محض سات برسوں میں چھ وزرائے اعظم تبدیل ہوئے

آزادی کے بعد سیاسی کشمکش اور محلاتی سازشوں نے صحت مند جمہوری کلچر پروان نہ چڑھنے دیا


آزادی کے بعد سیاسی کشمکش اور محلاتی سازشوں نے صحت مند جمہوری کلچر پروان نہ چڑھنے دیا۔ فوٹو : فائل

دوسری قسط

16 اکتوبر1951 ء کو وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان اور اس کی جمہوریت کے خلاف ایک عالمی سازش تھی جسے آج خود امریکہ بھی تسلیم کر چکا ہے لیکن یہ بھی ایک نہایت تلخ حقیقت ہے کہ لیاقت علی خان کے بعد آنے والے وزرائے اعظم بھی بد قستمی سے اتنا سیاسی جمہوری شعور نہیں رکھتے تھے کہ وہ ان متواترسازشوں کو سمجھ سکتے، لیاقت علی خان کے بعدگورنرجنرل خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم ہو گئے جب کہ ان کی جگہ شہید لیاقت علی خان کی کابینہ کے اقتصادیات کے وزیر ملک غلام محمد گورنرجنرل بن گئے، ملک غلام محمد انڈین سو ل سروس اکاوئنٹ گروپ کے اعلیٰ افسر تھے اور قیام پاکستان کے وقت سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔

ایسی ہی صور ت اسکندر مرزا کی تھی جو پہلے تو برطانوی فوج میں رہے اور میجر جنرل تک کے عہدے پر پہنچے اس کے بعد انگریز سرکار نے ان کو سول سروس کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ میں داخل کردیا اور قیام پاکستان سے قبل وہ پشاور میں کمشنر رہے تھے۔ جہاں تک تعلق ناظم الدین کا ہے تو وہ بنگال کے بڑے جاگیردار خاندان سے تھے۔ 1934 میں مغربی بھارتی بنگال اور مشرقی پاکستان میںان کی 200000 ایکڑ زرعی اراضی تھی جس کی سالانہ آمدنی اس زمانے میںایک لاکھ بیس ہزار پونڈ تھی۔ خواجہ ناظم الدین 19 جولائی 1894 ء کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئے اور 22 اکتوبر 1964 کو ڈھاکہ ہی میں وفات پائی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم مکمل کی، چونکہ بنگال کے بڑے نوابی خاندان سے تعلق تھا اس لیے معاش ان کا مسئلہ نہیں تھا۔

ان کے خاندان کو یہ اعزار بھی حاصل تھا کہ ان کے والد سرخوا جہ احسان اللہ اور چچا خواجہ سمیع اللہ ان اہم لیڈروں میں شامل تھے جنہوں نے ڈھاکہ میں 1906 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ خاندان پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نمایاں رہا۔ ان کے چھوٹے بھائی خواجہ شہاب الدین صدر ایوب خان کی کابینہ میں وزیر اطلاعات رہے جب کہ ان کا ایک بھتیجا خواجہ وسع الدین پاک فوج میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ خواجہ ناظم الدین کے نام پر کراچی میں ناظم آباد اور نارتھ ناظم آباد، ڈھاکہ اور اسلام آباد میں ناظم الدین کے نام سے سڑکیں ہیں۔ خواجہ ناظم الدین جو قائد اعظم کے بعد ان کے جا نشین کے طور پر گورنر جنرل بنے وہ آئین اور آئینی امور کے ماہر تھے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم اسی شعبے میں حاصل کی تھی اور وہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کہ انگریز نے 1935 ء کے قانون میں یہ شق رکھی تھی کہ گورنرجنرل پارلیمانی بحران کی صورتحال میں اپنے خاص آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسمبلی کو تحلیل اور حکومت کو برخاست کر سکتا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا اور یہ ہونا تھا کہ یہ اس سازش کا تسلسل تھا جو لیاقت علی خان کی شہات سے شروع ہوئی تھی۔

خواجہ ناظم الدین کے وزیر اعظم بنتے ہی ملک کی پہلی مر دم شماری کے نتا ئج سامنے آنے لگے اور یہ تو حقیقت تھی کہ پاکستان سے بھارت ہجرت کرنے والے ہندو سکھوں کے مقابلے میں بھارت سے پاکستان آنے والے مسلمانون کی تعداد زیا دہ تھی لیکن بعض جگہ 1951 ء کی مر دم شماری کے اعتبار سے یہ بتا یا گیا کہ ملک کی کل آبادی میں بھارت سے نقل مکانی کرنے والوں کا تناسب 57% ہو گیا ہے اور اس کا بڑا حصہ کراچی میں آباد ہوا ہے۔ لیا قت علی خان پر یہ الزام پہلے ہی عائد کیا جا تا رہا تھا کہ انہوں نے یہاں اپنا حلقہ انتخا ب بنا نے کے لیے لا لو کھیت کو لیاقت آباد بنا یا تھا اور یہاں بھارت سے آنے والے مہاجرین کو بسایا تھا۔ اگر چہ ناظم الدین کاحلقہ انتخاب مشرقی پاکستان میں تھا لیکن یہاں اب یہ لسا نی تعصب پھیلا یا جا رہا تھا۔ دوسری جانب قائد اعظم ہی کے دور میںجب وہ پاکستان کے قیام کے بعد مشرقی پاکستان گئے تو ڈھاکہ میں اس وقت کے اسٹو ڈنٹ لیڈر شیخ مجیب الرحمن نے اردو کے خلاف اور بنگلہ زبا ن کے حق میں مظاہر ہ کیا تھا۔ شیخ مجیب، حسین شہید سہروردی کے شاگر د تھے جب خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم بنے اور ڈھاکہ گئے تو انہوں نے وہاں اردو کے حق میں تقریر کی اور اس کا شدید رد عمل ہوا۔ مشرقی پاکستان میں ان کے خلاف احتجاج اور ہنگا مے ہوئے اور پھر دوسری جانب لاہور میں مرزائیوں، قادیا نیوں کے خلاف لاہور میں بڑے پیمانے پر بہت پرتشدد ہنگامے ہوئے جن کو کنٹرول کرنے کے لیے لاہور میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔

جنرل اعظم کی سربراہی میں یہ مارشل لا لگا یا گیا تھا جو پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا تھا یہاں مظا ہرین پر گولی چلائی گئی اور بہت سے لوگ جاں بحق ہو ئے۔ اس پر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے مقرر کرد ہ گور نر جنرل ملک غلام محمد نے ان کی حکومت کو بر طرف کر کے اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ اس غیر آینی اقدام پر مولوی تمیز الدین کیس ہماری تاریخ میں مشہور ہے جس پر جسٹس منیر اور نظریہ ضرورت کے بہانے بیورو کریسی ا ور عدلیہ کی دیگر چند شخصیات نے اس وقت ہمارے نو آزاد ملک اور اس کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچا یا مگر اس میںایک جانب تو خواجہ ناظم الدین جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجر بہ کار شخصیت کی بھی کمزوری تھی کہ انہوں نے غلام محمد جیسی شخصیت کو گورنر جنرل کے منصب پر فا ئز کرتے ہوئے خود اس اہم عہدے سے دستبردار ہوئے۔

خواجہ ناظم الدین بنگال کی ایک معروف اور اہم سیاسی شخصیت تھے اور ان کی اس طرح اقتدار سے بیدخلی سے مشرقی پاکستان میں یوں نقصا ن ہوا کہ قائد اعظم کے نظریات اور فکر و فلسفہ کے سچے حامی کو خود مشرقی پاکستان میں عوام کی نظروں میں گر ا دیا گیا اور یوں مخالف نظریات رکھنے والے کے لیے یہ خلا اپنے نظریا ت کے اعتبار سے پُر کر ناآسان ہو گیا۔ خواجہ ناظم الدین نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی سیاست کا آغاز 1943-45 ء میں مسلم لیگ میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے کیا تھا۔ اس دوران وہ بنگال کے وزیر اعظم رہے اور پھر 1947-48 ء مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ ہوئے اور قائد اعظم کی وفات کے بعد 1948 ء سے 1951 تک گو رنر جنرل رہے اور پھر 17 اکتو بر 1951 ء سے 17 اپریل 1953 ء تک وزیر اعظم رہے اور 22 اکتو بر 1964 ء کو ڈھاکہ میں فوت ہوئے۔

خواجہ ناظم الدین وزارت عظمیٰ چھو ڑنے کے بعد سیاسی طور پراپنی اہمیت کھو بیٹھے تھے ان کے بعد امریکہ میں مقیم پاکستا نی سفیر محمد علی بوگرا جو پیشہ ورانہ طور پر سفارت کاری سے وابستہ تھے۔ ان کو امریکہ سے بلوا کر ملک کا تیسرا وزریر اعظم بنا دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد یہ دوسرے بنگالی وزیر اعظم تھے، وہ 19 اکتوبر 1909 ء میں بارسلا مشرقی بنگال ''مشرقی پاکستان ،، میں پیدا ہوئے اور 23 جنوری 1963 ء کو ڈھاکہ میں وفات پائی۔ خواجہ ناظم الدین کی طرح بوگرا خاندان بھی بنگال کا ایک بڑا نوابی خاندان تھا اور ان کی جا گیردارانہ اہمیت بھی انگریزوں کے عہد میں کہیں زیادہ تھی۔ ان کے والد نواب الطاف علی چوہدری کا اثر و رسوخ انگریز سرکار کے ہاں کافی زیادہ تھا۔ محمد علی بوگرا نے کلکتہ یو نیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور بیرون ملک بھی تجربہ و تعلیم حاصل کیا 1940 ء میں وہ سہروردی کی کا بینہ میں وزیر اور اس کے بعد سول سروس '' فارن سروس میں'' آئے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 میں وہ کینیڈا میں سفیر ہوئے اس کے بعد 1949 کے بعد وزیر اعظم بننے تک وہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہے۔ خواجہ ناظم الدین کے بعد17 اپریل 1953ء سے 12 اگست 1955 ء بوگرا پاکستان کے وزیر اعظم رہے، ان کو امور خارجہ کا ماہر تصور کیا جاتھا۔

بطور سفیر ان کی تعریف امریکی وزیر خارجہ جان فاسٹر اور امریکی صدر آئزن ہاور نے بھی کی۔ ان کے دور حکومت میں امریکہ کی جانب سے پاکستان سے فوجی تعلقات میں اضافہ ہوا اس کی ایک بڑی وجہ ان کی کابینہ بھی تھی جسے انہوں نے منسٹری آف ٹیلنٹ کا نام دیا تھا اور اس میں کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کو وزیر دفاع اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسکند ر مرزا کو وزیر داخلہ بنایا تھا جو 7 اگست 1955 ء کو گورنر جنرل بن گئے تھے، اور پانچ دن بعد 12 اگست 1955 ء کو اسکندر مرزا نے بطور گورنر جنرل محمد علی بوگرا کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا تھا لیکن امور خارجہ میں ان کی اہمیت تھی کہ 13 جون 1962 ء سے 23 جنوری 1963 ء انکی موت تک صدر ایوب خان نے اپنی کابینہ میں انہیں وزیر خارجہ رکھا، جب کہ وزارت عظمیٰ کے دوران بھی انہوں نے خارجہ امور کو اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔ ا نہوں نے ایوب خان کے دور میں بطور وزیر خارجہ مشہور امریکی صدرجان ایف کینڈی سے بھی ملاقات کی، اس دور میں پاکستا ن اور امریکہ کے تعلقا ت بہت مضبوط رہے۔ جب وہ وزیر اعظم تھے تو انہوں نے 1955 میں انڈونیشیا میں منعقد ہونے والی باونڈ نگ کانفرنس میں شرکت کی۔ یوں وہ پاکستان کے پہلے سر بر اہ تھے جنہو ں نے چین کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ تعلقات کا آغا ز کیا۔ ان ہی کے دور حکومت میں اپریل 1954ء میں مشرقی پاکستان میں صوبائی سطح پر عام انتخابات ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی چونکہ مغربی پاکستان کی مجموعی آبادی سے زیادہ تھی۔

ان انتخابات میں مسلم لیگ کو شرمناک شکست ہوئی اور یو نائٹڈ فرنٹ کے نام سے عوامی لیگ نے 143 اور کریشک سرامک پارٹی نے48 ووٹوں کے اشتراک سے مخلوط حکومت بنائی اور کل 367 نشستوں میں سے مسلم لیگ صرف 10 نشستیں حاصل کر سکی۔ مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ اے کے فضل حق نے اسمبلی میں قانون سازی کرتے ہوئے بنگلہ اکیڈمی بنائی توگورنر مشرقی پاکستان نے صرف چھ ہفتوں کی ان کی منتخب حکومت کو برخاست کرکے اسمبلی تحلیل کر دی۔ محمد علی بوگرا ہی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران بوگرا فارمو لہ دیا تھا جس میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے نام سے دو صوبے بنا کر ان کو برابر کی حیثیت دی گئی تھی۔ ان کے دور حکومت میں آئین سازی کا کام آگے بڑھا۔

گورنر جنرل اسکندر مرزا نے ان کو 12 اگست 1955 کو رخصت کردیا اور ان کے بعد ایک بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو پاکستان کا وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ وہ 12 اگست 1955سے 12 ستمبر 1956 تک وزیر اعظم رہے۔ چوہدری محمد علی 15جولائی 1905ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے اور 2 دسمبر 1980 کو وفات پائی وہ 1927 ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کرنے کے بعد انڈین سول سروس میں آئے اور آڈٹ اینڈ اکاؤنٹ کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ 1945 ء میں برطانوی حکومت ہند کے وار سیکرٹری رہے۔ پاکستان بننے کے بعد 1948 ء میں سیکرٹری خزانہ رہے۔ 1951 ء میںسیکرٹری اسٹیبلشمنٹ رہے ان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا رہا کہ وہ امریکہ کے بہت قریب رہے۔ چوہدری محمد علی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ملک کو پہلا پارلیمانی آئین 1956 کا آئین دیا اور شاید یہی وجہ تھی کہ اس آئین میں گورنر جنرل اسکندرمرزا کو صدر بنا دیا گیا اور اس کے بعد ان ہی کے ذ ریعے چوہدری محمد علی وزارت اعظمیٰ سے رخصت ہوگئے لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اعتبار سے 1954 میں سیٹو اور1955 میں سینٹو جیسے معاہدے کئے جو مستقبل میں ملک کے لیے سیاسی اعتبار سے بہت نقصان دہ ثابت ہوئے۔

چوہدری محمد علی کے بعد ملک کے پانچویں وزیر اعظم حسین شہید سہر وردی تھے جن کا تعلق بھی بنگال مشرقی پاکستان سے تھا۔ وہ 12 ستمبر 1956 ء سے 17 اکتوبر 1957 ء تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔ سہروردی 1892 میں میدنا پور میں پیدا ہوئے اور 5 دسمبر 1963 کو وفات پائی یہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد تسلیم کئے جاتے ہیں۔ خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرا کی نوابی اور جاگیر دارانہ شخصیت کے بر عکس ان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔ انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری لی اس کے بعد اسی شعبے میں مزید تعلیم و تربیت کے لیے برطا نیہ گئے اور آکسفورڈ یو نیور سٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ وہ ا گرچہ بنگالی قوم پر ست سیاست دان تھے مگر 1925 ء سے مسلم لیگ کے قریب ہوئے۔ ان پر 1946 ء میں کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کرانے کا الزام بھی لگا اور ان کو بچر آف بنگال بھی کہا گیا لیکن 1947 ء میں انہوں نے بنگال کو تقسیم نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا اور پھر جب تقسیم ہو ئی تو انہوں نے مہا تما گاندھی کے ساتھ مل کر ہندو مسلم فسادات کو مشرقی پاکستان اور مغربی بنگال میں روک دیا جبکہ اس کے برعکس بھارتی مشرقی پنجا ب اور ہمارے پنجا ب میں تقسیم کے وقت تاریخ کے بد ترین ہندو مسلم فسادات ہوئے اور لاکھوں افراد جانوں سے گئے۔

انہوں نے پاکستان بننے کے فوراً بعد ہی 1949 ء میں عوامی لیگ بنائی اور 1954 ء کے مشرقی پاکستان کے صوبائی سطح کے عام انتخابات میں143 نشستو ں کے ساتھ اکثریت حاصل کرتے ہوئے یہاں یونا ئیٹڈ فرنٹ کے ساتھ عوامی لیگ نے صوبائی حکومت بنائی۔ وہ محمد علی بوگرا کی کا بینہ میں انصاف و قانون کے وزیر بھی رہے۔ انہوں نے چوہدری محمد علی کے خلاف مسلم لیگ ، ری پبلکن کے ساتھ عوامی لیگ کے اشتراک سے عدم اعتماد کی تحریک اسمبلی میں پیش کی اور یوں چوہدری محمد علی کی حکو مت کے خاتمے کے بعد وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے بھی امریکہ سے نہایت قریبی تعلقات قائم کئے اور امریکہ کو پشاور کے قریب بڈ بیر کے مقام پر سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کرنے کے لیے ہوائی اڈا دیا جہاں سے انتہا ئی بلندی پر پرواز کرنے والے امریکی یو ٹو طیار ے روس پر پرواز کرتے اور اس کی اہم تنصیبات کی تصا ویر لیتے تھے اور پھر سوویت یونین نے ایک طیارے کو ایوب خان کے دور حکومت میں 1962 ء میں مار گرایا تھا جس پر روس اور پاکستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہوگئے تھے۔

حسین شہید سہروردی کے بعد آئی آئی چندریگرر یعنی ابراہیم اسما عیل چندریگر وزیر اعظم بنے۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے مختصر مدت کے وزیراعظم رہے۔ وہ 17 اکتوبر 1957 ء کو وزیر اعظم بنے اور 16 دسمبر1957 کو اپنے عہدے سے فارغ ہوگئے۔ یوں ان کے اقتدار کی کل مدت ایک مہینہ 29 دن تھی۔ آئی آئی چندریگر گوڈرا گجرات ''بھارت '' میں 15 دسمبر 1897 ء کو قائد اعظم کی طرح گجراتی بولنے والے مسلمان خاندان میں پیدا ہوئے۔ احمد آباد سے اسکول کی تعلیم حاصل کی پھر بمبئی یونیورسٹی سے فلسفہ اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور تعلیم سے فارغ ہوتے ہی وکالت شروع کر دی۔ 1935 ء میں ان کی ملا قات قائد اعظم سے ہوئی اور پھر وہ مسلم لیگ میں قائد کے ساتھی ہوگئے۔ 1945-46 میں مو سم سر ما کے انتخابات کے بعد ہندوستان کی کابینہ میں چندریگر کامرس کے وزیر ہوئے،1947ء میں لیاقت کابینہ میں شامل ہوئے۔ 1948 ء میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر ہوئے۔ 1950 ء میں گورنر خیبر پختونخوا 1951 ء میں گورنر پنجاب ہوئے۔ 1953 ء میں خواجہ ناظم الدین کی حمایت کی وجہ سے گور نر جنرل غلام محمد کے غضب کا شکار ہو ئے پھر بعد میں ترکی میں پاکستان کے سفیر ہوئے اور 1955 ء میں واپس آئے۔

آئی آئی چندریگر پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم تھے،ان کے بعد پاکستان کے ساتویں وزیر اعظم کے طور پر فیروز خان نون نے 16 دسمبر 1957 ء کو حلف اٹھایا۔ وہ 7 اکتو بر 1958 ء تک وزیر اعظم رہے۔ ان کے عہدے کی کل مدت 9 مہینے 21 دن تھی۔ فیروز خان نون ضلع خوشاب کے گاؤں حاموکا میں 7 مئی 1893 ء میں پیدا ہوئے اور 7 دسمبر 1970ء کو فوت ہوئے۔ وہ علاقے کے بہت بڑے جاگیر دار تھے ان کے والد بھی تعلیم یافتہ تھے اور انہوں نے یہ کوشش کی کہ فیروز خان نون کی تربیت انگریزی ماحول میں اس طرح ہو کہ انگریزی تہذیب و ثقافت ان کے مزاج میں رچ بس جائے۔ پھر ایسا ہی ہوا، ایچ ای سن کالج سے فارغ ہو نے کے بعد وہ برطانیہ کی آکسفورڈ یو نیورسٹی سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصے وہیں رہے۔ اس دوران ان کے تعلقات برطانیہ کے لارڈز سے اور اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والوں سے گہرے اور دوستانہ نوعیت کے ہوگئے۔ وہ 1927 ء سے 1936ء تک پنجاب میں لوکل گورنمنٹ صحت اور تعلیم کے وزیر رہے اور اس کے بعد 1937 ء سے 1941 ء تک فیروز خان متحدہ ہندوستان کی جانب سے برطانیہ میں ہائی کمشنر یعنی سفیر رہے، اس دوران ان کے برطانیہ کے اعلیٰ اور بااختیار طبقے سے تعلق رکھنے والے وہ نوجوان جو ان کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کے دوست کی حیثیت رکھتے تھے، میدان عمل میں آچکے تھے لیکن یہ خوش نصیبی رہی کہ انہوں نے اپنے ان تعلقات اورا پنی صلاحیتوں اور خوبیوں کو ملک و قوم کے مفاد میں استعمال کیا۔

1941سے1944 ء تک وہ وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل میں لیبر کے وزیر رہے پھر 1944-45 ء میں وہ برطانیہ کے با دشاہ جارج VI اور وزیر اعظم چرچل کی براہ راست سر براہی میں برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے وار کونسل میں رہے۔ 1945-46ء میں فیروز خان نون غیرمنقسم برطانوی ہند وستان کے مستقل نمائندے کی حیثیث سے اقوام متحدہ میں رہے۔ 1945 ء میں انہوں نے آسٹر یلیا کی ایک برطانوی نژاد خاتون Vicktoria Rikhy وکٹوریہ ریکھے سے شادی کر لی۔1937 سے قیام پاکستان تک فیروز خان نون کی حیثیت برطانوی سرکار میں اتنی بڑھ چکی تھی کہ بعض اچھے خاصے لارڈز اور انگریز ار کان پا رلیمنٹ کو وہ اہمیت حاصل نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دور میں وہ امریکہ کے قریب بھی آئے اور بر طانوی اہم سرکاری نمائندے کے طور پر امریکہ سرکار کے ساتھ گفت وشنید اور معاہدے کیے۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے امریکی امیگریشن ایکٹ کے مسئلے پر حکومت ِ برطانیہ کی طرف سے امریکہ سے بات چیت کی، اسی طرح 1938 ء میں امریکہ برطانیہ تجارتی معاہدے پر فیروز خان نون نے برطانوی حکومت کی طرف سے بات چیت کے بعد دستخط کئے۔1941ء میں امریکیوں نے بلوچستان کے ساحلی وسائل اور اس کی جغرافیائی اہمیت کی بنیاد پر ریسرچ شروع کی تو اس میں بھی برطانوی حکومت کی جانب سے فیروز خان کی رہنمائی ان کے ساتھ رہی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت امریکیوں ہی نے بلوچستان کے ساحل اور سمندر پر ریسرچ کرکے گوادر کی بندرہ گاہ کی اہمیت معلوم کی تھی کہ گوادر نہ صرف آبنائے ہرمز کے دہانے پر اپنی پوزیشن کے اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے بلکہ جزیرہ نما گوادر مشرق کی جانب ساحل پر ہی بہت زیادہ گہرائی رکھتا ہے۔ یہ قدرتی طور پر دنیا کی ایک بہترین بندر گا ہ ہے۔

یوں فیروز خان نون نے جب 16 دسمبر1957 کو چیف جسٹس منیر کے سامنے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تو اسی دن سے انہوں نے تین اہم ترین کام کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ نمبر ایک 1956 ء کے آئین کے تحت فوری اور شفاف عام انتخابات،دوسرے نمبر پر مسئلہ کشمیر پر بھارت سے مذاکرات اور اس مسئلے کا ایسا پائیدار حل جس پر بھارت اور پاکستان بھی مطمئن ہوں اور کشمیری عوام بھی اور نمبر تین یہ کہ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر ساحل بلو چستان پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جائے۔ گوادر تاریخی اور جغرافیا ئی اعتبار سے بلوچستان کا حصہ تھا مگر علاقائی روایات کے مطابق ماضی میں بلوچستان کے حکمران نے جب اپنی بیٹی کی شادی مسقط کے شہزادے سے کی تو یہ علاقہ بیٹی کی شال یا دوپٹے کے طور پر عمان ''مسقط ،،کے ولی عہد کو دے دیا تھا۔ فیروز خان نون نے اقتدار میں آتے ہی برطانوی اور امریکی اہم شخصیات سے رابطے کئے جن سے ان کے تعلقات دیرینہ اور گہرے تھے یوں انہوں نے اس وقت کی سلطنت اومان ''مسقط '' کے بادشاہ سے رابطے کئے اور ان پر برطانیہ کی اہم شخصیات سے دباؤ بھی ڈلوایا اور گوادر کے علاقے کو اومان سے 30 لاکھ امریکی ڈالر دے کر خرید لیا اور اسے 8 ستمبر 1958 ء کو پاکستان میں شامل کر لیا۔ اس وقت اسکندر مرزا نے بھی خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن صدر اسکندر مرزا، فیروز خان نون کی ا ہم اور تیز رفتار کارکردگی سے خائف ہوگئے اور اسی وقت یہ طے کر لیا تھا کہ فیروز خان نون کو اقتدار سے الگ کر دیا جائے۔

اسکندر مرزا جو 1956 ء کے آئین کے نافذ العمل ہونے کے بعد گور نر جنرل سے صدر مملکت ہو گئے تھے اور ان کے پاس 1935 ء کے قانون ہند کے تحت حکومت برخاست کرکے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار بھی نہیں رہا تھا اور نہ ہی اسمبلی میں ان کے خلاف عدم اعتماد لا سکتے تھے اس لیے انہوں نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ 7 اکتو بر کو کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان کو حکم دیا کہ وہ ملک میں مارشل لا نا فذ کر دیں۔ شائد ان کا خیال یہ ہو گا کہ یہ مارشل لاء لاہورکے جنرل اعظم خان کی طرح صدر مملکت کے حکم کے مطابق جب صدر چاہے گا ختم ہو جا ئے گا لیکن وہ یہ فراموش کرگئے تھے کہ خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں صرف لاہور میں 1953 ء میں گور نر جنرل غلام محمد نے پہلے کمانڈر انچیف کو کہا تھا جس نے آگے اپنے لیفٹیننٹ جنرل اعظم خان کو مختصر مدت کے لیے ایک شہر لاہور میں مارشل لا نافذ کر نے کے لیے کہا تھا۔ جب کہ اب صورتحال مختلف تھی اب اگر چہ مارشل لا کا حکم تو صدرمملکت ہی کا تھا لیکن یہ مارشل لا پورے ملک میں اور براہ راست کمانڈر انچیف نے نافذ کیا تھا اور پورے اختیارات اور قوت کے ساتھ نافذ کیا تھا اور اس مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ ہی 1956 کا آئین منسوخ ہو گیا اور اختیارات مکمل طور پر اور فوجی قوانین کے تحت اب فوج کے پاس تھے پھر عوامی سطح پر لوگ سیاسی رہنماؤں اور گورنر جنرلوں، صدر یعنی پہلے ملک غلام محمد اور پھر اسکندر مرزا سے بیزار ہو چکے تھے، وہ پاکستان کے پہلے گور نر جنرل قائد اعظم اور پہلے وزیر اعظم شہید ملت لیاقت علی خان کے بعد سب سے مایوس ہو چکے تھے اس لیے عوام نے جنرل محمد ایوب خان کے مارشل لا کو غنیمت سمجھا۔ یوں فیروز خان نون جب رخصت ہوئے تو ماسوائے دانشوروں،اعلیٰ سطح کے صحا فیوں کے یا چند انقلابی رہنماؤںکے کسی کو اس قومی نقصان کا اندازہ نہیں ہوا ، اور پھر ایوب خا ن نے صحا فت کے اعتبار سے زبان و بیان پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دیں۔ سیا سی سر گر میاں ختم ہو گئیں۔ یہ حقیقت ہے کہ گوادر کے مسئلے کی طرح اگر فیروز خان نون 1956 ء کے آئین کے تحت عام انتخابات بھی کروا دیتے اور مسئلہ کشمیر پر بھی مذاکرات شروع ہو جا تے تو صورتحال بہت مختلف اور بہتر ہوتی ۔

صدر جنرل ایوب خان نے صدر اسکندر مرزا کے حکم پر7اکتوبر1958 میں ملک میں مارشل لاء نافذ کر کے 1956 کے پارلیمانی آئین کو منسوخ کر دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد ملک میں بنیادی جمہوریت کے اعتبار سے صدارتی نظام متعارف کروایا گیا۔ 1962 ء کا صدراتی آئین نافذ کیا گیا جس کے تحت پہلے صدراتی انتخابات میں مشرقی اور مغربی پاکستان سے بلدیاتی کونسلر کے حلقوں کی سطح پر چا لیس چالیس ہزار بی ڈی ممبر یعنی بنیادی جمہوریت کے ارکان منتخب ہوئے اور پھر ان ممبران نے پہلے مشرقی اور مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کیا پھر انہی اسی ہزار ممبران نے قومی اسمبلی کو اور صدر کو منتخب کیا اور بعد میں ان اسی ہزار اراکین کی حیثیت بلدیاتی کو نسلر کی رہ گئی۔ دوسرے الیکشن میں بی ڈی ممبران کی یہ تعداد دگنی کر دی گئی تھی۔

اس صدارتی انتخابات میں ان کے مقابلے میں محتر مہ فاطمہ جناح کھڑی ہوئی تھیں جن کو کراچی اور مشرقی پاکستان سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور جب ایوب خان یہ الیکشن جیت گئے تو ان پر دھاند لی کے الزمات لگے تھے۔ اسکندر مرزا کے دور میں سر شاہنواز بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو کی ایوان صدر تک رسائی ہو گئی اور وہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں دو مرتبہ بطور گروپ لیڈر شریک ہوئے اور اپنی ذہانت اور خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر جوانی ہی میں اہل اقتدار کو متاثر کیا۔ اسکندر مرزاکے اقتدار کے آخری دنوں میں وہ وفاقی وزیر بنے اور پھر جب جنرل صدر ایوب خان نے اپنی کابینہ تشکیل دی تو وہ نوجوان بھٹو کی صلاحیتوں سے واقف ہو چکے تھے اس لیے انہوں نے بھی بھٹو کو اپنی کابینہ میں شامل کر لیا، 23 جنوری 1963 ء کو وزیر خارجہ محمد علی بوگرا کی وفات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ ہو گئے اور یہاں سے بھٹو نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہر ہ کیا۔

صدر فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی شخصیت کی خوبیوں میں سے ایک بنیادی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنی کا بینہ کے اعتبار سے با صلاحیت، ذہین، محب وطن اور محنتی وزرا کو پسند کر تے تھے اور اِن کی کار کردگی کو سراہتے تھے بھٹو بوگرا کے زمانے میں بھی امور خارجہ میں غیر اعلانیہ طور پر اور پس منظر میں رہتے ہو ئے نائب وزیرخارجہ کے طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی تشکیل میں معاون و مدد گار رہے اور اسی وجہ سے ایوب خان نے ان کو صرف 35 برس کی عمر میں وزیر خارجہ بنا دیا۔ بھٹو ایک آزاد اور خود مختار ملک کی ایک آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی چاہتے تھے اور صدر ایو ب خان بھی اس کے قائل تھے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ بھارت کے سوویت یونین اور چین سے بہت مثالی اور خوشگوار تعلقات تھے اور بھارت نے خود کو دنیا کی ایک بڑی سوشلسٹ لبرل جمہوریت ثابت کرتے ہوئے امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک سے متوازن تعلقات رکھے تھے۔ پاکستان کو اپنی سلامتی کے لیے اور بھارت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کے دفاع کے لیے امریکہ جیسے ملک اور قوت کا تعاون درکار تھا اور امریکہ پاکستان کی اس کمزوری سے واقف تھا۔

1962ء میں جب چین اور بھارت کی جنگ ہوئی تو اگرچہ اس وقت چین کی جانب سے یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ یہ وہ وقت ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر پرحملہ کر کے اس کو آزاد کرا سکتا ہے مگر اس موقع پر ایک جانب تو بھارتی وزیر اعظم نے امریکہ سے یہ گزارش کی کہ بھارت ایک کیمونسٹ کی جارحیت کا شکار ہے اس لیے امریکہ اپنی عالمی پالیسی کے تحت اس کی ضمانت دے کہ پاکستان اس موقع پر بھارت پر حملہ نہیں کرے گا، دوئم یہ کہ صدر ایوب خان دفاعی سیاسی امور میں بہت احتیاط کے قائل تھے ان کا موقف یہ تھا کہ چین سے پاکستان کے تعلقات اُ س وقت اتنے پرانے مثالی اور پُر اعتماد نہیں تھے، یہ کیا بات تھی کہ چین اور بھارت کی سرحدی جنگ ہو ئی اور پاکستان چین کی ایک ہی آواز پر بھارت پر حملہ کردے اور اگر کل چین جنگ بند کرکے واپس دوستی اور امن کی بات کر کے، بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کر د ے تو پاکستان کی صو رتحال کیا ہو گی مگر ایوب خان اس بات پر محمد علی بوگرا اور بھٹو سے اتفاق کر گئے تھے کہ اب چین جیسے ہمسایہ ملک کے ساتھ بہتر تعلقات کی وجہ سے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو فائدہ ہو گا اور مستقبل میں پاکستان امریکہ، چین تعلقات کے اعتبار سے ایک زیادہ بہتر متوازن خارجہ پالیسی تشکیل دے سکے گا۔

اور 1962 کے بعد سے ایسا ہی ہوا۔ پاکستان کے تعلقات چین کے ساتھ تیزی سے بڑھنے لگے۔ اس کی بہترین مثال ایوبی دور میں چین اور پاکستان کے درمیان تجارت اور تعاون کے فروغ کے لیے تعمیر ہونے والی شاہراہ قراقرم ہے اس کو پاکستانی فوج اور دوسری جانب سے چین نے تعمیر کیا تھا۔ اس کی تعمیر میں بہت سے پاکستانی فو جی شہید ہوئے تھے، 1965 ء کی پا ک بھارت جنگ 1966 میں سوویت یونین کی جا نب سے تاشقند میں پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ہو ئے جس میں بھارت کی جانب سے وزیر اعظم شاستری اور وزیرخارجہ سردار سورن سنگھ اور پاکستان کی جانب سے صدر ایوب خان اور وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے شرکت کی۔ ان مذاکرات میں بھٹو اور صدر ایوب خان کے درمیان اختلا فات پید اہو ئے۔ معاہدہ تاشقند کے تحت دونوں ملکوں کی فوجیں زمانہ امن کی پوزیشن پر واپس آگئیں تھیں۔ ان اختلافات کے بعد غالباً یہ کوشش کی گئی کہ بھٹو ایوب اختلافات دور ہو جائیں مگر ایسا نہیں ہوا اور پھر بھٹو نے وزارت خارجہ سے استعفٰی دے کر پاکستان پیپلز پارٹی قائم کر لی اور معاہدہ تاشقند کو ایوب خان کی کمزوری قرار دے کر اُن کے خلاف جد وجہد شروع کر دی۔ جب بھٹو کی تحریک قوت پکڑنے لگی تو مشرقی پاکستان سے شیخ مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی، اور مغربی پاکستان سے بھی تمام سیاسی لیڈر بشمول اور سیاسی جماعتیں بھی ایوبی حکومت اور صدارتی نطام کے خلاف ون یو نٹ کے خلاف جد وجہد کرنے لگیں۔

جہا ں تک بھٹو،ایوب اختلافات کا تعلق ہے تو بعد میں بھٹو نے اس کی وضاحت یو ں کی کہ اقوام متحد کے حکم کے مطابق1965 کی جنگ میں جنگ بندی کے بعد معاہدہ تاشقند ہوا اس میں اقوام متحدہ کے مطا بق دونوں ملکوں کو امن قائم کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ دو نوں ملک اپنی اپنی فوجیں زمانہ امن کی پوزیشن پر لے جائیں۔ تاشقند میں بھٹو کا موقف یہ تھا کہ جہاں تک تعلق سندھ اور پنجاب پر پاکستان اور بھارت کے درمیان باقاعد ہ اور عالمی طور پر تسلیم شد ہ سرحدوں کا ہے تو پاکستان بھارت کے ساتھ عالمی برادری کی امن کی خواہشات پر اپنی اپنی فوجیں زمانہ امن کی پو زیشن پر لانے کے لیے تیار ہے لیکن جہاں تک تعلق کشمیر کا ہے تو یہ علاقہ متنا زعہ ہے اور اس پر ستمبر 1965 سے پہلے1847-48 میں پہلی جنگ ہوئی تھی اور جنگ بندی کی لائن طے کی گئی تھی جو اس وقت سے جنگ بندی کی لا ئن تسلیم کی جاتی ہے۔

یوں اب جنگ ستمبر میں بھی ایسا ہی ہو نا چاہیے کہ آزاد کشمیر اور مقبو ضہ کشمیر کے درمیان جہاں جنگ بند ہوئی ہے وہاں نئی جنگ بندی لائن ہو لیکن ا ن کی با ت کوایو ب خا ن کی جانب سے پز یرائی نہیں ملی، یوں بھٹو نے جد وجہد کا آغاز کیا اور پھر احتجاج اتنا بڑھا کہ پاکستان کے پہلے کمانڈر انچیف دوسرے صدر، ایوب خان نے 25مارچ کو صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر کے کچھ دن بعد مغربی پاکستان میں ون یو نٹ توڑ کر اپنے متعارف کردہ لیگل فریم ورک آڈر LFO کے تحت ملک کے دونوں حصوں میں پارلیمانی طرز حکومت کی بحالی کے لیے عام انتخابات کرانے کا اعلان کردیا۔ اب 1956ء کی طرح 1962 ء کا صدارتی آئین بھی منسوخ ہو چکا تھا اور آئندہ انتخابات اور ان انتخابات کے بعد اقتدار کی منتقلی سب کچھ جنرل یحییٰ خان کے ایل ایف او کے تحت طے پا نا تھا، لیکن یہا ں تک یعنی وزیراعظم خواجہ ناظم الدین سے لے کر وزیر اعظم فیروز خان نون تک اہم 1954ء کے مشرقی پاکستان کے صوبائی سطح کے عام انتخابات ،1956 کے آئین کا نفاذ گوادر کی خریداری اور ملک میں جنرل ایوب خان کا پہلا مارشل لاء تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں