اعمالِ صالح کا معیار

جو بھی معاشرتی اور معاشی میدانِ عمل چُن رکھے ہیں اگر ان میں ایمان، عملِ نیک اور صبر شامل نہیں تو ہم خسارے میں ہیں


فرحت علی بیگ July 06, 2018
جو بھی معاشرتی اور معاشی میدانِ عمل چُن رکھے ہیں اگر ان میں ایمان، عملِ نیک اور صبر شامل نہیں تو ہم خسارے میں ہیں۔ فوٹو : فائل

سورۂ عصر میں یہ عمومی اصول اﷲ تعالی نے طے فرما دیا ہے کہ تمام انسان خسارے میں ہیں، مگر وہ لوگ ان میں شامل نہیں ہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، حق بات کی تلقین کرتے رہے اور صبر کرتے رہے۔ طے ہوا کہ ہم تمام انسانوں نے اپنی سوچ کے تحت اپنی زندگی کے لیے، جو بھی معاشرتی اور معاشی میدانِ عمل چُن رکھے ہیں اگر ان میں ایمان، عملِ نیک اور صبر شامل نہیں ہے تو ہم خسارے میں ہیں۔ اعمال ہی وہ بنیاد ہیں جن کی بناء پر ہمیں آخرت میں کام یابی مل سکتی ہے۔

سورہ النساء آیت 123اور124کا مفہوم : '' (نجات) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص بُرے عمل کرے گا اُسے اُسی (طرح) کا بدلہ دیا جائے گا اور وہ اﷲ کے سوا نہ کسی کو حمایتی پائے گا اور نہ مددگار۔ اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ِ ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی تِل برابر بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔''

سورہ کہف آیت46 کا مفہوم : '' اور نیکیاں جو باقی رہ جانے والی ہیں، وہ ثواب کے لحاظ سے تمہارے اﷲ کے نزدیک بہتر ہیں اور امید کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں۔''

سورہ صافات آیات50 تا 62 کا مفہوم : '' پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے سوال (و جواب) کریں گے۔ ایک کہنے والا ان میں سے کہے گا کہ میرا ایک ہم نشین تھا۔ (جو) کہتا تھا کہ بھلا تم بھی ایسی باتوں کے باور کرنے والوں میں ہو ؟ بھلا جب ہم مرگئے اور مٹی اور ہڈیاں ہوگئے تو کیا ہم کو بدلہ ملے گا؟ (پھر) کہے گا کہ بھلا تم (اسے) جھانک کر دیکھنا چاہتے ہو؟ (اتنے میں) وہ (خود) جھانکے گا اور اس کو وسط دوزخ میں دیکھے گا۔ کہے گا کہ اﷲ کی قسم! تُو تو مجھے ہلاک کر ہی چکا تھا۔ اور اگر میرے پروردگار کی مہربانی نہ ہوتی تو میں بھی ان میں ہوتا جو (عذاب میں) حاضر کیے گئے ہیں۔ کیا (یہ نہیں کہ) ہم (آئندہ کبھی) مرنے کے نہیں۔ ہاں (جو) پہلی بار مرنا (تھا سو مرچکے) اور ہمیں عذاب بھی نہیں۔ بے شک یہ بڑی کام یابی ہے۔ ایسی ہی (نعمتوں) کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنے چاہییں۔ بھلا یہ مہمانی اچھی ہے یا تھوہر کا درخت۔''

سورہ فاطر آیت37 کا مفہوم : '' وہ اس میں چلّائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے (اب) ہم نیک عمل کیا کریں گے نہ وہ جو (پہلے) کرتے تھے، کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تو اب مزے چکھو، ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔''

سورہ زلزلہ آیات 6 تا 8 کا مفہوم : '' اس دن لوگ گروہ گروہ ہوکر آئیں گے اور ان کو ان کے اعمال دکھا دیے جائیں گے، تو جس نے ذرہ بھر بھی نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی بھی کی ہوئی ہوگی وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔''

سورہ جاثیہ آیت15 کا مفہوم : '' جو کوئی نیک عمل کرے گا تو اپنے لیے اور جو بُرے کام کرے گا تو ان کا ضرر اسی کو ہوگا، پھر تم اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔''

سورہ نجم آیت39 کا مفہوم : '' اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔'' کئی لوگ اﷲ تعالی کی رحمت سے مایوسی میں کہتے ہیں کہ شاید اﷲ ہمیں معاف نہیں کرے گا، تو انہیں جان لینا چاہیے کہ اﷲ تعالی نے سورہ رحمن آیت 60 میں ارشاد فرمایا ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان تو خالصتا ً نیکی کرے اور اﷲ تعالی اسے عذاب دے۔

سورہ نمل آیت11کا مفہوم : '' ہاں جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد اسے نیکی سے بدل دیا تو میں بخشنے والا مہربان ہوں۔''

سورہ ملک آیت2 کا مفہوم : '' اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں اچھے عمل کرنے والا کون ہے ؟ وہ زبردست اور بخشنے والا ہے۔''

آئیے اب یوم ِ قیامت انسانوں کی حسرتوں کا جائزہ لیتے ہیں جو خود اﷲ تعالی نے قرآن مجید میں بیان کی ہیں۔

سورہ نبا آیات نمبر 38 تا 40 کا مفہوم : '' جس دن روح (الامین) اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو (اﷲ) الرحمن اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو۔ یہ دن برحق ہے پس جو شخص چاہے اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنائے۔ ہم نے تم کو عذاب سے جو عن قریب آنے والا ہے آگاہ کر دیا ہے، جس دن ہر شخص ان (اعمال) کو جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے دیکھ لے گا اور کافر کہے گا کہ اے کاش! میں مٹی ہوتا۔''

سورہ فجر آیات :21 تا 24 کا مفہوم : '' تو جب زمین کی بلندی کوٹ کوٹ کر پست کر دی جائے گی۔ اور تمہارا پروردگار (جلوہ فرما ہوگا) اور فرشتے قطار باندھ کر آموجود ہوں گے۔ اور دوزخ اس دن حاضر کی جائے گی تو انسان اس دن متنبہ ہوگا مگر تنبیہ (سے) اسے (فائدہ) کہاں (مل سکے گا)۔ کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی (جاودانی کے لیے) کچھ آگے بھیجا ہوتا۔''

سورہ حاقہ آیات19 تا 29 کا مفہوم : '' تو جس کا (اعمال) نامہ اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (دوسروں سے) کہے گا کہ لیجیے میرا اعمال نامہ پڑھیے۔ مجھے یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب (کتاب) ضرور ملے گا۔ پس وہ (شخص) من مانے عیش میں ہو گا۔ (یعنی) اونچے (اونچے محلوں کے) باغ میں۔ جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے۔ جو (عمل) تم ایام گزشتہ میں آگے بھیج چکے ہو اس کے صلے میں مزے سے کھاؤ اور پیو۔ اور جس کا نامہ (اعمال) اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ کہے گا، اے کاش مجھ کو میرا (اعمال) نامہ نہ دیا جاتا۔ اور مجھے معلوم نہ ہوتا کہ میرا حساب کیا ہے؟ اے کاش موت ( ہمیشہ کے لیے میرا کام) تمام کرچکی ہوتی۔ (آج ) میرا مال میرے کچھ بھی کام نہ آیا۔ (ہائے) میری سلطنت خاک میں مل گئی۔''

سورہ فرقان، آیات نمبر 25 تا 30 کا مفہوم : '' اور جس دن آسمان ابر کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتے نازل کیے جائیں گے ۔ اس دن سچی بادشاہی اﷲ ہی کی ہوگی اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل ہوگا۔ اور جس دن (عاقبت نا اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا۔ ہائے شامت کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھ کو (کتابِ) نصیحت کے میرے پاس آنے کے بعد بہکا دیا اور شیطان انسان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔ اور پیغمبر کہیں گے کہ اے اﷲ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔''

بہ نظر ِ عمیق اگر ان حسرتوں کا موازنہ کریں تو واضح ہوتا ہے کہ انسان اس وقت اپنے اچھے اعمال نہ کرنے کی روش پر ماتم کناں ہوگا مگر اس وقت اچھے اعمال کرنے کی مہلت ختم ہوچکی ہوگی۔

سورہ انعام، آیت 132کا مفہوم : '' اور سب لوگوں کے بہ درجۂ اعمال درجے مقرر ہیں۔''

سورہ اعراف، آیت8 کا مفہوم : '' اور اس روز اعمال کا تُلنا برحق ہے اور اس روز جن کے اعمال بھاری ہوں گے وہ تو کام یاب ہوں گے۔''

سورہ کہف، آیات 103تا 105 کا مفہوم : '' کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں کہ جو عملوں کے لحاظ سے بڑے خسارے میں ہیں، وہ وہ لوگ ہیں جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی اور وہ سمجھے ہوئے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضایع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن ان کے اعمال کا کچھ بھی وزن قایم نہیں کریں گے۔''

سورہ قیامہ، آیات20 تا 21 کا مفہوم : '' مگر تم لوگ دنیا کو دوست رکھتے ہو اور آخرت کو ترک کیے دیتے ہو۔''

سورہ اعلی، آیات16تا 17 کا مفہوم : '' مگر تم لوگ دنیا کی زندگی اختیار کرتے ہو حالاں کہ آخرت بہت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔''

سورہ دہر، آیات 5 تا 12کا مفہوم : '' جو نیکوکار ہیں وہ ایسے جام نوش جان کریں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی۔ یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے اﷲ کے بندے پئیں گے اور اس میں سے (چھوٹی چھوٹی) نہریں نکال لیں گے۔ یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں۔ اور باوجود یہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔ (اور کہتے ہیں) کہ ہم تم کو خالص اﷲ کے لیے کھلاتے ہیں نہ تم سے عوض کے خواست گار ہیں نہ شکر گزاری کے (طلب گار)۔ ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے جو (چہروں کو) کریہہ المنظر اور (دلوں کو) سخت (مضطر کر دینے والا) ہے۔ تو اﷲ ان کو اس دن کی سختی سے بچا لے گا اور تازگی اور خوش دلی عنایت فرمائے گا۔ اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت (کے باغات) اور ریشم (کے ملبوسات) عطا کرے گا۔''

ان آیات سے واضح ہوا کہ اعمال کی قبولیت تب ہی ممکن ہے جب وہ خالصتا ً اﷲ اور آخرت کی زندگی کو سامنے رکھ کیے جائیں۔ اﷲ ہم سب کو قابلِِ قبول اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں