رضائے الٰہی کا حصول
تقویٰ تو یہ ہے کہ اپنے نفس کو مار دیا جائے۔ اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھا جائے، اپنے ہر عمل کو اﷲ کی رضا کے لیے کیا جائے۔
کسی بھی کام کو کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو مکمل توجہ اور خلوص کے ساتھ کیا جائے، تب ہی اس کو اچھے طریقے سے نبھایا جاسکتا اور اس کے فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر کسی کام کو بے دلی اور بے توجہی سے کیا جائے یا اس میں عدم دل چسپی ہو تو اس کو کرنے کا لطف بھی نہیں آتا اور اس کو احسن طریقے سے سر انجام بھی نہیں دیا جا سکتا اور اس کے نتائج بھی ہماری منشاء کے مطابق نہیں ہوتے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اتنا ہی پھل ملتا ہے جتنا ہم اس کام میں محنت اور اسے وقت دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح عبادت میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ عبادت خاص اﷲ کے لیے ہے، اور اسے جتنے خلوص سے کیا جائے اس کا فائدہ ہماری سوچ سے بڑھ کر ملتا ہے۔ سب سے بڑا انعام اس پاک ذات کا قرب حاصل ہونا ہے جو تمام دنیا کا خالق و مالک ہے۔
تقویٰ بہت عظیم اور بیش بہا صفت اور ساری مطلوبہ صفات کا مجموعہ ہے۔ جو تقویٰ کی صفت رکھتے ہوں ان کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔ تقویٰ وہ صفت ہے جس سے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔ تقویٰ پرہیز گاری ہے، اور پرہیز گاری ہمیں جنت کے راستے کی طرف لے جاتی ہے۔
تقویٰ، قلب و روح، شعور و آگہی، عزم و ارادہ، ضبط و نظم اور عمل و کردار کی اس قوت اور استعداد کا نام ہے جس کے بل پر ہم اس فعل سے رک جائیں جو غلط ہو، اور اس پر جم جائیں جو صحیح ہو۔ تقویٰ، غیب پر ایمان کا نام ہے۔ ہم نے اکثر پڑھا کہ جھوٹ بولنے سے زبان آگ میں جل رہی ہے، اس آگ کا ہمیں کوئی تجربہ نہیں کہ یہ ہمارے سامنے نہیں۔ لیکن ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیتے ہیں صرف اس لیے کہ اس سے اﷲ نے منع فرمایا ہے تو یہ تقویٰ اور خشیت الٰہی ہے۔ اس بات پر یقین رکھنا کہ ہم جو بھی غلط کام کریں گے اس کی سزا ہمیں ملنی ہے اور اس سزا سے بچنے کے لیے غلط راستے کو چھوڑ دینا ہی تقویٰ ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ سب انسانی اعمال کا دار و مدار صرف نیتوں پر ہے۔ یعنی ہر کام کو کرنے میں نیت کا خالص ہونا ضروری ہے۔ نیت میں اخلاص ہوگا تو اس کا انعام بھی بہت زیادہ ملے گا۔ خالی عمل سے کچھ نہیں ملتا نیت کا خالص ہونا ہی بنیادی شرط ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھا کام یا کسی کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف اس لیے کیا جائے کہ ہمارا خالق و پروردگار ہم سے راضی ہو اور ہم پر اپنی رحمت فرمائے۔ اخلاص کا تعلق دل سے ہے، جس کا مقصد صرف اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اخلاص کو عمل میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح تعمیر بنیاد کے بغیر اور جسم سر کے بغیر بے کار ہے، اسی طرح اعمال اخلاص کے بغیر بے کار ہیں۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ جب انہیں یمن کی جانب بھیجا جا رہا تھا تو انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! مجھے نصیحت کیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' دین میں (یعنی دین کے اعمال میں) اخلاص پیدا کرو، تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔''
خشیت الٰہی سے مراد اﷲ تعالیٰ کا ڈر، یعنی ہر اس کام کو کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ کیا اس سے ہمارا رب ہم سے ناراض تو نہیں ہو جائے گا ؟ کہیں ہم اس کے ناپسندیدہ بندوں میں تو شامل نہیں ہو رہے ہیں ؟ اس کی رضا بہت ضروری ہے۔ اﷲ کا خوف ہوگا تو کوئی بھی غلط کام نہیں ہوگا۔ جب اس بات پر یقین کامل ہو کہ اﷲ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو کوئی برائی کرنے سے پہلے ہم ہزار بار سوچیں گے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور ہمارا رب ہماری فطرت بہ خوبی جانتا ہے۔ اس لیے رب ِ کائنات نے ہمارے لیے معافی کا در کھلا رکھا ہے، ایک بار توبہ کرنے بعد اگلی بار گنا ہ کرنے سے پہلے ہمیں اﷲ سے حیا آتی ہے، اور اس کے خفا ہوجانے کا ڈر بھی ہوتا ہے جو ہمیں گناہ کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
عبادت خالص اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، اس میں کسی قسم کی نمود و نمائش کی جائے تو اس میں اخلاص نہیں رہتا ہے، ایسی عبادت صرف دکھاوا ہے جس کا دنیاوی فائدہ تو شاید ہو، لیکن اخروی کوئی فائدہ نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایک دوسرے کو اپنی نمازوں، صدقات و خیرات، روزوں اور نوافل کا جتاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عبادت کرتا ہے، کوئی کم کرتا ہے تو کوئی زیادہ۔ عبادت وہی مقبول و قبول ہوگی جس میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی ہو۔ اگر عبادت شہرت، دکھاوے یا کسی اور مقصد کے تحت کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں بل کہ وہ گرفت کا سبب بنے گی۔
جس طرح ہمیں اپنے کسی ساتھی کے بارے میں علم ہوجائے کہ وہ ہمارے ساتھ مخلص نہیں تو ہم اس کے ساتھ رابطہ نہیں رکھنا چاہیں گے، یہ تو ایک چھوٹی سی دنیاوی مثال ہے۔ بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ کو بھی ہماری ان عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں جن میں دکھاوا ہو۔ عبادت میں اخلاص تو یہ ہے کہ ادھر اذان ہو اور ہم سب کام چھوڑ کر اپنے رب کی رضا و خوش نودی حاصل کر نے کے لیے فوراً لبیک کہیں۔
تقویٰ تو یہ ہے کہ اپنے نفس کو مار دیا جائے۔ اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھا جائے، اپنے ہر عمل کو اﷲ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ عبادت صرف نماز، روزہ، حج ، زکوۃ یا وہ عمل نہیں جن کو سب دیکھ سکتے ہوں۔ عبادت تو والدین کو مسکرا کر دیکھنا بھی ہے، ان سے اچھا سلوک بھی عبادت ہے۔عبادت دو طرح کی ہے، ایک فرض عبادت اور دوسری نفل عبادت۔ دونوں طرح کی عبادات میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی بنیادی اور اولین شرائط میں سے ہے۔ عبادت میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کا ہونا ہی اسے مقبول بناتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمیں اتنا ہی پھل ملتا ہے جتنا ہم اس کام میں محنت اور اسے وقت دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح عبادت میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ عبادت خاص اﷲ کے لیے ہے، اور اسے جتنے خلوص سے کیا جائے اس کا فائدہ ہماری سوچ سے بڑھ کر ملتا ہے۔ سب سے بڑا انعام اس پاک ذات کا قرب حاصل ہونا ہے جو تمام دنیا کا خالق و مالک ہے۔
تقویٰ بہت عظیم اور بیش بہا صفت اور ساری مطلوبہ صفات کا مجموعہ ہے۔ جو تقویٰ کی صفت رکھتے ہوں ان کو اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا اور آخرت کی ساری بھلائیوں کی ضمانت دی ہے۔ تقویٰ وہ صفت ہے جس سے ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔ تقویٰ پرہیز گاری ہے، اور پرہیز گاری ہمیں جنت کے راستے کی طرف لے جاتی ہے۔
تقویٰ، قلب و روح، شعور و آگہی، عزم و ارادہ، ضبط و نظم اور عمل و کردار کی اس قوت اور استعداد کا نام ہے جس کے بل پر ہم اس فعل سے رک جائیں جو غلط ہو، اور اس پر جم جائیں جو صحیح ہو۔ تقویٰ، غیب پر ایمان کا نام ہے۔ ہم نے اکثر پڑھا کہ جھوٹ بولنے سے زبان آگ میں جل رہی ہے، اس آگ کا ہمیں کوئی تجربہ نہیں کہ یہ ہمارے سامنے نہیں۔ لیکن ہم جھوٹ بولنا چھوڑ دیتے ہیں صرف اس لیے کہ اس سے اﷲ نے منع فرمایا ہے تو یہ تقویٰ اور خشیت الٰہی ہے۔ اس بات پر یقین رکھنا کہ ہم جو بھی غلط کام کریں گے اس کی سزا ہمیں ملنی ہے اور اس سزا سے بچنے کے لیے غلط راستے کو چھوڑ دینا ہی تقویٰ ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ سب انسانی اعمال کا دار و مدار صرف نیتوں پر ہے۔ یعنی ہر کام کو کرنے میں نیت کا خالص ہونا ضروری ہے۔ نیت میں اخلاص ہوگا تو اس کا انعام بھی بہت زیادہ ملے گا۔ خالی عمل سے کچھ نہیں ملتا نیت کا خالص ہونا ہی بنیادی شرط ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہر اچھا کام یا کسی کے ساتھ اچھا برتاؤ صرف اس لیے کیا جائے کہ ہمارا خالق و پروردگار ہم سے راضی ہو اور ہم پر اپنی رحمت فرمائے۔ اخلاص کا تعلق دل سے ہے، جس کا مقصد صرف اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنا ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اخلاص کو عمل میں اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ جس طرح تعمیر بنیاد کے بغیر اور جسم سر کے بغیر بے کار ہے، اسی طرح اعمال اخلاص کے بغیر بے کار ہیں۔
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ جب انہیں یمن کی جانب بھیجا جا رہا تھا تو انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! مجھے نصیحت کیجیے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' دین میں (یعنی دین کے اعمال میں) اخلاص پیدا کرو، تھوڑا عمل بھی کافی ہوجائے گا۔''
خشیت الٰہی سے مراد اﷲ تعالیٰ کا ڈر، یعنی ہر اس کام کو کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ کیا اس سے ہمارا رب ہم سے ناراض تو نہیں ہو جائے گا ؟ کہیں ہم اس کے ناپسندیدہ بندوں میں تو شامل نہیں ہو رہے ہیں ؟ اس کی رضا بہت ضروری ہے۔ اﷲ کا خوف ہوگا تو کوئی بھی غلط کام نہیں ہوگا۔ جب اس بات پر یقین کامل ہو کہ اﷲ ہماری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو کوئی برائی کرنے سے پہلے ہم ہزار بار سوچیں گے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور ہمارا رب ہماری فطرت بہ خوبی جانتا ہے۔ اس لیے رب ِ کائنات نے ہمارے لیے معافی کا در کھلا رکھا ہے، ایک بار توبہ کرنے بعد اگلی بار گنا ہ کرنے سے پہلے ہمیں اﷲ سے حیا آتی ہے، اور اس کے خفا ہوجانے کا ڈر بھی ہوتا ہے جو ہمیں گناہ کی طرف بڑھنے سے روک دیتا ہے۔
عبادت خالص اور صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے مخصوص ہے، اس میں کسی قسم کی نمود و نمائش کی جائے تو اس میں اخلاص نہیں رہتا ہے، ایسی عبادت صرف دکھاوا ہے جس کا دنیاوی فائدہ تو شاید ہو، لیکن اخروی کوئی فائدہ نہیں۔ ہم میں سے اکثر لوگ ایک دوسرے کو اپنی نمازوں، صدقات و خیرات، روزوں اور نوافل کا جتاتے ہیں۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق عبادت کرتا ہے، کوئی کم کرتا ہے تو کوئی زیادہ۔ عبادت وہی مقبول و قبول ہوگی جس میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی ہو۔ اگر عبادت شہرت، دکھاوے یا کسی اور مقصد کے تحت کی جائے تو اﷲ تعالیٰ کے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں بل کہ وہ گرفت کا سبب بنے گی۔
جس طرح ہمیں اپنے کسی ساتھی کے بارے میں علم ہوجائے کہ وہ ہمارے ساتھ مخلص نہیں تو ہم اس کے ساتھ رابطہ نہیں رکھنا چاہیں گے، یہ تو ایک چھوٹی سی دنیاوی مثال ہے۔ بالکل اسی طرح اﷲ تعالیٰ کو بھی ہماری ان عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں جن میں دکھاوا ہو۔ عبادت میں اخلاص تو یہ ہے کہ ادھر اذان ہو اور ہم سب کام چھوڑ کر اپنے رب کی رضا و خوش نودی حاصل کر نے کے لیے فوراً لبیک کہیں۔
تقویٰ تو یہ ہے کہ اپنے نفس کو مار دیا جائے۔ اپنی سوچ کو پاکیزہ رکھا جائے، اپنے ہر عمل کو اﷲ کی رضا کے لیے کیا جائے۔ عبادت صرف نماز، روزہ، حج ، زکوۃ یا وہ عمل نہیں جن کو سب دیکھ سکتے ہوں۔ عبادت تو والدین کو مسکرا کر دیکھنا بھی ہے، ان سے اچھا سلوک بھی عبادت ہے۔عبادت دو طرح کی ہے، ایک فرض عبادت اور دوسری نفل عبادت۔ دونوں طرح کی عبادات میں تقویٰ، اخلاص اور خشیتِ الٰہی بنیادی اور اولین شرائط میں سے ہے۔ عبادت میں تقویٰ، اخلاص اور خشیت الٰہی کا ہونا ہی اسے مقبول بناتا ہے۔