوبر 1954ء کو وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو باقاعدہ وزیردفاع کی صورت میں کابینہ میں شامل کرلیا۔ 14 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو مدغم کرکے 'ون یونٹ' قائم کردیا گیا۔ یہ 60 فی صد سے زاید آبادی کے حامل مشرقی پاکستان کے حقوق پر وار تھا، یہ تجویز 2 مارچ 1949ء کو فیروز خان نون نے پیش کی، جو مسترد کردی گئی، لیکن اب نوکر شاہی نے حالات موافق پاکر یہ منصوبہ نافذ کر دیا۔
٭ 1956ء کا دستور بغیر انتخابات کے دم توڑ گیا
صوبائی اسمبلیوں نے 1954ء کی دوسری مجلس قانون ساز تشکیل دی، جس نے 1956ء میں ملک کا پہلا دستور تیار کیا، جس کے بعد اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر کے عہدے پر منتقل ہوئے، لیکن انتخابات کی نوبت نہ آنے دی گئی اور 7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کردیا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی سرکردگی میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 20 دن بعد ایوب خان، اسکندر مرزا کو رخصت کر کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے، ان کا اقتدار گیارہ برس تک رہا۔
٭ 1962ء کے صدارتی چناؤ کا ڈھکوسلہ
جنرل ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد 1962ء میں نیا دستور تشکیل دیا، جس کے تحت 2 جنوری 1965ء میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ ایوب خان مسلم لیگ (کنونشن) جب کہ فاطمہ جناح پانچ جماعتی اتحاد 'کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز' کی مشترکہ امیدوار تھیں۔ یہ انتخابات 'بنیادی جمہوریت' کے انتخابات کہے جاتے ہیں ، کیوں کہ صدر کا چناؤ براہ راست عوام کے بہ جائے عوام کے منتخب 'بی ڈی' اراکین کو کرنا تھا۔ بی ڈی اراکین کا انتخاب 31 اکتوبر 1964ء کو شروع ہوا۔ بھرپور کوششوں کے باوجود ایوب خان مشرقی پاکستان اور کراچی میں میدان اپنے نام کرنے میں ناکام رہے۔ صدارتی انتخاب کے نتائج کے مطابق ایوب خان 49 ہزار 951، جب کہ فاطمہ جناح 28 ہزار 691 بی ڈی اراکین کی حمایت لے سکیں، یوں ایوب خان فاتح قرار دیے گئے اور پھر 25 مارچ 1969ء کو 'ہائے ہائے' کے نعروں کی گونج میں مستعفی ہوئے۔
٭ دسمبر 1970: ملک کے پہلے عام انتخابات
جنرل یحییٰ خان نے اپنے پیش رو کا دستور منسوخ کرکے دوبارہ مارشل لا لگا دیا، جس کے بعد بے دستور ملک کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ 7 دسمبر کو قومی اور 17 دسمبر 1970ء کو صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب کیے گئے۔ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہونے والے پہلے چناؤ ہوئے، جس میں 24 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ 21 برس سے زائد عمر کے پانچ کروڑ 70 لاکھ ووٹروں کی فہرستیں بنیں، حلقہ بندیاں کی گئیں۔ 300 میں سے 162 نشستیں مشرقی پاکستان کے لیے اور 138مغربی پاکستان کے لیے مختص کی گئیں۔
عوامی لیگ نے سب سے زیادہ 170 امیدوار کھڑے کیے، جن میں سے 162 مشرقی پاکستان سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ جماعتِ اسلامی نے 155، خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ نے 133، کنونشن مسلم لیگ نے 124 اور کونسل مسلم لیگ نے 119 امیدوار کھڑے کیے، جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے 120 امیدواروں کو ٹکٹ دیے، مشرقی پاکستان سے پیپلزپارٹی کا ایک بھی امیدوار نہیں کھڑا ہوا۔ جب نتائج آئے تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے دو کے سوا تمام نشستیں جیت لیں، مغربی پاکستان کی نشستوں میں 138 پیپلزپارٹی، 8 قیوم لیگ، 9کونسل لیگ، کنونشن لیگ کی 2 جماعت اسلامی کی 4 پاکستان جمہوری پارٹی کی ایک نشست تھی۔ بدقسمتی سے واضح اکثریت لینے کے باوجود عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا گیا۔
جب نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے دھمکی دی کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ارکان کی ٹانگیں توڑ دیں گے، چناں چہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا، جس پر مشرقی پاکستان میں بغاوت کا اعلان کردیا گیا۔ 23 مارچ کو بنگلادیش کے پرچم لہرا دیے گئے اور عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن نے مسلح دستوں سے سلامی لی، اس کے خلاف شدید فوجی کارروائی عمل میں لائی گئی، جس پر 26 مارچ 1971ء کو بھٹو نے کہا 'خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے!' لیکن طویل خوں آشامی کے بعد مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ اس کے بعد ذوالفقار بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے صدربنے، 1973ء میں نیا دستور نافذ ہوا اور ذوالفقار بھٹو وزیراعظم قرار پائے۔
٭ 1977ء: قبل ازوقت چناؤ جمہوریت نگلنے کا بہانہ بنا!
پارلیمان کی پانچ سالہ مدت باقی تھی، لیکن وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبل ازوقت انتخابات کا ڈول ڈالا اور اعلان کردیا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات 7 مارچ، جب کہ صوبائی اسمبلیوں کے 10مارچ کو ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے پر حزبِ اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد بنالیا۔ قومی اتحاد نے بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کے خلاف بطور احتجاج صوبے میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ حکم راں پیپلزپارٹی کے 19امیدواروں بشمول وزیر اعظم کے بلامقابلہ انتخاب سمیت کل 155 امیدوار جیتے، جب کہ قومی اتحاد کے 36، قیوم لیگ کا ایک رکن منتخب ہوا۔ حکومت کے مطابق ٹرن آؤٹ 63 فی صد رہا۔ 'قومی اتحاد' نے 10مارچ کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوگئی، جس کے خلاف اپریل 1977ء میں کراچیِ، حیدرآباد اور لاہور میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ اس دوران 28 مارچ 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے دوسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیا۔
حزب اختلاف کے مظاہروں کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال میں خاصی خوں ریزی ہوئی، جولائی کے پہلے ہفتے میں 'پی این اے' اور بھٹو حکومت میں سمجھوتے پر دستخط ہونے والے تھے کہ اکتوبر میں ایک نمائندہ عبوری حکومت کے تحت دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے، لیکن 5جولائی 1977ء کی صبح جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ 27 جولائی کو جنرل ضیا نے قوم سے خطاب میں اکتوبر 1977ء میں عام انتخابات کا اعلان کردیا، جس کے تحت سیاسی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں، لیکن 30 اگست 1977ء کو ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے ''پہلے احتساب پھر انتخاب'' کا نعرہ لگایا، جب کہ شیر باز مزاری اور مشیر احمد پیش امام نے ایک مشترکہ بیان میں بھٹو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ 3 ستمبر 1977ء کو بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا۔
19 ستمبر کے اخبارات میں جنرل ضیا کے انٹرویو کے یہ الفاظ شایع ہوئے کہ 'آئین کیا چیز ہے، یہ دس، بارہ صفحوں کا ایک کتابچہ ہے تو میں جب چاہوں اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔'' اس کے بعد یکم اکتوبر کو انتخابات ملتوی کر دیے۔ 10 اکتوبر 1977ء کو سپریم کورٹ نے بیگم نصرت بھٹو کی آئینی درخواست پر مارشل لا کو جائز قرار دے دیا گیا۔ 16 ستمبر 1978ء کو ضیا الحق صدر بھی بنے، اس کے بعد ان کی 22 رکنی کابینہ بھی بنی، جس میں جمہوریت کے نام لیوا کئی سیاست داں شامل تھے۔
٭ 1985ء: 'آزاد' امیدواروں کی 'پابند' مقننہ بنی
جنرل ضیا الحق نے 19 دسمبر 1984ء کو ملک میں صدارتی ریفرنڈم کرایا، حزبِ اختلاف کے اتحاد 'ایم آر ڈی' نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ سرکاری نتائج میں 97 فی صد ووٹ صدر ضیا الحق کے حق میں پڑے۔ ریفرنڈم کے بعد صدر نے اعلان کیا کہ قومی اور صوبائی انتخابات بالترتیب 25 اور 28 فروری 1985کو منعقد ہوں گے۔ 'ایم آر ڈی' نے اِن انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا۔ اس کے باوجود ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد نے حصہ لیا۔
سرکاری طور پر قومی اسمبلی کے لیے پڑنے والے ووٹوں کی شرح تقریباً 54 اور صوبائی پولنگ کی شرح 57 فی صد سے زائد رہی۔ اس پارلیمان میں اس مسلم لیگ کا جنم ہوا، جس سے کئی مسلم لیگیں وجود میں آئیں۔ اسی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے ضیا الحق کے تمام مارشل لا احکامات کو آئینی تحفظ دیا اور انہیں پارلیمان اور حکومت کو ختم کرنے کے صوابدیدی اختیارات بھی دے دیے۔ 29 مئی 1988ء کو وزیراعظم محمد خان جونیجو کو دورۂ چین سے واپسی کے دوران برطرف کر دیا، پھر 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاالحق ایک فضائی حادثے کی نذر ہوگئے، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحق خان نے صدر کا عہدہ سنبھالا۔
٭ نومبر 1988ء: پاکستان پیپلزپارٹی کی اقتدار میں واپسی
صدر بننے کے بعد اسحٰق خان نے آئندہ انتخابات سیاسی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا، یوں 16 نومبر 1988ء کو قومی اور 19نومبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے، جس میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے 'اسلامی جمہوری اتحاد' (آئی جے آئی) سامنے آیا۔ بعدازاں یہ حقیقت سامنے آئی کے آئی جے آئی خفیہ اداروں کی کارستانی تھا، جس کے قیام کا مقصد پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا تھا۔ پیپلزپارٹی کے مقابل پیر پگارا، مصطفیٰ جتوئی، اصغر خان، غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، غوث بخش بزنجو، الٰہی بخش سومرو وغیرہ نے شکست کھائی، اس کے باوجود پیپلزپارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی اور اس نے 92 نشستیں اپنے نام کیں، جب کہ 'آئی جے آئی' نے 54نشستوں پر میدان مارا۔
حق پرست گروپ (ایم کیو ایم) 13، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سات اور پاکستان عوامی اتحاد کو تین نشستیں ملیں۔ ووٹنگ کی شرح 43 فی صد بتائی گئی۔ 2دسمبر 1988ء کو بے نظیر بھٹو نے ایم کیو ایم، فاٹا ارکان اور کچھ آزاد امیدواروں کی مدد سے وزیراعظم بنیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کے بعد صوبائی چناؤ سے ایک دن پہلے 18 نومبر کو پنجاب کے اخبارات میں 'جاگ پنجابی جاگ' تیری پگ نوں لگ گیا داغ' کا اشتہار شایع ہوا، جس نے نوازشریف کے حق میں رائے عامہ ہم وار کی۔ 13 دسمبر 1988ء کو نواب زادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں جنرل ضیا کے دستِ راست غلام اسحاق خان پیپلزپارٹی اور 'آئی جے آئی' کے مشترکہ امیدوار کے طور پر پانچ برس کی مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے۔
کچھ عرصے بعد ہی حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ 26 جنوری 1990ء کو کراچی میں ایم کیو ایم کی میزبانی میں بے نظیر کے خلاف حزب اختلاف کا ایک بڑا جلسہ ہوا، جس سے نواز شریف، الطاف حسین، نوابزادہ نصراللہ خان، ولی خان، غلام مصطفیٰ جتوئی، پروفیسر غفور، مولانا سمیع الحق ودیگر نے خطاب کیا۔ 6 اگست 1990ء کو 'نوائے وقت' میں یہ خبر شایع ہوئی کہ آج صدر مملکت کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑ دیں گے، شام پانچ بجے صدر اسحٰق خان نے ایک پریس کانفرنس میں بے نظیر حکومت کو بدعنوانی اور نااہلی کا مرتکب قرار دے کر برخاست کردیا۔
٭ 1990ء: نوازشریف کو اقتدار ملا
بے نظیر کی برطرفی کے بعد 24 اکتوبر کو قومی اور 27 اکتوبر 1990ء کو صوبائی مقننہ کا چناؤ ہوا، جس میں 'اسلامی جمہوری اتحاد' کو قومی اسمبلی کی 106 اور 'پاکستان ڈیموکریٹک الائنس' (پی ڈی اے) (جس میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تحریک استقلال، تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ، مسلم لیگ (قاسم) شامل تھیں) کو 44 نشستیں ملیں۔ ووٹنگ کی شرح تقریباً 46 فی صد بتائی گئی۔ وزارت عظمیٰ کے لیے نوازشریف کو 152 اور 'پی ڈی اے' کے محمد افضل خان کو 39 ووٹ ملے، 6 نومبر 1990ء کو نوازشریف نے پہلی بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ 18 مارچ 1993ء کو محمد خان جونیجو وفات پاگئے، جس کے بعد نوازشریف نے خود کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرالیا۔
دوسری طرف نئے آرمی چیف کی تقرری پر نوازشریف اور صدر اسحٰق کے اختلافات شروع ہوئے، 17 اپریل 1993ء کو نواز شریف نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا، اگلے روز 18 اپریل 1993ء کو صدر اسحٰق خان نے قوم سے خطاب میں حکومت کو برطرف کرنے کا اعلان کیا، میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیراعظم نام زد کردیا 14 جولائی کو چناؤ کا اعلان کیا۔ نگراں حکومت میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہوئی اور آصف زرداری سمیت پیپلزپارٹی کے کئی وزرا بنے۔ نوازشریف نے اپنی برطرفی کو صدر کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلینج کردیا۔ سپریم کورٹ نے 14 مئی 1993ء کو غلام اسحاق خان کے اقدام کو غیرآئینی قرار دے کر نوازحکومت بحال کردی۔ اس کے بعد بے نظیر نے نئے چناؤ نہ کرانے پر لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ جنرل وحید کاکڑ نے مداخلت کی، جس کے مطابق نوازشریف نے صدر اسحٰق کو ایڈوائس دی اور اسحٰق خان نے حسب مذاکرات اسمبلیاں توڑ کر استعفا دے دیا۔
٭ 1993میں بے نظیر کا دوسرا دور
6 اکتوبر کو قومی اور 9 اکتوبر 1993ء کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ پیپلزپارٹی کو 86 اور نوازلیگ کو 73، پاکستان پیپلزپارٹی کو 89، اسلامی جمہوری محاذ کو4 جونیجو لیگ کو 6 اور اے این پی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو تین، تین نشستیں ملیں۔ 'ایم کیو ایم' نے اپنے خلاف ریاستی آپریشن کو جواز بناکر قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جب کہ تحفظات دور ہونے کے بعد صوبائی چناؤ میں حصہ لیا۔ 24 مئی 1993ء کو قاضی حسین احمد نے انتخابات لڑنے کے لیے 'پاکستان اسلامک فرنٹ' بنایا، جس کا انتخابی نشان 'کار' تھا۔ فرنٹ صرف تین نشستیں لے سکا، 19 اکتوبر 1993ء کو قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لیے بے نظیر نے 121 ووٹ لے کر دوسری بار وزیراعظم بن گئیں، ان کے مقابل نوازشریف صرف 71 ارکان کے ووٹ لے سکے۔ 5 دسمبر 1993ء کو نصرت بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن کے عہدے سے ہٹا کر بے نظیر نے خود کو پیپلزپارٹی کا چیئر پرسن بنالیا۔
کراچی کی بے امنی اور 20 ستمبر 1996ء کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد بحران پیدا ہونے لگا۔ 27 اکتوبر 1996ء کو جماعت اسلامی نے حکومت کے خلاف دھرنا دیا، جس کے پرتشدد واقعات کے کچھ دن بعد ہی پانچ نومبر 1996ء کو فاروق لغاری نے اسمبلیاں برخاست کردیں اور ملک معراج خالد کو نگراں وزیرِاعظم بنادیا گیا۔ بے نظیر نے بھی اس قدم کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر 11 نومبر کو حکومت کی برطرفی درست قرار دے دی گئی۔
٭1997ء میں نوازلیگ کی دو تہائی اکثریت
تین فروری 1993ء کو ملک میں پہلی بار قومی وصوبائی اسمبلی کے انتخابات بہ یک وقت منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ نواز 137 پیپلزپارٹی 18، ایم کیو ایم 12 اور اے این پی 9 نشستیں حاصل کر سکیں، جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا۔ ووٹنگ کی شرح 36 فی صد رہی۔ قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لیے نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے آفتاب شعبان میرانی کے مقابلے میں ایوان کا اعتماد حاصل کیا اور دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے، جس کے بعد انہوں نے صدر کے اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کیا، جس پر پیپلزپارٹی نے بھی ساتھ دیا۔ اس کے بعد آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو نیشنل سیکیوریٹی کونسل کی تجویز دینے پر عہدے سے ہٹایا۔
عدالتی بحران بھی پیدا ہوا، جس میں جج دو حصوں میں بٹ گئے، سماعت کے دوران لیگی کارکنوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کردیا۔ کراچی میں حکیم محمد سعید کے قتل کو جواز بنا کر 30 اکتوبر 1998ء کو سندھ میں گورنر راج لگادیا گیا، 5 دسمبر 1998ء کو کراچی میں فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔ 17 فروری 1999ء کو عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کو ختم کرنے کا اعلان اور سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس دوران نوازشریف نے 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویزمشرف کو کو برخاست کرکے جنرل ضیا الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنایا، لیکن فوج نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا اور نوازحکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
٭2002ء میں نئی کنگز پارٹی کا راج
اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے اسمبلیاں معطل کیں اور خود کو ملک کا 'چیف ایگزیکٹو' بناکر اقتدارپر قبضہ کرلیا۔ 20 جون 2001ء کو معطل اسمبلیاں تحلیل کیں اور صدر رفیق تارڑ کی جگہ خود صدر بن گئے۔ اس کے بعد 30 اپریل 2002 کو جنرل ضیا کی طرح صدارتی ریفرنڈم کرایا، جس میں کوئی بھی شناختی کارڈ دکھا کر ووٹ ڈال سکتا تھا۔ عمران خان نے پرویزمشرف کی پُرزور حمایت کی، جب کہ حزبِ اختلاف کے اتحاد 'اے آر ڈی' نے بائیکاٹ کیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 70 فی صد رائے دہندگان نے نے ووٹ ڈالے اور ان میں سے 98 فی صد نے صدر پرویزمشرف کے حق میں فیصلہ دیا۔ اسی برس 10 اکتوبر 2002ء کو بہ یک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے چناؤ ہوا، جس میں ووٹر کی عمر 21 سال سے کم کرکے 18سال کردی گئی۔ ان انتخابات میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ووٹنگ کی شرح تقریباً 42 فی صد رہی اور 'کنگز پارٹی' کے نام سے شہرت پانے والی مسلم لیگ (قائداعظم) نے قومی اسمبلی کی 118، پیپلزپارٹی نے 80، متحدہ مجلس عمل نے 59، مسلم لیگ (نواز) نے 18، ایم کیو ایم نے 17، نیشنل الائنس نے 16، مسلم لیگ (فنکشنل) نے 5، مسلم لیگ جونیجو نے 3، پی پی شیرپاؤ نے 2 اور باقی دیگر نے نشستیں حاصل کیں۔
ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' نے بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کیں۔ صوبہ پختونخوا میں تنہا، جب کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بھی بنائی۔ یہی نہیں اس اتحاد نے کراچی میں بھی پانچ نشستوں پر 'ایم کیو ایم' کو شکست دی۔ یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مذہبی جماعتوں کو اتنی نمایاں کام یابی حاصل ہوئی۔ اس انتخاب میں کراچی سے دو نشستیں پیپلزپارٹی اور ایک نشست ایم کیو ایم (حقیقی) نے بھی حاصل کی۔ یوں ایم کیو ایم نے کراچی میں پہلی بار آٹھ نشستیں ہاریں۔
اس انتخابات میں تحریک انصاف کے بانی اور چیئرمین عمران خان پہلی بار انتخاب جیت سکے۔ معلق پارلیمان میں حکومت سازی کے لیے طویل مذاکرات ہوئے، قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پیپلزپارٹی کے 10 ارکان نے 'پیپلزپارٹی (پیٹریاٹ) کے نام سے اپنا الگ گروپ بنالیا، جس میں فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، ڈاکٹر شیر افگن نیازی ودیگر شامل تھے۔ یوں 23 نومبر 2002ء کو میرظفراللہ خان جمالی وزیراعظم بن سکے۔ ان کے مقابل حزب اختلاف اپنا مشترکہ امیدوار تک نہ لاسکی، پیپلزپارٹی نے مخدوم امین فہیم، جب کہ متحدہ مجلس عمل نے مولانا فضل الرحمن کو نام زَد کیا۔ 26 جون 2004ء کو ظفر جمالی سے استعفا لے کر، 30 جون کو چوہدری شجاعت کو 'عارضی وزیراعظم' رکھا گیا، اس دوران شوکت عزیز کو تھرپارکر اور اٹک سے قومی اسمبلی کی نشست خالی کروا کے منتخب کرایا اور 20 اگست 2004ء کو انہیں وزیراعظم بنایا گیا۔
مارچ 2007ء میں پرویزمشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ ملک بھر کے وکلا چیف جسٹس کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے۔ اس احتجاج میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔ چیف جسٹس ریفرنس میں سرخرو ہوکر اپنے عہدے پر بحال ہوگئے، لیکن اس تحریک نے پرویزمشرف کے اقتدار کو کم زور کیا، اس دوران 3 نومبر 2007 ء کو پرویز مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے نیا عبوری حکم نامہ جاری کردیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ججوں کی بہت بڑی تعداد نے نیا حلف اٹھانے سے انکار کیا، نتیجتاً انہیں نظر بند کر دیا گیا۔
٭ 2008ء کے انتخابات
15نومبر 2007ء کو چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو نگراں وزیراعظم بنایا گیا، 8 جنوری 2008ء کو عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نوازشریف ملک واپس آگئے۔ 'آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' (اے پی ڈی ایم) کے نام سے قائم حزب اختلاف کے اتحاد نے پرویزمشرف کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، لیکن پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی (ف) نے اس فیصلے سے انحراف کیا، جب کہ تحریک انصاف، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، جماعتِ اسلامی ودیگر اس فیصلے پر قائم رہیں۔ انتخابی مہم کے دوران 27دسمبر 2007ء کو راول پنڈی میں بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا، جس کے بعد انتخابات 18 فروری2008ء کو ہوئے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 87، مسلم لیگ نواز نے 66، مسلم لیگ (ق) نے 38، ایم کیو ایم نے 19، عوامی نیشنل پارٹی نے 10 نشستیں حاصل کیں۔
24 مارچ 2008ء کو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے، انہیں 264، جب کہ ان کے مقابل چوہدری پرویز الٰہی 42 ارکان کے ووٹ لے سکے۔ پیپلزپارٹی نے وسیع تر مفاہمتی پالیسی کا نعرہ لگایا، مسلم لیگ (ن) بھی وفاقی کابینہ کا حصہ بنی۔ صدر پرویزمشرف کے مواخذے کی تحریک لانے کی کوششیں شروع ہوئیں، لیکن وہ 18 اگست 2008ء کو مستعفی ہوگئے اور پھر نومبر 2007ء سے معطل ججوں کی بحالی پر اختلاف کے بعد نواز لیگ نے حزب اختلاف کا راستہ لیا اور ججوں کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکلی۔ مارچ 2009ء میں حکومت کو سرنگوں ہونا پڑا اور افتخار چوہدری اور دیگر جج اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔ اس کے بعد تاریخ میں وہ دن بھی آیا کہ جس مسلم ق کو آصف زرداری نے 'قاتل لیگ' کہا تھا اسے پیپلز پارٹی نے اتحادی بنایا اور چوہدری پرویز الٰہی کو سنیئر وزیر بنا کر نائب وزیراعظم قرار دیا گیا۔
٭2013ء: اقتدار کا ہما پھر نوازشریف کے سر پر
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 126 نشستیں اپنے نام کیں، پیپلزپارٹی 33، تحریک انصاف 28، متحدہ قومی موومنٹ 19، جمعیت علمائے اسلام (ف) 11، مسلم لیگ (فنکشنل) 5، جماعت اسلامی 3 اور پاکستان مسلم لیگ (ق) 2 نشستیں حاصل کر سکی۔ تحریک انصاف پہلی بار ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ پی ٹی آئی نے نہ صرف خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی، بلکہ پنجاب اور کراچی میں بالخصوص بہت بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔
امیر جماعت اسلامی منور حسن نے پولنگ کے تین، چار گھنٹے کے بعد کراچی میں پولنگ کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا، تحریک انصاف کراچی میں دوسرے نمبر پر آئی، اس کا دعویٰ تھا کہ اسے دھاندلی کر کے شکست دی گئی، نتائج کے خلاف ایم کیو ایم کے مضبوط حلقوں میں بھی تحریک انصاف نے دھرنے دیے، لیکن فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شرح برقرار نہ رہ سکی۔ اپریل 2015ء میں حلقہ 246میں بھرپور مہم کے باوجود تحریک انصاف کو 70ہزار سے زائد ووٹوں کے بھاری فرق سے شکست ہوئی۔ دسمبر 2015ء کے بلدیاتی چناؤ میں کراچی بھر میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدواروں کے باوجود ایم کیو ایم نے میدان مار لیا۔ اسی طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بھی نواز لیگ کا پلڑا بھاری رہا۔
مسلمانوں کی 30 مخصوص نشستوں میں سے 17 نشستیں (56.67 فی صد)، وہ ہیں جو کبھی پاکستان کا حصہ نہ بنیں، ان میں یو پی کی چھے، بمبئی، بہار اور مدراس کی تین، تین، جب کہ آسام اور سی پی کی ایک، ایک نشست شامل ہے۔ یو پی سے منتخب ہونے والوں میں لیاقت علی خان، راجا امیر احمد خان آف محمود آباد، ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد، خان بہادر غضنفر اللہ خان، نواب محمد اسمعیٰل خان اور سر محمد یامین بہار سے خان بہادر حبیب الرحمن، عابد حسین اور محمد نعمان؛ بمبئی سے قائداعظم، ایم ایم قلعدار اور سیٹھ احمد ابراہیم جعفر؛ مدراس سے ایم رحمت اللہ، حاجی عبدالستار سیٹھ اور مولوی جمال الدین؛ جب کہ آسام اور 'سی پی' سے بالترتیب علی اصغر اور نواب صدیق علی خان شامل ہیں، جب کہ باقی 13 مسلم نشستیں (43.33 فی صد) جو نئی مملکت کے حصے میں آسکیں، ان میں بنگال اور پنجاب کی چھے، چھے اور سندھ کی ایک نشست شامل ہے۔
بنگال سے کام یاب ہونے والوں میں عبدالرحمٰن صدیقی، حسین شہید سہروردی، شیخ رفیع الدین صدیقی، شاہ عبدالحمید، چوہدری محمد اسمعٰیل خان، مولوی تمیز الدین خان؛ پنجاب سے سرخرو ہونے والوں میں مولانا ظفر علی خان، کیپٹن عابد حسین، حافظ محمد عبداللہ، شیر شاہ جیلانی، مولانا غلام بھیک نیرنگ، نواب شیر محمد شاہ؛ جب کہ سندھ کی مسلمان نشست سے سیٹھ یوسف عبداللہ ہارون فتح یاب ہوئے۔ پاکستان کی پہلی 69 رکنی قانون ساز اسمبلی انہی مسلم اور چند مقامی غیرمسلم نمائندوں کو ملا کر بنائی گئی۔ ان میں سے 44 کا تعلق مشرقی بنگال، 17 کا مغربی پنجاب، 4 کا سندھ، 3 کا صوبہ سرحد اور ایک کا کوئٹہ میونسپلٹی سے تھا۔
بدقسمتی سے ہمیں انتخابی تاریخ سے پہلے جاگیرداروں، اسٹیبلشمنٹ اور فوجی مداخلت کے سیاہ کارناموں سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ باقاعدہ پہلے عام انتخابات کی نوبت 23 برس بعد آسکی اور اس کے نتائج پر ہمارے غیرجمہوری رویوں نے ملک دو لخت کردیا، 1970ء کے پہلے عام انتخابات تک کے اہم انتخابی واقعات اور اس کے بعد سے 2013ء کو ہونے والے عام چناؤ کا مختصر جائزہ لیتے ہیں:
٭اولین صوبائی انتخابی دنگل
بٹوارے کے بعد مارچ 1951ء میں ہونے والے انتخابات کو ملک کا اولین چناؤ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دنگل پنجاب اسمبلی کا تھا، جس میں بے ضابطگیوں کے سبب 'جھرلو' کی اصطلاح سامنے آئی۔ 197 نشستوں کے اس انتخاب میں، 10 لاکھ ووٹروں کی انتخابی فہرست سے بھی صرف 30 فی صد نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ دسمبر 1951ء میں سرحد اور مئی 1953ء مین سندھ اسمبلی کے انتخابات میں 'مسلم لیگ' کو اکثریت حاصل ہوئی۔ اپریل 1954ء میں مشرقی پاکستان کے قوم پرست اتحاد 'جگتو فرنٹ' نے مسلم لیگ کو پہلی شکست سے دوچار کیا۔ 1956ء میں انتخابی اصلاحات کے لیے بننے والے سرکاری کمیشن نے بھی ان انتخابات میں خرابیوں کا اعتراف کیا۔
٭ملک غلام محمد کے سیاہ کارنامے
جمہوریت شکنی کے سیاہ باب میں تیسرے گورنر جنرل ملک غلام محمد کا نام سرفہرست ہے، جنہوں نے تین سیاہ فیصلے کیے، جن میں مارشل لا، منتخب اسمبلی توڑنا اور آرمی چیف کو کابینہ میں شامل کرنا شامل ہے۔ فروری 1953ء میں لاہور میں مذہبی فسادات کے دوران بے شمار جانیں تلف ہوئیں، حالات پر قابو پانے کے لیے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے چھے مارچ 1953ء کو لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کی سرکردگی میں لاہور میں تین ماہ کے لیے مارشل لا لگا دیا، خراب حالات کو جواز بناتے ہوئے غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو بھی برطرف کردیا اور امریکا میں متعین پاکستانی سفیر محمد علی بوگرہ کو نیا وزیراعظم بنایا۔ دستورسازی کی تاریخ میں 24 اکتوبر 1954ء کو ایک سیاہ ترین دن کی حیثیت حاصل ہے، جب گورنر جنرل ملک غلام محمد نے آمرانہ اقدام کرتے ہوئے ملک کی پہلی دستورساز اسمبلی تحلیل کرڈالی، جس سے دستورسازی کی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
یہی نہیں بلکہ کاروبار مملکت میں افسر شاہی کے کل پرزوں کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے بعد فوج کو باقاعدہ انتظامی امور میں ملوث کرنے کا واقعہ پیش آیا اور 25 اکتوبر 1954ء کو وزیراعظم محمد علی بوگرہ نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو باقاعدہ وزیردفاع کی صورت میں کابینہ میں شامل کرلیا۔ 14 اکتوبر 1955ء کو مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو مدغم کرکے 'ون یونٹ' قائم کردیا گیا۔ یہ 60 فی صد سے زاید آبادی کے حامل مشرقی پاکستان کے حقوق پر وار تھا، یہ تجویز 2 مارچ 1949ء کو فیروز خان نون نے پیش کی، جو مسترد کردی گئی، لیکن اب نوکر شاہی نے حالات موافق پاکر یہ منصوبہ نافذ کر دیا۔
٭ 1956ء کا دستور بغیر انتخابات کے دم توڑ گیا
صوبائی اسمبلیوں نے 1954ء کی دوسری مجلس قانون ساز تشکیل دی، جس نے 1956ء میں ملک کا پہلا دستور تیار کیا، جس کے بعد اسکندر مرزا گورنر جنرل سے صدر کے عہدے پر منتقل ہوئے، لیکن انتخابات کی نوبت نہ آنے دی گئی اور 7 اکتوبر 1958ء کو صدر اسکندر مرزا نے آئین منسوخ کردیا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی سرکردگی میں مارشل لا نافذ کردیا۔ 20 دن بعد ایوب خان، اسکندر مرزا کو رخصت کر کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے، ان کا اقتدار گیارہ برس تک رہا۔
٭ 1962ء کے صدارتی چناؤ کا ڈھکوسلہ
جنرل ایوب خان نے اقتدار میں آنے کے بعد 1962ء میں نیا دستور تشکیل دیا، جس کے تحت 2 جنوری 1965ء میں صدارتی انتخابات منعقد ہوئے۔ ایوب خان مسلم لیگ (کنونشن) جب کہ فاطمہ جناح پانچ جماعتی اتحاد 'کمبائینڈ اپوزیشن پارٹیز' کی مشترکہ امیدوار تھیں۔ یہ انتخابات 'بنیادی جمہوریت' کے انتخابات کہے جاتے ہیں ، کیوں کہ صدر کا چناؤ براہ راست عوام کے بہ جائے عوام کے منتخب 'بی ڈی' اراکین کو کرنا تھا۔ بی ڈی اراکین کا انتخاب 31 اکتوبر 1964ء کو شروع ہوا۔ بھرپور کوششوں کے باوجود ایوب خان مشرقی پاکستان اور کراچی میں میدان اپنے نام کرنے میں ناکام رہے۔ صدارتی انتخاب کے نتائج کے مطابق ایوب خان 49 ہزار 951، جب کہ فاطمہ جناح 28 ہزار 691 بی ڈی اراکین کی حمایت لے سکیں، یوں ایوب خان فاتح قرار دیے گئے اور پھر 25 مارچ 1969ء کو 'ہائے ہائے' کے نعروں کی گونج میں مستعفی ہوئے۔
٭ دسمبر 1970: ملک کے پہلے عام انتخابات
جنرل یحییٰ خان نے اپنے پیش رو کا دستور منسوخ کرکے دوبارہ مارشل لا لگا دیا، جس کے بعد بے دستور ملک کے پہلے عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ 7 دسمبر کو قومی اور 17 دسمبر 1970ء کو صوبائی اسمبلی کے اراکین منتخب کیے گئے۔ ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر ہونے والے پہلے چناؤ ہوئے، جس میں 24 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ 21 برس سے زائد عمر کے پانچ کروڑ 70 لاکھ ووٹروں کی فہرستیں بنیں، حلقہ بندیاں کی گئیں۔ 300 میں سے 162 نشستیں مشرقی پاکستان کے لیے اور 138مغربی پاکستان کے لیے مختص کی گئیں۔
عوامی لیگ نے سب سے زیادہ 170 امیدوار کھڑے کیے، جن میں سے 162 مشرقی پاکستان سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ جماعتِ اسلامی نے 155، خان عبد القیوم خان کی مسلم لیگ نے 133، کنونشن مسلم لیگ نے 124 اور کونسل مسلم لیگ نے 119 امیدوار کھڑے کیے، جب کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلزپارٹی نے 120 امیدواروں کو ٹکٹ دیے، مشرقی پاکستان سے پیپلزپارٹی کا ایک بھی امیدوار نہیں کھڑا ہوا۔ جب نتائج آئے تو مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے دو کے سوا تمام نشستیں جیت لیں، مغربی پاکستان کی نشستوں میں 138 پیپلزپارٹی، 8 قیوم لیگ، 9کونسل لیگ، کنونشن لیگ کی 2 جماعت اسلامی کی 4 پاکستان جمہوری پارٹی کی ایک نشست تھی۔ بدقسمتی سے واضح اکثریت لینے کے باوجود عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا گیا۔
جب نومنتخب قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا گیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے دھمکی دی کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے ارکان کی ٹانگیں توڑ دیں گے، چناں چہ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا گیا، جس پر مشرقی پاکستان میں بغاوت کا اعلان کردیا گیا۔ 23 مارچ کو بنگلادیش کے پرچم لہرا دیے گئے اور عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن نے مسلح دستوں سے سلامی لی، اس کے خلاف شدید فوجی کارروائی عمل میں لائی گئی، جس پر 26 مارچ 1971ء کو بھٹو نے کہا 'خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے!' لیکن طویل خوں آشامی کے بعد مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ اس کے بعد ذوالفقار بھٹو باقی ماندہ پاکستان کے صدربنے، 1973ء میں نیا دستور نافذ ہوا اور ذوالفقار بھٹو وزیراعظم قرار پائے۔
٭ 1977ء: قبل ازوقت چناؤ جمہوریت نگلنے کا بہانہ بنا!
پارلیمان کی پانچ سالہ مدت باقی تھی، لیکن وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قبل ازوقت انتخابات کا ڈول ڈالا اور اعلان کردیا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات 7 مارچ، جب کہ صوبائی اسمبلیوں کے 10مارچ کو ہوں گے۔ پیپلزپارٹی کے مقابلے پر حزبِ اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں نے پاکستان قومی اتحاد بنالیا۔ قومی اتحاد نے بلوچستان میں جاری فوجی آپریشن کے خلاف بطور احتجاج صوبے میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ حکم راں پیپلزپارٹی کے 19امیدواروں بشمول وزیر اعظم کے بلامقابلہ انتخاب سمیت کل 155 امیدوار جیتے، جب کہ قومی اتحاد کے 36، قیوم لیگ کا ایک رکن منتخب ہوا۔ حکومت کے مطابق ٹرن آؤٹ 63 فی صد رہا۔ 'قومی اتحاد' نے 10مارچ کے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا اور مختلف شہروں میں حکومت کے خلاف بھرپور تحریک شروع ہوگئی، جس کے خلاف اپریل 1977ء میں کراچیِ، حیدرآباد اور لاہور میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ اس دوران 28 مارچ 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے دوسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیا۔
حزب اختلاف کے مظاہروں کے خلاف ریاستی طاقت کے استعمال میں خاصی خوں ریزی ہوئی، جولائی کے پہلے ہفتے میں 'پی این اے' اور بھٹو حکومت میں سمجھوتے پر دستخط ہونے والے تھے کہ اکتوبر میں ایک نمائندہ عبوری حکومت کے تحت دوبارہ انتخابات کرائے جائیں گے، لیکن 5جولائی 1977ء کی صبح جنرل ضیا الحق نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ 27 جولائی کو جنرل ضیا نے قوم سے خطاب میں اکتوبر 1977ء میں عام انتخابات کا اعلان کردیا، جس کے تحت سیاسی سرگرمیاں بھی شروع ہوگئیں، لیکن 30 اگست 1977ء کو ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے ''پہلے احتساب پھر انتخاب'' کا نعرہ لگایا، جب کہ شیر باز مزاری اور مشیر احمد پیش امام نے ایک مشترکہ بیان میں بھٹو کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ 3 ستمبر 1977ء کو بھٹو کو گرفتار کرلیا گیا۔
19 ستمبر کے اخبارات میں جنرل ضیا کے انٹرویو کے یہ الفاظ شایع ہوئے کہ 'آئین کیا چیز ہے، یہ دس، بارہ صفحوں کا ایک کتابچہ ہے تو میں جب چاہوں اسے پھاڑ کر پھینک سکتا ہوں۔'' اس کے بعد یکم اکتوبر کو انتخابات ملتوی کر دیے۔ 10 اکتوبر 1977ء کو سپریم کورٹ نے بیگم نصرت بھٹو کی آئینی درخواست پر مارشل لا کو جائز قرار دے دیا گیا۔ 16 ستمبر 1978ء کو ضیا الحق صدر بھی بنے، اس کے بعد ان کی 22 رکنی کابینہ بھی بنی، جس میں جمہوریت کے نام لیوا کئی سیاست داں شامل تھے۔
٭ 1985ء: 'آزاد' امیدواروں کی 'پابند' مقننہ بنی
جنرل ضیا الحق نے 19 دسمبر 1984ء کو ملک میں صدارتی ریفرنڈم کرایا، حزبِ اختلاف کے اتحاد 'ایم آر ڈی' نے اس کا مکمل بائیکاٹ کیا۔ سرکاری نتائج میں 97 فی صد ووٹ صدر ضیا الحق کے حق میں پڑے۔ ریفرنڈم کے بعد صدر نے اعلان کیا کہ قومی اور صوبائی انتخابات بالترتیب 25 اور 28 فروری 1985کو منعقد ہوں گے۔ 'ایم آر ڈی' نے اِن انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا۔ اس کے باوجود ووٹروں کی اچھی خاصی تعداد نے حصہ لیا۔
سرکاری طور پر قومی اسمبلی کے لیے پڑنے والے ووٹوں کی شرح تقریباً 54 اور صوبائی پولنگ کی شرح 57 فی صد سے زائد رہی۔ اس پارلیمان میں اس مسلم لیگ کا جنم ہوا، جس سے کئی مسلم لیگیں وجود میں آئیں۔ اسی اسمبلی نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے ضیا الحق کے تمام مارشل لا احکامات کو آئینی تحفظ دیا اور انہیں پارلیمان اور حکومت کو ختم کرنے کے صوابدیدی اختیارات بھی دے دیے۔ 29 مئی 1988ء کو وزیراعظم محمد خان جونیجو کو دورۂ چین سے واپسی کے دوران برطرف کر دیا، پھر 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاالحق ایک فضائی حادثے کی نذر ہوگئے، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ غلام اسحق خان نے صدر کا عہدہ سنبھالا۔
٭ نومبر 1988ء: پاکستان پیپلزپارٹی کی اقتدار میں واپسی
صدر بننے کے بعد اسحٰق خان نے آئندہ انتخابات سیاسی بنیادوں پر کرانے کا اعلان کیا، یوں 16 نومبر 1988ء کو قومی اور 19نومبر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے، جس میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے 'اسلامی جمہوری اتحاد' (آئی جے آئی) سامنے آیا۔ بعدازاں یہ حقیقت سامنے آئی کے آئی جے آئی خفیہ اداروں کی کارستانی تھا، جس کے قیام کا مقصد پیپلزپارٹی کا راستہ روکنا تھا۔ پیپلزپارٹی کے مقابل پیر پگارا، مصطفیٰ جتوئی، اصغر خان، غوث علی شاہ، ممتاز بھٹو، غوث بخش بزنجو، الٰہی بخش سومرو وغیرہ نے شکست کھائی، اس کے باوجود پیپلزپارٹی کو دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکی اور اس نے 92 نشستیں اپنے نام کیں، جب کہ 'آئی جے آئی' نے 54نشستوں پر میدان مارا۔
حق پرست گروپ (ایم کیو ایم) 13، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو سات اور پاکستان عوامی اتحاد کو تین نشستیں ملیں۔ ووٹنگ کی شرح 43 فی صد بتائی گئی۔ 2دسمبر 1988ء کو بے نظیر بھٹو نے ایم کیو ایم، فاٹا ارکان اور کچھ آزاد امیدواروں کی مدد سے وزیراعظم بنیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کے بعد صوبائی چناؤ سے ایک دن پہلے 18 نومبر کو پنجاب کے اخبارات میں 'جاگ پنجابی جاگ' تیری پگ نوں لگ گیا داغ' کا اشتہار شایع ہوا، جس نے نوازشریف کے حق میں رائے عامہ ہم وار کی۔ 13 دسمبر 1988ء کو نواب زادہ نصراللہ خان کے مقابلے میں جنرل ضیا کے دستِ راست غلام اسحاق خان پیپلزپارٹی اور 'آئی جے آئی' کے مشترکہ امیدوار کے طور پر پانچ برس کی مدت کے لیے صدر منتخب ہوئے۔
کچھ عرصے بعد ہی حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوگئی۔ 26 جنوری 1990ء کو کراچی میں ایم کیو ایم کی میزبانی میں بے نظیر کے خلاف حزب اختلاف کا ایک بڑا جلسہ ہوا، جس سے نواز شریف، الطاف حسین، نوابزادہ نصراللہ خان، ولی خان، غلام مصطفیٰ جتوئی، پروفیسر غفور، مولانا سمیع الحق ودیگر نے خطاب کیا۔ 6 اگست 1990ء کو 'نوائے وقت' میں یہ خبر شایع ہوئی کہ آج صدر مملکت کسی بھی وقت اسمبلیاں توڑ دیں گے، شام پانچ بجے صدر اسحٰق خان نے ایک پریس کانفرنس میں بے نظیر حکومت کو بدعنوانی اور نااہلی کا مرتکب قرار دے کر برخاست کردیا۔
٭ 1990ء: نوازشریف کو اقتدار ملا
بے نظیر کی برطرفی کے بعد 24 اکتوبر کو قومی اور 27 اکتوبر 1990ء کو صوبائی مقننہ کا چناؤ ہوا، جس میں 'اسلامی جمہوری اتحاد' کو قومی اسمبلی کی 106 اور 'پاکستان ڈیموکریٹک الائنس' (پی ڈی اے) (جس میں پیپلزپارٹی کے ساتھ تحریک استقلال، تحریک نفاذِ فقہ جعفریہ، مسلم لیگ (قاسم) شامل تھیں) کو 44 نشستیں ملیں۔ ووٹنگ کی شرح تقریباً 46 فی صد بتائی گئی۔ وزارت عظمیٰ کے لیے نوازشریف کو 152 اور 'پی ڈی اے' کے محمد افضل خان کو 39 ووٹ ملے، 6 نومبر 1990ء کو نوازشریف نے پہلی بار وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا۔ 18 مارچ 1993ء کو محمد خان جونیجو وفات پاگئے، جس کے بعد نوازشریف نے خود کو مسلم لیگ کا صدر منتخب کرالیا۔
دوسری طرف نئے آرمی چیف کی تقرری پر نوازشریف اور صدر اسحٰق کے اختلافات شروع ہوئے، 17 اپریل 1993ء کو نواز شریف نے قوم سے خطاب میں اعلان کیا کہ ڈکٹیشن نہیں لوں گا، اگلے روز 18 اپریل 1993ء کو صدر اسحٰق خان نے قوم سے خطاب میں حکومت کو برطرف کرنے کا اعلان کیا، میر بلخ شیر مزاری کو نگراں وزیراعظم نام زد کردیا 14 جولائی کو چناؤ کا اعلان کیا۔ نگراں حکومت میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہوئی اور آصف زرداری سمیت پیپلزپارٹی کے کئی وزرا بنے۔ نوازشریف نے اپنی برطرفی کو صدر کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلینج کردیا۔ سپریم کورٹ نے 14 مئی 1993ء کو غلام اسحاق خان کے اقدام کو غیرآئینی قرار دے کر نوازحکومت بحال کردی۔ اس کے بعد بے نظیر نے نئے چناؤ نہ کرانے پر لانگ مارچ کی دھمکی دی۔ جنرل وحید کاکڑ نے مداخلت کی، جس کے مطابق نوازشریف نے صدر اسحٰق کو ایڈوائس دی اور اسحٰق خان نے حسب مذاکرات اسمبلیاں توڑ کر استعفا دے دیا۔
٭ 1993میں بے نظیر کا دوسرا دور
6 اکتوبر کو قومی اور 9 اکتوبر 1993ء کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے۔ پیپلزپارٹی کو 86 اور نوازلیگ کو 73، پاکستان پیپلزپارٹی کو 89، اسلامی جمہوری محاذ کو4 جونیجو لیگ کو 6 اور اے این پی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کو تین، تین نشستیں ملیں۔ 'ایم کیو ایم' نے اپنے خلاف ریاستی آپریشن کو جواز بناکر قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، جب کہ تحفظات دور ہونے کے بعد صوبائی چناؤ میں حصہ لیا۔ 24 مئی 1993ء کو قاضی حسین احمد نے انتخابات لڑنے کے لیے 'پاکستان اسلامک فرنٹ' بنایا، جس کا انتخابی نشان 'کار' تھا۔ فرنٹ صرف تین نشستیں لے سکا، 19 اکتوبر 1993ء کو قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لیے بے نظیر نے 121 ووٹ لے کر دوسری بار وزیراعظم بن گئیں، ان کے مقابل نوازشریف صرف 71 ارکان کے ووٹ لے سکے۔ 5 دسمبر 1993ء کو نصرت بھٹو کو پارٹی کی شریک چیئرپرسن کے عہدے سے ہٹا کر بے نظیر نے خود کو پیپلزپارٹی کا چیئر پرسن بنالیا۔
کراچی کی بے امنی اور 20 ستمبر 1996ء کو مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد بحران پیدا ہونے لگا۔ 27 اکتوبر 1996ء کو جماعت اسلامی نے حکومت کے خلاف دھرنا دیا، جس کے پرتشدد واقعات کے کچھ دن بعد ہی پانچ نومبر 1996ء کو فاروق لغاری نے اسمبلیاں برخاست کردیں اور ملک معراج خالد کو نگراں وزیرِاعظم بنادیا گیا۔ بے نظیر نے بھی اس قدم کے خلاف عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا، مگر 11 نومبر کو حکومت کی برطرفی درست قرار دے دی گئی۔
٭1997ء میں نوازلیگ کی دو تہائی اکثریت
تین فروری 1993ء کو ملک میں پہلی بار قومی وصوبائی اسمبلی کے انتخابات بہ یک وقت منعقد ہوئے۔ مسلم لیگ نواز 137 پیپلزپارٹی 18، ایم کیو ایم 12 اور اے این پی 9 نشستیں حاصل کر سکیں، جماعت اسلامی نے بائیکاٹ کیا۔ ووٹنگ کی شرح 36 فی صد رہی۔ قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کے لیے نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے آفتاب شعبان میرانی کے مقابلے میں ایوان کا اعتماد حاصل کیا اور دوسری مرتبہ وزیراعظم بن گئے، جس کے بعد انہوں نے صدر کے اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کیا، جس پر پیپلزپارٹی نے بھی ساتھ دیا۔ اس کے بعد آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کو نیشنل سیکیوریٹی کونسل کی تجویز دینے پر عہدے سے ہٹایا۔
عدالتی بحران بھی پیدا ہوا، جس میں جج دو حصوں میں بٹ گئے، سماعت کے دوران لیگی کارکنوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کردیا۔ کراچی میں حکیم محمد سعید کے قتل کو جواز بنا کر 30 اکتوبر 1998ء کو سندھ میں گورنر راج لگادیا گیا، 5 دسمبر 1998ء کو کراچی میں فوجی عدالتیں قائم کردی گئیں۔ 17 فروری 1999ء کو عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کو ختم کرنے کا اعلان اور سزاؤں کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس دوران نوازشریف نے 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویزمشرف کو کو برخاست کرکے جنرل ضیا الدین بٹ کو نیا آرمی چیف بنایا، لیکن فوج نے اس حکم کو ماننے سے انکار کیا اور نوازحکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
٭2002ء میں نئی کنگز پارٹی کا راج
اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل پرویزمشرف نے اسمبلیاں معطل کیں اور خود کو ملک کا 'چیف ایگزیکٹو' بناکر اقتدارپر قبضہ کرلیا۔ 20 جون 2001ء کو معطل اسمبلیاں تحلیل کیں اور صدر رفیق تارڑ کی جگہ خود صدر بن گئے۔ اس کے بعد 30 اپریل 2002 کو جنرل ضیا کی طرح صدارتی ریفرنڈم کرایا، جس میں کوئی بھی شناختی کارڈ دکھا کر ووٹ ڈال سکتا تھا۔ عمران خان نے پرویزمشرف کی پُرزور حمایت کی، جب کہ حزبِ اختلاف کے اتحاد 'اے آر ڈی' نے بائیکاٹ کیا۔
الیکشن کمیشن کے مطابق 70 فی صد رائے دہندگان نے نے ووٹ ڈالے اور ان میں سے 98 فی صد نے صدر پرویزمشرف کے حق میں فیصلہ دیا۔ اسی برس 10 اکتوبر 2002ء کو بہ یک وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے چناؤ ہوا، جس میں ووٹر کی عمر 21 سال سے کم کرکے 18سال کردی گئی۔ ان انتخابات میں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ووٹنگ کی شرح تقریباً 42 فی صد رہی اور 'کنگز پارٹی' کے نام سے شہرت پانے والی مسلم لیگ (قائداعظم) نے قومی اسمبلی کی 118، پیپلزپارٹی نے 80، متحدہ مجلس عمل نے 59، مسلم لیگ (نواز) نے 18، ایم کیو ایم نے 17، نیشنل الائنس نے 16، مسلم لیگ (فنکشنل) نے 5، مسلم لیگ جونیجو نے 3، پی پی شیرپاؤ نے 2 اور باقی دیگر نے نشستیں حاصل کیں۔
ان انتخابات میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' نے بڑی تعداد میں نشستیں حاصل کیں۔ صوبہ پختونخوا میں تنہا، جب کہ بلوچستان میں مخلوط حکومت بھی بنائی۔ یہی نہیں اس اتحاد نے کراچی میں بھی پانچ نشستوں پر 'ایم کیو ایم' کو شکست دی۔ یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مذہبی جماعتوں کو اتنی نمایاں کام یابی حاصل ہوئی۔ اس انتخاب میں کراچی سے دو نشستیں پیپلزپارٹی اور ایک نشست ایم کیو ایم (حقیقی) نے بھی حاصل کی۔ یوں ایم کیو ایم نے کراچی میں پہلی بار آٹھ نشستیں ہاریں۔
اس انتخابات میں تحریک انصاف کے بانی اور چیئرمین عمران خان پہلی بار انتخاب جیت سکے۔ معلق پارلیمان میں حکومت سازی کے لیے طویل مذاکرات ہوئے، قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل پیپلزپارٹی کے 10 ارکان نے 'پیپلزپارٹی (پیٹریاٹ) کے نام سے اپنا الگ گروپ بنالیا، جس میں فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اقبال، ڈاکٹر شیر افگن نیازی ودیگر شامل تھے۔ یوں 23 نومبر 2002ء کو میرظفراللہ خان جمالی وزیراعظم بن سکے۔ ان کے مقابل حزب اختلاف اپنا مشترکہ امیدوار تک نہ لاسکی، پیپلزپارٹی نے مخدوم امین فہیم، جب کہ متحدہ مجلس عمل نے مولانا فضل الرحمن کو نام زَد کیا۔ 26 جون 2004ء کو ظفر جمالی سے استعفا لے کر، 30 جون کو چوہدری شجاعت کو 'عارضی وزیراعظم' رکھا گیا، اس دوران شوکت عزیز کو تھرپارکر اور اٹک سے قومی اسمبلی کی نشست خالی کروا کے منتخب کرایا اور 20 اگست 2004ء کو انہیں وزیراعظم بنایا گیا۔
مارچ 2007ء میں پرویزمشرف نے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف ریفرنس دائر کیا۔ ملک بھر کے وکلا چیف جسٹس کی حمایت میں سڑکوں پر آگئے۔ اس احتجاج میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہوگئیں۔ چیف جسٹس ریفرنس میں سرخرو ہوکر اپنے عہدے پر بحال ہوگئے، لیکن اس تحریک نے پرویزمشرف کے اقتدار کو کم زور کیا، اس دوران 3 نومبر 2007 ء کو پرویز مشرف نے ملک میں ہنگامی حالت کا نفاذ کرتے ہوئے نیا عبوری حکم نامہ جاری کردیا۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت ججوں کی بہت بڑی تعداد نے نیا حلف اٹھانے سے انکار کیا، نتیجتاً انہیں نظر بند کر دیا گیا۔
٭ 2008ء کے انتخابات
15نومبر 2007ء کو چیئرمین سینیٹ محمد میاں سومرو کو نگراں وزیراعظم بنایا گیا، 8 جنوری 2008ء کو عام انتخابات کا اعلان ہوا۔ اس سے قبل سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نوازشریف ملک واپس آگئے۔ 'آل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ' (اے پی ڈی ایم) کے نام سے قائم حزب اختلاف کے اتحاد نے پرویزمشرف کی موجودگی میں کسی بھی انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، لیکن پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی (ف) نے اس فیصلے سے انحراف کیا، جب کہ تحریک انصاف، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، جماعتِ اسلامی ودیگر اس فیصلے پر قائم رہیں۔ انتخابی مہم کے دوران 27دسمبر 2007ء کو راول پنڈی میں بے نظیر بھٹو کو قتل کر دیا گیا، جس کے بعد انتخابات 18 فروری2008ء کو ہوئے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی نے 87، مسلم لیگ نواز نے 66، مسلم لیگ (ق) نے 38، ایم کیو ایم نے 19، عوامی نیشنل پارٹی نے 10 نشستیں حاصل کیں۔
24 مارچ 2008ء کو یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے، انہیں 264، جب کہ ان کے مقابل چوہدری پرویز الٰہی 42 ارکان کے ووٹ لے سکے۔ پیپلزپارٹی نے وسیع تر مفاہمتی پالیسی کا نعرہ لگایا، مسلم لیگ (ن) بھی وفاقی کابینہ کا حصہ بنی۔ صدر پرویزمشرف کے مواخذے کی تحریک لانے کی کوششیں شروع ہوئیں، لیکن وہ 18 اگست 2008ء کو مستعفی ہوگئے اور پھر نومبر 2007ء سے معطل ججوں کی بحالی پر اختلاف کے بعد نواز لیگ نے حزب اختلاف کا راستہ لیا اور ججوں کی بحالی کے لیے سڑکوں پر نکلی۔ مارچ 2009ء میں حکومت کو سرنگوں ہونا پڑا اور افتخار چوہدری اور دیگر جج اپنے عہدے پر بحال ہوگئے۔ اس کے بعد تاریخ میں وہ دن بھی آیا کہ جس مسلم ق کو آصف زرداری نے 'قاتل لیگ' کہا تھا اسے پیپلز پارٹی نے اتحادی بنایا اور چوہدری پرویز الٰہی کو سنیئر وزیر بنا کر نائب وزیراعظم قرار دیا گیا۔
٭2013ء: اقتدار کا ہما پھر نوازشریف کے سر پر
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے 126 نشستیں اپنے نام کیں، پیپلزپارٹی 33، تحریک انصاف 28، متحدہ قومی موومنٹ 19، جمعیت علمائے اسلام (ف) 11، مسلم لیگ (فنکشنل) 5، جماعت اسلامی 3 اور پاکستان مسلم لیگ (ق) 2 نشستیں حاصل کر سکی۔ تحریک انصاف پہلی بار ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی۔ پی ٹی آئی نے نہ صرف خیبر پختونخوا میں حکومت بنائی، بلکہ پنجاب اور کراچی میں بالخصوص بہت بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے۔
امیر جماعت اسلامی منور حسن نے پولنگ کے تین، چار گھنٹے کے بعد کراچی میں پولنگ کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا، تحریک انصاف کراچی میں دوسرے نمبر پر آئی، اس کا دعویٰ تھا کہ اسے دھاندلی کر کے شکست دی گئی، نتائج کے خلاف ایم کیو ایم کے مضبوط حلقوں میں بھی تحریک انصاف نے دھرنے دیے، لیکن فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی شرح برقرار نہ رہ سکی۔ اپریل 2015ء میں حلقہ 246میں بھرپور مہم کے باوجود تحریک انصاف کو 70ہزار سے زائد ووٹوں کے بھاری فرق سے شکست ہوئی۔ دسمبر 2015ء کے بلدیاتی چناؤ میں کراچی بھر میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مشترکہ امیدواروں کے باوجود ایم کیو ایم نے میدان مار لیا۔ اسی طرح پنجاب کے ضمنی انتخابات میں بھی نواز لیگ کا پلڑا بھاری رہا۔